قمر الزماں خاں
138 سال پہلے مئی 1886ء میں محنت کشوں کی جدوجہد کی تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑ دینے والا واقعہ پیش آیا۔ یہ جاگیر دارانہ سماج کے خاتمے اور صنعتی انقلاب کے بعد کی دنیا میں جنم لینے والے پیداواری حالات کا شاخسانہ تھا۔ جاگیر داری کے خاتمے سے حکمران طبقات کی ترکیب اور زندگی میں کافی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ جاگیرداری اور اس سے جڑی مطلق العنان بادشاہت اور چرچ کی بالادستی کا خاتمہ نئے پیداواری نظام کی ترویج، سائنسی انداز فکر اور سیاسی اور سماجی آزادیوں کی ضرورت نے انقلابات کے ذریعے کیا تھا۔ صنعتی سماج کی ترقی کی راہ میں پچھلے عہد کے رشتے زنجیر بن چکے تھے۔ جن کو بالآخر انقلاب فرانس نے توڑ کر ایک نئے عہد کی طرف مراجعت کی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی استواری کے ساتھ نئے طبقات نے جنم لیا۔ لیکن نئی ملنے والی سماجی و سیاسی آزادیاں محنت کش طبقات کے لئے ادھوری ہی رہیں۔ یوں آفاقی حق رائے دہی (ووٹنگ) اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو بھی طبقاتی غلامی برقرار رکھنے کے لئے ترتیب دیا گیا۔ جاگیرداری کی زرعی غلامی سے نکلنے والے مزارعے، مرتے ہوئے چھوٹے کسان اور پرانے نظام کی ضروریات پورا کرنے والے ہنرمند افراد وغیرہ دیہی زندگی سے نکل کر صنعتی مشقت کا حصہ بنتے گئے۔ پرانی اور بظاہر پھیکی زرعی زندگی اور نسبتاً تیز رفتار اور زرق برق والی شہری زندگی میں کافی فرق تھا۔ مگر دیہی زندگی سے مشقت بھی کہیں زیادہ اور مسلسل تھی۔ روزگار اور کام کا دورانیہ بھی غیریقینی۔ کہیں بارہ، چودہ گھنٹے مسلسل کام اور کہیں اس سے بھی زیادہ‘ یعنی اٹھارہ گھنٹے تک کام کا دن۔ یوں یہ نئی زندگی بدترین صنعتی غلامی کا مظہر تھی۔ جس میں اصول اور قوانین آجر (سرمایہ دار) کے مفاد میں وضع ہوتے اور ان پر ہر صورت میں عمل کرنا لازم تھا۔ انسان کو کام کے بعد آرام بھی چاہئے اور خود اپنے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارنے کا وقت بھی اس کی ضرورت ہے۔ انہی ضروریات کی وجہ سے ’اوقات کار‘ میں کمی کی تحریک کا آغاز ہوا۔ یہ تحریک کئی دہائیوں تک بے ثمر رہی۔ مگر کسی نہ کسی طرح اور کسی نہ کسی ملک میں جاری ضرور رہی۔ اس تحریک کا ایک اہم حصہ آسٹریلیا کے مزدوروں کی جدوجہد ہے۔ 21 اپریل 1856ء کو آسٹریلیا کے مزدوروں نے وکٹوریا میں ایک پرامن ہڑتال کا آغاز کیا جو آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کی تحریک کا پہلا اہم سنگ میل تھا۔ پھر اس احتجاج کی یاد کو ہر سال منایا جانے لگا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی مزدور اسی سے متاثر ہو کر آٹھ گھنٹے کی مزدوری کے مطالبے کے لئے نکلے۔
پھر اس تحریک کا وہ اہم مرحلہ آن پہنچا جس کی یاد میں دنیا بھر میں یکم مئی کو ’یومِ مزدور‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ 1886ء کے مئی کے آغاز میں امریکی شہر شکاگو’میں ہونے والا ’ہے مارکیٹ‘ کا واقعہ ہے۔ اس سال یکم مئی کو آٹھ گھنٹے کے اوقات کار کے لئے امریکہ بھر میں ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بلکہ اس سلسلے کا آغاز اپریل سے ہی ہو گیا تھا۔ 17 اور 25 اپریل کو شکاگو میں ہی 25 ہزار سے زائد مزدوروں کی شرکت والے بڑے اجتماعات ہوئے۔ یکم مئی 1886ء کو اسی تسلسل میں مزدور رہنما پارسنز اور اس کی بیوی لوسی کی قیادت میں 40 ہزار سے زائد مزدوروں نے شکاگو کی سڑکوں پر جلوس نکالا۔ ’میک کورمک فیکٹری‘ میں اوقات کار کے تعین کے لئے ہڑتال ہوئی انتظامیہ نے اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے ہڑتالی مزدوروں پر تشدد کروایا۔ اسی دوران فیکٹری کے باہر کھڑے ہوئے معصوم مزدوروں پر پولیس نے گولیاں برسانا شروع کر دیں اور چھ مزدور موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اس بربریت کے خلاف 4 مئی 1886ء کو مزدوروں نے پرامن احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا جس پر پولیس نے بندوقوں کے منہ کھول دئیے اور (ایک اندازے کے مطابق) 10 مزدوروں کو شہید کر دیا۔ مزدوروں کے ہاتھوں میں تھما امن کا سفید جھنڈا نہتے محنت کشوں کے خون سے اپنا رنگ بدل گیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ مزدوروں کا جھنڈا سرخ قرار پایا۔ یہ مزدوروں کی قربانی اور عزم کا نشان ہے۔ جس کا رنگ محنت کش طبقے کے خون سے سرخ ہوا۔
ایک طرف نہتے اور بے گناہ مزدوروں کو شہید کیا گیا اور پھر ان کے قتل کے الزام میں مزدور رہنماؤں کو ہی گرفتار کر لیا گیا۔ سات بے گناہ مزدور رہنماؤں کو بغیر کسی قصور، جرم یا خطا کے پھانسی کی سزا سنا دی گئی جبکہ ایک کو 15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مگر یہ ظلم اور ناانصافی مزدوروں کے عزم اور ان کے حقوق کی جدوجہد کو ماند نہ کر سکی۔ اس خونریزی اور سزاؤں کے باوجود مزدوروں کی تحریک جاری و ساری رہی اور اس نے نہ صرف آٹھ گھنٹے اوقات کار کے مطالبے کو منوایا بلکہ دیگر اہم مطالبات کو بھی آگے بڑھایا۔
محنت کشوں کے اوقات کار میں کمی کی نظریاتی بنیاد پھر کارل مارکس کے انقلابی تجزئیے پر مبنی تھی۔ ’اجرتی محنت اورسرمایہ‘سمیت اپنی بیشمار تصانیف اور تقاریر میں مارکس نے محنت کے استحصال کی تفہیم بیان کرتے ہوئے منافع کی بنیادوں کو واضح کیا تھا۔ انہی تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ کیسے معرض وجود میں آتا ہے اور پھر یہی سرمایہ محنت کے مسلسل استحصال کو کس طرح آگے بڑھاتا ہے۔ مارکس اور اس کے نظریاتی ساتھی فریڈرک اینگلز نے جہاں سرمایہ داری کی وحشت، جبر، لوٹ کھسوٹ اور محنت کی چوری کی وضاحت کی وہاں محنت کشوں کے ایک طبقہ بننے اور اس طبقے کے اندر سرمایہ داری کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کی خصلت کی نشاندہی بھی کی۔ یوم مئی سے جڑی جدوجہد اور تحریک مارکسی خیالات اور تجزیات کی درستی کا ایک اہم ثبوت ثابت ہوئی۔ جس نے مزدوروں کی زندگی میں طبقاتی حقوق کی جدوجہد کو راسخ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
لیکن ہم آج کے عہد کا جائزہ لیں تو 1980ء میں نیولبرلزم (نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، آزاد منڈی کی پالیسیاں وغیرہ) کی یلغار اور 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے محنت کش پوری دنیا میں سرمائے کے حملوں کی زد میں ہیں۔ سرمایہ داری کے گہرے بحران اور گرتی ہوئی شرح منافع کی وجہ سے ترقی یافتہ ترین مغربی ممالک میں بھی ان سے ماضی سہولیات اور مراعات چھینی جا رہی ہیں۔ لیکن پھر پاکستان جیسے ممالک میں محنت کش طبقے کے حالات ناقابل بیان حد تک تلخ اور تنگ ہو چکے ہیں۔ مزدور آج پھر بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہے۔ ماضی کی ڈیڑھ سو سالہ جدوجہد سے حاصل کیے گئے بنیادی حقوق چھن چکے ہیں۔ سرمایہ داری مسلسل لوٹ کھسوٹ، بہیمانہ استحصال اور شرح منافع میں اضافے کی حرص میں پورے سماج کو برباد کرنے پر اتر آئی ہے۔ آج دنیا کی آدھی آبادی کسی نہ کسی سطح پر غذائی قلت اور غربت کا شکار ہو چکی ہے جبکہ صرف آٹھ بڑے سرمایہ داروں کے پاس آدھی انسانیت کی کل جمع پونجی سے زیادہ دولت کے انبار ہیں۔ جبکہ ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے پاس 99 فیصد انسانوں سے زیادہ دولت ہے۔
2024ء کا سال پچھلی دو دہائیوں کی طرح مزدوروں کے لئے مسلسل مشکلات کے وقت میں آیا ہے۔ بالعموم مزدور تحریک دو قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ ایک طرف مزدوروں پر ہونے والے نظریاتی حملوں میں شدت آئی ہے۔ منڈی کی معیشت کے تباہ کن اثرات نے پوری دنیا کو برباد کر دیا ہے مگر پھر بھی آج کے تمام بحرانوں کا حل انہی پالیسیوں کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کی وجہ سے معیشتوں اور سماجوں کو تباہی کا سامنا ہے۔ ان پالیسیوں میں سرفہرست نجکاری ہے۔ جس کے لئے پچھلی تین دہائیوں سے فضا سازگار کی گئی ہے۔ پبلک سیکٹر کو باقاعدہ منصوبہ بندی سے تباہی کے دہانے پر پہنچایا گیا ہے۔ اس بربادی میں جہاں حکومتی پالیسی ساز ادارے اور پبلک سیکٹر کی ادارہ جاتی انتظامیہ ملوث ہے وہاں ٹریڈ یونین اشرافیہ بھی اس جرم میں دانستہ یا نا دانستہ طور سے شریک کار ہے۔ ٹریڈ یونین اشرافیہ کی اقربا پروری، نظریاتی دیوالیہ پن اور پر تعیش انداز زندگی (جو بڑے اداروں میں تو شاہانہ ہو چکا ہے) کی وجہ سے پوری مزدور تحریک کو زہریلے سرمایہ دارانہ پراپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور سارے مزدوروں کو بدعنوان اور کام چور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ ٹریڈ یونین اشرافیہ اپنی بدعنوانی اور مراعات کے بدلے میں سنجیدہ اور پرخلوص طبقاتی جدوجہد کو کئی زمانوں سے ترک کر چکی تھی اور ان کا انحصار عدالتوں اور مقدمے بازی پر زیادہ ہو چکا تھا۔ یوں اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے جب نجکاری کی تلوار سر پر ہے ان کے پاس کوئی ٹھوس حل، جواب یا راستہ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ادوار کی نجکاری میں انتظامیہ اور حکومت سے زیادہ یہ ٹریڈ یونین یا مزدور اشرافیہ نجکاری کی وکیل بن کر مزدوروں کو ’گولڈن شیک ہینڈ‘ یا وی ایس آر لینے پر آمادہ کرتی رہی ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت محنت کش طبقے کی بڑی اور منظم تحریک نہ ہونے کی وجہ سے مزدوروں پر حملے بڑھ گئے ہیں اور شدت اختیار کر گئے ہیں۔ پچھلے بیس سالوں میں مزدوروں کے خلاف قانون سازی اور پالیسیوں کو بھیانک انداز میں مرتب اور لاگو کیا گیا ہے۔ مزدوروں کی قانونی نقل و حرکت اور ٹریڈ یونین سرگرمیوں کو مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔ لازمی سروس ایکٹ جیسے کالے قوانین کا نفاذ مختلف اداروں میں کیا گیا ہے۔ اب جو بھی ’انڈسٹریل ریلیشن شپ آرڈیننس‘بنتا ہے مکمل طور پر یک طرفہ اور مزدور دشمن شقوں پر مشتمل نظر آتا ہے۔ بیشتر صورتوں میں پرانی مزدور قیادتیں مفاہمت اور مصالحت کی دلدل میں گر کر اپنا وقار اور ساکھ مجروح کر چکی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ماضی میں محنت کشوں کے نام پر سیاست کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی دیوالیے اور بڑی حد تک سیاسی انہدام کا بھی ہاتھ ہے۔ مزدوروں کی حمایت سے طاقت حاصل کرنے والی اس پارٹی کی قیادت نے نجکاری کی پالیسی کا خنجر مزدوروں کی کمر میں گھونپا اور سامراجی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا مجرمانہ کردار ادا کیا۔ دوسری وجوہات کے علاوہ چالیس پچاس سال کے اس سراب نے بھی محنت کش طبقے کو متبادل سیاسی راہیں اختیار کرنے سے دور رکھا۔ لیکن اس مشکل ترین حالات میں بھی محنت کش طبقے کے پاس لڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ حق مانگنے سے نہیں ملتا بلکہ چھیننا پڑتا ہے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ جس طرح یوم مئی کی جدوجہد کئی دہائیوں پر مشتمل قربانیوں کے بعد بارآور ہوئی تھی اسی طرح آج کی مزدور تحریک کو بھی ایک صبر آزما اور مسلسل جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا۔ آج مزدور تحریک کے راستے میں نام نہاد روایتی پارٹی اور مفاہمت پسند مزدور اشرافیہ کی رکاوٹیں بھی ماضی کی نسبت خاصی غیر موثر ہو چکی ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے راستے سرمایہ داری کے مکمل خاتمے پر مبنی انقلابی نظریات سے منور ہو کر محنت کشوں کو نجات کی منزل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اِس یوم مئی پر پاکستان کے محنت کشوں کو آئی ایم ایف کی تجویز کردہ نجکاری، چھانٹیوں اور مہنگائی کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہو گا۔ مہنگائی کے تناسب سے اجرتوں میں اضافے کے مطالبے کو بھرپور انداز سے اٹھانا ہو گا۔ ہر سطح پر مستقل اور باعزت روزگار کی فراہمی کو یقینی بنانے کا نعرہ بلند کرنا ہو گا۔ منڈی کی معیشت کی ناکام پالیسیاں اور کمزور جواز ریت کی دیوار کی طرح ہیں۔ محنت کش طبقے کو اپنی تنظیم اور انقلابی پروگرام و لائحہ عمل کے ذریعے اس دیوار کو گرانے کے لئے ایک بھرپور اور یکجا حملہ کرنا ہو گا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ ماضی میں اوقات کار میں کمی اور دوسرے حقوق کی درخشاں تحریکوں کا وارث آج کا مزدور بھی ناامیدی، غلامی اور ذلت کی بجائے لڑائی کے میدان میں اتر کے اور فوری مطالبات کو سرمایہ داری کے یکسر خاتمے کی جدوجہد کے ساتھ مربوط کر کے ہی ایک باعزت، سہل اور بھرپور زندگی کا حق چھین سکے گا۔