قمرالزماں خاں
پاکستان بحرانوں کی سرزمین ہے۔ زیادہ تر بحران اس ملک کی تاریخی ساخت، مروجہ نظام اور اس کے مسلسل زوال کی وجہ سے ہیں۔ جبکہ بہت سے بحران اس زوال پذیر نظام کو برقرار رکھنے، دیگر بحرانوں کو حل کرنے یا انہیں تقویت پہنچانے کے چکر میں پیدا یا شدید ہو جاتے ہیں۔ ان بحرانوں سے جہاں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جاتی ہیں وہیں ان سے فیض یاب ہونے والے بھی بہت ہوتے ہیں۔ حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے افراد، گروہ، کمپنیاں، ادارے اور مافیاز ان بحرانوں سے اربوں کھربوں روپے کماتے ہیں۔ ایسا ہی ایک دھندہ گندم بحران ہے۔ گندم بحران کے دیگر پہلوؤں پر بات کرنے سے پہلے ہم کچھ اہم اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان کی کل آبادی کے لئے سال 24-25ء کے لئے گندم کی ضرورت تیس ملین ٹن ہے۔ اس سال گندم 9.6 ملین ہیکٹر (ایک ہیکٹر برابر 2.47 ایکڑ) رقبے میں کاشت ہوئی اور 5.4 فیصد گروتھ کے ساتھ اب تک 29.69 ملین ٹن رہی۔ جو کہ سرکار کے طے شدہ ہدف 32 ملین ٹن (یہ تخمینہ موجودہ بحران کو بڑھانے کا باعث ہے) سے کم تھی مگر پچھلے سال کی پیداوار سے ڈھائی فیصد زیادہ تھی۔ حکومت اگلے سال فصل کے نقطہ نظر سے ملکی ضرورت سے کچھ زیادہ گندم بطور’اسٹریٹیجک ریزروز‘ سٹور کرتی ہے۔ اس سال زائد سٹوریج کی حکمت عملی کا ہدف 2.5 ملین ٹن تھا مگر یہ اسٹریٹیجک ریزروز 4.7 ملین میٹرک ٹن ہو چکے ہیں۔ جو پچھلے سال بھی 2.5 کی بجائے 3.9 ملین میٹرک ٹن تھے۔ فصل کی بجائی سے پانچ مہینے قبل ہی تخمینے سے کم پیداوار ہونے اور اسٹریٹیجک ریزروز کو مدنظر رکھتے ہوئے یوکرائن، روس اور دیگر ممالک سے گندم درآمد کرنے کی گنجائش نکالی گئی اور اس درآمد کو حکومتی ایجنسی کی بجائے نجی سیکٹر سے درآمد کرنے کے لئے بہت سے دلائل گھڑے گئے (آئندہ بھی حکومت گندم کے شعبے میں نجی سیکٹر کا کردار بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے جو کسانوں کے لئے نئے عذاب ہی لائے گا)۔ 13 جولائی 2024ء کو پی ڈی ایم حکومت کے فوڈ سکیورٹی کے وزیر طارق بشیر چیمہ نے 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی سمری منظور کی۔ 8 اگست 2023ء کو اکنامک ایڈوائزری کونسل نے اس فیصلے پر عمل درآمد کو موخر کر دیا۔ چار ستمبر 2023ء کو نگران حکومت کے وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ جو کہ فوڈ سکیورٹی کے بھی وزیر تھے نے گندم درآمد کرنے کی منظوری دیتے ہوئے نجی سیکٹر کو درآمدی عمل میں شامل کرنے کا کہا۔ وزارت خزانہ نے بھی سرکاری ایجنسی کی بجائے نجی سیکٹر کے ذریعے گندم درآمد کرنے کا حکم جاری کیا۔ جبکہ اکنامک ایڈوائزری کونسل گندم کی درآمد کے لئے سرکاری ذرائع کو بروئے کار لانے کا کہہ رہی تھی۔ گندم درآمد کا سلسلہ اگست 2023ء سے مارچ 2024ء تک جاری رہا۔ حکومت نے 330 ارب روپے کی گندم درآمد کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ درآمدی گندم ناقص گندم کے ساتھ مکس تھی۔ پہلی کھیپ میں 13 لاکھ ٹن گندم گلی سڑی تھی جس میں کیڑے پڑے تھے۔ پھر دانے کی موٹائی اور معیار کے حوالے سے بھی روس اور یوکرائن کی گندم پاکستان کی گندم سے کمتر ہے۔ نگران حکومت نے بغیر درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکس کے 250 ارب روپے کی 28 لاکھ ٹن گندم نجی سیکٹر کے ذریعے درآمد کی۔ جبکہ موجودہ شہباز شریف حکومت نے 80 ارب روپے کی 7 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی۔ جس پر درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکسز نہیں لگائے گئے۔ گندم کی درآمد کے لئے ایک ارب دس کروڑ ڈالر خرچ کیے گئے۔ یہ گندم چھ ممالک سے درآمد کی گئی جن میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔ کل امپورٹ کا ستر فیصد روس سے درآمد کیا گیا۔ گندم کی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 22.6 ملین ٹن، سندھ کا 4.4، پختونخواہ کا 1.4 اور بلوچستان کا 1.3 ملین ٹن حصہ رہا۔ یوں پیداوار کے مطابق گندم بحران کا نشانہ بھی زیادہ تر پنجاب کا کسان بنا (اگرچہ اب بلوچستان میں بھی کسانوں کے احتجاج نظر آ رہے ہیں)۔ سندھ میں گندم خریداری کی قیمت چار ہزار روپے من رکھی گئی اور پنجاب میں حکومت نے گندم کی خریداری کے نرخ 3900 روپے من مقرر کیے۔ بڑے زمین داروں یا ایسے کاشتکاروں جنہوں نے محکمہ اہلکاروں کی جیب گرم کی کو ’باردانہ‘ (سرکاری مہر والے خالی تھیلے) مہیا کیا گیا۔ ان کی گندم اس ریٹ پر پاسکو اور پنجاب حکومت کے خریداری سنٹرز نے خریدی۔ مگر گندم پیداوار کا بڑا حصہ پاسکو اور سرکار نے خرید نہیں کیا۔ اس وقت غلہ منڈیوں میں گندم کو 2200 سے 2800 روپے فی من کے حساب سے خریدنے کی آفر موجود ہے جو کہ کاشتکاروں کی لاگت پیداوار سے سات سو روپے سے تیرہ سو روپے فی من کم ہے۔ یہاں ہماری مراد 12 ایکڑ سے کم رقبے کے کاشتکار اور مستاجری پر کاشت کرنے والے بے زمین کسان ہیں۔ زمین داری میں ان کسانوں کا حجم 86 فیصد ہے۔ پنجاب کے گندم والے اضلاع میں فی ایکڑ زمین مستاجری 1 لاکھ 50 ہزار سے 2 لاکھ 20 ہزار تک ہے۔ زیادہ تر زمینیں وہی ہیں جو غیر حاضر مالکان یا بڑے زمین داروں نے خود کاشت نہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے مستاجری پر دی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں ڈی اے پی اور یوریا کھادوں، جو کہ یہاں مستعمل کاشت کاری کے لئے لازم ہیں، کے حکومت کے ساتھ ملی بھگت سے طے شدہ نرخ غیر حقیقی ہیں۔ مگر ستم یہ ہے کہ حکومتی نرخوں کی بجائے یہ کھادیں بھی بلیک مارکیٹ کی تعین کردہ قیمت پر ملتی ہیں۔ ان کھادوں کی قیمتوں میں پچھلے پانچ سالوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ کھاد کی بلیک مارکیٹ پر حکومتی ’رٹ‘ نہیں ہے۔ کسان کو سستی کھاد نہ ملنے کی ایک وجہ فوجی فرٹیلائزرز کی اجارہ داری اور دوسری طرف امپورٹ مافیا اور تیسرا فیکٹر ذخیرہ اندوز آڑھتی یا کھاد کا بیوپاری ہے۔ ان فیکٹرز پر کنٹرول کرنے والے تمام ادارے غیر موثر ہو کر متعلقہ اجارہ داروں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ نجی سیکٹر کی نام نہاد سیڈ کارپوریشنز پاکستان میں منافع کمانے والا بہت بڑا سیکٹر ہے جس نے 2023ء میں کسان سے اونے پونے گندم خرید کی اور پھر اس کو ہی بیج کا نام دے کر 7900 روپے من فراہم کی۔ پچھلے سالوں میں چھوٹی سے چھوٹی سیڈ کارپوریشن کا منافع کروڑوں کو تجاوز کر کے اربوں روپے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ گندم کا سیڈ صرف چھاننا لگا کر ہی تیار ہوتا ہے اور کپاس کے بیج کو بنولے کی صفائی سے تیار کیا جاتا ہے۔ گندم کے کاشتکار کو بیج، ہل، پانی، بجائی، کٹائی، سپرے، کھادیں، ڈیزل، بجلی کا بل، مالیانہ، آبیانہ و دیگر ٹیکسز اور مستاجری کی رقم بھر کر اگر 3900 روپے فی من گندم کے ملتے تو اس کے خرچ پورے ہو کر کچھ آمدن بھی ہو جاتی جس سے وہ اگلی فصل کی کاشت کر پاتا اور ساتھ اپنے چھوٹے چھوٹے اخراجات بھی پورے کر پاتا۔ مسئلہ یہی نہیں ہے کہ چھوٹے کسان کو گندم کے نرخ بجائی پر لاگت سے بھی کم مل رہے ہیں بلکہ بڑا اسکینڈل یہ ہے کہ حکومت کو جولائی 2023ء میں کیسے پتا چل گیا کہ گندم کی پیداوار اس کے ہدف سے کم ہو گی؟ پھر سب سے زیادہ مشکوک ہی اہداف ہیں۔ مثلاً پچھلے سالوں میں پاکستان سے ہر سال کئی ملین ٹن گندم اور آٹا اسمگل ہو کر افغانستان جایا کرتا تھا۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیداواری ہدف اور اسٹریٹجک ریزروز کا ٹارگٹ پاکستان کی ضرورت کے مطابق طے ہوتا ہے یا اسمگلنگ ٹارگٹ کو شامل کر کے؟ پھر اس سال چونکہ افغان بارڈر پر مسائل کی وجہ سے کچھ بندشیں ہیں تو لازمی طور پر گندم کی کھپت صرف پاکستان میں ہی ہو گی۔ جو فصل دسمبر میں کاشت ہونا تھی اس کی پیدوار کا تخمینہ جولائی میں لگا لینا صرف علم نجوم کے باعث ہی ممکن ہے۔ یعنی یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ نجی سیکٹر کو بغیر امپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکسز کے گندم درآمد کے مواقع دے کر اربوں روپے ان کی جیب میں ڈالنا مقصود ہے۔ پاکستان میں گندم کے استعمال کا تخمینہ بھی ٹھیک ٹھاک غلط اور غیر حقیقی ہے۔ حکومتی اندازوں کے مطابق پاکستان کا ہر فرد اوسطاً 124 کلوگرام گندم کا استعمال کرتا ہے۔ اگر بوڑھوں، بیماروں اور بچوں کے کم غذا کھانے کو نظر انداز بھی کر دیں تو بھی ہر خاندان ہفتے میں کم سے کم دو دفعہ چاول کا استعمال کرتا ہے۔ ہم چاول کے استعمال کو بھی شامل نہ کریں اور فی کس دو روٹیاں تین ٹائم خوراک فرض کر لیں اور زیادہ سے زیادہ خوراک کی بنیاد پر جائزہ لیں تو یہ مقدار فی کس 109 کلوگرام سالانہ بنتی ہے۔ یوں ان تخمینوں میں مبالغہ آمیزی کی وجہ گندم کی درآمد کی ضرورت کا اظہار کرنا ہے۔ پیداوار اور استعمال میں فرق ظاہر کر کے قلت کے جعلی تخمینوں سے بحران کا خوف پیدا کیا جاتا ہے۔ اسی پر پھر امپورٹ مافیا کو لوٹ مار کرنے کے لئے میدان مہیا کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں فلور ملز کو بھی لوٹ کے لئے بہترین ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ وہ سستی گندم خرید کر اچھا آٹا زیادہ قیمت پر مہیا کرتے ہیں۔ پچھلے سال گندم کی سرکاری قیمت چار ہزار روپے تھی اور آٹے کی قیمت 4800 روپے فی من تھی۔ جبکہ حکومت مختلف سکیموں کے نام پر فلور ملز کو سبسڈی بھی دیتی رہتی ہے۔ رعایتی قیمت پر آٹا ہر دکان اور ہر خریدار کو مہیا نہیں کیا جاتا۔ سستے آٹے کے مراکز یوٹیلیٹی سٹورز ہوتے ہیں جن پر مہیا کیا جانے والا آٹا ناقص ہوتا ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے غریبوں اور محنت کشوں کو دیہاڑی توڑنا پڑتی ہے۔ عمومی حالات میں پاکستان میں گندم کی پیداوار ہر سال بڑھ رہی ہے مگر پچاس من فی ایکڑ کی پیداوار کو ستر یا اسی من یا اس سے بھی زیادہ تک لے جایا جا سکتا ہے۔ کچے کے علاقے میں ستر من فی ایکڑ پیداوار معمول کی بات ہے۔ پچھلے سال گندم کی پیداوار مزید بڑھ سکتی تھی اگر درکار کھاد ڈالی جاتی۔ کھاد کے کم استعمال کی وجہ کھاد کی بلیک مارکیٹنگ اور زیادہ قیمت ہے۔
پاکستان کو ایسا زرعی ملک مانا جاتا ہے جہاں (دریائے سندھ کی تہذیب میں) زراعت نو ہزار سال پہلے بھی موجود تھی مگر اب اس زراعت کا وجود ہی خطرے میں ہے۔ قیمتی زرعی زمینیں رئیل اسٹیٹ کی سٹہ بازی اور ہاؤسنگ سکیموں کی نذر ہو رہی ہیں۔ پچھلے ستر سالوں میں یہاں کی بحران زدہ اور تاریخی تاخیر سے دوچار سرمایہ داری میں زراعت اس نسبت سے جدید نہ ہو سکی جتنی ضرورت تھی یا ہم عصر دنیا میں ہو رہی تھی۔ فی ایکڑ پیداوار کم ہے۔ بیج موسموں، زیادہ پیداوار اور بیماریوں کی مدافعت کے حوالے سے بہتر نہیں بنائے جا سکے۔ جس کی وجہ کم فنڈنگ کے تحت ریسرچ کا فقدان ہے۔ زراعت کا مجموعی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے مگر اس وقت چھوٹے کسان کی بقا کو خطرہ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر غیر ملکی اور مقامی سرمایہ دار قوتوں کی طرف سے بھی ہے۔ زرعی زمینوں کو ہتھیانے کے لئے نئے بحران کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل یقینی طور پر پاکستان کے حکمرانوں کے پاس نہیں ہے کیونکہ مسائل اور بحران تو وہ اپنی بقا، قبضوں اور لوٹ مار کے لئے پیدا کر رہے ہیں۔ چھوٹے کسان اور کاشت کار کو اپنی لڑائی خود لڑنا ہو گی۔ اس کی راہ میں پہلی رکاوٹ بڑے زمین دار (جن کو جاگیر دار بھی کہا جاتا ہے) اور اس کے مفادکے لئے بنائی گئی نام نہاد کسان تنظیمیں ہوں گی۔ اس لئے چھوٹے کسانوں کو اپنی ایکشن کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی جو ان کے مسائل کے مطابق اپنا چارٹر، مطالبات اور لائحہ عمل طے کریں۔ چھوٹے کسان کو اپنا وجود برقرار رکھنے اور بہتر زندگی کے لئے سرمایہ دارانہ منڈی کی سیاہ قوتوں کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد کا حصہ بننا ہو گا۔ پاکستانی سرمایہ داری میں زرعی اصلاحات، لینڈ ریفارمز اور زراعت کی جدید خطوط پر استواری ایک خواب ہے اور خواب ہی رہے گی۔ ہر کسی کی خوشحالی کے خواب کو اشتراکی نظام سے ہی تعبیر مل سکتی ہے۔ منافع اور شرح منافع کے نظام کے برعکس ایک اشتراکی معیشت ہی پیداواری اخراجات کو کم ترین کر کے خوش حال سماج قائم کر سکتی ہے۔ سوشلسٹ بنیادوں پر ہی جاگیرداری کی باقیات کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور زمین کے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر دیوہیکل فارموں میں جدید کاشتکاری کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ جس کے لئے ناگزیر طور پر معیشت کے دوسرے حصوں (بالخصوص زرعی مشینری، کھادوں، بیجوں اور دیگر لوازمات) کو ریاستی ملکیت میں لے کے منافع کی بجائے انسانی ضرورت کے مطابق چلانا ہو گا۔ اس مقصد کے لئے چھوٹے کسانوں، دہقانوں اور مزارعوں کو مزدوروں اور سماج کے دیگر کچلے ہوئے طبقات کے ساتھ ملک کر طبقاتی جدوجہد اور سوشلسٹ انقلاب کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔