اویس قرنی
29 مئی کو مالاکنڈ یونیورسٹی انتظامیہ نے شعبہ صحافت کے چھٹے سمسٹر کے طالب علم موسیٰ خان سمیت دو طالب علموں کو اس ”جرم“ کی پاداش میں ہاسٹل اور یونیورسٹی سے نکل جانے کے احکامات صادر کیے کہ یہ نوجوان چند روز قبل ادارے میں رباب (موسیقی کا روایتی آلہ) لائے تھے۔ موسیٰ خان نے منتیں کیں کہ اس کو ادارے سے نہ نکالا جائے، صبح اس کا پیپر ہے، وہ اپنے گھر والوں کا کیسے سامنا کرے گا؟ لیکن انتظامیہ نے اس کی ایک نہ سنی اور رات کے پچھلے پہر اس کو ہاسٹل سے نکال باہر کر کے دربدر کر دیا گیا۔
مملکت خداد میں پہلے ہی اعلیٰ تعلیم کا حصول اکثریتی نوجوانوں کے لیے کسی خواب سے کم نہیں۔ نجکاری اور مسلسل بڑھتی فیسوں کے ذریعے تعلیم کے گھناؤنے کاروبار بلکہ دھندے نے محنت کش طبقات کے نوجوانوں کی یونیورسٹی تک رسائی کو ایک عیاشی بنا دیا ہے۔ ایسے میں مڈل کلاس ماں باپ بھی اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کے لیے اعلیٰ تعلیم خریدنے تک کی راہ تراشتے ہیں۔ پھر ان نوجوانوں کے لاشعور پر مستقبل کا ایک انجانا خوف بھی سوار ہوتا ہے کہ ان کی ڈگری کی تکمیل کے بعد خاندان کی آزمائش کے دن ختم ہو پائیں گے یا نہیں۔ ہر نوجوان سوچتا ہے کہ جو قربانیاں اس کے گھر والوں نے اس کی تعلیم کے لیے دی ہیں اپنی آئندہ زندگی اپنی خواہشوں اور خوابوں کو قربان کرکے ہی سہی لیکن ان کی تمام تکلیفوں کا ازالہ کرنے میں گزار دے گا۔ کئی طلبہ اپنے حقوق کی لڑائی سے اسی وجہ سے دستبردار ہو کر خاموشی سے بس ڈگری کے حصول میں تعلیمی زندگی گزار دیتے ہیں۔ حالات کا یہ جبر ان کو تعلیمی اداروں کی انتظامیہ میں بیٹھے فرعونوں سے الجھنے نہیں دیتا۔ ہر بار جب ہاسٹل میں میس کا مسئلہ ہو یا پھر فیسوں میں اضافے یا پھر ہراسانی کا ایشو ہو‘ نوجوان اپنے جائز حق سے اس لیے دستبردار ہو جاتے ہیں کہ کہیں انتظامیہ سے ٹکراؤ ان کے والدین کے خوابوں کو چکنا چور نہ کر دے۔ وہ اپنے شب و روز تکلیف اور اذیت میں نکال لیتے ہیں کہ بس ڈگری مل جائے اور اپنا آپ جلا کر وہ کسی طرح اپنے خاندان کی زندگی کو کچھ آسودہ کر سکیں۔ لیکن ان حالات میں ایک نوجوان جو اعلیٰ تعلیم کے آخری مراحل میں ہو اور صبح اس کا پیپر ہو اور یونیورسٹی انتظامیہ اس کو ادارے سے نکل جانے کا فرمان جاری کر دے؟ وہ بھی اس تلخ اور ترش معاشرے کے ماحول کے اندر کانوں میں رس گھولنے والا موسیقی کا ایک بے ضرر اوزار لانے کی پاداش میں؟ وہ ہر منت سماجت کرے گا، اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی بھی مانگے گا، انتظامیہ میں موجود ان رجعتی اور سنگ دل آمروں کے سامنے سر نگوں بھی ہو جائے گا۔ یہ سب کچھ موسیٰ خان نے بھی کیا۔ لیکن یہ پتھر نہ پگھلے۔ یونیورسٹی سے نکلتے وقت موسیٰ خان کی ذہنی حالت اور سوچ کیا ہوگی یہ وہی بتا سکتا تھا۔ البتہ اس کے ذہن میں اپنی ماں اور باپ کا بے بس چہرہ ضرور امڈ آیا ہو گا۔ مستقبل کی امید ٹوٹتی نظر آئی ہو گی۔ سارے خواب چکنا چور ہوتے محسوس ہوئے ہوں گے۔ تبھی تو یونیورسٹی سے گھر تک کا ادھورا سفر اس کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا اور شدید ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کے تحت راستے میں ہی حادثے کا شکار ہو گیا۔ یا شاید اس اذیت ناک نفسیاتی حالت میں اس نے خود ایک انتہائی اقدام اٹھا لیا۔ شاید اس کو کوئی سمجھانے والا نہ تھا کہ ماں باپ کو یونیورسٹی سے نکالا گیا بچہ تو آخر کار قبول ہو جائے گا لیکن کفن میں لپٹا لخت جگر ان پر آسمان گرا دے گا۔
لیکن کیا یونیورسٹی میں رُباب لانا واقعی اتنا بڑا جرم ہو سکتا ہے؟ اس ملک اور ملک کے موجودہ حالات میں شاید ہاں! یہ سارا واقعہ سکولوں سے لے کے یونیورسٹیوں تک تعلیمی اداروں کی اس انتظامیہ کی انتہائی رجعتی، بنیاد پرستانہ اور قدامت پسندانہ سوچ اور فرعونیت کا آئینہ دار ہے جسے بڑی محنت نے ریاست نے کئی دہائیوں میں (بالخصوص ضیا آمریت کے وقت سے) پروان چڑھایا ہے۔ تعلیمی اداروں کی یہ انتظامیہ کسی مافیا سے کم نہیں ہے۔ نہ ان کی روح ہے نہ احساس۔ یہ بلا شرکت غیرے اداروں کے مالک اور حکمران بنے ہوئے ہیں اور طلبہ ان کی رعایا ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کو چھاؤنیاں بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔ یہ ریاست ایک طرف نوجوانوں کو ملک کے مستقبل کے معماروں کے ساتھ تعبیر کرتی آئی ہے۔ لیکن انہی معماروں کو قیدیوں اور مجرموں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
یونیورسٹیوں میں ہر وقت خوف کی فضا قائم ہے۔ طلبہ یونین پر پابندی ہے اور طلبہ سیاست ایک ناقابل معافی جرم بنا دی گئی ہے۔ ترقی پسند کردار کی حامل ہر غیرنصابی نظریاتی، سیاسی اور ثقافتی سرگرمی کو پورے جبر سے کچلا جاتا ہے اور اس سلسلے میں پالتو بنیاد پرست گروہوں تک کے استعمال سے گریز نہیں کیا جاتا۔ سکیورٹی گارڈوں سے لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں (بشمول خفیہ ایجنسیوں) کے اہلکاروں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی ہر نظر طلبہ کو مسلسل ٹٹولتی رہتی ہے۔ ان حالات میں اس معاشرے کا مستقبل کس قدر بھیانک ہے یا کم از کم یہ ریاست اسے کس حد تک تاریک کرنے پر تلی ہوئی ہے‘ اس کا اندازہ لگانا محال نہیں ہے۔ لیکن یہ نام نہاد مملکت خداداد کل آبادی میں 65 فیصد حصہ رکھنے والے کروڑوں نوجوانوں کی شکل میں بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہے۔ اس نئی نسل کو دینے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اب تو جھوٹے وعدے اور دلاسے تک بھی نہیں۔ اسی لیے یہ ایک منظم انداز میں آبادی کی اس ممکنہ طور پر باغی اور لڑاکا پرت کو مکمل کنٹرول کرنے اور دباتے چلے جانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ لیکن حالات یہ بتا رہے ہیں کہ ان کا یہ جبر اور دھونس ہی بارود کے اس دیوہیکل ڈھیر کو چنگاری دکھانے کا باعث بنے گا۔
اس برباد معاشرے میں سرمایہ دارانہ نظام کے جبر، جرائم، خودکشیوں، قابل علاج بیماریوں اور دہشت گردی کے ہاتھوں نوعمری میں قتل ہو جانے والے لاکھوں نوجوانوں کی طرح موسیٰ خان بھی رخصت ہوا۔ لیکن مشال خان کے بہیمانہ قتل کی طرح بعض واقعات مزاحمت، احتجاج اور بغاوت کا حوالہ بن جاتے ہیں۔ چنانچہ مالاکنڈ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے چھٹیوں کے اعلان کے باوجود وہاں طلبہ کے احتجاج کا ایک تاریخ ساز سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جس میں یونیورسٹی سے باہر سے بھی ترقی پسند سوچ رکھنے والے ہر مکتبہ فکر کے بے شمار لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ جس رباب کی پاداش میں موسیٰ خان کو ادارے سے نکالا گیا تھا‘ 4جون کو سینکڑوں طلبہ، وکلا اور سیاسی و سماجی کارکنان وہی رباب تھامے مالاکنڈ یونیورسٹی کے سامنے پہنچے اور اس قتل کا حساب مانگا (چند تصاویر نیچے شائع کی گئی ہیں)۔ صوابی یونیورسٹی کے طلبہ نے یونیورسٹی میں شہنائی اور ڈھول کی تھاپ پر موسیٰ خان اور مالاکنڈ یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی اور جابر انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا۔ اسی دباؤ کے تحت سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے صوبائی حکومت سے فوری طور پر واقعے کی انکوئری طلب کی اور ذمہ داران بشمول پرووسٹ اور چیف پراکٹر کی فوری معطلی سمیت وائس چانسلر کے خلاف کاروائی کی سفارشات کیں۔ مالاکنڈ ڈویژن کے وکلا نے مالاکنڈ یونیورسٹی میں ہی 5 جون کو ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں صوبے بھر کے وکلا نے شرکت کا اعلان کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ذی شعور طلبہ اور وسیع تر عوام کا یہ غم و غصہ تحریک کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ یہ بہت اہم اور معنی خیز واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے اس نظام ِ معیشت و حکومت کے بحران کے ساتھ جہاں تعلیمی اداروں کے اندر اور باہر جبر، دھونس اور سنسرشپ کی انتہا ہوتی جا رہی ہے وہاں ان حالات کے خلاف بغاوت بھی ایک غیرمحسوس انداز میں پنپ رہی ہے۔ جسے کوئی ایک بھی واقعہ مشتعل اور متحرک کر سکتا ہے۔
ان حالات میں ترقی پسند اور انقلابی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کا فریضہ ہے کہ موسیٰ خان کی شہادت کے سیاسی و سماجی پس منظر اور حقائق کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں موضوعِ بحث بنائیں اور طلبہ کی وسیع تر تعداد کے سامنے لائیں۔ اس سلسلے میں اداروں کے اندر اور باہر احتجاجی سرگرمیوں اور سیاسی نشستوں کا انعقاد کیا جائے۔ یہاں ہر یونیورسٹی کے ہر کیمپس میں انتظامیہ کی دھونس اور بدتمیزی جاری ہے۔ کبھی ہولی کے تہواروں پر پابندیاں ہیں تو کبھی رقص و موسیقی پر قدغن ہے۔ جبکہ پوری ریاستی مشینری ایک باقاعدہ اور منظم انداز میں بنیادی پرستی، رجعتی تعصبات اور مذہبی فرقہ واریت سے نوجوانوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے میں جٹی ہو ئی ہے۔ یقینی طور پر موسیٰ خان کے معاملے میں بھی ریاست کی جانب سے جبر اور فریب کا ہر ممکن حربہ اپنایا جائے گا کہ طلبہ کا دہائیوں کا غم و غصہ اور عدم اطمینان ایک منظم اور یکجا شکل میں اپنا اظہار نہ کر سکے۔ شہید کے والدین پر بھی دباؤ ڈالا جائے گا۔ وقتی طور پر شاید ذمہ داران کے خلاف کاروائی بھی عمل لائی جائے جو لازماً ہونی چاہیے۔ لیکن ان پس پردہ حقائق اور اسباب کو چھپانے کی کوشش کی جائے گی جو آلہ قتل کی طرح ایک اور نوجوان کی زندگی چھین گئے۔ اس رجعتی اور انسان دشمن نظام تعلیم کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی جس میں طلبہ کو ذہنی اور جسمانی طور پر مطیع اور غلام رکھا جاتا ہے۔
موسیٰ خان کو خراج تعلیمی اداروں کے حبس زدہ ماحول میں اس بوسیدہ اور گلے سڑے سرمایہ دارانہ تعلیمی و سماجی نظام کا انقلابی متبادل پیش کرنے والی سیاسی، نظریاتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس کے لیے اسی انتظامیہ کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ رنگوں کی ہولیوں، آلات موسیقی کی مدھر آوازوں اورزندگی کو زندگانی کا احساس بخشنے والے رقص کے ساتھ ساتھ سوشلسٹ فلسفے، معاشیات، تاریخ، ادب جیسے موضوعات پر مبنی سٹڈی سرکل، طلبہ حقوق کی بازیابی کی سیاست اور طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک ہی ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی کیمپس لائف میں رنگ بھر سکتی ہے۔ ایک بہتر معاشرے اور نئی دنیا کی تعمیر کی یہی طبقاتی جدوجہد طلبہ کو ان سے چھینی گئی امنگیں اور خواب لوٹا سکتی ہے اور ان کی زندگیوں کو زندگی سے بڑے مقصد اور نصب العین سے آراستہ کر سکتی ہے۔