قمرالزماں خاں
 
سماجوں کو منظم اور مربوط رکھنے کے لئے ضوابط کی ضرورت ہوتی ہے۔ سماج کے ہر شعبے میں مختلف قسم کے قوانین کے مطابق حرکت زندگی رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔ بظاہر یہ قوانین اور ضابطے سماجی نظم کی ضرورت نظر آتے ہیں اور یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے۔ لیکن یہ بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ کسی سماج کی طبقاتی ساخت کیا ہے اور یہ کہ وہاں کی آبادیوں کے مختلف حصوں کی روزمرہ زندگی کے لئے ضابطے، اصول و قوانین مرتب کون کر رہا ہے۔ قوانین کا مجموعہ اپنے معرض وجود میں آنے سے پہلے بھی کسی سماجی گروہ کے مفادات کی ناگزیر ضرورت ہوتا ہے۔ اسی لئے اسے بنایا اور نافذ کیا جاتا ہے اور عمل درآمدکرانے کے لئے ایک پورا ڈھانچہ استوار کیا جاتا ہے جو کئی اداروں پر مشتمل ہوتا ہے۔
 
ایک قانونی نظام جو کسی سماجی گروہ یا پرت کے مخصوص معاشی، سیاسی اور سماجی مفادات کے لئے قائم کیا جاتا ہے‘ دراصل اپنے عہد کے پیداواری رشتوں کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ موجودہ نظام، جس کو سرمایہ داری یامنڈی کی معیشت کہا جاتا ہے، کا بنیادی وصف سماج کے بڑے حصے کی قوت محنت سے ایسی پیداوار حاصل کرنا رہا ہے جس کا بڑا حصہ سرمایہ دار کے پاس چلا جائے اور ایک نسبتاً قلیل حصہ (مزدوری یا اجرت کی شکل میں) محنت کے تسلسل کو قائم رکھنے پر خرچ کیا جائے۔ اس عمل سے دو طبقات پیدا ہوتے ہیں۔ محنت کرنے والا طبقہ اور محنت غصب کرنے والا طبقہ۔ لیکن طبقاتی لوٹ اور استحصال کے اس نظام کو قوانین اور ضوابط کی شکل دے کر ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور اوٹ بھی فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم آخری تجزئیے میں طبقاتی نظام کے قوانین، ضابطوں اور نظم و نسق کا بنیادی جوہر استحصال (محنت کشوں کی پیدا کردہ قدر زائد کو ضبط کرنے کا عمل) کو قائم و برقرار رکھنا ہی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں آنے والی ہر ممکنہ مزاحمت، رکاوٹ اور مشکل کو ختم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جن میں سرفہرست پولیسنگ اور عدل و انصاف کے ادارے ہوتے ہیں۔
 
اس نام نہاد نظام عدل و انصاف کے بنیادی اصولوں اور قوانین کو قانون ساز اسمبلیاں یا پارلیمنٹیں تشکیل دیتی ہیں۔ جو پھر خود اس نظام کے حاکموں، ان کے نمائندوں یا اس سے فیض یاب ہونے والے دوسرے سیاسی گروہوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ لہٰذا قوانین، انہیں بنانے والے ایوانوں اور ان پر عملدرآمد کروانے والے اداروں کی تمام کڑیاں باہم پیوست ہوتی ہیں۔ کسی بھی طبقاتی سماج میں قانون، انصاف اور عدلیہ کی غیرجانبداری بنیادی طور پر ایسا بہکاوا یا دھوکہ ہوتا ہے جس کے مختلف پہلو لوگوں کی اکثریت کو سراب میں مبتلا کیے رکھتے ہیں۔ یہ محنت کش عوام کی مزاحمت کی راہ میں بھی حائل ہوتے ہیں اور انہیں ظلم و استحصال کرنے والے افراد اور اداروں سے ہی انصاف کا طلب گار بھی بنائے رکھتے ہیں۔
 
لیکن ایک اور عمل بھی ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ ’’معلوم تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔‘‘ لہٰذا کبھی کبھی اس کشمکش میں معمول سے ہٹ کر منظر نامے بھی سامنے آتے ہیں۔ جیسا کہ تاریخ کے غیرمعمولی ادوار میں محنت کش طبقے کی تنظیموں کی مزاحمت اور دباؤ کے باعث کبھی ایسے قوانین بھی بنتے ہیں جو حکمران طبقے کی خواہشات کے برخلاف ہوتے ہیں۔ لیکن حکمران اپنی کسی بھی ہزیمت کو کبھی نہیں بھولتے اور اپنی ہر پسپائی کے اثرات و مضمرات کو الٹنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر نظام کی زوال پذیری کے تحت ماضی کے طرز پر شرح منافع حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے سرمایہ داری ناگزیر طور پر مزدوروں کی اجرتوں، مراعات اور سہولیات پر حملے کرتی ہے۔ سرمایہ داری کے گہرے عالمی و ملکی بحران کے تحت ایسا ہی ایک شدید حملہ دنیا بھر میں نئے لیبر کوڈ کی شکل میں کیا جا رہا ہے۔
 
اپنے نام کے برعکس سامراجی پالیسیوں کی نمائندہ ’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن‘ کی جانب سے تیار کیا گیا نیا لیبر کوڈ ایک مجوزہ کمپاؤنڈ قانون ہے جو ماضی کے دو درجن سے زائد مجموعہ قوانین کو اس انداز میں بدلنا چاہتا ہے کہ ان میں سے مزدوروں کو ملنے والے حقوق و مراعات کو نکال کر کھوکھلا کر دیا جائے۔ اس لیبر کوڈ میں ان تعریفوں کو بدل کر رکھ دیا گیا ہے جو ماضی کے قوانین کے ذرائع یعنی ٹریڈ یونینز ایکٹ 1926ء، صنعتی روزگار (اسٹینڈنگ آرڈرز) ایکٹ 1946ء، صنعتی تنازعات ایکٹ 1947ء اور فیکٹریز ایکٹ 1934ء کے ذریعے وضع کی گئی تھیں۔ بعد ازاں پاکستان میں تقریباً 200 لیبر قوانین بنائے گئے جن میں بھٹو دور میں محنت کش طبقے کی تحریک کے تحت لیبر قوانین کی تشکیل یا ترمیم بھی شامل ہے۔ لیکن یہ قوانین بھی ماضی کے قوانین کی روشنی میں وضع کیے گئے تھے جن میں زیادہ اہم 1934ء کاقانون ہے۔ ان قوانین کی تشریحات کو موجودہ شکل میں لانے میں 90 سال کا طویل عرصہ لگا ہے۔ اگرچہ ماضی میں بھی کوئی صنعتی آرڈیننس یا ایکٹ بہت مزدور دوست نہیں تھا بلکہ مجموعی طور پر ان قوانین کا مقصد مزدوروں کو بہلانا اور بوقت ضرورت کچھ دے دلا کر صنعتی امن کو قائم رکھنا تھا تاکہ پیداواری عمل (یعنی سرمایہ داروں کی منافع خوری) میں کوئی بڑا خلل نہ آئے۔ اس کے باوجود مزدوروں کو کم از کم قانونی طور پر کچھ نہ کچھ سہولت ضرور حاصل تھی۔ کیونکہ پچھلی کچھ دہائیوں میں مزدور تحریک کی پسپائی اور بحران کے ساتھ بیشتر لیبر قوانین ویسے ہی محض کتابوں کی زینت بن کے رہ گئے ہیں۔ لیکن اب محنت کش طبقے کے انتہائی چھوٹے سے منظم حصے کو حاصل قانونی حقوق بھی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نیولبرل سرمایہ داری ماضی کی وہ تمام حاصلات واپس لینے کے درپے ہے جو محنت کشوں نے ڈیڑھ دو سو سال کی شدید جدوجہدسے حاصل کی تھیں۔ خاص طور پر بالشویک انقلاب 1917ء کے بعد کے عرصے میں، جب ہر طرف سوشلسٹ انقلاب کی کاوشیں اور مزدور تحریکیں ابھر رہی تھیں، سامراجی طاقتوں کو مزدوروں کی بہت سی مانگیں ماننا پڑیں اور بہت سی اصلاحات کے تحت قدر زائد میں سے کچھ اضافی حصہ محنت کش طبقے کو واپس لوٹانا پڑا۔ اسی قسم کے صورتحال دوسری عالمی جنگ اور پاکستان میں 1968-69ء کے بعد پیدا ہوئی۔ لیکن اب ماضی کی ان ساری پیش رفتوں کو الٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
 
نئے مجوزہ لیبر کوڈ کا سرسری جائزہ لیں تو اس قانون میں مزدور اور آجر کی معروف تعریف ہی بدل دی گئی ہے اوراسے توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ جس میں مالکان کے مفادات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے مختلف درجہ بندیاں کی گئی ہیں اور ایسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں جن سے حقیقی آجروں کو پردوں میں رکھا جا سکے، وہ براہِ راست قانونی کاروائی سے بچ نکلیں اور مزدور اسی تذبذب میں رہیں کہ ان کا آجر کون ہے، کس سے تنخواہ لینی ہے اور کسی مسئلے کی صورت میں کس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی ہے۔ اس مقصد کے لئے پرنسپل، آکوپائیر اور کنٹریکٹر وغیرہ جیسے الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ اس قانون کے باب 1.1 سیکشن 2 میں تمام سرکاری دفاتر کے محنت کشوں سے ٹریڈ یونین کا حق چھین لیا گیا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے یہ لوگ لیبر لا کے تحت ہی اپنی یونین رجسٹر کراتے تھے۔ مگر اب اس قانون کے تحت سرکاری ملازمین پر لیبر لا کا کوئی بھی سیکشن لاگو نہیں ہو گا۔ جس سے وہ خودبخود یونین سازی کے عمل سے باہر ہو جائیں گے۔ اسی طرح اس قانون کے تحت ایک سرمایہ دار یا آجر ذمہ دار نہیں ہو گا بلکہ ذمہ داری سب کنٹریکٹر ایجنسی، آکوپائیر اور پرنسپل وغیرہ پر تقسیم ہو گی۔ نئے لیبر کوڈ کے ذریعے ٹھیکے داری نظام کو باضابطہ، جدید اور زیادہ استحصالی شکل دی جا رہی ہے۔ یہاں پر ایجنسی ایمپلائمنٹ کو بھی لے کر آیا جا رہا ہے۔ جس میں محنت کش کسی روزگار ایجنسی یا ٹھیکیدار وغیرہ کے ذریعے کسی ادارے میں روزگار حاصل کر سکے گا اور اس ایجنسی (ٹھیکے دار) کی مرضی سے ہی کسی فیکٹری وغیرہ میں کام کرے گا۔ یعنی کسی مشروبات فیکٹری کے مزدور کو ٹھیکیدار چاہے تو سیمنٹ فیکٹری یا کسی بھی جگہ بھیج سکے گا۔ اس طرح بالکل کچی لیکن قانونی طور پر جائز نوکری میں وہ اجیر یا مزدور ہر اس سہولت یا حق سے محروم ہو جائے گا جو محنت کشوں نے دہائیوں کی جدوجہد سے حاصل کیا ہے۔ اسی قسم کے استحصالی شقیں بھٹہ مزدوروں کے حوالے سے بھی شامل کی گئی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب انتہائی پرفریب طریقے سے کیا جا رہا ہے اور بظاہر مزدور دوست نظر آنے والی شقیں عملاً مزدوروں کی زندگیوں کو مزید اجیرن کر دیں گی۔
 
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منافع میں پانچ فیصد کا حق، دیگر بونسز وغیرہ کے ساتھ ساتھ مستقل ملازمین کہلانے والے مزدوروں کو میسر تقریباً تمام سہولیات اور حقوق بتدریج ختم کر دیئے جائیں گے۔ یوں دراصل ٹھیکے داری نظام ماضی کے ’پرنسپل ایمپلائیر‘ یعنی ادارے کی جگہ لے لے گا۔ اسی طرح پچھلے قوانین کے تحت یونین بنانے کے لئے کم از کم مزدوروں کی تعداد کو پانچ سے بڑھا کر 20 کر دیا گیا ہے۔ یعنی 20 یا فیکٹری کے 5 فیصد ملازم ہی مل کر یونین بنا سکتے ہیں۔
 
سی بی اے (منتخب اجتماعی سودا کاری ایجنٹ) کی طاقت کو بھی کم کیا گیا ہے اور کوئی بھی یونین سی بی اے کے بغیر فیکٹری مالکان سے مطالبات وغیرہ پر بات کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی متحرک اور انتظامیہ کے لئے ناپسندیدہ سی بی اے یونین کو غیر موثر کرنے کے لئے ’ڈمی‘ یا ’پاکٹ یونین‘ کو بروئے کار لایا جائے گا۔ پھر سی بی اے کس کھاتے میں رہے گی؟ لیبر یونین کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے قانون بدلا جا رہا ہے۔ نئے لیبر کوڈ کے مطابق کسی بھی یونین کے پانچ لوگ مل کر درخواست دیں تو لیبر ڈیپارٹمنٹ سے یونین کی رجسٹریشن منسوخ بھی ہو سکتی ہے۔ مطلب اب سب کچھ انتظامیہ کے ہاتھ میں ہو گا کہ کس یونین کو برقرار رکھنا ہے اور کس یونین کی رجسٹریشن کو اپنے کنٹرول کے ورکرز کے ذریعے ختم کرانا ہے۔
 
اسی طرح لیبر کورٹس کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے زیادہ تر اختیارات لیبر ڈیپارٹمنٹ اور انسپکٹر لیبر کو دے دیئے گئے ہیں۔ مزدور اور آجر کے درمیان کسی تنازعے پر ایک کمیٹی بنی گی جو کہ اس پر فیصلہ کرے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ تنازعات بغیر کسی حل طویل عرصے کے لئے سرد خانے میں ڈال دیئے جائیں گے اور مزدور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اس ضمن میں لیبر کورٹ بھی تنازعہ کمیٹی، جو کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ وغیرہ پر مشتمل ہو گی، کی سفارشات پر ہی فیصلہ کرے گی ۔ لیبر کورٹ کے جج جو پہلے کم از کم ڈسٹرکٹ جوڈیشری سے لیے جاتے ہیں‘ اب ان کی نامزدگی حکومت کر سکے گی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کے کسی بھی افسر کو، جس نے لا کیا ہو اور پانچ سال سروس ہو، لیبر کورٹ کا جج لگایا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داروں اور ٹھیکے داروں کے پے رول پر چلنے والا لیبر ڈیپارٹمنٹ کیسا انصاف کرے گا؟ یہ کوئی پیچیدہ بات نہیں ہے۔ شکایت کنندہ مزدور کو انصاف ملنا مزید محال بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ یوں لیبر کورٹ کو کنٹرول یا غیر موثر کرنے کے قوانین وضع کیے گئے ہیں۔
 
صوبوں میں مرحلہ وار نافذ ہونے والے اس لیبر کوڈ میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا بہتری کے لئے ایک کمیٹی بنے گی جس میں تقریباً 16 حکومتی اداروں کے سیکرٹری وغیرہ ہوں گے اور 4 مزدور رہنما اور 4 ہی آجروں (سرمایہ داروں) کے ممبر ہوں گے۔ اسی مساوات کے مطابق مزدوروں کے متعلق قوانین حکومت کی منشا سے بنیں گے اور تبدیل ہوں گے۔ اس قانون کا سب سے بڑا نقصان مزدور تحریک کو یہ ہو گا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں سالہا سال سماعت کے بعد جن معاملات پر فیصلے ہوئے اور قانونی مثال بنے وہ سب غیر موثر ہوکر ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جائیں گے۔ اب ایک نیا گھن چکر شروع ہو گا۔ ہر ایشو پر نئے سرے سے اور نئے لیبر کوڈ کی روشنی میں عدالتیں سماعت شروع کریں گی اور پاکستانی عدل و انصاف کے ادارے مزید تیس چالیس سال نئی تشریحات میں مصروف رہیں گے۔ یوں مزدوروں کی دو تین نسلیں انصاف کے نئے تصور کا چہرہ دیکھے بغیر ہی عدالتی در و بام کے چکر کاٹتی رہیں گی۔ یہاں انصاف ملے نہ ملے لیکن حصولِ انصاف کی جدوجہد لاکھوں کروڑوں روپے فیس کا تاوان مانگتی ہے۔ اربوں روپے منافع کمانے والے مالکوں اور ٹھیکے داروں کے لئے وکلا کی بھاری بھرکم فیس ادا کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن مزدور کا ایک ایک روپیہ محنت کے بے رحم بازار میں خود کو بیچ کر حاصل ہوتا ہے۔ یوں فیصلہ پھر سرمائے کے ہاتھ ہی ہو گا۔
 
اس وقت محنت کشوں کی باخبر اور منظم پرتوں میں نئے لیبر کوڈ کی تفہیم اور مضمرات پر بحث ہو رہی ہے تاکہ کوئی لائحہ عمل بنایا جا سکے۔ مگر یاد رکھنے والی بات ہے کہ یہ نیا لیبر کوڈ ’انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن‘ کے تعاون اور مدد سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ادارے اور اس کی کچھ ذیلی کمیٹیوں میں پاکستان کے ’’مزدور نمائندگان‘‘ بھی شامل ہیں۔ مقامی ٹریڈ یونین کی طرح یہ عالمی ادارہ بھی بنیادی طور پر مزدوروں اور مالکان کے مابین مفاہمت کی کوشش پر مبنی کردار کا حامل ہے۔ لیکن تماشہ یہ ہے کہ اس ادارے کی وہ کم سے کم تجاویز بھی پاکستانی سرمایہ دار ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جو پاکستان کئی دہائیاں پیشتر ہی مختلف کنونشنز پر دستخط کر کے مان چکا ہے۔ پاکستان کے مزدوروں کی قیادت بہت بڑی بڑی فیڈریشنوں اور کنفیڈریشنوں کے ہاتھوں میں ہے۔ مگر مزدور تحریک کی حالت زار مزدور کی حالت دیکھ کر جانچی جا سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں جب مزدور تحریک جمود بلکہ تنزلی کا شکار ہے‘ اس پر حملہ آسان تھا جو اس مجوزہ لیبر کوڈ کی شکل میں کر دیا گیا ہے۔ جو اس سے پہلے دنیا میں جہاں پر بھی رائج ہوا ہے وہاں مزدوروں کی حالت مزید پتلی ہی ہوئی ہے۔
 
اس نئے لیبر کوڈ کے تدارک یا مزاحمت کے لئے سب سے پہلے مزدور تحریک کی نئے سرے سے صف بندی کی ضرورت ہے۔ جو صرف تنظیمی نہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی ہو۔ دنیا میں دو طرح کی مزدور تنظیمیں ہیں۔ ایک وہ جو سرمایہ داری کے نظریات کے تابع ہو کر محنت کا استحصال کرنے والے اداروں اور طبقات کا ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ تحفظ کرتی ہیں، ممکنہ طبقاتی جدوجہد کے راستے کی رکاوٹ بنتی رہتی ہیں اور سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو قابل قبول بنانے کے لئے دلائل ڈھونڈتی ہیں۔ دوسری قلیل تعداد میں وہ مزدور تنظیمیں ہیں جن کا وجود انقلابی نظریات سے گندھا ہوتا ہے اور وہ سرمایہ داری نظام اور اس کی پالیسیوں کو نسل انسان کی ہلاکت، پسماندگی، غربت اور لاچاری کا باعث سمجھ کر ٹریڈ یونین کی جدوجہد کو نظام کی تبدیلی کی جدوجہد سے منسلک کرتی ہیں۔ ایک انقلابی اور نظریاتی ٹریڈ یونین مزدوروں کے روزمرہ مسائل اور مانگوں کے گرد قانون کے اندر یا باہر جدوجہد کو لازمی استوار کرتی ہے لیکن اس کو اپنا حتمی نصب العین نہیں سمجھتی۔ کسی انقلابی نصب العین کے بغیر طبقاتی جدوجہد چھوٹی چھوٹی مانگوں اور قانونی نکات کے گرد منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔
 
آج پاکستان کی ہر فیکٹری، کارخانے، ہسپتال، دفتر، سکول اور سرکاری و نجی ادارے میں عملی طور پر مزدور مفلوج و بے بس ہے۔ اس کا بے پناہ استحصال ہو رہا ہے اور اس کی کہیں شنوائی نہیں ہے۔ بیشتر مالکان اپنے اداروں میں دس بیس فیصد کے علاوہ باقی مزدوروں کو پہلے سے ہی ٹھیکے داری نظام کے تحت کم اجرتوں اور بغیر کسی مراعت کے صنعتی غلام بنائے ہوئے ہیں۔ اب نئے لیبر کوڈ کے ذریعے اس صنعتی غلامی کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا مقابلہ قانون کے میدان میں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اصل مقابلہ فیکٹری گیٹ پر کرنا پڑے گا۔ محنت کش طبقے کو ایک سبقت حاصل ہے کہ یہ اپنی عددی قوت اور کام کرنے اور روکنے کی طاقت کے ذریعے ایک قانون کیا، ایک حکومت کیا، پورے نظام کو تہس نہس کر سکتا ہے۔ اور اس نظام کو مٹائے بغیر نہ کوئی قانون اور نہ ہی کوئی ضابطہ جبر و استحصال کے اس وحشیانہ عمل کو روک سکتا ہے۔