اداریہ جدوجہد

انسانی سماج جب سے طبقات میں بٹا ہے‘ جبرکی ضرورت ہمیشہ موجود رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ محنت کشوں کو محکومی پر مبنی نفسیات و نظریات کی غیر مرئی زنجیروں میں جکڑے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن پھر ان پر خوف اور تشدد مسلط کیے بغیر بھی طبقاتی استحصال کو جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ جس کا سب سے منظم اور طاقتور ادارہ ریاست ہوتی ہے۔ تاریخ کے ہر طبقاتی نظام نے ریاست کو اپنی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ لیکن سرمایہ داری، جو طبقاتی سماج کی اعلیٰ اور ترقی یافتہ ترین شکل ہے، جہاں طبقاتی استحصال کو ایک نسبتاً پوشیدہ یا مخفی صورت دیتی ہے وہاں جبر و تشدد کے طریقوں میں بھی جدت لاتی ہے۔ مرحلہ واریت اور تدریج پرستی (Gradualism) پر مبنی اصلاح پسندی کے مکروہ فریبوں اور خوش فہمیوں کے برعکس ریاست چاہے آمریت اور بادشاہت وغیرہ پر مشتمل ہو یا اپنی جمہوری ترین شکلوں میں موجود ہو‘ آخری تجزئیے میں مسلح افراد کے جتھوں پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد سرمایہ داری کے وجود اور تسلط کو یقینی بنانا اور اس کے سماجی نظم و نسق کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے حکمران طبقات کی فہم و دانش، چاہے مذہبی ہو یا لبرل، عام لوگوں کے سامنے ریاستی ذمہ داریوں میں سے محض معاشرتی تنظیم اور نظم و نسق وغیرہ کے پہلوﺅں کو ہی اجاگر کرتی ہے۔ بہرحال نظام میں کسی بھی طرح سے پڑنے والا خلل ریاستوں کے لئے مسئلہ ہوتا ہے۔ جسے دور کرنے کے لئے حکمران طبقات انہیں تشدد پر اجارہ دارانہ حقوق دیتے ہیں۔ جنہیں پھر وہ مسائل کی شدت اور نوعیت وغیرہ کے مطابق بوقت ضرورت بروئے کار لاتی ہیں۔ اس جبر و تشدد کا استعمال سرمایہ دارانہ ریاستیں داخلی طور پر اپنے ممالک میں بھی کرتی ہیں اور اپنی سامراجی شکلوں میں محکوم خطوں اور اقوام کے عوام پر بھی روا رکھتی ہیں۔ موخرالذکر صورت میں یہ بالعموم زیادہ عریاں اور وحشیانہ ہوتا ہے۔ مزید برآں تاریخ گواہ ہے کہ ریاستیں حکمران طبقات کے ایسے حصوں یا دھڑوں کو بھی کچلنے سے نہیں گھبراتی ہیں جو مخصوص حالات میں پورے نظام کے لئے خطرے کا باعث بننے لگتے ہیں۔

لیکن پھر ریاستی جبر کی شدت اور طریقوں وغیرہ کا انحصار خود اس نظام کی حالت یا کیفیت پر بھی ہوتا ہے جس کی کارگزاری یا دوام کو یقینی بنانے کے لئے اس کا استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ یہ ایک عام مغالطہ ہے جو پیٹی بورژوا انقلابی حلقوں میں سرایت کر کے مضحکہ خیز قسم کی سازشی تھیوریوں کو بھی جنم دیتا ہے کہ حکمران طبقات جبر کا استعمال شوق یا خواہش سے کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کا اقتدار بغیر کسی انتشار اور مارا ماری کے ایک ’پرامن‘ اور غیر محسوس طریقے سے چلتا رہے۔ نہ ہی انہیں مہنگائی اور بیروزگاری وغیرہ کی پالیسیاں نافذ کرتے ہوئے کوئی لذت ملتی ہے۔ نظام کی ایک تاریخی اٹھان اور سماجی و ثقافتی ترقی اور استحکام کی کیفیات میں ایسے اقدامات سے احتراز برتنا ان کے لئے کسی قدر ممکن بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی سماجی دولت میں سے وہ عام لوگوں کو کچھ نہ کچھ دینے کے قابل ہوتے ہیں۔ ان حالات میں حاکم طبقات ایک اعتماد، رجائیت اور حوصلے سے سرشار ہوتے ہیں۔ وہ استحصال اور منافع خوری کی دوررس اور دیرپا منصوبہ بندی کو شارٹ ٹرم اور گھٹیا قسم کے منافعوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ جبر کی ضرورت بھی کم ہو جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر بھی ریاستیں اس کے نسبتاً ’لطیف‘، ’نفیس‘ اور خاموش طریقوں کا استعمال کرتی ہیں۔ جو زیادہ اذیت ناک اور گہرے ہو سکتے ہیں۔ لیکن بھونڈے نہیں ہوتے۔ مزید برآں اپنی برہنہ یا اعلانیہ شکل میں بھی یہ جبر اتنا ٹارگٹڈ، قطعی اور یقینی ہوتا ہے کہ باقیوں کے لئے عبرت ناک مثال قائم کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نسبتاً امیر اور مستحکم ممالک (جن میں آمرانہ حکومتوں والے معاشرے بھی شامل ہیں) میں پولیس خال خال ہی نظر آتی ہے۔ لیکن امن عامہ کی صورتحال اور ریاستی رِٹ پاکستان جیسے ممالک سے کئی گنا بہتر ہے جہاں ناکے، چیک پوسٹیں، تلاشیاں، آپریشن اور ”ڈالے“ ایک معمول بن چکے ہیں۔

اگر ہم غور کریں تو مغربی دنیا کی ’مہذب‘ سرمایہ داری ترقی اور استحکام کے ایسے ہی حالات میں پروان چڑھی تھی۔ جن میں دوسری عالمی جنگ کی بے نظیر تباہ کاریوں کے بعد کی دہائیاں بہت اہمیت کی حامل تھیں۔ جب ایک تاریخی شرح منافع کے ساتھ سرمایہ دار ہوشربا منافع جات سمیٹنے کے قابل تھے۔ اسی دور میں بورژوا نقطہ نظر سے ہی سہی لیکن حقوقِ نسواں، جمہوریت اور سیکولرزم کی اقدار کو ایک نئی جلا ملی۔ ان ساری حاصلات میں محنت کش طبقے کی جدوجہد اور سوویت یونین کی موجودگی جیسے عوامل بھی یقینا کارفرما تھے لیکن خود نظام کے اندر بھی گنجائش موجود تھی۔ لیکن 1980ء کی دہائی کے بعد سے سرمایہ داری کی زوال پذیری کیساتھ یہ سارا عمل اپنے الٹ میں بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ جس میں 2008ء کے بحران کے بعد ایک نئی جست لگی ہے۔

حالیہ سالوں میں سامراجی سرمایہ داری کے اپنے پالیسی ساز اس صورتحال کو تسلیم کر رہے ہیں اور فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً رواں سال کے آغاز میں جان ہوپکنز یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ سمیت پوری دنیا میں جمہوری اقدار ایک گراوٹ کا شکار ہیں۔ جس میں اہم عنصر ایسے مطلق العنان رہنماﺅں کے ابھار کا ہے جو مروجہ اداروں کو استعمال کرتے ہوئے اقتدار میں آتے ہیں اور جمہوری حقوق اور آزادیوں کو سلب کرتے جاتے ہیں۔ مزید برآں یہ صورتحال جہاں جمہوریت کے مکمل انہدام یا کھلی آمریت پر منتج نہیں ہوتی وہاں بھی جمہوری گورننس کے معیار کو بری طرح گرا دیتی ہے۔ اسی طرح سٹاک ہوم کے ’ادارہ برائے جمہوریت و انتخابی معاونت‘ (IDEA) کے مطابق دنیا کی آدھی جمہوریتیں (بشمول یورپ) زوال پذیری کی کیفیت میں ہیں جبکہ آمرانہ حکومتیں زیادہ سے زیادہ جبر پر اترتی جا رہی ہیں۔

یہ بنیادی طور پر ایک تاریخی متروکیت اور استرداد سے دوچار طرز پیداوار اور اس پر کھڑی معیشت کے سیاسی و سماجی مضمرات ہیں جو ترقی یافتہ ترین خطوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے بیشتر پسماندہ ممالک میں یہ بحران اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ ایک طرف سماجی بے چینی، نفسا نفسی اور عدم استحکام کو نئی انتہاﺅں پر لے جا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ ساری کیفیت پھر ریاست میں سرایت کر کے اسے ایسے انتشار اور دھڑے بندیوں سے دوچار کر رہی ہے جس سے وہ زیادہ چڑچڑی اور وحشی ہوتی جا رہی ہے۔ ملکی معیشت عملاً ایک دیوالیے کی کیفیت میں ہے۔ بحران اس قدر گہرا ہے کہ ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کئی نئے اور پہلے سے زیادہ گھمبیر مسائل کو جنم دیتی ہے۔ ایک معاشی اشاریہ درست کرتے ہیں تو باقی بگڑ جاتے ہیں۔ میکرواکانومی کے خسارے کم کرنے کے چکر میں مائیکرو اکانومی (عام آدمی کی معیشت) برباد ہو کے رہ گئی ہے جس نے نہ صرف مجموعی معاشی بحران کو مزید بھڑکا دیا ہے بلکہ ملک ایسے معاشرتی اضطراب سے دوچار ہو چکا ہے جو شاید ہی پہلے کبھی دیکھا گیا ہو۔ پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی میں نظام کو ٹھیک کرنے کے تجربے ریاستی پالیسی سازوں کے لئے عذاب بن کے رہ گئے ہیں۔ اس بوکھلاہٹ کے عالم میں یہ مزید بربادیاں کرتے جا رہے ہیں۔ لیکن غور کریں تو ان کے پاس کچھ اچھا یا بہتر کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہے۔

شہباز شریف کی مخلوط حکومت کو ملک کے اندر اور باہر کوئی سنجیدہ لینے کو تیار نہیں ہے۔ نہ معاشی پالیسی پر اس حکومت کا کوئی اختیار ہے‘ نہ سکیورٹی امور اور خارجہ پالیسی کے معاملات پر اس کا کوئی بس چلتا ہے۔ ان حالات میں جو بجٹ پیش کیا گیا ہے وہ آئی ایم ایف کے عوام دشمن نسخوں کے مجموعے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ معیشت کے جو حالات ہیں ان میں کوئی دوررس منصوبہ بندی ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ یہ قومی و صوبائی بجٹ بھی مہنگائی، نجکاری اور بیروزگاری وغیرہ کی شکل میں محنت کش عوام کی معاشی و سماجی ابتری کی عمومی سمت کا پتا ہی دیتے ہیں۔ 70 ہزار ارب روپے کا داخلی و بیرونی قرضہ ہے جو جی ڈی پی کے 80 فیصد سے تجاوز کر رہا ہے۔ جولائی کے مہینے کے آخر تک انہیں 10 ارب ڈالر بیرونی قرضے کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ اگلے بارہ مہینوں میں 27 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ جبکہ اگلے دو سے تین سالوں میں 70 ارب ڈالر سے زائد کے قرضے لوٹانے ہیں۔ دوسری طرف زرِ مبادلہ کے ذخائر مانگ تانگ کے بھی 9 ارب ڈالر نہیں بنتے۔

یہ صرف بیرونی قرضوں کا حال ہے۔ داخلی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔ ریاست کی تقریباً تمام آمدن، جس میں سے 90 فیصد تک عام لوگوں پر بالواسطہ ٹیکس لگا کے جمع کیا جاتا ہے، قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کی نذر ہو رہی ہے۔ جاری مالی سال میں یہ رقم 10 ہزار ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ صرف کچھ سال پہلے جی ڈی پی کا 4 فیصد اس مد میں خرچ ہو رہا تھا۔ اس وقت یہ شرح 8 فیصد سے تجاوز کر رہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قرضے کم نہیں ہو رہے بلکہ انہیں موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کے لئے بھی ادائیگیوں میں مسلسل اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کے لئے پھر اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار‘ بلکہ یلغار کی جا رہی ہے۔ آگ برساتی گرمی میں لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ عوام کی آہ و بکا آسمان تک تو شاید پہنچ جائے لیکن طاقت کے ایوانوں میں کوئی اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک درجن سے زائد قسم کے ٹیکسوں اور واجبات کے ساتھ بجلی کے بل عملاً ریاستی بھتہ خوری کی پرچیاں بن چکے ہیں۔ لیکن اس مسلسل بڑھتے ٹیرف میں سے 60 فیصد تک پھر آئی پی پیز کو اس بجلی کی مد میں ادا کیا جا رہا ہے جو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی۔ جاری مالی سال میں آئی پی پیز کو صرف پیداواری صلاحیت کی مد میں کی جانے والی ادائیگیوں (Capacity Payments) کا تخمینہ 2.8 ہزار ارب روپے کا ہے۔ بجلی کی اس قیمت کے ساتھ نہ یہاں چھوٹا کاروبار چل سکتا ہے‘ نہ صنعتکاری ہو سکتی ہے۔ لیکن صنعتی معیشت کی ترویج کا ارادہ تو پاکستانی بورژوازی اور ریاستی پالیسی ساز شاید ویسے بھی عرصہ قبل ترک چکے ہیں۔

کچھ ہفتے پہلے تک سرکاری حلقے‘ افراطِ زر (مہنگائی) کے نیچے آنے پر شادیانے بجا رہے تھے۔ لیکن اب بجلی، گیس اور پٹرول سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید کیا جائے گا۔ ابھی روپے کی قدر میں گراوٹ کا عنصر ان ٹیکسوں کے علاوہ ہے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف کا شدید دباﺅ موجود ہے اور امکان ہے کہ جاری مالی سال کے دوران ڈالر 330 روپے تک پہنچ جائے گا۔ یہ سارے اقدامات مزید مہنگائی، غربت اور تنگی کے نسخہ جات ہی ہیں۔

حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ مزید بیچنے کو کوئی خاص ریاستی اثاثے بچے نہیں ہیں۔ اب قرضوں کے حصول کے لئے پبلک پارک، شاہراہیں اور ایئرپورٹ گروی رکھے جا رہے ہیں۔ عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال کا یہ عالم ہے کہ جو ادارے نجکاری کی لوٹ سیل پر لگائے بھی جاتے ہیں ان میں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار دلچسپی لینے کو تیار نہیں ہے۔ طفیلی اور بدعنوان ملکی بورژوازی کے جو دھڑے انہیں خریدنا چاہتے ہیں ان کا مطالبہ ہے کہ ادا کردہ قیمت کو سرکاری سرمایہ کاری کی مد میں دو یا تین گنا کر کے انہیں فوراً واپس لوٹا دیا جائے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں بلکہ پی آئی اے کے معاملے میں عارف حبیب نے باقاعدہ یہ مانگ کی ہے اور کے الیکٹرک میں اسی قسم کا ہیر پھیر تقریباً دو دہائیوں سے جاری ہے۔ بجلی کی باقی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا بھی یہ حکمران بذریعہ نجکاری یہی حشر کرنا چاہتے ہیں۔

حکومت میں ہو کے حکومتی پالیسیوں پر جعلی قسم کی تنقید اور بدحال عوام سے ہمدردی کا گھٹیا ناٹک کرنے والی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت تمام مروجہ سیاست ظلم کی اس واردات میں ملوث ہے۔ عدالتی کاروائیوں اور متضاد فیصلوں کی اس قدر بھرمار ہے کہ یہ سارا سلسلہ ہی بے معنی ہو کے رہ گیا ہے۔ عدلیہ اور فوج ایسے ادارے ہوتے ہیں جنہیں بالعموم سیاست و معیشت سمیت دوسرے تمام ریاستی امور سے کوسوں دور رکھ کے سماج سے بالکل ماورا، ’نیوٹرل‘ اور مقدس قوتوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستانی سرمایہ داری کی ٹوٹ پھوٹ نے انہیں ملک کے متنازعہ ترین ادارے بنا ڈالا ہے۔ جن میں ریاست کی داخلی تقسیم سب سے واضح انداز سے اپنا اظہار کرتی ہے۔ ایسے میں اب ایک نئے آپریشن کا اعلان کر دیا گیا ہے جو تسلط، جبر، سنسرشپ اور زبان بندی کو نئی انتہاﺅں پر لے جانے کا پیش خیمہ ہی ہے ۔ ٹوئٹر پہلے ہی بند ہے لیکن اب باقی سوشل میڈیا پر بھی سخت قدغن لگانے اور واٹس ایپ سمیت ہر قسم کے ڈیجیٹل رابطوں کو زیادہ کڑی نگرانی میں لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ یہ بدتمیزی اور پاگل پن کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ لیکن کامریڈ لال خان کے بقول یہ حکمران پاگل ہوتے نہیں‘ ان کے نظام کا بحران انہیں پاگل کر دیتا ہے۔ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانے کا خواب تو ان حکمرانوں نے عرصہ قبل دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن آج یہ ایک وجودی بحران سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ان کا جبر کسی ابھرتے ہوئے نظام کا جبر نہیں جس نے کوئی ترقی پسندانہ تاریخی فریضہ سرانجام دینا ہو۔ بلکہ ایک ایسے زوال پذیر نظام کا جبر ہے جس کا وجود محنت کشوں کی زندگیاں مزید اجیرن کرتے جانے سے مشروط ہے۔ لیکن ان کا خوف یہ بھی واضح کرتا ہے کہ معاشرے کی کوکھ میں طبقاتی بغاوت کے ایسے دھماکے کے حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں جو ایک انقلابی قیادت میں ان کے متروک نظام کو اڑا کے رکھ دے گا۔