راہول

بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں بظاہر ’فتح‘ کے بعد نریندر مودی ایک بار پھر بھارت کا وزیرا عظم بننے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ تقریباً 65 فیصد ٹرن آﺅٹ کے ساتھ 19 اپریل سے یکم جون تک جاری رہنے والے دنیا کے سب سے بڑے عام انتخابات میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے (400 نشستوں کے) تمام تر اہداف اور پروپیگنڈے کے برعکس پارلیمنٹ کی 543 کُل نشستوں میں سے محض 240 ہی حاصل کر سکی ہے۔ بی جے پی کے انتخابی الائنس این ڈی اے کی حاصل کردہ نشستوں کو شامل کیا جائے تو لوک سبھا میں مودی کو کُل 293 نشستیں حاصل ہو سکی ہیں جو حکومت بنانے کے لیے درکار 272 سیٹیوں کے ہدف کو پورا کرتی ہیں۔ تاہم اب مودی کو مخلوط حکومت کے ذریعے حکمرانی کرنا ہو گی۔

ایودھیا میں رام مندر کا قیام ہو یا پھر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی اور تشدد‘ میڈیا پر مودی سرکار کے گن گانے والے زر خرید اینکرز کا زہریلا پروپیگنڈا ہو یا پھر دیگر سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع کے ماحول سے محروم رکھنا‘ یہ تمام تر ہتھکنڈے بھی مودی کو لوک سبھا (پارلیمان) میں وہ اکثریت نہیں دلا سکے جس کی وہ خواہش کر رہا تھا۔ چار سو سے زائد سیٹو ں کاخواب دیکھنے والی بی جے پی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی ان انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں نہ صرف ناکام رہی ہے بلکہ گزشتہ چناو کی نسبت ان انتخابات میں مودی کو 63 نشستیں کم حاصل ہوئی ہیں جو بھارتی سماج میںاس کی مقبولیت میں گراوٹ کا کھلا اظہار ہے۔

بی جے پی کا گڑھ سمجھے جانے والی اور بھارت کے سب سے زیادہ تقریباً 80 پارلیمانی حلقے رکھنے والی ریاست اُتر پردیش میں بھی اُنہیں ایک طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یو پی کے بیشتر حلقوں میں یا تو بی جے پی اپنی روایتی جیتی ہوئی نشستیں ہاری ہے یا پھر اس کے امیدواروں کو انتہائی کم مارجن سے فتح نصیب ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی ریاست ہے جہاں بی جے پی کو گزشتہ انتخابات میں 64 نشستیں حاصل ہوئی تھیں مگر اب یہ سیٹیں سکڑ کر 33 ہو چکی ہیں۔ اسی طرح جس نتیجے نے نریندر مودی اور اس کی جماعت کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے وہ دراصل یو پی میں موجود فیض آباد کا حلقہ ہے جہاں انتخابات سے چند ہی روز پہلے رام مندر کا قیام عمل میں لایا گیا اور پورے بھارت سے مشہور کاسہ لیس شخصیات کو اکٹھا کر کے مندر میں مورتی کی ’استھاپنا‘ کروائی گئی۔ اس ایونٹ کومیڈیا نے بھرپور کوریج دی اور ایک ’گیم چینجنگ‘ ایونٹ قرار دیا۔ مگر نہ صرف ایودھیا میں مودی کے ہندوتوا کے نظرےئے کو بری طرح شکست ہوئی بلکہ پوری ریاست اتر پردیش میں اس نفرت انگیز سیاست کو عوام نے مسترد کر دیا۔

یقینا انتخابات میں اپنی اکثریت کھونے کے باوجود بھی نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بن گیا ہے مگر اس بار بھارت پر حکمرانی کے لیے اسے اپنی اتحادی جماعتوں (تیلگو دیسم پارٹی اورجنتا دل یونائیٹڈ وغیرہ) پر زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ اس سے قبل گزشتہ الیکشن میں جہاں این ڈی اے کی ٹوٹل سیٹیں 353 تھیں وہیں صرف بی جے پی نے 303 نشستیں اکیلے ہی حاصل کی تھیں۔ یہی سبب تھا کہ اپنے گزشتہ ادوار میں حکومتی فیصلہ سازی میں مودی کو کسی اتحادی جماعت سے نہ کسی مشاورت کی ضرورت تھی نہ ہی وہ جماعتیں اسے بلیک میل کرنے کی حیثیت رکھتی تھیں۔ مگر یہ اقتدار اس کے لیے کئی نئی مشکلات کو جنم دے سکتا ہے۔

اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لبرل سرمایہ داری کے علمبردار جریدے دی اکانومسٹ نے اپنے تازہ شمارے میں لکھا کہ ”مودی کا تخت بے شک سپریم تھا مگر ہر راج کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اگرتوقع کے مطابق بی جے پی اور اس کے اتحادی اگلی حکومت بناتے ہیں تو مودی کو ایک ایسی کابینہ کی سربراہی کرنا ہو گی جس میں دیگر پارٹیاں اتحاد میں موجود ہوں گی اور جسے پارلیمانی مشاورت کرنی پڑے گی۔ یہ ایک ایسے شخص کے لیے کسی صدمے کی حیثیت رکھے گا جس نے بڑے فیصلے لینے کے لیے ہمیشہ اپنی من مانی کی ہو اور بغیر کسی مداخلت کے چیف ایگزیکٹو کے اختیارات کو استعمال کیا ہو۔ بی جے پی کے اندر مودی کے جانشین کی بحث چھڑے گی اور اگر مودی اپنی یہ مدت پوری بھی کر لیتا ہے تو اس کی چوتھی مدت کا امکان کم ہے۔“

دوسری طرف حزب اختلاف کی مرکزی جماعت انڈین نیشنل کانگریس 99 نشستوں کے ساتھ ان انتخابات میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ کانگریس نے 27 دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے ’انڈین نیشنل ڈیموکریٹک انکلوسیو الائنس‘ (انڈیا) نامی ایک اتحاد تشکیل دیا تھا جس نے اس چناو میں 232 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ کانگریس کی حاصل کردہ نشستوں کا اگر گزشتہ الیکشن سے موازانہ کیا جائے تو 47 کے اضافے کے ساتھ بظاہر یہ ایک قابل ذکر پیش رفت لگتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی متبادل قوت کے طور پر نمودار ہو رہی ہے یا عوامی مسائل کے حل کا کوئی ٹھوس پروگرام رکھتی ہے۔ بلکہ کانگریس کا الیکشن منشور بھی سیکولرزم اور جمہوریت وغیرہ کی نعرے بازی کے ساتھ انہی نیولبرل پالیسیوں کا تسلسل تھا جو مودی یا اس کے اتحادی لے کر چل رہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ یہ ووٹ بنیادی طور پر اپوزیشن کے نیولبرل ایجنڈا یا پالیسیوں سے ہم آہنگی سے زیادہ مودی کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف عوامی غصے کا جزوی اظہار ہے۔ جس نے ہندوتوا کے فسطائی عزائم کو حالیہ انتخابات میں بری طرح گھائل کر دیا ہے۔

الیکشن کے نتائج پر دی اکانومسٹ مزید لکھتا ہے، ”ایک دہائی تک اقتدار پر قابض رہنے کے بعد نریندر مودی کے اس سال کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے جیتنے کی پیشین گوئی کی گئی تھی مگر پھر 4 جون کو یہ واضح ہو گیا کہ ان کی پارٹی اپنی پارلیمانی اکثریت کھو چکی ہے اور وہ اتحاد کے ذریعے حکومت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ انتخابات کے یہ نتائج … مودی کے منصوبوں کو جزوی طور پر پٹری سے اتار دیں گے۔ یہ سب سیاست میں مزید بگاڑ کا موجب بنے گا جس نے پہلے ہی مالیاتی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ انتخابی نتائج بھارت کے آمریت کی طرف بڑھنے کے خطرے کو کم کرتے ہیں۔“

گزشتہ پوری دہائی مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی مودی سرکار اپنا کیا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کر سکی ہے۔ اس دوران نفرت اور دھونس کی سیاست اور فریب پر مبنی پراپیگنڈے سے بھارت کے اندر اور باہر لوگوں کو گمراہ رکھنے کی کوشش ہی کی گئی ہے۔ بھارت میں شوچالے (ٹوائلٹس) بنانے کی بات ہو یا پھر سالانہ دو کروڑ نو کریاں پیدا کرنے کا منصوبہ‘ یہ تمام تر وعدے محض نعروں اور بھاشنوں کی حد تک ہی محدود رہے۔ حالیہ انتخابات کے نتائج محض بی جے پی کی رجعتی سیاسی و ثقافتی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اصل سبب وہ بدترین معاشی جبر ہے جس نے غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنسے بھارتی عوام کی زندگیوں کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے۔ کسانوں کے خلاف متنازعہ زرعی اصلاحات کے قوانین بنانے جیسے اقدامات ہوں یا پھر پبلک سیکٹر کی نجکاری جیسی پالیسیوں کانفاذ‘ مودی سرکار کے اقتدار کے دوران اس قسم کی قومی پالیسیاں تشکیل دی گئیں جو نہ صرف محنت کشوں سے روزگار چھیننے کا سبب بنیں بلکہ لیبر قوانین میں اصلاحات کے نام پر عوام سے ان کے آئینی اور جمہوری حقوق تک غصب کرنے کی کوشش کی گئی۔

ان مظالم کے خلاف نہ صرف کروڑوں محنت کشوں نے مودی سرکار کے خلاف آواز بلند کی بلکہ کسانوں کے احتجاجوں نے پورے سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ بھارت کی دیہی آبادی کی اکثریت کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کی ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کا ستر فیصد (تقریباً آٹھ سو ملین) دیہی آبادی پر مشتمل ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر زراعت سے منسلک رہتا ہے۔ برطانوی راج کے خاتمے کے ستر سال گزرنے کے باوجود یہاں کی دیہی آبادی کی اکثریت کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہو سکی اور چھوٹے کسانوں کے حالات بدتر ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ درحقیقت یہ اِس خطے کی پسماندہ اور تاخیر زدہ سرمایہ داری کی ہی ایک اور تاریخی ناکامی ہے کہ وہ زراعت کو جدید تکنیکی بنیادوں پر استوار کرنے سے قاصر رہی ہے۔ شہروں میں بسنے والی آبادی کی اکثریت بھی غربت اور تنگی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ گیارہ ملین افراد ہر سال بھارتی دیہاتوں سے شہروں کا رخ کرتے ہیں جنہیں روزگار کی مسلسل تلاش میں جوانی ہی نصیب نہیں ہوتی۔ شہروں میں تیزی سے جھونپڑپٹیوں کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آبادی کی اکثریت شہروں کے مہنگے کرائے کے مکان حاصل نہیں کر سکتی۔ ایسے میں فٹ پاتھوں کو بستر بنایا جاتا ہے جہاں اکثر امیر زادوں کی گاڑیاں انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل دیتی ہیں۔

دوسری طرف انتخابات سے قبل میڈیا پر جس ’معاشی ترقی‘ کا واویلا کیا جا رہا تھا وہ بیشتر صورتوں میں اعداد کی ہیرا پھیری کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ترقی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھی پچھلی پوری دہائی کی کم ترین سطح پر کھڑی ہے۔ لیکن غیرسرکاری ماہرین معیشت مودی سرکار کے جاری کردہ اعداد و شمار پر مسلسل سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر درست طریقے سے پیمائش کی جائے تو ہندوستان کی ترقی کی شرح سرکاری طور پر بتائی جانے والی شرح سے کم ہے۔ ماہرین کے مطابق ہندوستان میں ہونے والی یہ معاشی ترقی خاطر خواہ نیا روزگار پیدا کرنے سے قاصر رہی ہے اور خاص طور پر نوجوانوں میں یہ بڑے پیمانے پر مایوسی پھیلانے کا باعث بن رہی ہے ۔ یہ نوجوان ملک کی آبادی کا 80 فیصد بنتے ہیں جن کی بڑی تعداد آج عملاً بیروزگار ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت میں بیروزگاری کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف روزگار دینے کے نام پر جن پراجیکٹوں کو شروع کیا جا رہا ہے اُن کا مقصد روزگار دینے سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو مالی فائدہ پہنچانا ہے۔ مثال کے طور پر 2023ءمیں مودی حکومت نے الیکٹرانک چپس بنانے والی ایک کمپنی ’مائیکرون‘ سے معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں گجرات میں 2.75 بلین ڈالر کا ایک پلانٹ لگایا جائے گا۔ اس پلانٹ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تقریباً 20 ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی۔ تاہم اس پراجیکٹ کی ستر فیصد رقم حکومت ادا کرے گی۔ یعنی حکومت تقریباً ایک نوکری کی مد میں مائیکرون کو ایک لاکھ ڈالر ادا کرے گی۔

اسی طرح بھارتی حکومت غربت میں کمی کے نام پر مسلسل سفید جھوٹ بولتی رہی ہے۔ سرکاری ڈیٹا بیس کے مطابق بھارت میں سے غربت کا تقریباً خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ حکومت کے مطابق بارہ سال پہلے تک بھارت میں ہر 100 میں سے 12 افراد 1.90 ڈالر (پرچیزنگ پاور پیریٹی) یا اس سے کم روزانہ پر گزارا کیا کرتے تھے جبکہ یہ تعداد سکڑ کر اب 100 میں سے دو افراد ہو چکی ہے۔ مگر ورلڈ بینک کی جاری کردہ کثیر جہتی پاورٹی انڈیکس رپورٹ کو مدنظر رکھا جائے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے ایک تہائی سے زیادہ غریب لوگ جنوب ایشیا میں رہتے ہیں۔ اس تعداد میں سے 70 فیصد افراد کا تعلق صرف ہندوستان سے ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال اکتوبر میں جاری کیے گئے گلوبل ہنگر انڈیکس میں کُل 125 ممالک میں سے بھارت 111 ویں نمبر پر تھا۔ یعنی دنیا کے بھوکے ترین ممالک میں شامل تھا۔ اس انڈیکس کے مطابق 2015ءکے بعد سے بھارت میں بھوک کے خلاف پیش رفت تقریباً رُک ہی گئی ہے۔ عالمی اداروں کی یہ رپورٹیں بھی زمینی صورتحال کی بالکل درست یا حقیقی نشاندہی نہیں کرتی ہیں۔ لیکن انہیں ایک عمومی اشارے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح مودی کو ایک ناقابل شکست سیاستدان قرار دیا جائے۔ لیکن صرف یہ ہندو بنیاد پرست ہی نہیں بلکہ میڈیا، سماجیات اور اخلاقیات کے ان داتا بھی مودی کو بھگوان بنانے کی مہم میں پاگل ہوئے جا رہے تھے۔ جو دراصل بھارت کی حاوی دانش کی ثقافتی اور فکری زوال پذیری کی غمازی کرتا ہے۔ ہر طرف بظاہر مودی کا بول بالا ہونے کے باوجود بھی ان انتخابات میں اس کی پسپائی واضح کرتی ہے کہ سماجی سطح کے نیچے خاصی بے چینی اور غم و غصہ موجود ہے۔ علاوہ ازیں بھارتی سماج اور ریاست کو ہندو توا پر مبنی آمریت کے نرغے میں لانا بھی اس کے لئے اتنا آسان نہیں ہو گا۔

مودی سرکار کے خلاف پچھلے کئی سالوں سے ستمبر میں ہونے والی عام ہڑتالوں اور پھر کسانوں کی پے در پے تحریکوں نے بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت کیا ہے کہ طبقاتی جدوجہد ایک پسپائی کے باوجود نہ صرف زندہ ہے بلکہ بھڑک بھی سکتی ہے۔ اب لڑکھڑاتے اقتدار میں مودی زیادہ زہریلے اور شدید معاشی، سیاسی و سماجی حملے کرے گا جس کے خلاف محنت کش طبقے کا ردعمل غیرمعمولی بھی ہو سکتا ہے۔

لیکن اقتدار بی جی پی کا ہو یا کانگریس کے پاس ہو‘ پچھلی سات دہائیوں سے بھارتی عوام کا کوئی ایک بنیادی مسئلہ بھی حل نہیں ہو سکا ہے۔ اس وقت بھارت میں حالت یہ ہے کہ طبقاتی نابرابری اور امیر و غریب کے درمیان خلیج برطانوی نوآبادیاتی قبضے کے دور سے بھی کہیں زیادہ وسیع ہو چکی ہے۔ مودی دور کے اونچے گروتھ ریٹوں کے کم و بیش تمام ثمرات سرمایہ داروں (اور کسی قدر مڈل کلاس کی بالائی پرتوں) نے ہی سمیٹے ہیں۔ لیکن پہلے بھی ہر دورِ اقتدار میں عوام کی معاشی اور سماجی حالت پتلی ہی ہوتی گئی ہے۔ آج پاکستان اور دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح تمام مروجہ سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام عملاً ایک ہی ہے۔ ذات پات، قومیت، مذہب اور پاکستان دشمنی کی رجعتی سیاست سے ہی لوگوں کے حقیقی مسائل کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بائیں بازو کی اصلاح پسندی میں غرق کمیونسٹ پارٹیاں بھی استرداد کا شکار ہی ہوئی ہیں۔ ان پارٹیوں کی حالت یہ ہے کہ وہ سوشلزم اور کمیونزم کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتیں۔ ان کی قیادت نظام سے مصالحت کر چکی ہے اور اسی نظام کے اندر ان کی ساری سیاست قید ہے۔ مختلف ریاستوں میں وہ بورژوا سیاسی جماعتوں کیساتھ ہی مخلوط حکومت بنانے کے گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں۔ مودی سرکار کے اقتدار کے دوران ہوئی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتالوں کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ مزاحمتی یا انقلابی تحریک نہ چلا سکنا ان جماعتوں کی نظریاتی زوال پذیری کی نشاندہی کرتا ہے۔ ان کی سیاست دراصل وہی جمہوریت اور سیکولرزم کی نام نہا ترقی پسندی ہے جس کے پیچھے کوئی انقلابیت نہیں ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے انقلابی پروگرام کے بغیر یہ تاریخ کے کوڑے دان میں غرق ہو کر رہ جائیں گی۔ بلکہ اس سمت میں خاصی پیش رفت ہو بھی چکی ہے۔

گزشتہ انتخابات میں مودی کی جیت کے بعد کامریڈ لال خان نے لکھا تھا کہ ”انتخابات کے نتائج کسی مخصوص وقت میں سماج کی کیفیت کا پتا دے رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی ٹھہری ہوئی تصویر ہوتی ہے۔ آنے والے دنوں میں حالات و واقعات تیزی سے بدل کے مودی کی جیت سے زیادہ حیران کن صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔“ ان انتخابات میں بھارتی عوام نے نہ صرف بی جے پی بلکہ پوری دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ سرکاری دھونس، جبر اور پراپیگنڈے کی بھی حدود ہوتی ہیں اور محنت کشوں کے شعور کو یکسر مات نہیں دی جا سکتی۔

لیکن آنے والے عرصے میں گھائل مودی سرکار اور بی جے پی کی طرف سے حملے مزید شدت اختیار کریں گے۔ جس کے ردِ عمل میں خودرو تحریکیں ابھر سکتی ہیں اور مخصوص حالات میں انقلابی صورت حال تک پیدا کر سکتی ہیں۔ عالمی سرمایہ داری کا بحران جس نہج کو پہنچ رہا ہے وہاں ایک کے بعد دوسرے ملک میں ایسے حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ اس پورے خطے کو سرمایہ داری کی نہ ختم ہونے والی ذلت اور اذیت سے نکالنے کا کوئی امکان تب تک موجود نہیں جب تک آئی ٹی کے جدید ترین شعبوں سے لے کر فیکٹریوں، ملوں اور کھیتوں کھلیانوں تک محنت کشوں کی مخفی انقلابی طاقت کو منظم اور متحرک کر کے اس نظام کے خلاف صف آرا نہ کیا جائے۔ وگرنہ نیولبرل سرمایہ داری کی بنیاد پرست اور لبرل حکومتیں معاشرے کا بلادکار کرتی چلی جائیں گی۔