عروبہ ممتاز

بنگلہ دیش میں طلبہ کی حالیہ احتجاجی تحریک نے ملک کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ احتجاج سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نظام کے خلاف جون کے اوائل میں شروع ہوئے۔ یہ کوٹہ سسٹم سرکاری ملازمتوں میں مخصوص طبقات کو مراعات فراہم کرتا ہے۔ اس مسئلے کا جائزہ لینے کے لیے تحریک کے پیچھے کارفرما بنیادی عوامل کا احاطہ ضروری ہے۔

بنگلہ دیش میں کوٹہ نظام کا قیام نوکریوں میں پسماندہ اور محروم طبقات کی نمائندگی اور ترقی کے لیے کیا گیا تھا۔ جس کے تحت مختلف سماجی اور جغرافیائی گروہوں کو مخصوص تعداد میں سرکاری ملازمتیں اور تعلیمی مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ مثلاً 1971ء کی جنگ میں لڑنے یا ہلاک ہونے والے آزادی پسند افراد کے بچوں، خواتین، معذور افراد اور دور دراز پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے سرکاری نوکریوں میں مخصوص کوٹہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت 56 فیصد تک سرکاری ملازمتیں مذکورہ کوٹے کے تحت دی جاتی ہیں جبکہ باقی 44 فیصد تعیناتیاں میرٹ کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ مجموعی ملازمتوں میں سے 30 فیصد 1971ء کے آزادی پسندوں کے خاندانوں، 10 فیصد خواتین، 10 فیصد دور دراز پسماندہ علاقوں کے لوگوں، 5 فیصد نسلی اقلیتوں اور ایک فیصد جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے مخصوص ہیں (کل ملا کر یہ کوٹہ کم و بیش 56 فیصد بنتا ہے)۔

مارچ 2018ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ نے اس کوٹہ نظام کے خلاف ایک بڑی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ طلبہ کا مطالبہ تھا کہ سرکاری محکموں میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی جائیں اور کوٹہ نظام کا خاتمہ کیا جائے (یا اسے محدود کیا جائے)۔ یہ تحریک دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل گئی اور بے شمار طلبہ اس میں شامل ہو گئے۔ اس تحریک نے بنگلہ دیش کے تعلیمی نظام اور حکومتی پالیسیوں پر گہرے سوالات اٹھائے۔ کوٹہ نظام کی مخالفت کی وجہ اس کے بتائے گئے مقاصد کے برعکس اس کے نتیجے میں عملاً ناانصافی اور طبقاتی فرق کا بڑھنا ہے۔ معاشرتی عدم مساوات کا اصل سبب طبقاتی تفریق ہوتی ہے۔ کوٹہ نظام بظاہر تو مساوات کے فروغ کے لیے ہے مگر یہ اصل میں طبقاتی عدم مساوات کو مزید گہرا کرتا ہے کیونکہ بالادست اور بااثر طبقات کے لوگ (بالعموم برسراقتدار عوامی لیگ سے وابستہ افراد) اپنے معاشی و سیاسی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے سفارش اور رشوت وغیرہ کے طریقوں سے اس نظام کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یوں معاشرتی انصاف کی بجائے اس سسٹم کا زیادہ فائدہ مراعت یافتہ طبقات کو ہی پہنچتا ہے۔ چنانچہ یہ نظام مسائل کا کوئی معقول حل نہیں ہے۔ الٹا اسے محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے محروم طبقات کے کچھ افراد کو تو عارضی ریلیف ملتا ہے لیکن ایک طبقاتی معاشرے میں زیادہ فائدہ جو لوگ اٹھاتے ہیں وہ اکثر محروم پس منظر سے نہیں ہوتے۔ انہی وجوہات کی بنا پر نوجوانوں کے دباؤ کے تحت حکومت نے 2018ء میں آزادی پسندوں کے بچوں اور پوتے پوتیوں وغیرہ کا 30 فیصد کوٹہ منسوخ کر دیا تھا۔ لیکن 5 جون 2024ء کو ہائیکورٹ نے اسے پھر سے بحال کر دیا۔ جس کے بعد حالیہ تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک میں شامل طلبہ کا مطالبہ ہے کہ مروجہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے۔ اقلیتی اور معذور افراد کو شفاف بنیادوں پر نوکریوں میں مناسب حصہ دیا جائے۔ جبکہ پارلیمان کے ذریعے ایک نیا کوٹہ سسٹم رائج کیا جائے جس میں مخصوص نشستیں پانچ فیصد سے زیادہ نہ ہوں۔

طالبات جن کو رات نو بجے کے بعد ہاسٹل سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی وہ بھی ان رجعتی قوانین کو توڑتے ہوئے احتجاج میں شامل ہو رہی ہیں جس سے ہم صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دوسری طرف حکومت کے اقدامات انتہائی جابرانہ ہیں جن میں سات طلبہ اب تک جاں بحق ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ کی جانب سے مظاہرین کو غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ عام طور پر سرحدی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرنے والی بارڈر گارڈ فورس کے اراکین کو تحریک کو کچلنے کے لیے پانچ اضلاع میں بھیجا گیا ہے۔ ان سارے عوامل نے طلبہ کے غم و غصے کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔

حالیہ احتجاجوں میں سوشل میڈیا کا کرداربھی اہم رہا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے مظاہروں کو منظم اور متحرک کرنے اور آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز نے طلبہ کے لیے ورچوئل میٹنگ پوائنٹس کا کردار ادا کیا ہے اور معلومات کی تیز اور موثر ترسیل کو یقینی بنایا ہے۔ احتجاجوں کے وقت اور مقام کے بارے میں معلومات کے علاوہ بھی کوٹہ سسٹم سے متعلق انفرادی کہانیاں اور شکایات سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہیں۔ ان ذرائع پر شائع ہونے والی ویڈیوز اور تصاویر نے احتجاجی سرگرمیوں، پولیس کے جبر اور نوجوانوں کی شرکت کے پیمانے کے زبردست ثبوت فراہم کیے ہیں۔ جس نے عوامی رائے عامہ کو احتجاجی طلبہ کے حق میں ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس عمل نے مظاہرین کو روایتی میڈیا چینلوں اور ابلاغ کے دوسرے ایسے ذرائع کو نظرانداز کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جنہیں اکثر اوقات حکومتی سنسرشپ، کنٹرول اور تعصب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔

اس احتجاجی تحریک نے واضح کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی نام نہاد ترقی کتنی کھوکھلی اور جعلی ہے اور وہاں کے نوجوانوں میں موجود بے چینی ایک بڑے سماجی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ مسئلہ محض کوٹہ نظام تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تعلیم، روزگار اور معاشرتی انصاف کے وسیع تر مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کی آبادی کا تقریباً 65 فیصد حصہ 35 سال سے کم عمر کے بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے بیشتر نوجوان بہتر مواقع اور مساوی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے مطابق بنگلہ دیش میں ہر سال پانچ لاکھ سے زائد طلبہ گریجویشن کرتے ہیں جن میں سے صرف دس فیصد کو مناسب ملازمتیں مل پاتی ہیں۔ جبکہ ملک کے ادارہ برائے ڈویلپمنٹ سٹڈیز کے مطابق 66 فیصد گریجویٹس بیروزگار رہ جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں روزگار کی فراہمی کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

2018ء میں اسی مسئلے کے گرد ہونے والے ملک گیر احتجاجی مظاہروں میں دسیوں لاکھ طلبہ نے حصہ لیا تھا۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ نوجوانوں میں اپنے مستقبل کو لے کے کتنی غیر یقینی پھیلی ہوئی ہے۔ یہ احتجاجی مظاہرے نہ صرف دارالحکومت بلکہ چٹاگانگ، راجشاہی اور کھلنا جیسے بڑے شہروں میں بھی دیکھے گئے تھے۔ اس تحریک نے عالمی میڈیا کی توجہ بھی حاصل کی اور بنگلہ دیش کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔ یاد رہے کہ اسی سال دو طلبہ کی ٹریفک حادثے میں ہلاکت کے بعد روڈ سیفٹی کے معاملے پر بھی نوجوانوں کے بڑے احتجاج ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کے نوجوانوں کی ان احتجاجی تحریکوں نے ملک میں سیاسی شعور کو بھی جھنجوڑا ہے۔

ماضی میں احتجاجی تحریک کے بعد شیخ حسینہ نے کوٹہ نظام کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس نظام پر نظرثانی کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ تاہم طلبہ کے مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے احتجاج جاری رہے۔ جولائی 2018ء میں حکومت نے اعلان کیا کہ گریڈ 9 اور اس سے اوپر کی تمام سرکاری ملازمتیں اب میرٹ کی بنیاد پر فراہم کی جائیں گی جبکہ اس سے نیچے کی ملازمتوں میں محدود کوٹہ باقی رہے گا۔ یہ اقدامات احتجاجی طلبہ کی مکمل تسلی نہیں کر سکے تاہم احتجاج وقتی طور پر تھم گئے۔ بنگلہ دیش کے تعلیم اور سرکاری نوکریوں وغیرہ کے نظام میں عدم مساوات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ملک کے دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان تعلیمی معیار میں بہت بڑا فرق ہے۔ شہری علاقوں کے طلبہ کو نسبتاً بہتر تعلیمی سہولیات، اساتذہ اور وسائل میسر ہیں۔ جبکہ دیہی علاقوں کے طلبہ ان سے محروم ہیں۔ کوٹہ نظام کا مقصد اس مسئلے کو حل کرنا تھا لیکن اس نے مسائل کو مزید پیچیدہ ہی بنایا ہے۔

ان مسائل کے حل کے لیے کوٹہ سسٹم کی بجائے ضروری ہے کہ سب لوگوں کو تعلیم و روزگار کے مواقع مل سکیں اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ ہو۔ جس کے لیے لازم ہے کہ معیاری تعلیم کو بالکل مفت اور عام کیا جائے اور روزگار کے مواقع کو کئی گنا بڑھایا جائے۔ اس کے لیے پھر ضروری ہے کہ سارے معاشرتی اور معاشی ڈھانچے کو انقلابی بنیادوں پر تبدیل کیا جائے۔ اس سلسلے میں کوٹہ نظام کے خلاف طلبہ کی حالیہ تحریک ایک اہم پیش رفت ہے جس کے ذریعے سماجی تبدیلی کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس جدوجہد کا مقصد نہ صرف کوٹہ نظام کا خاتمہ ہونا چاہئے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک سوشلسٹ سماج کا قیام ہونا چاہئے جہاں تمام افراد کے لیے بہتر زندگی کے وسائل وافر موجود ہوں اور یوں طبقات کا ہی خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ طلبہ تحریک اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نوجوان معاشرتی انصاف اور مساوات کے حصول کے لیے پرعزم ہیں اور ایک بہتر مستقبل کی اجتماعی تلاش کر رہے ہیں۔

آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ سماجی و سیاسی بیداری کی مہمات جاری رہیں جن کے ذریعے محنت کش عوام کے حقیقی مسائل اور ان کے حل کو اجاگر کیا جائے۔ بنگلہ دیش کے محنت کش طبقات اور طلبہ کو متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں ایسی تحریکیں اٹھ رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کے طلبہ کی تحریک بھی اس عالمی جدوجہد کا حصہ ہے۔ جو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک انقلابی پیغام کی حامل ہے اور ابھرتی ہوئی طبقاتی جدوجہد پر ہمارا یقین مستحکم کرتی ہے۔