آصف رشید

سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اپنی شدت اور وسعت میں مسلسل اضافے کے ساتھ زیادہ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ایک کثیر الجہتی بحران ہے جو معاشی (افراط زر، گراوٹ، قرض)، ماحولیاتی (موسمیاتی تبدیلیاں، وبائیں) اور سامراجی جیوپولیٹیکل مفادات کے ٹکراؤ (جنگیں، عالمی مسابقت اور تقسیم) کی شکل میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس نظام کو ایک نظریاتی بحران کا سامنا ہے۔ ایک مسلسل عدم استحکام ہے۔ معیشت سنبھل نہیں پا رہی۔ سیاست دائیں اور بائیں بازو کے درمیان جھول رہی ہے۔ ماحولیاتی تباہی اس کرۂ ارض پر زندگی کو معدومی کے خطرے سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ 2008ء کے مالیاتی انہدام نے امریکہ کے معاشی، سیاسی اور سفارتی غلبے کو خاصا کمزور کر دیا ہے۔ بالخصوص عراق اور افغانستان میں شکستوں کے بعد امریکی بالادستی کمزور ہونے سے افریقہ، مشرق وسطیٰ، جنوب ایشیا اور لاطینی امریکہ میں چین اور روس سمیت نئی علاقائی سامراجی طاقتوں کی مداخلت نے نئے تضادات کو جنم دیا ہے۔ آئیے اس منظر نامے کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

مشکلات سے دوچار عالمی معیشت

پچھلے ہفتے ورلڈ بینک نے عالمی معیشت کے حوالے سے اپنا تناظر پیش کیا ہے۔ جس میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت پچھلے تین سال کی نسبت 2024ء میں مستحکم ہونے جا رہی ہے۔ معیشت 2023ء میں ریسیشن سے بچ گئی ہے اور اب یہ ایک ‘سافٹ لینڈنگ’ کی طرف جا رہی ہے۔ عالمی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 2.6 فیصد رہنے کاامکان ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ عالمی جی ڈی پی مزید سکڑنے سے بچ گیا ہے لیکن بالخصوص مغرب میں بیشتر بڑی معیشتیں ابھی بھی جمود کا شکار ہیں اور عالمی معاشی شرح نمو وبا سے پہلے کی اوسط 3.1 فیصد کی سطح سے ابھی بھی بہت کم ہے۔ یہ ساری شرح نمو بھی چین، بھارت، روس اور ملائشیا وغیرہ کی معاشی نمو کی بنیاد پر حاصل کی گئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں ابھی بھی نسبتاً جمود کا شکار ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں 2019ء کی سطح سے مزید نیچے جا چکی ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی آمدن کا فرق بڑھنے کی طرف گیا ہے۔

جب ہم بڑی معیشتوں کا گہرائی میں جائزہ لیں تو نام نہاد ‘سافٹ لینڈنگ’ ایک مذاق لگتی ہے۔ جی 7 ممالک میں سب سے بہتر کارگردگی امریکی معیشت کی ہے۔ کورونا بحران اور 2022ء کے ریسیشن کے بعد گزشتہ سال معیشت کساد بازاری سے بچ گئی ہے (یورپ کو تیل اور گیس کی برآمدات، انفراسٹرکچر منصوبے، گھریلو صارفین کی جمع شدہ بچتوں کی کھپت وغیرہ۔ یہ وہ عوامل تھے جس کے باعث امریکہ کی معیشت نے نمو حاصل کی)۔ لیکن 2024ء کی پہلی سہ ماہی میں پھر معیشت سست روی کا شکار رہی ہے۔

یورپی یونین کی تقریباً تمام اہم معیشتیں 2023ء میں سکڑاؤ یا جمود کا شکار رہی ہیں۔ جاپان اور کینیڈا کی معیشتیں بھی جمود سے دوچار ہوئی ہیں۔ یہی صورت حال آسڑیلیا کی بھی ہے۔ جی 7 میں بدترین صورتحال برطانیہ کی رہی ہے۔ دنیا میں سب سے بہتر صورتحال نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتوں کی رہی جن میں بھارت 6 فیصد (جو اعداد و شمار قابل بھروسہ نہیں)، چین 5 فیصداور روس کی شرح نمو 3 فیصد رہی۔ روس کے معاملے میں معاشی نمو کے پیچھے زیادہ تر جنگی معیشت کارفرما ہے۔ برازیل ایک فیصدسے نیچے اور جنوبی افریقہ معاشی گراوٹ کا شکار ہے۔ باقی ماندہ ممالک کی صورتحال مخدوش ہی رہی ہے۔ اس سب کے باوجود کوئی بھی معیشت 2008ء اور 2019ء کی سطح پر بحال نہیں ہو سکی۔ بلکہ ایک مسلسل زوال ہے جس میں عارضی پڑاؤ کے کچھ مختصر دورانئے آتے ہیں لیکن عمومی رجحان تنزلی کی طرف ہی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں پیداواری عمل مسلسل زوال کی کیفیت میں ہے۔ افراط زر میں بھی کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ کورونا وباکے بعد بڑی معیشتوں میں قیمتوں میں اوسطاً 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں افراط زر کو 2 فیصد تک نیچے لانے کے اہداف پورے نہیں ہو پائے اور یہ ہدف اب 2026ء میں پورا ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یورپی سنٹرل بینک نے شرح سود میں 0.25 فیصد کمی کی ہے جبکہ امریکہ میں شرح سود کو 5.5 فیصد کی سطح پر برقرار رکھا گیا ہے۔ جس سے مہنگے قرضوں کے باعث نئی سرمایہ کاری مشکل ہو گی اور بہت سی کمپنیاں اور ممالک سود کی ادائیگی اور نئے قرضوں کے حصول میں مشکلات کا شکار رہیں گے۔

امریکہ اور یورپ میں شرح نمو کے سست ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو کارپوریٹ منافعوں میں کمی اور دوسرابلند شرح سود جس کے باعث گھریلو صارفین اور غیر منافع بخش کمپنیوں کو قرض لینے میں دشواری ہو رہی ہے جو آخری تجزیے میں دیوالیوں کے ایک سلسلے کو جنم دے سکتا ہے۔

امریکہ میں نام نہاد شاندار سات سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے بہت چرچے ہیں۔ اس وقت دس بڑی کمپنیوں کی مارکیٹ ویلیو کل عالمی سٹاک مارکیٹ کا 13 فیصد ہے جن کا مجموعی حجم 12 ہزار ارب ڈالر ہے۔ یہ 2000ء کے ڈاٹ کام ببل جو کہ 9.9 فیصد تھا سے بہت اوپر ہے۔ ان شاندار سات (ٹی ایلفا بیٹ، ایمازون، ایپل، میٹا، مائیکروسافٹ، اینویڈیا اور ٹیسلا) کی پچھلے سال کی کمائی میں 58 فیصد اضافہ ہوا ہے۔جبکہ ایس اینڈ پی 500 انڈیکس کی باقی ماندہ 493 کمپنیوں کی کمائی میں دو فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ الیکٹرک کاروں اور مصنوعی ذہانت کو لے کر ایک خبط یا بخار موجود ہے جس کا انحصار امریکہ میں شرح سود میں بڑی کمی پر تھا جو کہ نہیں ہو سکی۔ امریکہ میں پیداواری سیکٹر اور غیر پیداواری سیکٹر کا انحصار سستے قرضوں پر ہے جو کہ فیڈل ریزرو (مرکزی بینک) کی نئی پالیسی کے تحت شرح سود میں کوئی کمی نہ ہونے کی صورت میں قرض خواہوں کے لیے نئی مشکلات لے کر آ رہا ہے۔

زیادہ سنگین مسئلہ عالمی جنوب کے ممالک کا ہے۔ عالمی قرضوں میں پچھلے سال 15 ہزار ارب ڈالر کے اضافے کے ساتھ اب مجموعی عالمی قرضہ 313 ہزار ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے (ایک اندازہ۔ باقی اندازے اس سے زیادہ کے ہو سکتے ہیں)۔ سو کے قریب ممالک قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے کٹوتیوں کی پالیساں نافذ کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جس سے پولرائزیشن اور طبقاتی کشمکش میں شدت آئے گی۔ یہ صورتحال ہم دیگر کئی دوسرے ممالک سمیت لبنان، سری لنکا، سوڈان اور حالیہ دنوں میں کینیا میں دیکھتے آ رہے ہیں۔

جمود کا شکار منڈیاں بیرونی تجارت کے ذریعے بھی اب اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں۔ کورونا وبا میں تجارتی گراوٹ کے بعد 2023ء میں بھی عالمی تجارت گراوٹ کا شکار رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے چین کے خلاف نئی تجارتی پابندیوں کی ایک یلغار شروع کر دی ہے۔ جس سے چین کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہا لیکن ان پابندیوں کی قیمت امریکی اور یورپی صارفین کو مہنگائی کی صورت میں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ 2008ء کے بعد سے عالمی تجارت اور سرمایہ کاری کے تناظر میں گلوبلائزیشن ایک عمومی زوال کا شکار چلی آ رہی ہے۔

شرح منافع کا بحران

کارل مارکس نے ‘سرمایہ ’ میں لکھا تھاکہ‘‘ عمومی شرح منافع میں گراوٹ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کا ایک مخصوص اظہار ہوتا ہے۔ یہ محنت کی سماجی پیداواریت (Productivity) کے ارتقا کی غمازی کرتا ہے۔ اس کے یہ معانی نہیں ہیں کہ عارضی طور پر شرح منافع کی گراوٹ کی دوسری وجوہات نہیں ہو سکتیں۔ لیکن اگر ہم سرمایہ دارانہ طریقہ پیداوار کی فطرت کے حوالے سے جائزہ لیں تو ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ارتقا میں قدر زائد کی عمومی شرح’ منافع کی گراوٹ میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ چونکہ زندہ باروزگار محنت کی بڑی تعداداپنی پیدا کردہ مادی محنت (مشینری و ٹیکنالوجی) کے مقابلے میں مسلسل تنزلی کا شکار ہوتی ہے… زندہ محنت کا … حصہ مجموعی سرمائے کی قدر کے مقابلے میں لازمی طور پر مسلسل گرتا چلا جاتا ہے۔ چونکہ قدر زائد سے مجموعی لگائے گئے سرمائے کی نسبت ہی شرح منافع بناتی ہے اس لیے یہ شرح گر جاتی ہے۔’’ (سرمایہ، جلد3، باب 13)

شرح منافع میں گراوٹ کا رحجان کئی طرح کے مزید مسائل یا تضادات کو جنم دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ذرائع پیداوار کی ترقی اور بڑھوتری اور نئے روزگار کی تشکیل کے لیے درکار نئی سرمایہ کاری بھی منافع سے حاصل ہوتی ہے۔ قرضوں کی واپسی کا عمل بھی شرح منافع کی گراوٹ کے باعث مشکل ہوتا چلا جاتا ہے اور کمپنیوں اور ملکوں کے قرضوں کا حجم بڑھنے سے دیوالیے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح دولت کے ارتکاز اور سرمایہ دار طبقے کے ارتقا کے لیے بھی منافعے درکار ہوتے ہیں۔

شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لیے سرمایہ داروں کو قدر زائد میں مسلسل اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ جس کے لیے اجرتوں میں کمی کی جاتی ہے، اوقات کا ر بڑھائے جاتے ہیں، پیداواری عمل کو تیز کیا جاتا ہے اور مزید جدید مشینری اور ٹیکنالوجی متعارف کروائی جاتی ہے (یہ آخری عامل لمبے عرصے میں پھر شرح منافع کو گرانے کی طرف جاتا ہے)۔ اس کے علاوہ پیداوار بھی دوسرے علاقوں اور خطوں میں منتقل کی جاتی ہے جہاں اجرتیں کم ہوں۔ معیشت کے زیادہ منافع بخش شعبوں کی نجکاری کر کے انہیں سرمایہ داروں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ ان طریقوں سے وقتی طور پر شرح منافع کو بحال کیا جا سکتاہے۔ جیسے کہ 1980ء کے بعد نیو لبرل معاشی پالیسوں کے ذریعے کسی حد تک شرح منافع کو بحال کیا گیا تھا۔ لیکن لمبے عرصے میں سرمایہ داری کے خمیر میں موجود تضادات کے باعث شرح منافع میں گراوٹ کا رحجان برقرار رہتاہے۔ اسی سے مختلف شکلوں میں پھر زائد پیداوار کا بحران بھی جنم لیتا ہے۔ یہ عمل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ پیداواری عمل میں شرح منافع کی گراوٹ غیر پیداواری شعبے (سٹاک مارکیٹ، رئیل اسٹیٹ، گورنمنٹ بانڈز وغیرہ) میں سٹے بازی، مالیاتی ہیر پھیر اور کرپٹو کرنسی جیسے بلبلے بناتی ہے۔ جس میں قیمتیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اصل قدر سے کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہیں۔ جو پھر کریش اور مالیاتی بحرانوں کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے۔ اس وقت بھی یورپ اور امریکہ میں یہ رحجان پھر 2008ء کے کریش کی شکل میں دوبارہ پھٹ کر سرمایہ داری کو ایک اور بڑے مالیاتی بحران کی طرف لے کر جا سکتا ہے جو ناگزیر طور پر معیشت کی گہری زوال پذیری پر منتج ہو گا۔

گزشتہ دہائیوں میں شرح منافع کے بحران کا ایک اظہار منڈیوں کے تیز پھیلاؤ اور گلوبلائزیشن کی صورت میں نظر آیا تھا۔ جس میں منافعوں میں اضافے کے لیے سستی لیبر والے ممالک میں پیداوار کو منتقل کیا گیا۔ لیکن آج امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی پابندیوں اور تحفظاتی پالیسیوں کی شکل میں اس کا انت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس سے عالمی سطح پر تناؤ اور تضادات بھڑک رہے ہیں۔ نئی جنگوں کے امکانات بن رہے ہیں۔ وہ تمام تر پالیسیاں جو ماضی میں بحران سے نکلنے کے لیے اپنائی گئی تھیں آج اپنے الٹ میں بدل کر نئے مسائل کو جنم دے رہی ہیں۔

سرمایہ داری اپنے ماضی کے تمام آپشنز استعمال کر چکی ہے۔ اس کی حدود میں شرح منافع کے بحران کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے بحران کا ہر پہلو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نظام پیداواری قوتوں کو ترقی دینے اور انسانیت کو آگے بڑھانے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔ بلکہ دولت کے دو بنیادی ماخذوں فطرت اور انسانیت کی بے نظیر تباہی کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام پوری رفتار کے ساتھ اور کسی بریک کے بغیر انسانیت کو بربریت اور خاتمے کی جانب دھکیل رہا ہے۔ موجودہ نظام میں اس بربادی کو روکنا یا واپس لانا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ اس نظام کی خصلت میں شرح منافع کی بحالی کی تباہ کن کوششوں کے برخلاف جانے کی صلاحیت نہیں ہے۔

سامراجی تضادات اور تناؤ

موجودہ عالمی بحران کا ایک اہم پہلو سامراجی تناؤ اور تضادات کی بڑھتی ہوئی شدت ہے۔ بڑی سامراجی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ، علاقائی جنگوں اور نیم نوآبادیاتی ممالک کے خلاف سامراجی جارحیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کی کمزوری اور چین کے معاشی اور عسکری اثر و رسوخ میں اضافہ، نئی منڈیوں اور خطوں پر اپنی بالادستی اور لوٹ مار میں حصہ داری پر عالمی تنازعہ ہے۔ عراق اور افغانستان میں امریکہ کی شکست نے امریکی بالادستی کو کمزور کیا۔ جس کی وجہ سے چین اور دوسری چھوٹی یا ابھرتی ہوئی سامراجی طاقتوں کی مداخلت کی گنجائش بڑھ گئی ہے۔ یوکرائن جنگ، افریقی ساحلی ممالک میں فوجی بغاوتیں اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ننگی جارحیت اسی عمل کے شدید ترین اظہار ہیں۔

یوکرائن میں روس سوویت یونین کے انہدام کے بعد کھو جانے والے علاقے اور اثر و رسوخ دوبارہ حاصل کرناچاہتا ہے جبکہ نیٹو ممالک امریکہ کی قیادت میں اپنے سامراجی توسیع پسندانہ عزائم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ امریکہ کی روس کو کمزور کرنے کی پالیسی زیادہ کامیاب نظر نہیں آتی۔ اسے یورپ کے متبادل چین کی شکل میں اپنا تجارتی اور سامراجی عزائم کا پارٹنر مل چکا ہے جبکہ یوکرائن امریکی و یورپی جنگی امداد پر منحصر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں برباد ہو رہاہے۔ اس تنازعے کا فوری حل فی الحال ممکن نظر نہیں آ رہا۔

افریقہ کے ساحلی ممالک میں فرانسیسی اور امریکی سامراج کی کٹھ پتلی حکومتوں کے خلاف بغاوتوں کا ایک سلسلہ جاری ہے جن میں گنی، برکینا فاسو، مالی، نائیجر، گبون، مرکزی افریقی ریپبلک اور سوڈان وغیرہ شامل ہیں۔ یہ مغربی سامراج پر ایک کاری ضرب ہے جو صدیوں سے اس خطے کے معدنی وسائل کی لوٹ مار میں ملوث ہے۔ لیکن یہ نئی فوجی حکومتیں مغربی سامراج کے مقابلے میں اب روس اور چین کی طرف جھکاؤ اختیار کر رہی ہیں۔ روس اس خطے میں اپنے پرائیویٹ فوجی گروہوں مثلاً واگنر گروپ کے ذریعے مداخلت بڑھا رہا ہے۔ یہ گروہ نئی افریقی حکومتوں کے ساتھ نئے کاروباری اتحاد قائم کر رہے ہیں۔ چین بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر معاشی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے کافی پیش رفت کر رہا ہے۔ افریقہ کے ساحلی خطے میں چین اور روس کا کردار کسی ترقی پسند متبادل کی بجائے اپنے تذویراتی اور کاروباری مفادات کا حامل ہے۔ افریقی محنت کشوں کی نوآبادیاتی و سامراجی جبر کے خلاف ابھرنے والی یہ بغاوتیں انقلابی سوشلسٹ پروگرام سے لیس ہو کر ہی دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے جدوجہد کے نئے راستوں کا تعین کر سکتی ہیں۔

عالمی بالادستی کی کشمکش میں چین اور امریکہ بڑے حریف ہیں۔ معاشی میدان میں چین نے امریکہ کی بالادستی کو کافی کمزور کیا ہے۔ چین اس وقت یورپی یونین، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں چین امریکہ کو پچھاڑ رہا ہے۔ برکس ممالک کے ساتھ تجارتی تعاون، بیلٹ اینڈ روڈ اور دیگر انفراسٹرکچر کے عالمی منصوبوں میں چین دیو ہیکل سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ نئے تجارتی معاہدے ہو رہے ہیں۔ بندر گاہیں بن رہی ہیں اور چین ملک سے باہر نئے فوجی اڈے تعمیر کر رہا ہے۔ چین کی یہ پیش رفت امریکہ کو زچ کر رہی ہے جس سے نئے تنازعات ابھر رہے ہیں۔ اس عمل میں نئی صف بندیاں بھی ہوں گی اور پراکسی جنگیں بھی شدت اختیار کریں گی۔ جب تک سرمایہ داری رہے گی ان سامراجی تضادات اور بحرانوں میں کمی واقع ہونے والی نہیں ہے۔ محنت کش طبقے کی اٹھان اور بڑی فتوحات ہی اس عالمی منظر نامے کو بدل سکتی ہیں۔

ماحولیاتی تباہی اور سرمایہ دارانہ منافقت

2023ء میں پہلی دفعہ زمین کا اوسط درجہ حرارت (وقتی طور پر) دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کی حد کو پار کر گیاہے۔ دنیا کے 90 فیصد سمندر گرمی کی شدید لہر کی لپیٹ میں ہیں۔ انٹارکٹیکا میں برف بہت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس سال برف کی تہہ میں تاریخی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پچھلا سال تاریخ کا گرم ترین سال گزرا ہے اور گزشتہ مئی معلوم تاریخ کا گرم ترین مہینہ تھا۔ نیشنل سینٹر فار انوائیرمینٹل انفارمیشن (امریکہ) کے مطابق 2024ء تاریخ کا گرم ترین سال ہو گا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ (جو کہ گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی وجہ ہے) کے اخراج کے موجودہ رحجان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زمین کی سطح کا اوسط درجہ حرارت 2015ء کی پیرس ماحولیاتی کانفرنس میں رکھے گئے ہدف 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کو ایک دہائی میں کراس کر جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی سیکرٹری سائمن سٹیئل کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اس اخراج کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو درجہ حرارت 2.7 ڈگری اضافے کی حد عبور کر جائے گا۔

اس کا حل کیا ہے؟

گزشتہ ماحولیاتی کانفرنس (COP28) میں بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کنٹرول کر نے یا فضا میں سے اس کے واپس اخراج کے طریقوں پر باتیں ہو ئی ہیں۔ فاسل فیول کے استعمال کو نام نہاد گرین انرجی (ہوا، سولر، پن بجلی) سے بدلنے کے لیے ہر سال عالمی ماحولیاتی کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ عالمی پیمانے پر گرین انرجی میں سرمایہ کاری ناکافی ہے کیونکہ فوسل فیول کی پیداوار کو گرین انرجی اتنی تیزی سے رپلیس نہیں کر پا رہی۔ قابل تجدید انرجی کی عالمی ایجنسی کے اندازے کے مطابق 2030ء تک ہر سال ایک ہزار گیگا واٹ قابل تجدید بجلی عالمی سطح پر بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن عالمی سطح پر یہ منصوبے اس کا ایک تہائی بھی پیدا نہیں کر رہے ہیں اور اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہر سال 9 ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے جو کہ ابھی محض 1.3 ہزار ارب ڈالر ہے۔ امیر ممالک بھی اس کے لیے درکار فنڈز مہیا نہیں کر رہے۔ امیر حکومتوں نے 2022ء میں صرف 83 ارب ڈالر ہی دئیے جبکہ پرائیویٹ ماحولیاتی فنانس نے صرف 21.9 ارب ڈالر دئیے۔

حکومتیں زیادہ زور اس بات پر دے رہی ہیں کہ پرائیویٹ سرمایہ کار قابل تجدید انرجی میں سرمایہ کاری کریں۔ لیکن پرائیویٹ سرمایہ کاری وہاں پر ہو گی جہاں منافع ہو گا۔ منافع یہاں بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ترقی یافتہ اٹھارہ ممالک میں 2000ء سے 2015ء تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اوسط 36 فیصد کمی ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ پھر معاشی سست روی ہے۔

منصوبہ بندی سے عاری منڈیوں میں بے ہنگم پیداوار کی وجہ سے سولر پینل بنانے والی کمپنیوں کے منافعے سکڑ رہے ہیں۔ یہ بھی سرمایہ داری کا تضاد ہے۔ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند عالمی معیشت میں ہی منافع خوری اور معاشی انارکی کے عناصر کو ختم کر کے ماحول دوست انوسٹمنٹ کے ذریعے فاسل فیول انڈسٹری کو بند کیا جا سکتا ہے۔ اب اس کرۂ ارض پر زندگی کی بقا انسانیت کے سوشلسٹ مستقبل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جس کی تیاری اور جدوجہد آج کے عہد کی اولین ذمہ داری ہے۔

سیاسی پولرائزیشن اور محنت کش طبقہ

سرمایہ داری کے بحران نے پوری دنیا میں سماجی اور سیاسی پولرائزیشن کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے جس سے سماج تقسیم اور تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بیشتر ممالک میں اس کا سیاسی اظہار انتہائی دائیں بازو کی نیم فسطائی قوتوں کے ابھار کی صورت میں ہو رہا ہے۔ لبرل دایاں بازو اور اصلاح پسند بایاں بازو ماضی قریب میں انتہائی جارحانہ کٹوتیوں کی پالیسوں پر کاربند رہنے کی وجہ سے بری طرح مسترد ہو رہے ہیں۔ تمام مروجہ بورژوا پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔ نئے رحجانات اقتدار میں آ رہے ہیں۔ تیز رفتار تبدیلیاں جاری ہیں۔ حکومتیں گر رہی ہیں۔ریاستیں داخلی تقسیم و بحران کا شکار ہیں۔

انتہائی دایاں بازو فی الوقت خود کو ایک جبر کے ساتھ سماج اور ریاست پر مسلط کرنے سے عاری نظر آتا ہے۔ لیکن محنت کشوں کے لیے ایک چتاونی یا وارننگ ضرور ہے۔ بحران اتنا گہرا ہے کہ مستحکم اقتدار قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ فی الوقت یہ پاپولسٹ یا انتہائی دایاں بازو ماضی کے بر عکس محنت کش طبقے کے خلاف کھلم کھلا لڑائی کی بجائے بورژوا جمہوری طریقہ کار کے ذریعے کا م کرتا نظر آ رہا ہے۔ اصلاح پسند قیادتیں اس دائیں بازو کے ابھار کو بڑھا چڑھا کر اس لئے بھی پیش کرتی ہیں کہ لبرل بورژوازی کے ساتھ اپنی مصالحت کی روش کو جواز دے سکیں اور محنت کشوں کے سامنے خود کو ایک کمتر برائی کے طور پر قابل قبول بنا سکیں۔ یہ طبقاتی مفاہمت اور غداری ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی پیش رفت محنت کش طبقے کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لیکن دائیں بازو کی یہ پیش قدمی سماج کو انقلابی بنیادوں پر تقسیم بھی کرتی ہے۔ یہ عوام کی زیادہ باشعور پرتوں میں موجودہ نظام کے استرداد، نئے سیاسی امکانات کی تشکیل اور تحریک کی تنظیم اور تحریک میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

2023ء میں محنت کش طبقے کی زیادہ سنجیدہ تحریکیں بھی سامنے آئی ہیں۔ امریکہ میں آٹو ورکرز کی کامیاب ہڑتال کے ساتھ پچھلے 50 سالوں میں ہڑتالوں کا سب سے بڑا سلسلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ برطانیہ میں شعبہ صحت، اساتذہ اور ریل کے محنت کشوں کی مسلسل تحریک رہی ہے۔ جرمنی میں ریلوے مزدوروں کی طویل ترین ہڑتال ہوئی ہے۔ فرانس میں پنشن اصلاحات کے خلاف تحریک اور کسانوں کے احتجاج جاری ہیں۔ پورے لاطینی امریکہ میں محنت کش طبقے کا ایک نیا ابھار ہے۔ افریقہ میں نوآبادیاتی جبر کے خلاف بغاوتیں ہو رہی ہیں۔پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے عوام نے ایک سال کی جرات مندانہ جدوجہد کے بعد سستی بجلی کا حق چھینا ہے۔ دیگر کئی ایک خطوں میں قومی آزادی کی تحریکیں پرزور انداز میں جاری ہیں۔ حالیہ دنوں میں سب سے شاندار تحریک فلسطین پر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف امریکہ کے طلبہ سمیت پوری دنیا میں احتجاجی مظاہروں کی شکل میں سامنے آئی ہے جس نے صیہونیت پر کاری ضرب لگا کر صیہونی ریاست کو عالمی سطح پر مزید تنہا اور مسترد کر دیا ہے۔ یہ ایک وسیع تر سامراج مخالف تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے۔

اس نظام کے بحران اور بربادی کے ساتھ طبقاتی جدوجہد عالمی پیمانے پر مزید تیز ہو گی۔ جس میں محنت کشوں کی نئی ہڑتالیں، احتجاج اور بار بار ابھرنے والی بغاوتیں شامل ہوں گی۔ یہ سلسلہ وقتی پسپائیوں، کٹھنائیوں، شکستوں، فتوحات اور پیش رفتوں کے ساتھ دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ جس میں انقلابی متبادل کی تیاری کے سازگار حالات میسر آئیں گے۔ اس سارے عمل میں عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ انقلابی سوشلسٹ پروگرام اور حالات و واقعات سے مطابقت رکھنے والے طریقہ کار اور لائحہ عمل کے ساتھ دوررس اور صبر آزما مداخلت ہی سرمایہ داری کی ظلمتوں سے نسل انسان کی نجات کی ضامن ہو گی۔