بابر پطرس

آج کرہ ارض کے کم و بیش ہر ایک ملک اور خطے کا محنت کش‘ معاشی اور سماجی حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہر طرف انتشار اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔ اس نظام میں مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ حال محض سانسوں کو بحال رکھنے کا سامان ہے اور یہ ”عیاشی“ بھی کسی بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے تک میسر ہوتی ہے۔ اس کے بعد تذلیل اور بے بسی کا طویل اور اذیت ناک سفر شروع ہوتا ہے جو موت کے ساتھ ہی انجام کو پہنچتا ہے۔ مشرق وسطیٰ جل رہا ہے۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں عوامی بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ امریکہ اپنے معاشی زوال کے سفر آغاز کر چکا ہے۔ یورپ میں محنت کشوں کو دستیاب سہولیات پر کٹوتیوں کا سامنا ہے۔ ہڑتالیں اور احتجاج ہیں۔ برطانیہ ایسے مثالی سمجھے جانے والے ملک نسلی فسادات کی لپیٹ میں ہیں۔ ضروری نہیں کہ احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں محض معاشی تنگ دستی کی بنیاد پر ہی رونما ہوں۔ سماج میں موجود کوئی بھی ناانصافی ان کی فوری وجہ بن سکتی ہے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ وہ ناانصافی اس متروک ہو چکے نظام سرمایہ و زر کے بطن سے ہی جنم لیتی ہے اور پہلے سے جاری عمل کا تسلسل ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان، کشمیر، بھارت اور بنگلہ دیش (سمیت بیشتر ممالک) میں ابھرنے والی تحریکوں کے پیچھے معاشی بحران ایک فیصلہ کن عنصر کے طور پر موجود ہے۔

بھارت میں کسانوں کے احتجاج، کشمیر میں مہنگی بجلی پر شٹر ڈاؤن، پاکستان میں مہنگائی کے خلاف پکتا ہوا لاوا، بلوچستان اور پختونخواہ میں قومی محرومی اور جبر کے خلاف تحریکیں اور ایسے میں حکمرانوں کی مراعات اور عوام دشمن بجٹ واضح کر رہے ہیں کہ سرمایہ داری میں محنت کشوں کو بہتر معیار زندگی دینے کی سکت موجود نہیں ہے۔

عوام ایسی کیفیات میں مختلف زاویوں، شدتوں اور طریقوں سے اپنی نفرت اور غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں طالب علموں کی ابھرنے والی موجودہ تحریک بھی انہی محرومیوں کی پیدا کردہ ہے۔ کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج وہ نقطہ بن گیا ہے جہاں سارے سماجی تضادات پھٹ پڑے۔ یہ کوئی وقتی ابال یا کسی سیاسی جماعت یا سامراجی قوت کی کوئی سازش نہیں تھی جو دسیوں لاکھ طالب علموں کو سڑکوں پر لے آئی۔ بلکہ یہ لمبے عرصے سے چلے آ رہے مسائل اور تنگی کا منطقی نتیجہ ہے۔ جس کی بدولت بنگلہ دیش کی ایک مضبوط ترین‘ آمرانہ وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر ہنگامی انداز سے ملک سے فرار ہونا پڑا۔

بنگلہ دیش کی معاشی ترقی اگرچہ 6 فیصد سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ بظاہر اس شرح نمو سے ترقی کرتا ملک ایک خوشحال سماج کی بنیادیں استوار کر رہا تھا۔ لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی تھے۔ سطح کے نیچے پنپنے والے تضادات اس قدر گہرے تھے کہ معاشی ترقی پر شادیانے بجانے والی بورژوا دانش ان کا اندازہ لگانے سے معذور تھی۔ نوجوانوں کے غصے اور نفرت کی انتہا یہ تھی کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے نہ صرف گرائے گئے بلکہ ان کو بری طرح سے تضحیک کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ایسے واقعات میں یقینا جماعت اسلامی جیسے مذہبی بنیاد پرست عناصر شامل ہوں گے لیکن ان کے پیچھے وسیع تر عوام کا غم و غصہ بھی کارفرما ہے۔

استحصال زدہ‘ محنت کش عوام اپنے روز مرہ کے تجربات سے سیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کے زخموں اور ذلتوں کا ذمہ دار اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہر وہ شخص ہے جو اپنے عزائم اور طرز زندگی میں کہیں بھی عام لوگوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس کے نتیجے میں سب سے پہلے ان کے ذہنوں میں بنے مقدس بت ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ اس وقت محنت کشوں کو اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے اور وہ میدان عمل میں کود پڑتے ہیں۔ ماضی کے سارے فرسودہ تعصبات کو مسترد کر کے وہ اپنے اصل اور طبقاتی دشمن کو بڑی اچھی طرح پہچان جاتے ہیں۔ یہی کچھ بنگلہ دیش میں ہوا۔

جہاں اس تحریک نے ثابت کیا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہوتے ہیں اور جب وہ میدان عمل میں داخل ہوتے ہیں تو جبر کا ہر آلہ ریت کی دیوار بن جاتا ہے وہاں یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ قومی جمہوری آزادی بھی محض نظر کا فریب ہوتی ہے۔ اگست 1947ء میں تاج برطانیہ سے ”آزادی“ حاصل کر لی گئی تھی۔ بیشتر عام لوگوں کا گمان تھا کہ پاکستان ایک ایسا ملک بنے گا جہاں ہر طرح کے استحصال اور جبر کا خاتمہ ہو گا۔ لیکن برآمد کیا ہوا: آزادی! منافع کمانے کی… اور محروموں کو دبانے کی آزادی۔ ایسی آزادی جس کا تعلق حکمران طبقات سے ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے آزادی کی صبح کو فیض نے ’شب گزیدہ سحر‘ کہا تھا۔

آزادی کا مطلب محض خطہ زمین کو حاصل کر کے اپنا (حقیقی معنوں میں ”اپنی“ قوم کے حکمرانوں کا) اقتدار قائم کر لینا نہیں ہوتا۔ ایسی آزادی دھوکہ اور سراب ہوتی ہے۔ آزادی کا مطلب جہالت، غربت، بیماری، بے روزگاری، ناانصافی، عدم مساوات اور سماجی برائیوں سے رہائی ہوتا ہے۔ 1971ء میں بنگلہ دیش نے بھی قومی بنیادوں پر خود کو پاکستان سے الگ کر لیا۔ اس پر جشن منائے گئے۔ بنگلہ دیش میں 16 دسمبر ایک آزاد ملک میں نئے عہد کا آغاز قرار دیا گیا۔ پاکستانی ریاست کا جبر اور علیحدگی کے محرکات کا سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے جس سے نظر نہیں چرائی جا سکتی۔ لیکن پچاس پچپن سالوں بعد یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس ’آزادی‘ نے بنگال کے محنت کشوں کو کیا دیا؟ کیا یہ علیحدگی بھوک کا خاتمہ کر پائی؟ کیا مفت علاج معالجے کی سہولت میسر ہو سکی؟ رہائش کے مسائل حل ہو سکے؟ خوارک دستیاب ہوئی؟ تن ڈھانپنے کو لباس ملا سکا؟ کیا آج بھی گھٹنے پاجامے سے نہیں جھانکتے؟ بچے روٹی کو نہیں بلکتے؟ عصمت فروشی بڑھ نہیں گئی؟ کیا آج بھی لوگ لاشوں کو سامنے رکھ کر بجائے رونے دھونے کے تھان سے اترنے والے کفن کے نئے کپڑے کے پھیر میں نہیں پڑ جاتے؟ اگر ان سوالات کے جواب ہاں میں ہیں تو پھر یہ سوال زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ یہ کیسی آزادیاں ہیں جنہوں نے استحصال کا خاتمہ کرنے کی بجائے اس کو شدید تر کر کے جلا ہی بخشی ہے؟ نفسا نفسی، مقابلہ بازی، ذاتی بقا کی جدوجہد، جرائم اور انتشار میں کیا اضافہ نہیں ہوا؟ کیا ان سوالات کی روشنی اور نسلوں کی بھگتی گئی ذلت کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر علیحدگی‘ محض مالکان کی تبدیلی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی؟ آج سپیس گاڑیوں کے ذریعے دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش ہو رہی ہے۔ لیکن بنگال کے محنت کش ننگے بدن، سائیکل رکشوں پر سواریوں کا بوجھ ڈھو رہے ہیں۔ انسان کی اس سے بڑی تذلیل کیا ہو گی؟

دوسری طرف معیشت کی صورت حال یہ ہے کہ سترہ کروڑ کی آبادی والے بنگلہ دیش میں ہر سال بیس لاکھ سے زیادہ نوکریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن تین کروڑ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہیں۔ افراط زر تقریباً 12 فی صد ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کی صورتحال پاکستان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر کو بیلنس کرنے کے لئے چین سے پانچ ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلے آئی ایم ایف سے بھی مدد مانگی گئی تھی۔

اس کے علاوہ عالمی منظر نامہ بھی (سرمایہ دارانہ نقطہ نظر سے) کوئی خوش گوار نہیں ہے۔ ایک طرف عالمی معیشت سست روی بلکہ زوال کا شکار ہے تو دوسری طرف عوام کا مزاج برہم ہے۔ عالم یہ ہے کہ امریکہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر خطوں سمیت 147 ملکوں میں 2017ء سے اب تک 700 بڑے احتجاج اور ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اہم بات یہ کہ تقریباً تمام تحریکیں معاشی مطالبات پر مبنی رہی ہیں۔

اس پس منظر میں بنگال کے طالب علم بھی ایک طویل مدت سے مشکلات کا شکار چلے آ رہے تھے۔ اس بغاوت کا جلد یا بدیر پھٹ جانا ناگزیر ہی تھا۔ کوٹہ سسٹم پر ان کے تحفظات کوئی غیر معقول بھی نہیں تھے۔ لیکن سرمایہ دارانہ یاستوں سے کسی بھلائی کی کیا امید رکھنا۔ حسینہ واجد کی حکومت بھی احتجاج کب برداشت کر سکتی تھی۔ اس تحریک میں کئی سو طلبہ نے اپنی جان دی۔ ان میں ابو سعید ایسے ہیرو بھی شامل تھے جو اپنے حق کے لئے سینے پہ گولیاں کھانے کے باوجود نہ متزلزل ہوئے، نہ موت کا خوف ان کے ارادوں کو پست کر سکا۔ جب تحریک ایسے جان بازوں کے شانوں پر کھڑی ہو تو جبر کے ہر آلے کو شکست فاش ہوتی ہے۔

لیکن تحریک کی وقتی فتح یا پیش رفت کے بعد اصل سوال اس کو منطقی انجام سے ہم کنار کرنا ہوتا ہے۔ جہاں ہر طرح کے استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ ورنہ جڑوں سے وہی زہریلے پودے پھر سے کونپلیں نکال کر تناور درخت بن جاتے ہیں۔ بنگال کے طالب علموں اور ٹیکسٹائل کی صنعت کے مزدوروں نے لڑائی کے پہلے مرحلے کو کام یابی سے عبور کیا ہے۔ لیکن اصل آزمائش لڑائی کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ یہاں پر اٹھائے گئے اقدامات مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ طلبہ اور مزدوروں کو اب متبادل کے سوال کا سامنا ہو گا: خالدہ ضیا، جماعت یا فوج سمیت کوئی ابھرنے والی نئی و پرانی سیاسی پارٹی یا قوت ان کے مسائل کا حل ہے یا انقلابی سوشلسٹ نظریات کی بنیاد پر جدوجہد کو آگے بڑھایا جانا چاہئے۔ تاہم یہ طے ہے کہ بنی بنائی سرمایہ دارانہ ریاستی مشینری کے اوپر مزدور ریاست نہیں بنائی جا سکتی۔ حتیٰ کہ آج کے دور میں کوئی نسبتاً صحتمند بورژوا جمہوری حکومت بھی تشکیل نہیں پا سکتی۔
ابھی تک کے حالات و واقعات اور طلبہ کے بیانات واضح کرتے ہیں کہ نظریاتی و سیاسی تذبذب کے باوجود وہ سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ انہوں نے فوج کی حکومت کو فوراً مسترد کیا ہے اور خوفزدہ ریاست کو ان کا مطالبہ فوراً ماننا بھی پڑا ہے۔ لیکن انقلابی نظریات، لائحہ عمل اور پارٹی کے بغیر قیادت بند گلی میں داخل ہو جاتی ہے۔ جہاں ساری نفرت، سرکشی اور بغاوت آخر کار ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔

یقینا اس تحریک کے اسباق نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر میں نئی نسل کو یہ شعور دیں گے کہ وہ اپنے مسائل کا حل جدوجہد میں تلاش کر کے درست سمت میں آگے بڑھیں۔ جیسے مارکس نے کہا تھا، ”سرمائے کے خلاف جدوجہد کے واقعات، اس کے اتار چڑھاؤ، اس کی کامیابیوں اور اس سے بھی بڑھ کر اس کی شکستوں کا یہ لازمی نتیجہ ہو گا کہ مزدور اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیں گے کہ ان کے پسندیدہ نسخے‘ ان کو درپیش امراض کا ناکافی علاج ہیں۔ جس کے بعد یہ گنجائش ہو گی کہ ان حالات کا وہ صحیح ادراک اور دور رس نظر فروغ پائے جو مزدور طبقے کی نجات کے لئے ضروری ہے۔“

بنگلہ دیش کی عوامی سرکشی نے ایک بار پھر انقلابی قیادت کی تعمیر کے سوال کو جنم دیا ہے۔ جو بغاوت کو درست نظریات اور درست لائحہ عمل کی بدولت انقلابی جہت اور سمت دیتے ہوئے تاریخ کے دھارے کو موڑ کر حقیقی انسانی سماج کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔