لال خان

(مارچ 2014ء میں  تحریر کیا گیا یہ مضمون 14 اگست کے حوالے سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔)

قیام پاکستان کے حوالے سے سال میں دو دن سرکاری طور پر منائے جاتے ہیں۔ 23 مارچ کا دن 1940ء کی قرار داد لاہور کے حوالے ’’یوم پاکستان‘‘ اور 14 اگست کا دن ’’یوم آزادی‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اگر ہم برصغیر کے عوام کی انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد آزادی پر نظر دوڑائیں تو کئی دوسرے فیصلہ کن واقعات اور انقلابی تحریکیں بھی ملتی ہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات اپنے مطلب اور ریاست کے نظریات سے مطابقت رکھنے والے ایام کو ہی یاد کرتے اور کرواتے ہیں۔ اسی طرح تقسیم کے بعد بھی پاکستان کی تاریخ میں ہمیں ایسے اہم تاریخی واقعات اور انقلابی ابھار ملتے ہیں جن پر حکمرانوں نے پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کیونکہ عوام کے ذہنوں پر ان واقعات کا مبہم سا نقش بھی اس نظام کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔


قیام پاکستان کا نظریہ 1940ء کی قرارداد لاہور سے بہت پہلے تخلیق ہوا تھا۔ سب سے پہلے ایک الگ ملک کے خیال کو ’’پاکستان ڈیکلیریشن‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ مفروضہ ایک پملفٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ پمفلٹ کا عنوان تھا ’’ابھی نہیں یا کبھی نہیں؛ ہمیں جینا ہے یا مٹ جانا ہے‘‘ (Now or Never; Are We to Live or Perish Forever)۔ اس کے مصنف چوہدری رحمت علی تھے جنہوں نے 28 جنوری 1933ء کو یہ پمفلٹ کیمرج یونیورسٹی برطانیہ سے جاری کیا تھا۔ ’’پاکستان‘‘ کا لفظ بھی پہلی بار اسی تحریر میں استعمال ہوا تھا۔ اس کے وقت کے اہم کانگریسی رہنما محمد علی جناح نے اس ’’نظرئیے‘‘ کی بھرپور مخالف کرتے ہوئے اسے ’’دیوانے کا خواب‘‘ قرار دیا تھا۔ جناح نے اس وقت کہا تھا کہ وہ آخری دم تک ہندو مسلم یکجہتی کے لئے جدوجہد کریں گے۔

بعد ازاں مسلم لیگ کے اسی ’’نظریہ پاکستان‘‘ کو اپنانے اور محمد علی جناح کے کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ کے لیڈ بن جانے کے بعد بھی چوہدری رحمت علی اور نئی مسلم لیگی قیادت کے درمیان اختلافات ختم نہیں ہوئے۔ قیادت سے اختلافات کی بنیاد پر چوہدری رحمت علی کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے کارنر کر دیا گیا۔ چوہدری رحمت علی کا انجام یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے بعد اپریل 1948ء میں جب وہ اپنے نظرئیے کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک میں مستقل قیام کے ارادے سے آئے تو اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ان کو پاکستان چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ ان کے تمام مال و متاع کو سرکار نے ضبط کر لیا اور وہ لٹ پٹ کر اکتوبر 1948ء میں خالی ہاتھ انگلستان چلے گئے۔ ان کی وفات 3 فروری 1951ء کو انگلستان میں ہی ہوئی۔ تدفین کے انتظامات کی ذمہ داری لینے والا بھی کوئی نہ تھا۔ آخر کیمبرج یونیورسٹی کے ایمینیول کالج میں پڑھانے والے ان کے استاد نے یہ فریضہ سرانجام دیا اور 20 فروری کو نیو مارکیٹ روڈ کیمبرج کے قبرستان میں ان کی تدفین کی گئی۔

1940ء میں قرارداد لاہور منظور ہونے کے بعد سے 1947ء میں تقسیم ہند تک کے سات سال بھی واقعات سے بھرپور ہیں۔ اس دوران برطانوی سامراج نے ایسے کئی منصوبوں پر بھی غور کیا جن کی کامیابی یا ناکامی برصغیر کی تاریخ، جغرافیے اور سیاست کو بدل سکتی تھی۔ برطانوی آقاؤں کے لئے برصغیر سے جانے کی سب سے بنیادی شرط یہ تھی کہ ’’آزادی‘‘ کے بعد بھی ان کا قائم کردہ سیاسی، معاشی اور ریاستی ڈھانچہ برقرار رہے تاکہ سامراجی استحصال کو جاری رکھا جا سکے۔ اس معاملے میں برطانوی حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے درمیان طریقہ کار اور لائحہ عمل پر شدید اختلافات موجود تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والے پہلے ہی انتخابات میں برطانوی عوام نے ونسٹن چرچل کو مستر کر دیا۔ چرچل برطانوی حکمران طبقے کے قدامت پسند اور انتہائی دائیں بازو کے دھڑے کا نمائندہ تھا۔ وہ جبر، دھونس اور ’’تقسیم کر کے حکمرانی کرنے‘‘ کی پالیسی کا علمبردار تھا۔ دوسری طرف جولائی 1945ء میں وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی سربراہی میں اصلاح پسند بائیں بازو کی جماعت لیبر پارٹی کی حکومت زیادہ پرامن طریقے سے معاملات کو حل کرنا چاہتی تھی۔ اس سلسلے میں برطانوی حکومت کی جانب سے مختلف مشن بھیجے گئے جن کا مقصد زیادہ خون خرابا کیے بغیر برصغیر کے مقامی حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں تک اقتدار کی منتقلی تھا۔

24 مارچ 1946ء کو پیتھک لارنس، سر سٹیفورڈ کرپس اور اے وی الیگذینڈر پر مشتمل کیبنٹ مشن ہندوستان آیا۔ یہ وفد فروری 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت کے کچھ دنوں بعد ہی پہنچا تھا۔ جہازیوں کی اس بغاوت نے صنعتی مزدوروں اور عوام میں سرایت کر کے پورے برصغیر میں انقلابی طوفان کھڑا کر دیا تھا۔ برطانوی سامراج نے مقامی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے نمائندہ سیاسی لیڈروں کی مدد سے بڑی مشکل سے مذہبی تفریق کو ہوا دے کر اس انقلابی لہر کو زائل کیا تھا۔ اس انقلابی تحریک نے نہ صرف سامراجی تسلط میں دراڑیں ڈال دی تھیں بلکہ برطانوی سامراجیوں کو خوفزدہ بھی کر دیا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جنگ عظیم سے تباہ حال سامراج مستقبل میں اس قسم کی عوامی بغاوت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔

اس صورتحال میں کیبنٹ مشن نے مسلم لیگ اور کانگریس کے لیڈروں سے ’’مذاکرات‘‘ کے بعد اپنا منصوبہ 16 مئی 1946ء کو پیش کیا۔ منصوبے کا اعلان وائسرائے ہند نے کیا۔ اس پلان میں ہندوستان کی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ’’انڈین ڈومینین‘‘ کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس آل انڈیا یونین کو آئینی طور پر تین صوبوں یا انتظامی اکائیوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلا صوبہ سندھ، پنجاب اور شمال مغربی سرحدی علاقے، دوسرا وسطی ہندوستان جبکہ تیسرا بنگال اور آسام پر مشتمل تھا۔ صوبوں کو بیشتر شعبوں میں خود مختیاری حاصل تھی۔ صرف دفاع، امور خارجہ، مالیات اور مواصلات کے شعبے مرکز کے پاس تھے۔ مشن سے مذاکرات کے دوران ہی قائد اعظم کی سربراہی میں مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی نے متفقہ ووٹ سے 6 جون 1946ء کو اس پلان کو تسلیم کرنے اعلان کر دیا۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے مطالبے سے دستبرداری کا یہ فیصلہ تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ کانگریس کا ردعمل شروع سے ہی متذبذب تھا۔ پھر جواہر لال نہرو نے 26 جون کو بمبئی میں اشتعال انگیز پریس کانفرنس میں اس پلان کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے رد عمل میں مسلم لیگ بھی مشتعل ہو گئی اور تقسیم کا مطالبہ دہراتے ہوئے 16 اگست 1946ء کو ’’ڈائریکٹ ایکشن ڈے‘‘ منانے کا اعلان کر دیا۔ ان ساری کاروائیوں کے پیچھے بہت سی داستانیں اور مفادات پوشیدہ ہیں۔ نہرو اگر جارحیت بھری تقریر نہ کرتا تو آج تاریخ مختلف ہوتی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہرونے ایسا کس کے کہنے پر کیا؟ اس سوال کا جواب ایک اہم اور گہری تحقیق کے بعد تحریر کی گئی کتاب ’’ہندوستان کا موسم گرما: تقسیم کی خفیہ تاریخ‘‘ میں درج ہے۔

تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس خطے کے عوام کو خونی تقسیم اور ’’آزادی‘‘ سے کوئی ترقی، خوشحالی یا آسودگی حاصل ہوئی ہے۔ سرحد کے دونوں طرف آباد ڈیڑھ ارب عوام کی زندگیاں بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ اپنے استحصال، جبر اور حکمرانی کو قائم رکھنے کے لئے پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات اور ان کے سیاسی نمائندے تاریخ کے بہت سے پوشیدہ پہلوؤں کو چھپائے رکھنا چاہتے ہیں۔ نصابوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے وہ حکمران طبقے کی تاریخ ہے۔ اس خطے کے محنت کشوں کی تاریخ کچھ اور ہے۔ یہ تاریخ اس نظام کے خلاف جدوجہد، انقلابی تحریکوں اور بغاوتوں سے عبارت ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہمیں چین اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت پورے خطے میں ایسے انقلابات ملتے ہیں جن کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑا گیا۔ اگر برصغیر میں براہ راست سامراجی حاکمیت کے ساتھ ساتھ سامراجی نظام اور بالواسطہ استحصال کا بھی خاتمہ کیا جاتا تو حقیقی معاشی اور سماجی آزادی کی منزل کی جانب بڑھا جا سکتا تھا۔

حکمرانوں اور ان کی ریاستوں نے تاریخ کو مسخ کر کے آج کی نوجوان نسل سے یہ جاننے کا حق بھی چھین لیا ہے کہ ان کے پرکھوں نے کس آزادی کے لئے کس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ بے روزگاری، بیگانگی، مذہبی بنیاد پرستی اور سماج جبر کے شکار نوجوانوں کو حقیقی تاریخ کا مکمل ادراک ہو جائے تو حکمران طبقات کا اقتدار اور دولت کے انبار خطرے میں پڑ جائیں گے۔ اس لئے سیاست اور تاریخ سے لے کر ثقافت اور ’’اقدار‘‘ تک، سماج کا ہر پہلو اس نظام کو قائم رکھنے کے مقصد کے تحت تشکیل دیا اور پروان چڑھایا جاتا ہے۔ تاریخ کے تلخ حقائق کو بے نقاب کرنا ایک جرم بن چکا ہے۔ لیکن ہر عہد کے انقلابی یہ جرم کرتے رہے ہیں اور تب تک کرتے رہیں گے جب تک انقلاب کے ذریعے غربت، ذلت، محرومی اور جبر کو مسلط کرنے والے اس نظام کا خاتمہ نہیں کر دیا جاتا!