عمران کامیانہ
(کامریڈ لال خان کی شہرہ آفاق کتاب ’’Partition: Can it be Undone‘‘ کے ہسپانوی ایڈیشن کا پیش لفظ، جو جون 2022ء میں تحریر کیا گیا تھا، 14 اگست کے حوالے سے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔)
آج جہاں سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی بحران نے پوری دنیا کو ایک عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے وہاں برصغیر جنوب ایشیا کے سماج بدترین گراوٹ اور انتشار کا شکار نظر آتے ہیں۔ دنیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی والے اس خطے میں دنیا کی آدھی غربت پلتی ہے۔ مغرب (اور مشرق میں گنتی کے چند ایک ممالک) میں نسبتاً انسانی اور مہذب شکل میں آنے والا سرمایہ دارانہ نظام برصغیر جنوب ایشیا کے دو راب لوگوں کے لئے ایک بھیانک خواب سے کم نہیں ہے۔ لینن کے الفاظ میں یہ اس خطے کے انسانوں کے لئے ایک ایسی ہولناکی ہے جس کی کوئی حد اور کوئی انت دکھائی نہیں دیتا۔ 1947ء میں برطانوی سامراج سے نام نہاد آزادی کے بعد اس خطے کے کسی ایک ملک میں بھی کوئی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماج تعمیر نہیں ہو پایا ہے۔ پاکستان تو قائم ہی مذہب کی بنیاد پر ہوا تھا جہاں براہِ راست یا بالواسطہ فوجی آمریتوں کی ایک تاریخ رہی ہے۔ لیکن کئی دہائیوں تک جس ہندوستان کو سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست کے طور پر ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک رول ماڈل کی طرح پیش کیا جاتا رہا وہ آج ہندو بنیاد پرستوں کی نیم فسطائی حکومت کے نرغے میں ہے۔ دونوں ممالک میں مذہبی جنونی گروہوں کے ہاتھوں اقلیتوں کی ماب لنچنگ کے واقعات اب ایک معمول بن چکے ہیں۔ 1971ء میں پاکستان سے الگ ہونے والا بنگلہ دیش ایک نیم آمریت کے تسلط میں ہے۔ نیپال اور بھوٹان جیسے انتہائی پسماندہ اور چھوٹے ممالک ہندوستان کی سیٹلائٹ ریاستوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر برصغیر کے گرد و نواح کا جائزہ لیں تو افغانستان اور ایران سنی اور شیعہ ملائیت کے شکنجے میں ہیں۔ جبکہ برما میں ایک خونی فوجی آمریت ہر مخالف آواز کو کچل رہی ہے۔ سری لنکا دیوالیہ ہو کے بدترین انتشار سے دوچار ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال ایک بار پھر واضح کرتی ہے کہ پسماندہ اور بحران زدہ معاشی بنیادوں کے اوپر مستحکم اور صحت مند سماجی و سیاسی سپرسٹرکچر تعمیر نہیں ہو سکتے۔ نتیجتاً اس خطے میں سرمایہ داری اپنا کوئی ایک بھی تاریخی فریضہ ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ ہر جگہ سیاست اور ریاست میں مذہب کی گہری مداخلت موجود ہے۔ جاگیرداری کی معاشی اور ثقافتی باقیات کا خاتمہ نہیں ہو پایا ہے۔ کوئی ایسا ٹھوس مادی اور سماجی انفراسٹرکچر تعمیر نہیں ہوا جس پر وسیع البنیاد صنعتکاری ہو پاتی۔ جہاں طبقاتی استحصال اپنی شدت سے جاری ہے وہاں قومی جبر بھی بلوچستان سے کشمیر اور آسام سے ناگالینڈ تک جاری ہے۔ خطے میں درجنوں قومی تحریکیں موجود ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ یہاں کی تاخیر زدہ سرمایہ داری ایک طرف جدید اور یکجا قوم کی تشکیل میں ناکام رہی ہے تو دوسری طرف تمام قوموں کو یکساں اور ہموار ترقی دینے سے بھی قاصر رہی ہے۔ چنانچہ اس خطے میں سرمایہ داری کی اسی تاخیر زدگی کے پیش نظر پسماندگی اور جدت کا ایک عجب ملغوبہ نظر آتا ہے جس نے جنوب ایشیا کے معاشروں کو تاریخ کا میوزیم بنا کے رکھ دیا ہے۔ جہاں ماضی بعید کے نظاموں کی تکنیکی، سماجی و ثقافتی باقیات بھی نظر آتی ہیں اور سرمایہ داری کے جدید ترین حاصلات کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کیفیت، جسے ٹراٹسکی کے ناہموار اور مشترک ترقی کے قانون کے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا، کو مدنظر رکھے بغیر ان سماجوں کا درست تجزیہ کیا جا سکتا ہے نہ کوئی تناظر بنایا جا سکتا ہے۔
ماضی کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ گزرے ہوئے حالات و واقعات کو سمجھے اور پرکھے بغیر آگے کی کوئی پیش بینی نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ برصغیر جنوب ایشیا میں جاری اس ساری صورتحال کا صدیوں پہ محیط ایک تاریخی پس منظر بھی ہے جس میں تقریباً دو سو سالوں کی برطانوی نوآبادیاتی لوٹ مار ایک بنیادی عنصر کے طور پہ شامل ہے۔ جس میں ان سامراجیوں نے جبر، استحصال، لوٹ مار، قتل و غارت، قحطوں اور برصغیر کے مذہبی بٹوارے کی صورت میں انسانی تاریخ کے سیاہ ترین باب رقم کیے۔ زیر نظر کتاب کی اہمیت یہی ہے کہ یہ اس تاریخی پس منظر کا احاطہ ایک مارکسی نقطہ نظر سے کرتی ہے۔
برصغیر کے برطانوی سامراجی قبضے کی جانی اور مالی قیمت کا اندازہ لگانا محال ہے۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی معیشت دان اٹسا پٹنائیک کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق 1765ء سے 1938ء تک برطانوی سامراجیوں نے 45 ٹریلین ڈالر کی لوٹ مار کی۔ جبکہ 1757ء سے 1947ء تک 1.8 ارب ہندوستانی اس قبضے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومی اور قلت کی وجہ سے مارے گئے۔ برطانوی سامراجیوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام اس کے علاوہ ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو صرف 1857ء کی جنگ آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ جن میں سے بیشتر کو توپوں کے آگے کھڑا کر کے اڑا دیا گیا تھا۔ اسی طرح جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتل عام کی داستان سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق بھی دس لاکھ افراد صرف 1947ء کے بٹوارے کے فسادات میں مارے گئے جبکہ دو کروڑ سے زائد ہجرت میں دربدر ہو گئے۔ ایشیا کے دوسرے نوآبادیاتی خطوں، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی تاریخ بھی یقینا اس سے مختلف نہیں ہو گی۔ یورپی سرمایہ داری اور اس کی امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا وغیرہ جیسی شاخوں (آف شوٹس) کی تمام تر ترقی اور چکاچوند کے پیچھے انسانی ذلت اور استحصال کی یہ تاریک تاریخ کارفرما ہے جسے بڑی عیاری او رمکاری سے آج چھپا دیا جاتا ہے۔ لیکن اسے آشکار کیے بغیر ان سماجوں کی موجودہ بدحالی اور بربادی کے ازالے کا کوئی سائنسی طریقہ کار وضع نہیں کیا جا سکتا ہے۔
برصغیر دنیا کی قدیم اور ترقی یافتہ ترین تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ تقریباً پانچ ہزار سال پہلے دریائے سندھ کی تہذیب نے ہڑپہ، موہنجوداڑو اور راکھی گڑھی وغیرہ میں اپنے وقت کے جدید ترین اور منصوبہ بند شہر آباد کیے (اس سے بھی پرانے شہروں کی باقیات مہرگڑھ (بلوچستان) سے ملی ہیں) جن میں پکی اینٹوں سے مکانات تعمیر کیے جاتے تھے اور نکاس کا انتظام اس خطے کے اکیسویں صدی کے بیشتر شہروں سے بھی بہتر تھا۔ ان کے بارے قوی خیال یہی ہے کہ یہ ایک طرح کے غیر طبقاتی سماج تھے جن میں بڑے محلات اور جبر کے آلات نہیں ملتے ہیں۔ بعد کے وقت میں یہاں بے شمار بادشاہتوں کے سلسلے نظر آتے ہیں۔ لیکن اپنے دریاؤں، مخصوص آب و ہوا اور وسیع و عریض زرخیز زمین کی بدولت یہاں زراعت، اناج اور خوراک کی ہمیشہ بہتات رہی۔ نتیجتاً استحصالی بادشاہتوں میں بھی یہاں بلند درجے کی تہذیب پروان چڑھی جس میں سائنس، فلسفے، تعمیرات اور آرٹ میں بہت پیش رفتیں ہوئیں۔ مثلاً صفر کا ہندسہ پہلی بار ہندوستانی ریاضی دان اور اور ماہر فلکیات براہماگپتا نے 628ء میں متعارف کروایا تھا۔ اپنی بے پناہ دولت، خوشحالی اور بہتات کی وجہ سے ہی یہ خطہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے نشانے پر بھی رہا۔ لیکن یہ حملہ آور زیادہ تر کم تر درجے کی تہذیبوں سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا اس خطے پر اپنے تمام تر ثقافتی و مذہبی اثرات کے باوجود یہ مقامی تہذیب میں ضم ہوتے رہے اور یہاں کے ہی ہو کے رہ گئے۔ مغل، جو بنیادی طور پر وسط ایشیائی مسلمان تھے، بھی انہی حملہ آوروں میں شامل تھے جنہوں نے 1526ء میں یہاں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی جو 1690ء میں اپنے عروج پر 40 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جس میں تقریباً پندرہ کروڑ انسان بستے تھے۔ اورنگزیب کے دور میں افغانستان کے بڑے حصے سمیت موجودہ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے تقریباً تمام علاقے اس سلطنت میں شامل تھے۔ 1700ء میں عالمی جی ڈی پی میں مغل انڈیا کا حصہ 24 فیصد تھا اور یہ دنیا کے خوشحال ترین خطوں میں سے ایک تھا۔ مغل دور میں تمام تر جبر و استحصال کے باوجود جی ڈی پی میں تیز ترین اضافہ ہوا اور انہوں نے طویل شاہراہوں، ایک کرنسی اور مرکزی حکومت کے ذریعے بڑی حد تک اس خطے کو یکجا کیا۔ اس دور میں فنون لطیفہ کو بھی ایک جلا ملی اور مغل طرزِ تعمیر، جس کی ایک مثال تاج محل ہے، آج بھی انسان کو مسحور کر دیتا ہے۔ بورژوا تاریخ دانوں میں پائے جانے والے عمومی تاثر، جسے پھر سٹالنسٹوں نے بھی مرحلہ واریت کا جواز دینے کے لئے استعمال کیا، کے برعکس اس دور میں برصغیر میں پایا جانے والا نظام جاگیر داری نہیں تھا۔ بلکہ مارکس نے اسے ایشیائی مطلق العنانیت یا ایشائی طرزِ پیداوار کا نام دیا تھا۔ جس میں زمین کی نجی ملکیت موجود نہیں تھی۔ تمام تر زمین ریاست کی ملکیت ہوتی تھی اور شاہی بیوروکریسی کے سپرد نگرانی اور انتظام کی غرض سے کی جاتی تھی۔ اس خطے میں جاگیرداری پہلی بار انگریزوں نے 1793ء کے مستقل آبادکاری کے قانون (Permanent Settlement Act) کے ذریعے متعارف کروائی تھی۔ یوں یہ پیوند کردہ جاگیرداری یورپ کی کلاسیکی جاگیرداری سے بہت مختلف اور سرمایہ داری کیساتھ گھلی ملی ہوئی تھی جس کے ذریعے یہاں سامراج کا گماشتہ ایک مقامی حکمران طبقے پروان چڑھایا گیا جس کا بنیادی کردار صدیوں بعد بھی بدل نہیں سکا۔ ٹراٹسکی کے الفاظ میں یہ ایک طرح کی ”کمپراڈور بورژوازی“ ہے جس کا تاریخی کردار سامراجی لوٹ مار میں کمیشن خوری کا ہی رہا ہے۔ انگریز، جو پہلے پہل تجارت کی غرض سے یہاں آئے، وہ پہلے حملہ آور تھے جو ہندوستان کی نسبت ایک بلند تر تکنیک اور سماجی نظام سے وابستہ تھے کیونکہ اس وقت تک یورپ میں سرمایہ داری اپنی جڑیں پکڑ چکی تھی۔ چنانچہ وہ یہاں کی تہذیب میں ضم نہیں ہو سکے بلکہ اس خطے کی تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا۔ 1757ء کی جنگ پلاسی میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح یہاں انگریزوں کے قبضے میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے بعد مغل سلطنت کا زوال تیز تر ہوتا گیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی ایک کے بعد دوسرے صوبے پر قابض ہوتی چلی گئی۔ کمپنی کے اس قبضے اور غارت گری کے خلاف پہلی بڑی بغاوت 1857ء میں ہوئی جس کا آغاز کمپنی کی اپنی فوج کے مقامی سپاہیوں نے کیا۔ فوج سے نکل کر یہ بغاوت ملک کے طول و عرض میں پھیل کر جنگ آزادی کی شکل اختیار کر گئی۔ لیکن کسی خاطر خواہ تنظیم کی عدم موجودگی اور دوسری ہر طرح کی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے اسے جلد ہی انتہائی خونی اور وحشیانہ انداز میں کچل دیا گیا۔ جس کے بعد برائے نام مغل سلطنت کے ساتھ ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کااقتدار بھی اپنے انجام کو پہنچا اور ہندوستان کو براہِ راست برطانوی سلطنت میں ضم کر لیا گیا۔ اس دور میں ہندوستان کے بارے میں ’نیویارک ٹربیون‘ میں مارکس کے مضامین انتہائی اہم ہیں جن میں اس نے یہ نکتہ اجاگر کیا کہ تاریخ کے مکافات کا اوزار ظالم خود تیار کرتا ہے اور برطانوی سامراج یہاں اپنی لوٹ مار کے لئے ریل کی جو پٹری بچھا رہا ہے وہ ہندوستان کو یکجا کر کے اسی کے خلاف ایک ملک گیر بغاوت کو جنم دے گی۔
1857ء میں برصغیر پر باقاعدہ قبضے کے بعد برطانوی سامراج نے جہاں ایک مقامی گماشتہ بورژوازی، بورژوا سیاست اور نوآبادیاتی ریاست کو پروان چڑھایا وہیں مذہبی تقسیم، تعصب اور منافرت کو بھی اپنی حکمرانی کا اہم اوزار بنایا۔ 1871ء کی مردم شماری میں مذہب کا خانہ شامل کر کے برطانوی راج نے پہلی بار خطے میں ہندووں اور مسلمانوں کو دو الگ الگ گروہوں کے طور پر ایک دوسرے سے ممتاز کیا۔ 1885ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس اور 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ جن لوگوں کو آج برصغیر کی ریاستوں میں تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں اور قومی قائدین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ان میں سے بیشتر اسی پیوندہ کردہ بورژوازی کے مختلف سیاسی نمائندے تھے جو یہاں برطانوی راج کا اہم ستون تھی۔ یوں خطے میں مزدوروں اور کسانوں کی مزاحتمی اور انقلابی سیاست کے متوازی ایک کنٹرولڈ اور ”مہذب“ بورژوا سیاست پروان چڑھائی گئی اور اسے انتہائی عیاری سے محنت کشوں کی سیاست پر مسلط کیا گیا۔ اس حوالے سے برصغیر کی تحریک آزادی طبقاتی بنیادوں پر ہمیشہ منقسم رہی۔ جس میں ایک طرف ایسے انقلابی رجحانات تھے جو قومی آزادی کی تحریک کو طبقاتی آزادی اور نجات کی نہج تک لے جا کر سارے سامراجی نظام کا خاتمہ چاہتے تھے۔ ان میں بھگت سنگھ کی ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن جیسے رجحانات سرفہرست نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ اور کانگریس جیسی سیاسی جماعتیں تھیں جو ہر مرحلے پر سامراجیوں کیساتھ مفاہمت اور مصالحت چاہتی تھیں اور انگریزوں کے جانے کے بعد بھی یہاں سامراجی نظام کے دوام کے لئے کوشاں تھیں۔ زیر نظر کتاب میں اس پیوند کردہ بورژوازی، جسے ”سدھائی ہوئی بورژوازی“ (Tamed Bourgeoisie) کا نام بھی دیا گیا ہے، کے منافقانہ کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ دنیا بھر میں نہ صرف لبرل بلکہ مارکسی حلقوں کے اندر بھی سامراج کے گاندھی جیسے انتہائی زہریلے گماشتوں کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور انہیں ترقی پسند گردانا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت کم لوگ واقف ہیں کہ تقسیمِ برصغیر کی ذمہ داری جناح سے زیادہ جواہرلال نہرو جیسے بظاہر ترقی پسند اور سیکولر کرداروں پہ عائد ہوتی ہے۔ یہ کتاب ایسے بے شمار تاریخی حقائق پر روشنی ڈالتی ہے جن کا علم دنیا بھر کے انقلابیوں کو ہونا چاہئے۔
ٹراٹسکی نے 1939ء میں ”ہندوستانی محنت کشوں کے نام کھلے خط“ میں ہندوستانی بورژوازی کے بارے میں لکھا تھا:
”ہندوستانی بورژوازی کسی انقلابی جدوجہد کی قیادت کرنے سے قاصر ہے۔ وہ برطانوی سرمایہ داری کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور اس پر منحصر ہیں۔ وہ اپنی ملکیت چھن جانے کے خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں۔ وہ عوام سے خوفزدہ ہیں۔ وہ ہر قیمت پر برطانوی سامراج سے مصالحت چاہتے ہیں اور ہندوستانی عوام کو اوپر سے اصلاحات کی لوریاں دے کر سلانا چاہتے ہیں۔ اس بورژوازی کا رہنما اور پیغمبر گاندھی ہے جو ایک جعلی رہنما اور جھوٹا پیغمبر ہے!“
برصغیر میں کمیونسٹ پارٹی کا قیام ’کامنٹرن‘ کے تحت 1925ء میں عمل میں آیا اور برطانوی راج کے تمام تر جبر اور داخلی نظریاتی و سیاسی کمزوریوں کے باوجود پارٹی نے مزدور تحریک اور تحریک آزادی میں خاطر خواہ اثر و نفوذ حاصل کیا۔ لیکن یہاں کمیونسٹ پارٹی کی اپنی زوال پذیری پھر سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جس میں پارٹی ایک طرف الٹر لیفٹ رویوں تو دوسری طرف قومی بورژوازی سے مصالحت کی طرف گامزن ہوتی گئی۔ لیکن اس کے باوجود بھی 1920ء اور 30ء کی دہائی کی اہم مزدور اور کسان تحریکوں میں کمیونسٹ پارٹی کی مداخلت اور قیادت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ تاہم سوویت اقتدار پر سٹالنسٹ بیوروکریسی کی گرفت مضبوط ہونے کے بعد دنیا کی دوسری کمیونسٹ پارٹیوں کی طرح کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی زیادہ سے زیادہ سٹالنسٹ بیوروکریسی کی خارجہ پالیسی کے اوزار کی حیثیت اختیار کرتی چلی گئی۔ یہ عمل اپنی انتہاؤں کو اس وقت پہنچا جب 1941ء میں جرمنی کے سوویت یونین پر حملے کے بعد دنیا بھر کی طرح انڈیا میں بھی کمیونسٹ پارٹی کو حکم دیا گیا کہ وہ جنگ میں برطانیہ کا ساتھ دے۔ اس سے ایک دن قبل تک پارٹی پورے ہندوستان میں بھرپور جنگ مخالف مہم چلا رہی تھی۔ اس سلسلے میں کتاب میں ایک دلچسپ واقعے کا بھی ذکر ہے جس میں پارٹی کے رہنما کو ماسکو سے احکامات موصول ہونے کے بعد تقریر کے دوران ہی اپنی پوزیشن تبدیل کرنی پڑی۔ اس یوٹرن اور برطانوی راج سے مصالحت کی پالیسی نے عوام میں پارٹی کی ساکھ کو جو گہرا نقصان پہنچایا اور خود پارٹی کی صفوں میں جو بددلی پھیلائی اس سے پارٹی کبھی بازیاب نہ ہو سکی اور تحریک آزادی کو ایک انقلابی راستہ اور لائحہ عمل دینے کی صلاحیت سے یکسر محروم ہو گئی۔ اسی دوران 1946ء میں جنگ کے اختتام پر ایک انقلابی تحریک کے ابھار نے سارے منظر نامے کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ یہ بغاوت 18 فروری 1946ء کو رائل انڈین نیوی کے جہازیوں سے شروع ہوئی۔ ہڑتالی کمیٹی کی قیادت کرنے والا ایک جہازی مسلمان جبکہ دوسرا سکھ تھا۔ یہ دانستہ طور پر برطانوی سامراجیوں اور ان کی گماشتہ قومی بورژوازی کی جانب سے عوام میں ابھارے جانے والی مذہبی تقسیم اور تعصب کو رد کرنے کی کاوش تھی۔ یہ بغاوت دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف بحریہ بلکہ برطانوی افواج کی کئی دوسری شاخوں تک بھی پھیل گئی۔ بمبئی کے ساحل پر لنگرانداز رائل انڈین نیوی کے جہازوں پر لگے برطانوی راج کے پرچم اتار کر پھاڑدیے گئے اور سرخ رنگ کے جھنڈوں سمیت ان پارٹیوں کے پرچم لگا دیے جو آزادی کی جدوجہد میں سرگرم تھیں۔ مرکزی ہڑتالی کمیٹی نے ایک لیف لیٹ شائع کیا جو اِن نعروں کے ساتھ ختم ہوتا تھا: ’مزدوروں، سپاہیوں، طالب علموں اور کسانوں کی یکجہتی زندہ باد۔ انقلاب زندہ باد!‘ 21 فروری کو برطانوی فوج نے اس وقت جہازیوں پر فائر کھول دیا جب وہ بمبئی قلعے میں اپنی بیرکوں سے باہر نکل رہے تھے۔اس اشتعال انگیزی نے پر امن سرکشی کو پر جوش بغاوت میں بدل کر رکھ دیا۔ سارا دن جہازیوں اور برطانوی ایلیٹ فورس کے مابین مسلح جھڑپیں ہوتی رہیں۔ برطانوی ایلیٹ فورس نے جہازیوں کے ساتھ یکجہتی کرنے والے صنعتی مزدوروں کے خلاف بھی ایسا ہی جبر وتشدد شروع کر دیا۔ 22 اور 23 فروری کو برطانوی فوج کی وحشت سے 250 جہازی اور مزدور شہیدکردیے گئے۔کچھ چشم دید گواہوں کے بقول 21 فروری کو یوں لگ رہاتھا کہ جیسے سارا برصغیرہی سامراجی تسلط کے خلاف انقلابی جوش اور ولولے سے لیس ہوکر سرگرم ہو چکا تھا۔ ہڑتالی جہازیوں نے 21-20 فروری کو عام ہڑتال کی کال دی جس کا ناقابل یقین جواب آیا۔ پورے ملک میں ٹیکسٹائل فیکٹریوں، ملوں، ریلوے اور دوسری صنعتوں سے تین لاکھ سے زائد مزدور کام چھوڑ کر باہر نکل آئے۔ سڑکوں اور گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور نوجوانوں اور مزدوروں نے پولیس اور فوج کے ساتھ مورچہ بند ہوکر لڑائیاں لڑیں۔ کراچی میں ہڑتالی جہازیوں نے منوڑا جزیرے پہ لنگرانداز ایچ ایم ایس ’ہندوستان‘ اور ’بہادر‘ پر قبضہ کرلیا تھا۔ پھر ان جہازیوں نے کراچی کی گلیوں میں ایک جلوس نکالا جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔ کراچی کے برطانوی فوجی کمانڈر نے ان کو کچلنے کے لیے بلوچ سپاہیوں کے دو پلاٹون بھیجے لیکن انہوں نے بھی اپنے بھائیوں پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔ برطانوی کمانڈروں نے اس کے بعد اپنے ’وفادار‘ اور انتہائی بے رحم سمجھے جانے والے گورکھا سپاہیوں کو بغاوت کچلنے کے لئے بھیجا۔ لیکن اس وقت وہ ہکے بکے رہ گئے جب گورکھا سپاہیوں نے بھی ہڑتالی سپاہیوں پر گولی چلانے سے انکار کردیا۔ پھر برطانوی سپاہیوں کو لایا گیا جنہوں نے گولیاں چلانا شروع کردیں اور جہازوں پر موجود جہازیوں نے انتقامی اقدامات کیے۔ فائرنگ، حملے اور جوابی حملے چار گھنٹے تک جاری رہے۔ چھ جہازی مارے گئے، تیس سے زائد زخمی ہوئے۔ ٹریڈ یونینوں نے کراچی میں عام ہڑتال کا اعلان کر دیا اور پورا شہر بند ہوگیا۔ 35000 سے زائد لوگوں، جن میں ہندو اور مسلمان سبھی شامل تھے، نے عیدگاہ کی طرف مارچ کیااور تمام تر جبر، خوف، گرفتاریوں، لاٹھی چارج اور فائرنگ کے باوجود ایک بڑی ریلی نکالی جس میں پچاس سے زائد مظاہرین زخمی ہوئے۔ کلکتہ میں 120000 سے زائد لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ دوسرے شہروں اور قصبوں میں بھی اسی طرح کے مظاہرے ہوئے۔ یہ ہڑتالیں برطانوی راج کے لئے ایک براہ راست چیلنج تھیں۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنماؤں نے سامراجیوں کیساتھ مل کے جہازیوں کی بھرپور مذمت کی اور اس انقلابی صورتحال کو زائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس ساری صورتحال میں کمیونسٹ پارٹی بھی لائحہ عمل کے حوالے سے تذبذب اور تقسیم کا شکار رہی۔ ایک طرف بیشتر پارٹی کیڈر جہازیوں اور محنت کشوں کے شانہ بشانہ ہڑتالوں اور مظاہروں میں شریک رہے دوسری طرف پارٹی قیادت مقامی بورژوازی کی پارٹیوں، جو اس ساری جدوجہد کے خلاف تھیں، کے ساتھ قائم ”یونائیٹڈ فرنٹ“ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی رہی۔ اس صورتحال میں جہازیوں کو بالآخر سرنڈر کرنا پڑا۔ اس موقع پر انہوں نے جو پیغام جاری کیا وہ ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے:
”ہماری سرکشی ہمارے لوگوں کی زندگیوں میں ایک اہم تاریخی واقعہ تھی۔ پہلی مرتبہ باوردی اور بے وردی مزدور کا خون ایک ہی دھارے میں مشترکہ مقصد کے لئے بہا۔ ہم باوردی مزدور یہ بات کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ ہمارے پرولتاری بہن بھائی بھی اس بات کو نہیں بھولیں گے۔ ہماری آنے والی نسلیں اس سے اسباق سیکھتے ہوئے ہمارے ادھورے کام کو پورا کریں گی۔ محنت کش طبقہ زندہ باد۔ انقلاب زندہ باد!“
کتاب میں اس ملک گیر بغاوت کے امکانات، اس میں کمیونسٹ پارٹی کے کنفیوژن پر مبنی کردار اور اس کی شکست کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ لیکن 1946ء کی بغاوت اور انقلابی صورتحال کی اہمیت کا اندازہ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم کے اس اعتراف سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو اس نے بعد ازاں 1956ء میں کیا۔ کلکتہ ہائی کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس پی وی چکرورتی نے 30 مارچ 1976ء کو لکھے گئے ایک خط میں اس کا ذکر کیا ہے:
”جب میں 1956ء میں مغربی بنگال کے گورنر کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہا تھا تو لارڈ کلیمنٹ ایٹلی، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سالوں میں برطانوی وزیر اعظم تھا اور جسے ہندوستان کی آزادی کے لئے ذمہ دار مانا جاتا ہے، انڈیا آیا اور راج بھون کلکتہ میں دو دن ٹھہرا۔ میں نے اس سے بالکل سیدھا سوال پوچھا: ’گاندھی کی ’ہندوستان چھوڑ دو تحریک‘ 1947ء سے بہت پہلے اپنی موت آپ مر چکی تھی اور ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے انگریزوں کو عجلت میں ہندوستان چھوڑنا پڑتا۔ پھر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟‘ جواب میں ایٹلی نے کئی وجوہات گنوائیں۔ جن میں سے اہم ترین انڈین نیشنل آرمی اور نیتاجی سبھاش چندرا بوس کی وہ سرگرمیاں تھیں جنہوں نے ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی بنیادیں ہلا ڈالی تھیں اور رائل انڈین نیوی میں ہونے والی بغاوت تھی جس نے انگریزوں کو احساس دلایا کہ اب مزید ہندوستانی افواج پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب میں نے پوچھا کہ انگریزوں کا ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ گاندھی کی 1942ء کی تحریک سے کس حد تک متاثرہ تھا تو ایٹلی نے حقارت بھری ہنسی ہنستے ہوئے آہستہ سے کہا: ’نہ ہونے کے برابر!“‘
ان واقعات کے بعد برطانوی سامراجیوں نے طے کر لیاتھا کہ وہ ہندوستان کو چھوڑ تو دیں گے مگر اسے ایسے نہیں چھوڑیں گے۔ چنانچہ فیصلہ کر لیا گیا کہ برطانوی راج اپنے پیچھے متحدہ ہندوستان نہیں بلکہ منقسم و منتشر ہندوستان ہی چھوڑکر جائے گا۔ اسے تقسیم ہونا تھا۔ یہ طے ہو گیا کہ برطانوی سامراج ”تقسیم کر کے راج کرو“ کی پالیسی، جس کے تحت اس نے یہاں صدیوں اپنا تسلط قائم رکھا، یہاں سے جاتے ہوئے بھی قائم رکھے گا۔ برطانوی لیبر پارٹی کے نسبتاً ترقی پسند حصے اگرچہ بٹوارہ نہیں چاہتے تھے اور بڑے پیمانے پر خون خرابے کے امکانات سے خوفزدہ تھے۔ لیکن چرچل، جو اس وقت اگرچہ اقتدار میں نہیں تھا، کی قیادت میں برطانوی سامراج کے زیادہ رجعتی اور قدامت پرست حصوں نے نہرو کے ذریعے بٹوارے کو یقینی بنایا۔ اس خونی بٹوارے کے نتیجے میں جتنے بڑے پیمانے پر فسادات، ریپ اور قتل عام کے واقعات ہوئے اور ہزاروں سال پرانی تہذیب کو مذہبی بنیادوں پر چیر کے دو ٹکڑے کر دینے کے جو ہولناک سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی اثرات یہاں کے عوام پر مرتب ہوئے، ان سے یہ معاشرے آج تک باہر نہیں نکل سکے۔ یہ ایک تاریخی صدمہ تھا جو اس خطے کے محنت کشوں کی نسلوں کے ذہنوں پہ نقش ہو گیا۔ بٹوارے کے یہ زخم آج تک رِس رہے ہیں۔ جنہیں ہندوستان اور پاکستان کے حکمران کبھی قومی و مذہبی شاونزم، کبھی جنگوں اور جنگی جنون اور کبھی مذہبی بنیاد پرستی کی شکل میں کریدتے چلے آ رہے ہیں۔ اور یہاں کے خصی لبرلزم میں اتنی سکت کبھی بھی نہیں رہی کہ اس مذہبی بنیاد پرستی اور جنگی جنون کا راستہ روک سکے۔ بلکہ حکمرانوں کے لبرل دھڑے تو بیشتر صورتوں میں خود ان زہریلے نعروں اور سیاسی اوزاروں کا استعمال کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ان ممالک کی ”دوستی“، ”امن“ اور ”ہم آہنگی“ ایک مکروہ فریب ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ نہ ہی یہ ممالک ایک کھلی جنگ لڑ سکتے ہیں۔ ایسے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس میں سب سے اہم ایک بڑے پیمانے کی نیوکلیئر تباہی کا امکان ہے جو سامراج بھی کبھی نہیں چاہے گا۔ لیکن مذہبی بنیاد پرستی اور جنگی جنون یہاں سرمایہ داری کو قائم رکھنے کے بنیادی طریقہ کار بن چکے ہیں۔
سرکاری فکر و دانش جس بٹوارے کو ”آزادی“ قرار دیتی ہے وہ درحقیقت اقتدار کی گورے حکمرانوں سے بھورے حکمرانوں کو منتقلی تھی۔ یہ مقامی بھوری اشرافیہ انگریز سامراج کے پیوند کردہ حکمران طبقے پر ہی مشتمل تھی۔ اسی لئے یہ بھورے حکمران آج تک معاشی و سیاسی طور پر اپنے گورے آقاؤں کے تابع اور فرمانبردار رہے ہیں۔ ان بحران زدہ ریاستوں میں قومی سالمیت ایک مکروہ فریب ہے اور فریب ہی رہے گی۔ انگریزوں کے چلے جانے کے باوجود ان کا مسلط کردہ استحصالی نظام یہاں بدستور برقرار رہا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ حاکموں کا رنگ یا مذہب بدل جانے سے حاکمیت کا کردار بدلتا ہے نہ محکوموں کی تقدیر۔ لہٰذا آزادی کے بعد اس خطے میں طبقاتی و قومی استحصال نہ صرف جاری رہا بلکہ کئی حوالوں سے شدید تر ہی ہوا۔ برصغیر جنوب ایشیا میں آج وسیع پیمانے کی غذائی قلت، لاعلاجی، ناخواندگی اور بے گھری موجود ہے۔ سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات میں یہاں ان گنت زندگیاں لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ کرپشن سماجی زندگی کا ناگزیر حصہ بن چکی ہے۔ مذہبی جنونی بے لگام ہیں۔ رویے تلخ اور ترش ہیں۔ بچوں اور عورتوں کے ریپ اور قتل جیسے اندوہناک جرائم نے عوام کو ایک صدمے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان ملکوں کا شمار بجا طور پر دنیا کے پرانتشار ترین معاشروں میں کیا جا سکتا ہے جہاں غیر یقینی کیفیات اور مسلسل عدم استحکام ایک معمول بن چکے ہیں۔ یہ اس نظام کے تحت ملنے والی آزادی کی ساڑھے سات دہائیوں کا جمع حاصل ہے۔آج اس خطے کے ممالک کو جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے جتنے بڑے پیمانے پر وسائل کی ضرورت ہے وہ اس بحران زدہ سرمایہ دارانہ نظام میں میسر نہیں آ سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں غربت، بھوک، بیماری اور بیروزگاری سے آزادی اس نظام کے تحت ممکن نہیں ہے۔ اور جب تک یہ سماج قلت اور مانگ میں سلگتے رہیں گے‘ اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے براہِ راست اور بالواسطہ جبر اور دہشت کی ضرورت موجود رہے گی۔ ایسے میں کسی صحت مند پارلیمانی جمہوریت کی استواری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ سرمایہ داری یہاں ایک خوشحال اور ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر میں ناکام رہی ہے۔ حتیٰ کہ سرمایہ داری کے تاریخی فرائض بھی یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ اور اس خطے کا دیوہیکل پرولتاریہ ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں یہ انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن انقلابات جہاں تاریخ کے دھارے موڑ کے رکھ دیتے ہیں وہاں جغرافیے بھی بدل ڈالتے ہیں۔ اس خطے کے سوشلسٹ انقلاب کو جہاں دوسرے تاریخی فرائض ادا کرنے ہیں وہاں سامراج کی کھینچی خونی لکیروں کو بھی مٹانا ہے۔ پورے برصغیر جنوب ایشیا کے محنت کشوں اور مظلوموں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا کرنا ہے۔ نہ صرف پاکستان اور ہندوستان بلکہ پورے برصغیر اور اس کے افغانستان اور ایران جیسے نواحی ممالک کا انقلاب ناگزیر طور پر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ مارکسزم ہی آج وہ نظریاتی اور سیاسی بنیادیں فراہم کر سکتا ہے جن کے ذریعے نہ صرف دنیا کے اس خطے میں سوشلسٹ انقلاب کا طریقہ کار اور لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے بلکہ قومی، مذہبی و لسانی تقسیموں کی رجعت کو شکست دے کر جنوب ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ صرف اسی طور یہاں ایک خوشحال، پرامن اور انسانی زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ کامریڈ لال خان کی اس کتاب کے ہسپانوی زبان میں ترجمے کی کاوش، جس کے لئے ہمارے انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ اور ایم ایس ٹی کے کامریڈ بھرپور داد و تحسین کے مستحق ہیں، کروڑوں لوگوں تک جنوب ایشیا کے سماجوں کی تاریخ اور مارکسی تجزئیے و تناظر کی ترسیل کا باعث بنے گی۔ یہ مارکسی بین الاقوامیت کی ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ انہی بنیادوں پر ہم اس بین الاقوامی انقلابی جدوجہد کو آگے بڑھا سکتے ہیں جسے پوری دنیا میں سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر ایک سوشلسٹ دنیا کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا ہے۔