بابر پطرس

بھارت کے شہر کلکتہ میں رونما ہونے والے گینگ ریپ کے اندوہناک واقعے نے ایک بار پھر پورے معاشرے کو ہلا کے رکھ دیا ہے اور جنسی امتیاز اور تشدد کے سوال کو سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے بحران زدہ معاشروں میں ریپ اور قتل کے واقعات اخبارات کے اندرونی صفحات کی وہ یک سطری خبریں ہیں جو اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن کلکتہ میں ہونے والا یہ ریپ اور قتل اپنی نوعیت کا انتہائی وحشت اور درندگی پر مبنی واقعہ ہے۔ جس میں میڈیکل ٹیچنگ ہسپتال کی جونیئر ڈاکٹر کو نہ صرف گینگ ریپ کیا گیا ہے بلکہ اس طرح وحشیانہ انداز میں قتل کیا گیا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگوں کو درمیان سے چیر دیا گیا ہے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر ہندوستان میں وسیع پیمانے کی جنسی ہراسانی اور ریپ جیسے جرائم کی وبا کو موضوع بحث بنا دیا ہے اور پورے ملک میں عوامی غم و غصے سمیت نوجوانوں کے بڑے احتجاج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

لیکن اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ معاشرے میں عورت کے خلاف درندگی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ تاہم اس واقعے کی سفاکیت مجبور کرتی ہے کہ جنسی تشدد اور ہراسانی کے مسئلے پر سنجیدگی سے سوچ بچار کی جائے اور ان سوتوں کو تلاش کیا جائے جہاں سے یہ غلیظ اور زہریلا چشمہ پھوٹتا ہے۔ اس مسئلے کو محض مردانہ سوچ یا رویہ کہہ کر ٹال دینا کوئی دانش مندی نہیں ہے۔ نہ مذہبی رجعت اور گھٹن اس سلسلے میں واحد عنصر ہے۔ یہ کسی خاص طرح کے سماج سے بھی وابستہ نہیں ہے۔ جس طرح لبرل اور اصلاح پسندانہ دانش کا خیال ہے کہ جمہوریت اور تعلیم وغیرہ سے اس طرح کے واقعات کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس معاملے میں ترقی یافتہ مغربی معاشروں کی حالت بھی کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔

بھارت میں ایک دن میں 90 ریپ کیس رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ یقینا سرکاری اعداد و شمار سے ہٹ کر ان کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ بہت سارے کیس سرکاری فائلوں کا حصہ ہی نہیں بن پاتے اور بوسیدہ روایات اور سماجی دباؤ (بدنامی وغیرہ کا خوف) کے بوجھ تلے مظلوم آوازوں کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 85 سے 90 فیصد ریپ کیس کسی جگہ رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔ اس مظہر کی وجوہات میں عدالتی نظام پر لوگوں کا عدم اعتماد بھی شامل ہے۔ لیکن عدالتوں کا رخ کیا بھی جائے تو انصاف کے مقدس ایوانوں تک رسائی کی وہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے کہ گھروں کے چولھے بجھ جاتے ہیں۔ انصاف کی دوہائی دیتے دیتے نسلیں بیت جاتی ہیں اور آخر میں سرمایہ جیت جاتا ہے۔ علاوہ ازیں عدالتوں اور پولیس سمیت ریاستی مشینری میں مظلوم خواتین کا سامنا جن لوگوں (عورتوں سمیت) ہوتا ہے ان کی سوچ ریپ کرنے والوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔

رائٹرز کے ایک سروے کے مطابق بھارت جنسی تشدد کے حوالے سے عورتوں کے لئے دنیا کا سب سے خطرناک ملک ہے۔ یاد رہے یہ وہی بھارت ہے جس کی لبرل معاشی ترقی کا ڈھنڈورا پوری دنیا میں پیٹا جاتا ہے اور جس نے کچھ عرصہ قبل چندر یان تھری کو کامیابی سے چاند کی سطح پر اتارا تھا۔ لیکن اس طرح کے سرویز کے شور میں پھر ترقی یافتہ معاشروں کی اپنی حالت اور وہاں ہونے والے جنسی جرائم بھی چھپ جاتے ہیں۔ مثلاً تقریباً 33 کروڑ آبادی والے امریکہ میں ہر سال ریپ کے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد کیس رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ساڑھے چھ کروڑ نفوس کے ملک برطانیہ میں ہر سال رپورٹ ہونے والے ریپ کے کیسوں کا شمار 85 ہزار سے زیادہ کا ہے۔اسی طرح اصلاح پسندوں کے خوابوں کی جنت اور سرمایہ داری کی ’فلاحی ریاست‘ سویڈن میں تقریباً 10 ہزار ریپ کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ جبکہ اس ملک کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔

دراصل یہ سب طبقاتی نظام کی عطا ہے جو سرمایہ دارانہ سماج کے زوال اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے عہد میں شدید تر ہو گئی ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایسے جرائم کا تعلق ”مجرم جینز“ یا موروثی عوامل سے بھی نہیں ہوتا (کم از کم براہِ راست نہیں)۔ بلکہ اس کے تانے بانے سماجی و معاشی بنتر میں موجود ہوتے ہیں۔ جب سماجوں میں بحرانات اس حد تک بڑھ جائیں کہ افراد کے پاس روشن مستقبل کی امید کی رمق بھی موجود نہ ہو اور بیگانگی انتہاؤں کو چھونے لگے تو ایسے جرائم نمو پانے لگتے ہیں۔ اس لئے معاشرے کی سطح کے نیچے چھپے ہوئے تضادات کو باریک نظر کے ساتھ ایک تسلسل میں دیکھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی مارکسی طریقہ ہے۔ اگر اس کے برعکس مشاہدہ کیا جائے تو غلط نتائج اخذ کرنے کے بعد محض لکیر کو پیٹا جاتا ہے۔ اسی طرح حقیقت سے منہ پھیر کے سمجھ لینا کہ ایسے مسائل کا کوئی وجود نہیں بھی ایک حماقت بلکہ جرم بن جاتا ہے۔

دیکھنا ہو گا کہ وہ کون سی سوچ اور رویہ ہے جو عورت کو کمتر اور بے حیثیت سمجھ کر گھر کی چار دیواری میں مقید کر کے اس کے سماجی پیداواری وجود کو تحلیل کرنا چاہتا ہے اور اسے صرف بچے پیدا کرنے کی مشین تصور کرتا ہے؟ ایسی فکر کے حامل طبقے کا ایمان ہے کہ ریپ کی وجوہات میں نمایاں عورت کا گھر سے نکلنا، وقوعے کاوقت اور جگہ اور اس کا لباس ہے۔ لیکن اسی فکر کا داعی میڈیا ایسی خبریں بھی چلا چکا ہے جن میں دو دو سال کی بچیوں کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر لاشوں کے ساتھ گھناؤنے عمل بھی ٹی وی پر رپورٹ ہو چکے ہیں۔ یوں ان صورتوں میں خواتین کو نہ گھر کے در و دیوار محفوظ رکھ سکے، نہ لباس، نہ قبر کی منوں مٹی۔ علاوہ ازیں بچیوں اور خواتین سے ہٹ کے چھوٹے بچوں اور بالغ لڑکوں پر ہونے والے جنسی تشدد کا بھی ہمارے معاشروں میں کوئی شمار نہیں ہے۔ یہ ساری مثالیں ریپ کو عورت کے لباس یا ”بے حیائی“ کے ساتھ جوڑنے کی گھٹیا سوچ کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔

ایک طبقے کی سوچ یہ بھی ہے کہ یہ کوئی دماغی یا نفسیاتی عارضہ ہے۔ مسئلے کو ناقابل تشخیص عارضہ کہہ کر چشم پوشی کر لینا بھی کوئی صحت مندانہ رویہ نہیں بلکہ ایک معذرت خواہانہ روش ہے۔ ضرورت ہے کہ ان وجوہات کا کھوج لگایا جائے جو اس طرح کے واقعات کی قوت محرکہ ہیں۔ اس سوچ کے دھارے کہاں سے نکلتے ہیں جو عورت کو استعمال یا بازار میں نیلامی کی شے، منافع خوری اور جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ عورت کے لئے ”مشین“ جیسے گھٹیا الفاظ کا استعمال ہی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس سوچ کے نزدیک عورت کوئی انسان نہیں بلکہ افزائش نسل کا ایک آلہ ہے۔ مروجہ ادب کسی بھی سماج کی عام نفسیات کا بڑا زور دار اظہار ہوتا ہے۔ اس کی زبان کے محاورے، ناول، افسانے، ڈرامے اور فلمیں سماجی سوچوں اور رویوں کو عیاں کرتے ہیں۔ شاعری میں استعمال ہونے والے استعارات اور تشبیہات کو پڑھ لیں۔ اندازہ ہو جائے گا کہ اس معاشرے میں عورت انسان سے کہیں زیادہ ایک ’شے‘ یا کموڈیٹی ہے۔ مثلاً عورت کے دانت نایاب نگینوں کی مانند ہیں۔ اس کی رنگت دودھ جیسی اور بال چاندی جیسے۔ صراحی جیسی گردن۔ ہیرے جیسی آنکھیں۔چاند چہرہ۔ غرض گنتے جائیں تو ایک ایسا سراپا وجود میں آئے گا جو کسی لحاظ سے انسان کہلانے کا حق دار نہیں ہو گا۔

پراپیگنڈہ کے زور دار میڈیم فلم کو دیکھیں یا اشتہارات اور پروموشن کے پروگرامات۔ عورت ہر جگہ ایک جنس نظر آئے گی۔ فلموں میں عورت تفریح کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اپنے رقص و نیم برہنہ جسم کے مختلف زاویوں سے ناظرین کو محظوظ کرنے کے سوا بالعموم اس کا کوئی کام نہیں ہوتا۔ مختصر یہ کہ سرمایہ دارانہ سماج کے ہر ادارے نے عورت کے انسانی اور پیداواری وجود کو رد کر کے اپنے مفاد کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے اور اس کے لئے ہر طرح کے میڈیم کو استعمال کیا ہے۔

لہٰذا عورت کی محکومی اور اس پر ہونے والے جنسی تشدد کے پیچھے دونوں طرح کی سوچیں کارفرما ہیں۔ ایک وہ جو عورت کو لبادے میں لپیٹ کر اس کے متحرک سماجی وجود کو نابود کر دینا چاہتی ہے۔ دوسری وہ جو اس کو بازار کی زینت بنا کر منافعوں کے حصول کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ دونوں میں عورت بطور انسان کہیں نہیں بچی۔ جب عورت انسان نہیں رہی تو اس کے ساتھ ہر طرح کا سلوک روا رکھا جا سکتا ہے۔

محنت کش طبقے کی پسی ہوئی عورت جب اس گھٹن زدہ سماج میں اپنی شناخت کی تلاش میں نکلتی ہے اور اس نظام کے رکھوالوں کے بنانے گئے ضابطوں سے ٹکراتی ہے تو صدیوں کے قوانین اور پسماندہ و بحران زدہ سرمایہ داری کی پروردہ سوچ سے اس کا تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ جس میں اسے ہر طرح سے توڑنے اور رسوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جنسی استحصال کے معاملے کو عورت اور مرد کی تقسیم کے پیرائے میں دیکھنا بھی کوئی معقول بات نہیں ہے۔ بالکل جیسے طبقاتی استحصال کو قومیت کے تناظر میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تاریخی طور پر جنسی امتیاز اور پدرشاہی کا سوال نجی ملکیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ طبقاتی نظام میں اس کی جڑیں بہت گہرائی میں پیوست ہیں۔ لہٰذا شاخوں کو کاٹ کر اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ ریپ جیسے قبیح جرائم کی روک تھام کے لئے قانون سازی، مقدمات کی تیزی، خواتین کی شمولیت پر مبنی خصوصی عدالتوں اور مجرموں کی سخت سزاؤں سے اختلاف نہیں۔ لیکن جب تک مسئلے کی جڑیں موجود ہیں‘ اس کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکنا ممکن نہ ہو پائے گا اور اس کی دیرپا روک تھام ممکن نہیں ہو گی۔ آج کے عہد کے حوالے سے بات کریں تو آخری تجزئیے میں جنسی استحصال کا ذمہ دار منافع خوری پر مبنی طبقاتی سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ کیا سرمایہ داری کے جدید نمائندہ ملک اپنی تمام تر ترقی اور خواندگی کے باوجود اس سے چھٹکارہ حاصل کر پائے ہیں؟ دوسری طرف ہمارے جیسے معاشروں میں کیا واعظ کی پند و نصائح سے بھر پور تقریروں سے یہ مسئلہ حل ہو سکا ہے؟ جوابات یقینا نفی میں ہیں۔ کیونکہ جنسی امتیاز اور استحصال کسی انفرادی دماغ کی پیداوار نہیں ہے بلکہ طبقاتی نظام کا جزلاینفک ہے۔ تدارک کی یہ صورتیں ناکام و نامراد ہیں تو پھر راستہ کیا ہے؟ جدوجہد… مسلسل جدوجہد۔ ایک ایسے سماج کے لئے جہاں نہ تو طبقاتی اور نہ ہی جنسی حوالے سے کوئی کمتر ہو۔ جہاں بیگانگی کے ساتھ اس جنسی وحشت کا بھی خاتمہ ہو سکے جو ایسے واقعات کو جنم دیتی ہے۔ جہاں عورت کی محکومی اور استحصال کی تاریخی وجوہات کو مٹا دیا جائے۔ جہاں عورت سمیت معاشرے کا ہر انسان پیداواری عمل میں شامل ہو کے تحقیق، تخلیق اور تسخیر کے ذریعے اپنی ذات کی تکمیل کر سکے۔