بابر پطرس

لیون ٹراٹسکی کے بقول ہر حکمران طبقہ اپنی ثقافت تخلیق کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا آرٹ تشکیل پاتا ہے۔

سرمایہ داری نظام کے بطن میں پوشیدہ تضادات کا تجزیہ کرنے کے بعد اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں سب سے توانا، جاندار اور سائنسی آواز کارل مارکس کی تھی۔ یعنی انقلابی سوشلزم کی آواز۔ مزدوروں کی ایک بین الاقوامی جماعت کمیونسٹ لیگ، جو اس وقت کے حالات میں خفیہ ہی ہو سکتی تھی، نے اپنی کانگریس منعقدہ نومبر 1847ء لندن میں مارکس اور اینگلز کو پارٹی کا ایک مفصل نظری اور عملی پروگرام اشاعت کے لیے تحریر کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ یوں 1848ء میں ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ کے عنوان سے ایک ایسی تاریخی دستاویز ظہور پذیر ہوئی جس نے پوری دنیا کا منظر نامہ ہی بدل کے رکھ دیا۔ مروجہ سیاست و ریاست کے اونچے، پرتعیش ایوانوں میں ایک بھونچال برپا ہو گیا۔ اس بھونچال کو مینی فیسٹو کے مصنفین نے پیشگی کمیونزم کا بھوت قرار دیا تھا جو پورے یورپ پر منڈلا رہا تھا۔ لہٰذا اس بھوت سے چھٹکارہ پانے کے لیے تمام سیاسی اور مذہبی طاقتوں نے مقدس اتحاد قائم کر لیا۔ لیکن کمیونسٹ مینی فیسٹو جہاں نظری یا سیاسی اعتبار سے ایک انقلابی تحریر تھی وہاں اسے ادبی حوالے سے بھی کسی شاہکار سے کم نہیں کہا جا سکتا۔

آج مارکسزم اور انقلابی سوشلزم کا یہ پروگرام اپنے سائنسی طریقہ کار اور محنت کشوں کی نجات کا ترجمان ہونے کے ناطے عوامی حمایت حاصل کرتے ہوئے کرہ ارض پر موجود سر حدوں کو پھلانگتا ایک بین الاقوامی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ لیکن اس کی ٹھوس بنیادیں جدلیاتی مادیت کے فلسفے نے فراہم کی ہیں۔ جدلیاتی مادیت کائنات کو تحرک اور تسلسل میں دیکھنے کا سائنسی طریقہ کار ہے۔ اس طرح یہ فطرت، سماج اور اس کی تاریخ، ریاست، سیاست، معیشت صحافت، اخلاقیات، طرز تعمیر، لسانیات و ادبیات‘ غرضیکہ زندگی کے تمام پہلوؤں اور سماج کے تمام اداروں کے بے باک تجزئیے کو اپنی کوکھ میں سموئے ہوئے ہے۔ مارکسی تحریک آخری تجزئیے میں طبقاتی سماج کو ازسرنو غیر طبقاتی بنیادوں پر تعمیر کرنے کی تحریک ہے۔

ادب کا خمیر بھی زندہ سماج سے اٹھتا ہے اور اس کا موضوع بحث زندگی ہے۔ لہٰذا ادب براہ راست اپنے عہد اور زمانے کی آفاقی صداقتوں کو موضوع بحث بناتا ہے۔ سجاد حارث نے کہا تھا،’’حیات کی تزئین و تعمیر کرنا فنکاروں کا پہلا اور بنیادی فرض ہے اور یہ فرض ظلم اور بدصورتی کے تمام آثار مٹائے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ اسی طرح مارکس کے زریں الفاظ کہ فلسفیوں نے اب تک کائنات کی محض تشریح کی ہے جبکہ مسئلہ اس کو تبدیل کرنے کا ہے۔یہ بنیادی نکتہ ادب کو جانچنے اور پرکھنے کا معیار بھی بن جاتا ہے۔

کوئی سنجیدہ، ترقی پسند اور انسان دوست ادب محض مافی الضمیر کے اظہار یا حس لطافت کی تسکین پر مبنی نہیں ہو سکتا۔ نہ یہ محض انفرادیت کے اظہار کا نام ہے۔ بلکہ ادب کو تازہ زمانوں کا معمار ہونا چاہئے۔ یہ سماجی تضادات کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ اپنے عہد کی زندگی کا عکس بھی ہے۔ اور محض عکس ہی نہیں ہے۔ نئے سماج اور نئے صبح و شام کی تعمیر و تشکیل کا اوزار بھی ہے۔

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فرازؔ
یہ بھی ایک سلسلہ کن فیکوں ہے یوں ہے

اگر مارکسی تحریک کو اس کے جنم استھان سے باہر برصغیر میں دیکھا جائے اور اس کے ادب پر اثرات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں ہندوستان کے معروضی حالات نے یہاں کے ادیبوں اور شاعروں پر اپنے اثرات مرتب کرنے شروع کر دئیے تھے۔ ان ترقی لکھاریوں نے انقلابی رجحانات کو محض درآمد ہی نہیں بلکہ اپنے سماج کی صداقتوں کا گہرا ادراک حاصل کیا اور ادب کو حقیقی معنوں میں عوامی زندگی کا ترجمان بنایا۔ یوں برصغیر پاک وہند میں ترقی پسند ادبی تحریک کا آغاز ہوا۔ جو بنیادی طور پر مارکسی فکر و فلسفہ کا ادبی اظہار تھا۔

اگرچہ برصغیر کی ادبی روایات کی داخلیت اور انفرادیت پر سر سید بہت بڑا حملہ کر چکے تھے۔ نظیر اکبر آبادی ایسے شاعر ادب کا رشتہ زمین اور زمین باسیوں کی وسیع پرتوں کے ساتھ استوار کرنے میں پیش پیش تھے۔ تاہم عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنے والے شعرااور ادبا کی انفرادی تخلیقات خواہ کتنی ہی بڑی ہی کیوں نہ ہوں وہ وسیع پیمانے پر نئی تہذیب و ثقافت تخلیق نہیں کر سکتیں۔

جہاں تک سر سید کی ادبی خدمات کا تعلق ہے تو ان کی خارجیت سماج کی از سر نو تعمیر کی پرچارک کم اور قدامت پسندی میں لتھڑی نیم جدت پسندی اور سامراج سے مصالحت پر زیادہ مبنی ہے۔ دوسری طرف ترقی پسندوں کے یہاں حال کا درست تجزیہ، ماضی کا تاریخی علم اور مستقبل کا واضح لائحہ عمل موجود تھا۔ اس نے ان کی خارجیت اور اجتماعیت کی اساس طبقاتی شعور اور نو آبادیاتی نظام سے بیزاری پر رکھی۔ یوں ترقی پسندوں نے اپنے دور کے مذہبی و سیاسی، سماجی و معاشی تضادات کا نہ صرف بھرپور تجزیہ کیا بلکہ ان کی بنیاد پر ادب میں ایک نئے سماجی شعور کو فروغ دیا۔

1496ء میں جب فلورنس میں نشاۃ ثانیہ یا احیائے علوم کی تحریک شروع ہوئی تو اس تحریک کا سب سے پہلا اثر آرٹ پر ہی پڑا۔ یورپ میں بورژوا انقلابات کے نتیجے میں ریاست کی مذہب سے علیحدگی کے بعد آرٹ کی تخلیق میں چرچ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ رہی۔ برصغیر کے معروضی حالات مختلف تھے کہ یہاں ریاست حقیقی معنوں میں مذہب سے الگ نہیں ہو پائی۔ نہ ہی یورپ کی طرز پر سیکولر سماج تعمیر ہو پائے۔ اس لئے یہاں ادیبوں اور شاعروں کو مختلف قسم کے حالات کا سامنا رہا۔

لیکن پھر ادب برائے ادب کی گردان الاپنے والوں نے ترقی پسند ادب کو سیاسی پروپیگنڈا کہہ کر ادب ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ گویا لکھا ہوا ہر جملہ اور کہا ہوا ہر مصرعہ اگر کسی مقصد کے تحت ہے تو وہ ادب کی تعریف سے ہی خارج ہے! ان رجعتی رجحانات کے مطابق اس ادب پارے میں ’’ادبیت‘‘ نہیں ہو گی‘ نہ اس شعر میں ’’شعریت‘‘ ہو گی جس کو ترقی پسند تخلیق کریں گے۔

مارکسی طریقہ کار اور فلسفے کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو ہر طبقاتی سماج دو بڑے یا بنیادی طبقات پر مشتمل ہوتا ہے۔ محنت کرنے والے اور محنت کے ثمرات سمیٹنے والے۔ استحصال زدہ اور استحصالی۔ ایسے میں لکھاری بھی دو واضح طبقوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک طبقہ عہد رفتہ کو کسی نہ کسی صورت قائم و دائم رکھنے کا متمنی ہوتا ہے۔ دوسرا بدلتے حالات یا عہد نو کے تقاضوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کا داعی ہوتا ہے۔ یا اس سے بھی بڑھ کر حالات کو شعوری کوشش سے بدلنے کی بات کرتا ہے۔ لہٰذا ہر طبقہ ایک یا دوسرے طریقہ سے، دانستہ یا نادانستہ، اپنے سوشل آرڈر کا ترجمان بن جاتا ہے۔ جس کا اظہار آرٹ میں ہوتا ہے۔

اس میں دو آرا نہیں ہیں کہ شاعری یا ادب تخلیق کرنے والوں کو کوئی سرکاری ہدایات یا مخصوص موضوعات نہیں دئیے جا سکتے کہ ان پر لکھا جائے یا نہ لکھا جائے۔ تاہم تاریخ کے معروضی عمل کے نقطہ نظر سے آرٹ ہمیشہ ایک سماجی خادم اور تاریخی طور سے افادیت پسند ہوتا ہے۔ فیضؔ صاحب کے الفاظ میں ’’حیاتِ انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک اور اس جدوجہد میں حسب توفیق شرکت زندگی کا ہی نہیں فن کا تقاضا بھی ہے۔‘‘

ادب کے بارے میں ہر طبقے کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ یہ ادب و فن کے ذریعے اپنے مطالبات اور مفادات کے فروغ کی پالیسی ہے جو وقت کے ساتھ تبدیلیوں سے بھی گزرتی ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے کہ مارکسی اسی کو نیا اور انقلابی آرٹ تصور کرتے ہیں جو بس مزدور کی بات کرے۔ یہ کہنا سراسر حماقت ہو گی کہ شاعروں کو محض فیکٹری کی چمنی یا سرمائے کے خلاف بغاوت ہی کی بات کرنی چاہئے۔ نئے فن کو یقینا اپنی توجہ کا مرکز محنت کش عوام کی زندگی کی جدوجہد کو بنانا ہو گا۔ لیکن اس کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ادب کی کوئی حدود و قیود نہیں ہیں اور ایک بات کو کسی مختلف انداز اور مختلف موضوع کے ساتھ بھی زیادہ لطیف اور پراثر طریقے سے کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔

لیون ٹراٹسکی کے بقول،’’ادب کو ہر کونے کی آبیاری کرنا ہو گی۔ پورے کھیت میں ہل چلانا ہو گا۔ محدود وژن کے حامل شعراکو بھی نئے ادب میں اپنا وجود برقرار رکھنے کا پورا حق حاصل ہے۔ لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ نئے ادب کے بغیر نیا انسان تشکیل نہیں پا سکتا۔ نئے ادب کی تخلیق کے لیے دنیا کو ایک نئی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے… سترہویں صدی کے فلسفہ زندگی کا ترجمہ نئی طرز کی شاعری میں کر کے نئے دور کا شاعر نہیں بنا جا سکتا۔‘‘

درج بالا بحث کی روشنی میں نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاعر یا ادیب طے شدہ شرائط کے تحت ادب تخلیق کرنے کے پابند نہیں ہیں۔

ہمارے یہاں انسان اور لکھاری کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ سماج میں رونما ہونے والی ناانصافی اور جبر کو دو الگ الگ زاویوں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک بطور انسان اور دوسرا بطور ادیب۔ بطور انسان انسانیت کا تقاضا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے مظلوم کی حمایت کی جائے۔ دوسری جانب ادیب کو غیرجانبدار رہ کر ادب تخلیق کرنے کا پاٹ پڑھایا جاتا ہے۔ کیوں؟ کیا ادیب اس سماج کا فرد نہیں ہے؟ کیا ادب میں سماجی برائی کے خلاف آواز اٹھانا‘ ادیب کا منصب نہیں ہے؟ کیا اپنے اجتماعی حال زندگی سے کٹ کے‘ محبوب کی گھنیری زلفوں میں چھپ کے جی لینا یا محبوب کی زلفوں کی اسیری ہی ادب کی معراج ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو فلم ’پارٹی‘ کے مشہور زمانہ مکالمے کا ایک جملہ ادب اور فن کے منصب کا تعین کر دیتا ہے کہ ’’ہر ادیب کو طے کر لینا ہو گا کہ وہ ادیب بن کے جینا چاہتا ہے یا انسان۔‘‘ لیکن درحقیقت یہ ایک عامیانہ اور منافقانہ سوچ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔

ادب زندہ انسانوں کا زندہ سماجی مظہر ہے۔ وہ سماج جہاں ہر شے تغیر پذیر ہے۔ مارکسی فکر و فلسفہ ہی بتا سکا ہے کہ رونما ہونے والے واقعات و حقائق کو ہو بہ ہو دہرا دینے سے بھی بڑا ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ کہ ادب ہائی ریزولوشن کا کوئی ڈیجیٹل کیمرہ نہیں ہے جو واقعات اور ان سے جنم لینے والے احساسات کو اپنی آنکھ میں بند کر لے۔ جیسا کہ ہمارے یہاں کے کچھ اردو ’حقیقت نگاروں‘ نے لکھا ہے۔ ایسے حقیقت نگار جو طبقاتی سماج میں ’غیر جانبدار‘ رہے۔ ایسے ادیبوں کے نزدیک ادب نہ ایک طبقے کی ترجمانی کرتا ہے نہ دوسرے کی۔ لیکن مارکسزم واضح کرتا ہے کہ ایک طبقاتی سماج میں اس طرح کی غیر جانب داری خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ’’جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارے خلاف ہے۔‘‘ کیونکہ طبقاتی سماج میں کوئی درمیانہ راستہ نہیں ہوا کرتا۔

اس صورت میں بعض حقیقت نگاروں کی کچھ تخلیقات بورژوا اخلاقیات کی حدوں سے بھی نیچے گر جاتی ہیں۔ وہ پیش نظر موضوع کو سماج کے دیگر عوامل سے کاٹ کر الگ کر دیتے ہیں اور گمراہ کن تجزئیے کی بنیاد پر غلط نتائج اخذ کرنے کا لبرل طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اب داخلیت اور خارجیت کے امتزاج سے کیا راہ نکالنی ہے‘ انفرادی جذبات کو کس طرح اجتماعیت میں ڈھالنا ہے‘ یہ ادیب کے شعور اور قلم کا اعجاز ہے۔

کرشن چندر کے لکھے ہوئے افسانے (پانی کا درخت) کو بطور مثال دیکھئے۔ افسانے کے مذکورہ گاؤں میں پانی اس قدر نمکین ہے کہ پینے لائق نہیں رہا۔ گاؤں کی ایک لڑکی اپنے محبوب کو رات دو بجے دور کسی چشمے پر بلاتی ہے اور آگاہ کرتی ہے کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ لہٰذا محبت کے باوجود وہ نوجوان کو چھوڑ کر چلی جائے گی۔ اس لیے کہ دوسرے گاؤں کا پانی بہت میٹھا ہے۔ یعنی ’’محبت سچائی، خلوص اور جذبے کی گہرائی کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا پانی بھی مانگتی ہے۔‘‘

ساحرؔ کی ایک شعری مثال بھی دیکھیں:

سنسار کی ہر اک بے شرمی غربت کی گود میں پلتی ہے
چکلوں ہی میں آکر رکتی ہے فاقوں سے جو راہ نکلتی ہے

طوائفوں اور جسم فروشوں پر لکھے گئے ہزاروں صفحات ایک طرف اور دوسری جانب ساحرؔ کا درج بالا شعر ثبوت ہے کہ معاشرے میں جنم لینے والی کسی بھی حالت اور کیفیت کو اس کے سماجی کُل ہی سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ یہی بات محبت اور عشق بارے کرشن چندر کی مذکورہ تحریر کے حوالے سے کہی جا سکتی ہے۔

یہی وہ نقطہ ہے جہاں موضوعیت کو معروضیت سے الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ موضوعی خواہشات معروضی حقائق کے روبرو اپنے الٹ میں بدل جاتی ہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ جذبات و احساسات میں کوئی کھوٹ ہوتی ہے بلکہ معروضی حالات اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ آرزوؤں کے گھروندوں کا بہہ جانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

تلخ معروضی حالات کے سامنے محکوم و مظلوم انسانوں کی بے بسی اور پھر انہی حالات میں رہتے ہوئے انہیں بدلنے کی جدوجہد کا حوصلہ و لائحہ عمل مارکسزم کی عطا ہے۔ ایسے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ متضاد کیفیات کا درست تجزیہ اور اس تجزئیے کی بنیاد پر درست نتائج اخذ کرتے ہوئے جبر، استبداد اور استحصال کی نشاندہی مارکسی فکر و فلسفے کی ہی دین ہے جو نثر اور شاعری کو اس کی معراج تک لے جاتی ہے۔