قمرالزماں خاں
لینن کے رفیق اور روسی انقلاب کے اہم معمار لیون ٹراٹسکی نے لکھا تھا کہ ”زندگی کمزور کو نشانہ بناتی ہے۔“ یہ بات یوں تو ہر جگہ پر سچ ہے مگر بلوچستان کے کان کنوں کے معاملے میں زیادہ دردناک انداز سے اپنا اظہار کرتی ہے۔
10 اکتوبر 2024ء کو جمعرات کی شب ’جنید کول مائن‘ کے ورکرز اگلی صبح چھٹی کے سبب دیر گئے تک جاگ رہے تھے۔ لگ بھگ رات بارہ بجے فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آئیں۔ کان کے مزدوروں پر حملہ آور دہشت گرد بندوقوں کے ساتھ ساتھ راکٹوں سے بھی مسلح تھے۔ یہ ہلاکت خیز حملہ دو گھنٹے تک چلا۔ حملہ آور ہر کمرے میں جھانکتے اور اندھا دھند فائرنگ کرتے جاتے۔ جب ادھر ادھر چھپے ہوئے مزدور کئی گھنٹوں کے بعد نکلے تو انہیں ہر طرف لاشیں اور خون نظر آیا۔ اس حملے میں بیس مزدور ہلاک جبکہ سات زخمی ہوئے۔ جدید ترین اسلحے سے نہتے اور بے بس کان کنوں پر حملہ کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ اس ملک میں ہر روز اٹھنے والے بیشتر خونریز سوالوں کی طرح یہ سوال بھی جواب سے محروم ہے۔ بیس کان کنوں میں تمام ہی پشتون تھے۔ تین کا تعلق افغانستان سے تھا اور باقی پشین، کچلاک، موسیٰ خیل، ژوب اور قلعہ سیف اللہ سے تھے۔ بلوچستان میں پشتون آبادی کا تناسب تیس فیصد اور ایک دعویٰ کے مطابق پچاس فیصد تک ہے۔ دو دن کی خاموشی کے بعد ایک بلوچ علیحدگی پسند تنظیم، جو پہلے ایسے واقعات میں ملوث رہی ہے، نے بھی ایک پریس ریلیز کے ذریعے مذکورہ دہشت گردی سے خود کو بری الذمہ قرارد دیتے ہوئے الزام ’قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ پر لگا دیا۔ صورتحال بہت گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ جانوروں سے بدتر زندگیاں گزارنے والے اس خطے کے مفلوک الحال محنت کش اپنا لہو کس کے ہاتھ پہ تلاش کریں؟ ایک طرف سامراجی ریاست کے نہ ختم ہونے والے جبر، گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ ہے۔ دوسری طرف اس ریاست کے ساتھ برسرپیکار مسلح گروہوں کا نشانہ پھر غریب اور پہلے سے کچلے ہوئے محنت کش ہی بنتے ہیں۔
2008ء سے جاری ایسے واقعات، جن میں سے بیشتر کی ذمہ داری بلوچ مسلح علیحدگی پسند گروہوں نے قبول کی ہے، سینکڑوں مزدوروں کی زندگیوں کے چراغ گل کر چکے ہیں۔ ان میں بھی سب سے آسان ہدف دنیا کا سب سے مشکل اور جان لیوا کام کرنے والے کوئلے کی کانوں کے مزدور ہیں۔ 2008ء میں مچھ میں 30 کان مزدوروں کو شناخت کر کے مار دیا گیا۔ 2009ء میں سوراب میں پانچ کان کنوں کو شناخت کر کے مارا گیا۔ 12 اگست 2012ء کو ہرنائی میں سات کان کن مار دیئے گئے۔ جون 2014ء میں مستونگ میں بس سے اتار کر 24 لوگوں کو مار دیا گیا جن میں زیادہ تر مزدور تھے۔ 17 مئی 2015ء کو سوئی میں سات کان کنوں کو قتل کیا گیا۔ 3 جنوری 2021ء کو مچھ میں 11 مزدوروں کو اغوا کیا گیا اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان کو قتل کر دیا گیا۔ تمام مزدور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس بہیمانہ قتل عام کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی۔ 25 اگست 2024ء کو بھی بلوچستان میں وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری میں تیس سے زیادہ مزدور قتل ہوئے۔ جن کو موسیٰ خیل اور دیگر علاقوں میں علیحدگی پسند مسلح گروہوں نے مارا تھا۔ ستمبر کے آخری ہفتے پنجگور میں شجاع آباد سے تعلق رکھنے والے سات مزدوروں کو مار دیا گیا۔ ایسے دوسرے واقعات میں بھی بیشتر ہلاک ہونے والے غریب مزدور ہوتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کوئلے کی کانوں میں کام کرتے تھے۔
کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والی لیبر میں سے زیادہ کا تعلق پشتون کمیونٹی سے ہوتا ہے جو افغانستان، بلوچستان کی پشتون بیلٹ اور پختونخواہ سے کان کنی کے لئے آتے ہیں۔ سوات، دیر، بنوں، وزیرستان اور شانگلہ کے علاوہ پنجاب کے جنوبی یا سرائیکی وسیب کے علاقوں مثلاً ڈیرہ غازی خان، میانوالی اور بھکر سے بھی مزدور پاکستان بھر کی کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرنے جاتے ہیں۔
پاکستان کے چھ لاکھ مربع کلومیٹر پر 92 قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ جن میں سے 52 کا کمرشل استعمال ہوتا ہے۔ ان معدنیات کی کل پیداوار 68.5 ملین ٹن سالانہ ہے۔ نمک کی سب سے بڑی کانیں اور دنیا کا پانچواں سونے اور تانبے کا ذخیرہ بھی پاکستان یا اس کے زیر انتظام علاقوں میں ہے۔ دونوں دھاتوں کی کانیں بلوچستان کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ کوئلے کے سب سے زیادہ ذخائر تھر (سندھ) میں ہیں جبکہ پنجاب، بلوچستان اور پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں کوٹلی اور مظفر آباد میں بھی کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔
پاکستان میں صرف پانچ ہزار کانیں آپریشنل ہیں۔ جن سے تین لاکھ کان کن براہِ راست وابستہ ہیں۔ کانوں سے نکالی گئی معدنیات پاکستان کے جی ڈی پی میں تین فیصد حصہ ڈالتی ہیں۔ مگر اس شعبے کی حالت زار دگرگوں ہے۔ ان کانوں سے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں مگر کان کنوں کو ہزاروں سال پہلے سے بھی گئی گزری زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کیا جاتا ہے۔ نہ ہی انسانی رہائش اور علاج کی سہولیات تک فراہم کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں نہ صرف کان کنی معدنیات کے ذخائر کی نسبت بہت کم ہے بلکہ جو کان کنی کی بھی جا رہی ہے اس میں زیادہ تر کا طریقہ کار ڈھائی ہزار سال پرانا ہے۔ جس کی تصویر کشی سپارٹاکس کی داستان اور قدیم مصر کی کانوں میں کام کرنے والے غلاموں کے احوال میں ملتی ہے۔ کان کنی کے مزدور، جن کو متعدد قسم کی دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کے خدشات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، پسماندہ ترین کان کنی کی وجہ سے ہر وقت موت کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔
پاکستان میں پچھلے آٹھ سال میں 150 حادثات کی وجہ سے 318 مزدوروں کی اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ پچھلے ایک ماہ میں حادثات سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 17 ہے۔ کوئلے کی کانوں میں حادثات کے سبب صرف شانگلہ ضلع، جس کی کل آبادی 7 لاکھ ہے‘ میں اس وقت 30 ہزار بیوہ خواتین اور 80 ہزار یتیم بچے ہیں۔ جبکہ زندگی بھر کے لئے معذور ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ کوئلہ کی کانوں میں موت اور حادثات پر نگاہ رکھنے والی ایک تنظیم ”سموا“ کے مطابق شانگلہ میں کان کنوں کی سالانہ 300 لاشیں آتی ہیں۔ جو جان لیوا بیماریوں، حادثات اور دہشت گردی کی نذر ہو چکے ہوتے ہیں۔ جبکہ اوسطاً 50 مزدور ریڑھ کی ہڈی یا گردن کی انجری کی وجہ سے معذور ہوتے ہیں۔ اسی طرح تقریباً ہر مزدور کی ہاتھ پاؤں کی ہڈیاں کبھی نہ کبھی ٹوٹ چکی ہیں۔ شانگلہ میں کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں لاش یا زخمی نہ آیا ہو۔ کان کنی کے دوران حادثے کا شکار ہو کر مر جانے والوں کو کان مالک محض پانچ لاکھ روپے معاوضہ دیتے ہیں۔ جبکہ اس شعبے سے سالانہ اربوں روپے ایکسائز ڈیوٹی لی جاتی ہے اور ورکرز ویلفیئر فنڈز کی مد میں بھی خطیر کنٹری بیوشن لینے اور 46.5 ارب روپے کے ڈیپازٹ کے باوجود حکومتی محکمے کسی موت یا انجری پر کوئی معاوضہ نہیں دیتے۔ جبکہ 1923ء کے لیبر قوانین میں اس کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔
بلوچستان ہو پنجاب، سندھ یا پختونخواہ‘ کان کنوں کی زندگی اور موت دونوں عبرت ناک ہیں۔ اپنے گھروں سے ہزاروں کلومیٹر دور جا کر بھی غار نما رہائش میں رہنے والے کان کنوں کو سینکڑوں یا کبھی ہزاروں میٹر سطح سے نیچے جا کر کان کنی کرنا پڑتی ہے۔ دنیا میں کان کنی کے جدید طریقوں اور آلات مثلاً روبوٹس، وینٹی لیشن، روشنی کی سہولیات اورخودکار مشینری کے برعکس پاکستان کے کان کنوں کو پندرہ سو روپے دیہاڑی میں 10 سے 12 گھنٹے جسمانی کام کرنا پڑتا ہے۔ جس کے بعد ان کے پاس اپنے لئے چند منٹ بھی نہیں ہوتے۔ سخت ترین کام میں ان کی توانائی ختم ہوتی جاتی ہے۔ کان کنوں کو کام کے دوران بہت سی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں جن میں سے سب سے عام پھیپھڑوں کی بیماریاں ہیں جو کوئلے کے دھویں اور کان میں پائی جانے والی مضر گیسوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ چنانچہ اکثر کو سانس کی بیماریاں، دمہ، بخار، جوڑوں کا درد اور کان، ناک اور گلے کے مسائل پیش آتے ہیں۔ بہت سے مزدور اپنی ملازمت کے دوران ہی سماعت کی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ کانوں میں شور بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف سیفٹی کے ناقص حالات کی وجہ سے مسلسل حادثات کا عمل جاری رہتا ہے اور ہر چار میں سے ایک کان کن ضرور کسی نہ کسی قسم کے حادثے کا شکار ہوتا ہے۔
کانوں میں پتھروں کا گرنا عام ہے۔ کان کا بیٹھ جانا، بجلی کا جھٹکا لگنا اور ریل کی پٹری سے گرنا بھی عام حادثات ہیں۔ ایسے حادثات کے بعد کان کنوں یا ان کے اہل خانہ کے لیے کوئی مالی مدد دستیاب نہیں ہوتی۔ اکثر مزدور حادثے کے بعد معذور ہو جاتے ہیں اور ان کی کفالت کا بوجھ ان کے خاندان پر آ جاتا ہے۔ جس کے بعد ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو انہی حالات میں مزدوری پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
ان تلخ حالات کار، حادثات، غربت، پسماندگی اور درد سے دوچار محنت کشوں کو کسی بھی وجہ سے نشانہ بنانا کون سا کارنامہ ہے؟ یہ بربریت اور وحشت قاتلوں کی اس غیر انسانی سرشت کو واضح کرتی ہے جو ریاستی جبر کے خلاف ردِ عمل کی رجعتی شکلوں، سرمایہ داری نظام کے ناکام بندوبست اور فرسٹریشن سے جنم لیتی ہے۔ اس خطے میں مقامی ریاست سمیت سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگوں نے حالات کو اور بھی پیچیدہ اور وحشت ناک کر دیا ہے۔ جن میں مذہبی جنونی اور بنیاد پرست گروہ بھی سرگرم ہیں اور چینی سرمایہ کاری کی مخالفت کرنے اور حمایت کرنے والے مسلح گروہ بھی۔ جو پھر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے کمزور اور نہتے محنت کش لوگوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے مفلوک الحال لوگ جن کی زندگیاں پہلے ہی تاریکیوں میں گھری ہوئی ہیں۔ لیکن آج یہ وحشت ہی اس سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کا تعارف ہے۔ جو سب سے پہلے معاشرے کی کمزور ترین پرتوں کو کچلتی ہے۔ اس خونی کھیل کے خاتمے کے لئے سرمایہ دارانہ ریاست، سیاست اور معیشت سمیت موجودہ نظام کا خاتمہ اور سوشلسٹ سماج کی تعمیر ناگزیر عصری ضرورت بن چکی ہے۔