ظفراللہ

گزشتہ دنوں لاہور کے ایک نجی تعلیمی کاروباری ادارے پنجاب گروپ آف کالجز کے ایک کیمپس میں ایک طالبہ کیساتھ ہونے والے مبینہ ریپ کے واقعے نے سوشل میڈیا پر پورے پاکستان کے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ اس حوالے سے خبریں، معلومات اور پراپیگنڈہ اتنا شدید اور تضادات سے بھرپور رہا ہے کہ فی الوقت اصل خبر اور سچائی تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ریپ کے اس مبینہ واقعے کی اطلاع کے بعد اسی گروپ کے مختلف کالجوں کے طلبا و طالبات نے شدید احتجاج کی شکل میں سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ بجلی کی کوند کی طرح پھوٹنے والے طلبہ احتجاج کی شدت نے پنجاب حکومت کے حکام کو لرزا کے رکھ دیا۔ سوشل میڈیا پر بیشمار لوگوں کا بھی اس خبر پر ردعمل انتہائی شدید تھا۔ مختلف مکاتب فکر کے لوگ واقعے کی متضاد اطلاعات پر اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ لاہور کے مختلف کالجوں میں احتجاج بھڑکنے کے بعد واقعے کی انکوائری کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور خبر کی صداقت کو کنفرم کرنے یا فیک نیوز وائرل کرنے کے سورس کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی تحقیقاتی ٹیمیں بھی تشکیل دی گئیں۔ اس کیفیت نے عوام کو مزید ابہام کا شکار کر دیا۔ بہرحال طلبہ کے احتجاج اتنی سنگینی اور شدت اختیار کر گئے کہ تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے اور احتجاجی سلسلے کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو بذات خود براہ راست ٹی وی پہ آ کر پریس کانفرنس کرنا پڑی۔ طلبہ کے احتجاج کا باعث بننے والی خبر یہ تھی کہ پنجاب گروپ آف کالجز کے لاہور کے ایک کیمپس میں ایک طالبہ کا مبینہ طور پرریپ کیا گیا جس کی چیخ و پکار کالج کی عمارت کے تہہ خانے سے بھی کچھ طالب علموں کو سنائی دی۔ جسے بعد ازاں ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ جاں بحق ہو گئی۔

وزیر اعلیٰ مریم نواز نے میڈیا کو بتایا کہ دراصل چند روز قبل ایک بچی اپنے گھر میں گر کر زخمی ہو گئی تھی اور ہسپتال میں داخل تھی جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر چلائی گئی ہیں اور ریپ والا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ مزید یہ کہ تحریک انصاف جیسی شر پسند اور دہشت گرد پارٹی نے ہماری حکومت کو بدنام کرنے اور ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے فرضی طور پر یہ افواہ گھڑ کے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی تشہیر کر کے مجرمانہ کردار ادا کیا ہے۔

خبر کی سچائی اور جھوٹ سے قطع نظر ریپ کا یہ واقعہ اور اس کے نتیجے میں بھڑکنے والے طلبہ کے طوفانی احتجاجی مظاہرے بہرحال ایک سنجیدہ تجزئیے کے متقاضی ہیں۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں طلبہ کے پرتشدد احتجاج لاہور سے نکل کر راولپنڈی اور کشمیر سمیت کئی علاقوں میں پھیل چکے ہیں۔ لیکن ایسی کونسی وجوہات ہیں جن سے یک لخت عوامی غم و غصہ سیلاب کی طرح بہہ نکلتا ہے۔ بچیوں اور بچوں کے ریپ جیسے اندوہناک واقعات یہاں ایک معمول ہیں اور سماج میں ایک ناسور کی طرح پھیل چکے ہیں۔ پھر اس واقعے میں ایسا کیا تھا جس سے طلبہ کی برق رفتار احتجاجی تحریک نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سرمایہ داری اپنی ریاست اور معاشرت سمیت ایک ایسے بحری جہاز کی مانند ہے جو مسلسل طوفانوں میں گھرا ہوا ہے اور مد و جزر میں بظاہر معمولی سی شدت بھی اسے غرق کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

نوجوان بالعموم اور پاکستان جیسے ممالک کے نوجوان بالخصوص آج کے عہد میں ایک گہری مایوسی، بے چینی اور غم و غصے کا شکار اور اپنے مستقبل کے حوالے سے ناامیدی سے دوچار ہیں۔ یہ ایسی عمر ہوتی ہے جس میں انسان کے دل و دماغ میں سرشاری، امنگ، امید اور بہتر مستقبل کے خواب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ معاشرہ جس قدر بحران کا شکار ہو چکا ہے ایسے میں آج کا نوجوان اس رجائیت سے بڑی حد تک محروم ہے۔ مستقبل بارے غیر یقینی کی کیفیت نے ان کو ایک ہیجان میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اس وقت ہر نوجوان ملک چھوڑ کر باہر نکلنے کی کوشش میں ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کے لیے تباہ کن صورتحال ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایسے ملک میں ایک سنجیدہ بحران ہے جہاں کل آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ تعلیمی ادارے ان کے لیے قید خانے بن چکے ہیں جہاں ان کو مسلسل ذہنی اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ فرسودہ تعلیمی نظام اور تفریحی و غیر نصابی سرگرمیوں کی عدم فراہمی نے ان نوخیز کونپلوں کو مرجھا کے رکھ دیا ہے اور شدید نفسیاتی عارضوں کا شکار کر دیا ہے۔ یہی وہ نسل ہے جس کی بالخصوص مڈل کلاس پرتوں نے ان اذیتوں سے چھٹکارے کے لیے تحریک انصاف جیسے سراب سے امیدیں وابستہ کیں اور کسی حد تک اپنا سیاسی اظہار کیا۔ لیکن اس رجحان کی رجعت، مہم جوئی پر مبنی حرکتوں اور نوجوانوں کی نجات کا کوئی پروگرام دینے میں یکسر ناکامی نے ان کو مزید یاس کی دلدل میں پھینک دیا۔

یہ بات بہت حد تک درست نظر آتی ہے کہ تحریک انصاف کی اس ملک کی تاریخ کی طاقتور اور موثر ترین سوشل میڈیا مشینری اور نیٹ ورک اس مبینہ واقعے کو پراپیگنڈہ کے ذریعے انتہائی عروج پر لے گئی۔ یہ کیفیت فاشسٹ جرمنی کے پراپیگنڈہ ماہرجوزف گوئیبلز کی یاد دلاتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کا ایک حاوی دھڑا جوعمران خان کی ہی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے اس تصور پر بڑے شدت سے عمل پیرا ہے کہ مسلسل واقعات کو ٹرِگر کر کے موجودہ حکومت کو مسلسل ہیجان اور عدم استحکام کا شکار کیا جائے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ جس کے پیچھے پھر اس ریاست اور حکومت کا اپنا بحران، داخلی تقسیم اور کمزوریاں کارفرما ہیں۔ لیکن معاملہ محض تحریک انصاف کے پراپیگنڈہ تک محدود نہیں ہے۔

واقعات کی اپنی منطق اور سائنس ہوتی ہے جو ہمیشہ انسانوں کی مرضی و منشا کے تابع نہیں ہوتی۔ سماجی ارتقا کی نوعیت انتہائی پیچیدہ ہوتی ہے جو سیدھی لکیر کی بجائے مختلف متضاد اور پرپیچ طریقوں سے آگے بڑھتا ہے۔ جس میں واقعات بہت اہمیت کے حامل ہو سکتے ہیں اور اچانک سے ساری صورتحال کو یکسر بدل سکتے ہیں۔ اس تاریخی عمل میں سماجی تحریکوں، جنگوں، وباؤں اور انقلابات وغیرہ جیسے عظیم واقعات اکثر اوقات فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان سب کے علاوہ کئی نسبتاً چھوٹے اور بظاہر معمولی واقعات بھی ہوتے ہیں جو عمل انگیز کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کبھی وہ سماجوں کو آگے کی طرف بڑھاتے ہیں تو کبھی پیچھے بھی دھکیل دیتے ہیں۔ یہ سماج کو پرکھنے کے میکانکی انداز کے برعکس ایک جدلیاتی طریقہ کار ہے جو مارکسزم کی بنیاد کا پتھر ہے۔

عام طور پر لوگ کسی بھی رونما ہونے والے واقعے کو اس کی ظاہریت کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔ جیسا اس مبینہ واقعے اوراس کے ردِ عمل میں ہونیوالے احتجاج کے بارے میں سنائی دیا ہے۔ جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ چٹخارے دار تبصرے اور تجزیئے‘ سنجیدہ اور گہرے مشاہدے کی نسبت سہل اور آسان ہوتے ہیں۔ اور یہ بالکل فطری ہے۔ لیکن اس نظام کے ماہرین میں سے کس نے سوچا ہو گا کہ ناز و نخروں سے پلی یہ درمیانے طبقے کی نوجوان نسل بجلی کی طرح منظر پر اچانک سے نمودار ہو گی اور سب کو حیران کر دے گی۔ یہ احتجاج ان نوجوان طلبہ کی چیخ و پکار ہیں کہ کوئی تو ہو جو ہمارے درد اور کرب کو محسوس کرے۔ جس احساس سے حاوی دانش اور سرکاری عقل قاصر ہے۔ یہ اس متروک نظام اور بحران زدہ سماج میں جوان ہونے والی نئی نسل ہے جسے ”Gen Z“ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ ہمہ وقت موبائل سکرینوں اور سوشل میڈیا میں غرق رہتے ہیں۔ یہ تاثرات ان بوڑھے اور خود کو عقل کل سمجھنے والے دانشوروں کی عقل اور دانش کی فرسودگی کا اظہار ہیں جو اس نسل کے اندر پلنے والے دکھوں اور انقلابی صلاحیتوں سے ناآشنا ہیں۔ یہ نسل سرمایہ داری کے بدترین زوال کی پیداوار ہے۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہوں نے حالیہ عرصے میں لبنان سے لے کے کینیا اور سری لنکا سے لے کے بنگلہ دیش تک انقلابی طوفان برپا کیے ہیں اور اب گزشتہ کچھ دنوں میں پاکستان میں اپنی بغاوت اور غیض و غضب کے اصل رنگ ظاہر کر کے دکھایا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔

ہیگل نے کہا تھا کہ ”حادثہ (واقعہ) کسی گہری ضرورت کا ایک ناگزیر اظہار ہوتا ہے۔“ سطحی تجزیہ محض ظاہریت اور فوری وجوہات کی بنا پر تشریح کرتا ہے۔ جیسے حالیہ احتجاجوں کو محض تحریک انصاف کی سازش کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے۔ جو بالکل ادھورا بلکہ ناقص تجزیہ ہے۔ دراصل ایسے واقعات اور تحریکیں لمبے عرصے سے پنپنے والے عوامل کا ایک معیاری اظہار ہوتی ہیں۔ چیزوں کو ایک پراسیس میں سمجھے بغیر درست اور ٹھوس انداز میں نہیں پرکھا جا سکتا۔ دہائیوں تک پلنے والے تضادات اچانک بظاہر کسی غیر متعلقہ واقعے کے نتیجے میں پھٹ پڑتے ہیں۔ میکانکی منطق پر مبنی سوچ فقط فوری واقعات کو زیر بحث لاتی ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ان کے پیچھے کارفرما عوامل پر غور کیا جائے۔ واقعات کو ان کے پراسیس کے تناظر میں سمجھ کر ہی درست تشخیص کی جا سکتی ہے اور آگے کا پیش منظر بنایا جا سکتا ہے۔

آدھی سے زیادہ نوجوانوں پر مشتمل آبادی والے اس ملک کا نوجوان خود کو مروجہ سیاسی، معاشی اور سماجی عوامل سے بالکل بیگانہ محسوس کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں اس کا مستقبل اندھیر ہے۔ مگر جوانی کا پیراڈاکس یہ بھی ہوتا ہے کہ نوجوانوں کے پاس طویل عرصے تک مستقبل سے مایوسی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ حالیہ احتجاجی مظاہروں کی ظاہری وجہ مبینہ ریپ کا واقعہ ضرور بنا ہے مگر حقیقت میں یہ ان نوجوانوں کی محرومیوں، گھٹن، تضحیک اور دکھوں کا اظہار ہیں۔ فی الوقت لاشعوری طور اور محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن یہ اس نظام اور اس کی حاکمیتوں کے خلاف نفرت اور بغاوت کا برملا اعلان ہے۔ آرام دہ کلاس رومز میں پڑھنے والے لہولہان بچوں کا یہ احتجاج ایک پکار ہے کہ کوئی تو ہو جو ہمیں بھی سنے۔ اور اگر کوئی نہیں سنے گا ہم اسے سننے پر مجبور کر دیں گے! یہ کیفیت پاکستان کے منظرنامے میں اہم تبدیلی کی غماز ہے۔

ایک ایسی نسل جوان ہو رہی ہے جس نے اس ملک میں سیاست کے نام پر لوٹ مار اور بربادی ہی دیکھی ہے۔ طلبہ یونین ان میں سے بیشتر کے لیے ایک انجانی اصطلاح ہے۔ یہ نسل روایتی قیادتوں کی مصالحت، غداریوں اور اصلاح پسندی کے غلیظ جراثیموں سے بھی پاک ہے اور سامراجی سرمایہ داری کے عالمگیر مظالم اور ان کے خلاف بین الاقوامی مزاحمتوں کی چشم دید گواہ بھی ہے۔ سیاسی تجربے اور تنظیم سازی کے فقدان کی کمزوری فی الوقت اس کی سب سے بڑی طاقت بھی ہے کہ وہ کسی دھوکے اور بہکاوے میں آسانی سے آنے والے نہیں۔ جواں خون کی اس گرمی اور شورش کو اگر محنت کش طبقے کی جڑت اور انقلابی پارٹی کی قیادت میسر آ جائے تو یہ زمانے بدل کے رکھ سکتی ہے۔