بابر پطرس

طرفہ تماشا ہے کہ جنگوں نے پہلے سے خستہ حال عوام کو وسیع پیمانے پر بے روزگاری، ہجرت اور بھوک کی اذیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ دوسری جانب اسلحہ سازی کی ’’صنعت‘‘ فروغ پا کر منافعوں کے انبار لگا رہی ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں سے پیداوار کی طرز میں بہت کچھ تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ سرِفہرست کارخانہ سازی کے رجحان میں بڑا بدلاؤ آیا ہے۔ منافع کے حصول کی نفسیات نے بے صبری کو جنم دیا ہے۔ سرمایہ دار راتوں رات مال بنانے کے چکر میں ہر حد کو پھلانگ جانے کے لیے تیار ہیں۔ چاہے اس کی قیمت اس سیارے کی تباہی اور نسل انسان کی معدومیت ہی کیوں نہ ہو۔ فیکٹری یا کارخانہ لگانے میں وقت کا ضیاع ان کے لیے ایک تکلیف دہ عنصر ہے۔ جس سے بچنے اور فوری طور پر منافع کمانے کے لیے سٹاک ایکسچینج کے سٹے نے نشوونما پائی ہے۔ مختلف ٹریول ایجنسیاں وجود میں آئی ہیں۔ اسپتال اور نجی سکول و یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں۔ ان کاروباروں میں رئیل اسٹیٹ اور ہاوسنگ سوسائٹیوں کا کام بھی شامل ہے جس نے لینڈ مافیا اور قبضہ گروہوں کے دھندے کو خوب چمکایا ہے۔

اس طرزِ پیداوار نے کالے دھن کو سفید کرنے کی مکروہ واردات ڈالی ہے۔ اس کے ساتھ صنعت میں سرمایہ کاری کے بجائے منافع حاصل کرنے کے دوسرے غیر پیداواری اور تخریبی ہتھکنڈوں کے ذریعے بے روزگاروں کی فوج بھی تیار ہوئی ہے۔ جو سرمائے کی حاکمیت کی تعفن زدہ لاش کو تاریخ کی قبر میں اتارنے والوں میں شامل ہو گی۔ یوں آخری تجزیے میں اس متروک نظام کی کوکھ سے ایک نیا سماج، ایک روشن سویرے کے ساتھ طلوع ہو گا۔

اگرچہ آج کی دنیا دردِ زہ میں مبتلا ہے مگر یہ تکلیف اس قدر طویل ہو گئی ہے کہ انسانی سماج کے وجود کو خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ کرۂ ارض کا ہر خطہ کشت و خون سے لت پت ہے۔ اکیسویں صدی کی پہلی دو دہائیاں تاریخ کی پرانتشار ترین دہائیاں ہیں۔ جن میں ایک طرف طالب علموں اور محنت کشوں کے غم و غصے اور نفرت نے شورش و بغاوت کا روپ دھار لیا ہے۔ دوسری طرف مختلف خطوں میں سامراجی جنگیں مسلط کی گئی ہیں۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں غزہ کی پٹی، جو آسمان کے نیچے کا سب سے بڑا جیل خانہ تھی، آج کھنڈرات کا ڈھیر بن چکی ہے۔ ایک ایسا بدنصیب علاقہ جہاں  70 فیصد رہائشی رقبے پر سوائے ملبے کے کچھ نہیں بچا۔ آج برباد غزہ کا ہر کیمپ یتیم بچوں اور بیوہ عورتوں سے ’’آباد‘‘ ہے۔

گزرے وقتوں میں جنگوں کے بھی کچھ ضابطے، قوانین اور اصول ہوا کرتے تھے۔ لیکن جدید دور کے سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتوں نے انسانیت کے تانے بانے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کا واضح ثبوت اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت ہے۔ جہاں بم گرتے ہیں تو معصوم بچوں کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔ میزائل پھٹتے ہیں تو ہسپتال اور سکول نشانہ بنتے ہیں۔ یقیناً ہتھیاروں کی آنکھیں نہیں ہوتیں جو بچوں، عورتوں، بوڑھوں، سکولوں اور ہسپتالوں کی تمیز کر سکیں۔ مگر موت کے بیوپاری ہتھیار بنانے اور چلانے والے تو بینا ہوتے ہیں۔ وائے ستم! کہ منافع حاصل کرنے کا پاگل پن ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دیتا ہے کہ سامنے کی ہر شے دھندلا جاتی ہے اور سرمائے کے ان پجاریوں کے لیے ہر زخم اور ہر چیخ بے معنی ہو جاتی ہے۔ جب منافع خوری اور قبضہ گیری کی استحصالی سوچ نمو پاتی ہے تو دوسروں کے دکھ کا احساس اور انسانی توقیر بے وقعت ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے درجے سے گر کے درندہ ہو جاتا ہے۔ یا شاید درندوں سے بھی بدتر۔

تب ہتھیاروں کی بدولت خون کی بہنے والی دھاریں ارزاں ہو جاتی ہیں اور بندوق کی نالی سے نکلنے والی گولی اور جنگی جہاز سے گرنے والا گولہ زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ معصوموں کے خون کی بوندیں سونے کی اشرفیاں تخلیق کرتی ہیں اور موت بانٹتے اوزاروں کے بیوپاریوں کی تجوریاں بھرتی ہیں۔ اسرائیلی وحشت میں اگرچہ پچاس ہزار سے زیادہ بے گناہ فلسطینی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لیکن اسلحہ ساز ہر طرح سے فائدے میں رہے ہیں۔ یہ جنگ ان کو اربوں امریکی ڈالر اب تک دے چکی ہے۔ اس وقت دنیا میں ڈھائی ہزار ارب ڈالر ’’دفاع‘‘ کے نام پر بربادی کے ہتھیاروں اور افواج پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ جس کا تقریباً نصف صرف امریکہ خرچ کرتا ہے۔

حماس کے خلاف اسرائیل کی کاروائی کے آغاز سے اب تک امریکہ کے بڑے نجی اسلحہ ساز اداروں مثلاً آر ٹی ایس (Raytheon) اور جنرل ڈائنامکس (General Dynamics) وغیرہ کے منافعے اور اثاثے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ان اسلحہ سازوں کے لیے یہ جنگ بہت منافع بخش ہے جسے وہ خوش بختی ہی سمجھتے ہیں۔

2023ء میں دنیا بھر میں فروخت کیے جانے والے جنگی ہتھیاروں میں سے نصف صرف امریکہ نے بیچے ہیں۔ جن میں جدید جنگی جہاز، لڑاکا بحری جہاز، ٹینک، گولہ بارود اور میزائل وغیرہ شامل ہیں۔

دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جو بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ ان میں سویڈن جیسی ’’فلاحی ریاستیں‘‘ بھی شامل ہیں جو دیگر دنیا کے مظلوم انسانوں کے خون سے اپنے ’’گلشن‘‘ کی آبیاری کرتی ہیں۔ اسی طرح جمہوریت کا ٹھیکے دار اور انسانی حقوق کا علمبردار امریکہ اسلحہ بیچنے والوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ جس کے بعد روس، فرانس، چین، یورپی ممالک اور جنوبی کوریا وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ’’سلامتی‘‘ کونسل کے پانچ مستقل ممبران دنیا کو 75 فیصد اسلحہ مہیا کرتے ہیں۔ ان پانچ ممالک کے فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں کی بدولت پھیلنے والی تباہی اور اس سے جنم لینے والی بھوک کے ہاتھوں ہر روز نو ہزار افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اس سے بڑی منافقت اور کیا ہو گی کہ ایک طرف امن کے راگ الاپے جائیں تو دوسری طرف جنگ کے طبل بجا کر، دہشت گرد ریاستوں کی پشت پناہی کر کے ہتھیار بیچے جائیں۔ یہ اس نظامِ سرمایہ کی حدود و قیود ہیں کہ آپ نیک خواہشات کے باوجود دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتے۔ کہ تمام کے تمام سرمایہ دار زر کے دیوتا کی اطاعت میں اپنے سر اس کے نجس قدموں میں جھکا چکے ہیں۔

یعنی ایک منظم انتشار ان کے وجود کی لازمی شرط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ایک طرف اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے زور دیتا ہے۔ جب کہ دوسری جانب اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ 2016ء میں باقاعدہ بل پاس کیا گیا کہ امریکہ اگلے دس سال تک اسرائیل کو 38 ارب امریکی ڈالر کی فوجی مدد دے گا۔ تاکہ وہ اپنے ’’دفاعی نظام‘‘ کو بہتر بنا سکیں۔ اسرائیل کو ایسی امریکی ’’امداد‘‘ کا سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے۔ غزہ کو قحط کا سامنا ہے۔ مگر سامراجی درندہ صفت حکمران مکمل طور سے اندھے بہرے ہو چکے ہیں۔

سرمایہ داری کے رکھوالوں کے لیے عوام کی بنیادی ضروریات سے کہیں زیادہ اہم ان کا طبقاتی مفاد ہے۔ اسی طبقاتی مفاد کے پیشِ نظر دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف گروہوں کی پراکسیوں کو بنایا اور اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے۔ تاکہ مخالف آوازوں کو دبانے اور کچلنے کے ساتھ ساتھ موجودہ سوشل آرڈر کو قائم رکھا جا سکے۔ اس سلسلے میں مشرق وسطیٰ ان پراکسیوں کا گڑھ بن چکا ہے۔ جہاں وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ علاقائی اثر و رسوخ اور تسلط کی خاطر عام لوگوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا گیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے معدوم ہوتا کرۂ ارض‘ جنگوں اور خانہ جنگیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تباہ حال معیشتیں انسانوں کو خوراک، علاج، تعلیم اور روزگار مہیا کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ وسائل کی قلت ہے۔ بلکہ اس لیے ہے کہ وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ اجتماعی محنت کی پیداوار پر اقلیت کا قبضہ ہے۔ اس پر ستم ظریفی کہ عوام کے ٹیکس چنگھاڑتے جنگی جہازوں، فصلوں کو روندتے ٹینکوں اور بارود اگلتی نالیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔

آج کی دنیا ایک عالم گیر گاؤں کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس لیے کسی ایک ملک میں کشیدگی، جنگ اور خانہ جنگی پوری دنیا کو متاثر کرتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں پسماندہ ملکوں کے نصف تا تین چوتھائی افراد متوازن خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔ جہاں 36 غریب ممالک کے لوگ خوراک کی عدم دستیابی کے مسئلے سے نبرد آزما ہیں۔ جہاں نو ملین لوگ ہر سال بھوک کا لقمہ بن جاتے ہیں۔ ایسی دنیا میں ٹینکوں کی جگہ ٹریکٹروں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کرنا سرمائے کی حاکمیت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ کیونکہ اس میں منافع کم ہے۔ ویسے بھی سیر شکم انسان کے پاس سوچنے کا وقت ہوتا ہے۔ اور سوچتا ہوا دماغ سوال کو جنم دیتا ہے، اپنے حال کا تجزیہ کرتا ہے اور مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتا ہے۔

اس لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کو زبان، رنگ، نسل اور قوم جیسے فروعی معاملات میں الجھا کر رکھنا ناگزیر عمل بن جاتا ہے۔ حکومتیں انہی کے ٹیکس کے پیسوں سے اسلحہ خرید کر لاک ہیڈ، گرومین، جنرل ڈائنامکس جیسی اسلحہ ساز صنعت کو فروغ دیتی ہیں۔ اس اسلحہ کا ایندھن بھی یہی ٹیکس ادا کرنے والے بنتے ہیں۔ اسلحہ بنانے والے اور منافع کمانے والے ہر دو صورت میں محفوظ بھی رہتے ہیں اور زندگی سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ انشا اللہ خاں انشاؔ نے کیا خوب کہا تھا:

؎ یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں 
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا

آخری تجزیے میں جبر کی ہر صورت اور استحصال کی ہر شکل‘ طبقاتی سماج کی عطا ہے۔ اور یہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک یہ طبقاتی سماج اور اس کا نظام موجود رہے گا۔ توپیں گولے برساتی رہیں گی، بم گرتے رہیں گے۔ بچے مرتے رہیں گے اور اسلحہ سازوں کے محل تعمیر ہوتے رہیں گے۔ ان بربادیوں سے نجات سرمایہ داری اور سامراجیت کو برباد کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔