اداریہ جدوجہد
گلوبلائزیشن کے اس عہد میں کسی ایک ملک میں ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیاں ناگزیر طور پر دوسرے خطوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ چاہے وہ ملک بظاہر معمولی معاشی و جغرافیائی اہمیت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔ اس حوالے سے یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ پوری دنیا کی نظریں گزشتہ کئی مہینوں سے 5 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات پر کیوں ٹکی ہوئی ہیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی معاشی و عسکری قوت ہونے کے ناتے امریکہ کی داخلی سیاست گزشتہ تقریباً آٹھ دہائیوں سے عالمگیر اہمیت کی حامل رہی ہے۔ لیکن حالیہ عرصے میں‘ بالخصوص 2008ء کے بعد سے عمومی معاشی بحران، عالمی سطح پر طاقتوں کے توازن کی بدلتی کیفیت (چین کے مقابلے میں امریکہ کی نسبتی زوال پذیری) اور خود امریکی معاشرت اور سیاست کے بڑھتے ہوئے انتشار نے صدارت کی اس دوڑ کو زیادہ متنازعہ اور پرُ پیچ بنا دیا ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو امریکی حکمران طبقے کی قوت اور اعتماد کا اظہار‘ ملکی سیاست اور ریاست پر اس کے گہرے تسلط (Hegemony) میں ہوتا ہے۔ جس کے پیچھے ظاہر ہے امریکہ کی بے نظیر معاشی ترقی، گہری اور وسیع صنعتی بنیادیں، تکنیکی جدت، ہولناک عسکری قوت اور عالمی سامراجی غلبے جیسے عوامل کارفرما رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکی حکمران طبقہ ’ٹو پارٹی سسٹم‘ کو اپنے سیاسی اقتدار کے کلیدی اوزار کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔ امریکہ کی تقریباً تمام سیاسی تاریخ دو حاوی پارٹیوں کی مقابلہ بازی پر ہی مشتمل رہی ہے۔ تاہم یہ ’ٹو پارٹی سسٹم‘ اپنی موجودہ شکل میں 1850ء کی دہائی کے بعد تشکیل پایا۔ جس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیاں دو بنیادی اور حاوی سیاسی رجحانات کے طور پر موجود رہی ہیں۔ بورژوا دانش اور صحافت میں بالعموم ریپبلکن پارٹی کو ’دائیں‘ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کو ’بائیں‘ بازو میں شمار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بہت جعلی اور سطحی قسم کی تقسیم ہے۔ امریکہ کی مروجہ سیاست کی اساس درحقیقت وہی ہے جسے بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے نامور امریکی لکھاری و دانشور گور ویڈال نے تقریباً پانچ دہائیاں قبل واضح کیا تھا:
”امریکہ میں صرف ایک پارٹی ہے۔ دولت اور ملکیت رکھنے والوں کی پارٹی۔ جس کے دو دائیں بازو ہیں: ریپبلکن اور ڈیموکریٹ۔ آزادمنڈی کی سرمایہ داری کے بارے میں ریپبلکن تھوڑے زیادہ احمق، زیادہ سخت گیر اور زیادہ عقیدہ پرست ہیں۔ ان کے مقابلے میں ڈیموکریٹس نسبتاً دلکش، پرکشش اور تھوڑے سے زیادہ بدعنوان ہیں… اور جب غریب، سیاہ فام اور سامراج مخالف عوام قابو سے باہر ہونے لگتے ہیں تو ان کے ساتھ لین دین یا مصالحت (Adjustments) پر بھی زیادہ آمادہ ہوتے ہیں۔ باقی ان دو پارٹیوں کے درمیان کوئی بنیادی فرق موجود نہیں ہے۔“
اگر غور کریں تو نہ صرف امریکہ بلکہ مغرب کی بیشتر سرمایہ دارانہ دنیا میں دوسری عالمی جنگ کے بعد ایسا ہی ’ٹو پارٹی سسٹم‘ موجود رہا ہے۔ جس میں غیرمعمولی حالات یا استثنائی صورتوں سے ہٹ کے ’آؤٹ سائیڈرز‘ کی گنجائش بہت محدود رہی ہے۔ یہ بنیادی طور پر سرمایہ داری کو 1929ء کے بحران سے ہولناک بربادی اور خونریزیوں کی قیمت پر نکالنے والی جنگ کے بعد کے بڑے منافعوں اور بیش بہا معاشی ترقی کے حالات کا مظہر تھا۔ جس میں سماج کو دائیں اور بائیں بازو کی روایتی پالیسیوں سے چلانے کی گنجائش موجود تھی۔ ایسے میں مروجہ لبرل آرڈر کا نظریاتی تسلط آج کی نسبت کہیں زیادہ گہرا تھااور سامراجی حکمران طبقات کے پاس اپنے چنیدہ سیاسی نمائندوں کو دہائیوں کی تربیت سے گھاگ اور زیرک بنا کے سامنے لانے اور سیاست پر مسلط کرنے کی بھی خاطر خواہ گنجائش موجود تھی۔
مذکورہ لبرل آرڈر میں پہلی دراڑیں 1970ء کے اواخر سے سرمائے کی شرح منافع میں گراوٹ سے پڑنا شروع ہوئیں۔ جنہیں نیولبرل پالیسیوں کے ذریعے بھرنے کی کوشش کی گئی۔ علاوہ ازیں روس اور مشرقی یورپ میں سٹالنزم کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی کے آغاز نے بھی مغربی سامراج کو کچھ نظریاتی اور معاشی سہارا دیا۔ لیکن اس تاریخی عمل میں 2008ء کا بحران ایک معیاری تبدیلی یا جست کا غماز مظہر ہے۔ جس نے روایتی سیاست (چاہے وہ بائیں بازو کے سابقہ سوشل ڈیموکرٹیک رجحانات ہوں یا دائیں بازو کی لبرل پارٹیاں) کی معاشی بنیادوں کو بڑی ٹوٹ پھوٹ سے دوچار کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2011ء کے بعد سے دنیا بھر میں جہاں احتجاجی و انقلابی تحریکوں کے ساتھ بائیں بازوکے نئے (اگرچہ بیشتر صورتوں میں اصلاح پسند) رجحانات ابھرے ہیں وہاں ایک کے بعد دوسرے ملک میں پاپولسٹ یا انتہائی دائیں بازو (فار رائٹ) کی پارٹیوں اور شخصیات کا ابھار بھی ہو رہا ہے۔ امریکہ میں اس عمل کا اظہار ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ جو بنیادی طور پر ایک غیرلبرل اور غیر روایتی دائیں بازو کا نمائندہ رجحان ہے۔ ریاست و معاشرت میں گہرے اثر و رسوخ کے باوجود ایسی شخصیات، جو سرمایہ داری کے بحران کا حل زیادہ رجعتی، وحشیانہ، تنگ نظر اور بیشتر صورتوں میں نسل پرستانہ پالیسیوں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں، سامراجی نظام کے سنجیدہ پالیسی سازوں کے لئے دردِ سر بنی ہوئی ہیں۔
ٹرمپ کی مقبولیت جہاں امریکی سماج میں مسلسل شدت پکڑتی پولرائزیشن اور ہیجان کا اظہار ہے وہاں وہ اپنے لاابالی پن، ڈھٹائی، خود پسندی، بڑھک بازی اور لغویات بکنے پر مبنی رویوں کے ذریعے مکروہ لبرل سامراجی آرڈر پر چڑھے تہذیب، مفاہمت، انسانی حقوق اور جمہوریت وغیرہ کے لبادوں کو تار تار کرنے کے درپے ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ کئی حوالوں سے نہ صرف ٹرمپ اور عمران خان کی شخصیات کے درمیان معقول موازنہ ممکن ہے بلکہ دونوں کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد جنم لینے والے واقعات میں بھی حیران کن حد تک گہری مماثلت موجود رہی ہے۔ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے واضح تنبیہ کی ہے کہ یہ انتخابات شاید پر امن نہ رہ سکیں۔ اس کیفیت کو 13 جولائی کے واقعے کے تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جب امریکی معاشرہ ایک ممکنہ خانہ جنگی سے اتنا ہی دور تھا جتنی دوری سے گولی‘ ٹرمپ کی کھوپڑی کے پاس سے گزری تھی۔
ٹرمپ آخری تجزئیے میں امریکی سامراج کا دوراندیش نمائندہ نہیں بلکہ چیزوں کو دو جمع دو چار کی زبان میں سمجھنے والا ”عملی“ سرمایہ دار ہے۔ جو سامراجی سرمایہ داری کے دوررس اہداف اور عزائم کو اگر حماقت نہیں تو ثانوی اہمیت کا حامل ضرور خیال کرتا ہے۔ ارجنٹائن سے لے کے برازیل اور امریکہ سے لے کے پاکستان تک‘ ایسے رجحانات کا ابھار جہاں بورژوا قیادت کے بحران کا اظہار ہے وہاں یہ بھی واضح کرتا ہے کہ سرمایہ داری کو پرانے طریقوں سے چلانا محال ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی انتخابات کی تکنیکی تفصیلات میں جانے کی بجائے یہ حقیقت ہی کافی ہے مخبوط الحواس جو بائیڈن کو انتخابی دوڑ سے زبردستی باہر کرنے (درحقیقت لات مار کے نکالنے) اور کملا ہیرس کو ایک سیاہ فام خاتون اور نسبتاً چاک و چوبند، حاضر دماغ اور مقبول امیدوار کے طور پر ٹرمپ کے سامنے اتارنے کے باوجود مقابلہ انتہائی کانٹے دار ہو گا۔ موجودہ صورتحال میں اسرائیل کو لگام دینے میں ناکامی نے بھی ڈیموکریٹس کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ بہرحال جہاں ٹرمپ کے جیت جانے کے امکانات موجود ہیں وہاں اپنی شکست کو بھی وہ آسانی سے تسلیم نہیں کرے گا۔
واقعات کی روش ہر صورت میں ایک نئے بحران کی طرف ہی جاتی ہے۔ جو سرمایہ داری کے عمومی کثیرجہتی بحران کا ہی ایک پہلو ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک سماجی نظام کی متروکیت اور بوسیدگی ہے جو نسل انسان کو ایک بعد دوسرے انتشار، خونریزی اور اذیت کی طرف لے جا رہی ہے اور جس سے نجات معیشت، معاشرت، سیاست اور ریاست کے موجودہ بندوبست کو ایک انقلابی انداز سے بدلے بغیر ممکن نہیں ہے۔