قمر الزماں خاں

21 اکتوبر کا سورج جب طلوع ہوا تو 26 ویں آئینی ترمیم پاکستان کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو چکی تھی۔ اس ترمیم، جس کو بہت ہی پر اسرار درجہ حاصل تھا، کی گتھیاں سلجھانے میں کئی ہفتے لگ گئے۔ شروع شروع میں تو وزیر اعظم پاکستان اور قانون پاس کرانے والے متحرک وزرا کو بھی نہیں معلوم تھا کہ جس ترمیم کو وہ اپنے اتحادیوں اور دیگر پارٹیوں سے پاس کرانا چاہتے ہیں اس کے اندر کس قسم کی شقیں موجود ہیں۔ لہٰذا کہا یہ جانے لگا کہ اس ترمیم کے اندر نہ صرف لاپتہ کیے جانے کے عمل کو قانونی درجہ دیا جا رہا ہے بلکہ فوجی عدالتوں کے قیام سمیت قاضی فائز عیسیٰ کی ملازمت کو کسی نہ کسی طرح تسلسل دینا مطلوب ہے۔ شنید ہے کہ ایک مہینے میں پانچ سے سات کے قریب مختلف مسودہ جات سیاسی پارٹیوں کے سامنے لائے گئے۔لیکن اس کا حقیقی خاکہ نویس فروغ نسیم ہے۔ اس ترمیم میں سپریم کورٹ کے سربراہ کی تعیناتی کے اختیارات پارلیمنٹ کو دینے کے ساتھ ساتھ آئینی بینچ کا قیام بھی شامل ہے۔ ایک لمبی اور تھکا دینے والی مشق کے بعد، جس میں روٹھنے اور منانے کے مضحکہ خیز مناظر بھی شامل تھے، 26ویں آئینی ترمیم کو حتمی شکل نصیب ہوئی۔

اس دوران پسینے سے شرابور بلاول زرداری اور جھاگ اڑاتے مولانا فضل الرحمان اپنے اپنے ساتھیوں کیساتھ شقوں کی نوک پلک سنوارتے رہے۔ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ کی طرح ہر طرف خوب کھیلے۔ ’کہیں‘ سے طے شدہ منصوبے کے مطابق سارا کریڈٹ مولانا کے کھاتے میں ڈالنے کا سکرپٹ‘ کھیل کو کامیاب بنانے کی کنجی ثابت ہوا۔ مولانا فضل الرحمان کو لگتا ہے کہ انہوں نے 26ویں ترمیم کے اندر چھپے ہوئے بہت سے سانپ نکال باہر کیے۔ مگر یہ نکالنے کےلئے ڈالے گئے سانپ نہ ہوتے تو پھر اس زیرک سیاست دان کو ٹریپ کرنے کیلئے اس کی اور بھی بھاری شرائط ماننا پڑنی تھیں۔ لہٰذا مولانا کو جیت کے ہار پہنا کر مطلو بہ نتائج حاصل کرلیے گئے ہیں۔ بلاول اور ن لیگ کو لگتا ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے انہوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے معاہدے کی تکمیل کی ہے۔ جبکہ سی او ڈی میں ایک شق نمبر 32 بھی ہے جس میں آئی ایس آئی سمیت تمام خفیہ ایجنسیوں کو حکومتی اداروں کے ماتحت کرنے، خفیہ فنڈز، فوجی بجٹ اور الاٹ شدہ زمینوں کا آڈٹ، حکومتوں کو ہٹانے اور کارگل جنگ کی تحقیقات سمیت کئی خوفناک نکات شامل ہیں۔ جن کا ذکر تو کیا یہ پارٹیاں تصور کرتے بھی گھبراتی ہیں۔

پاکستان کی ڈیپ سٹیٹ گزشتہ کئی دہائیوں سے بے لگام عدالتی تحرک کو اپنے مقاصد کےلئے اورنام نہاد منتخب حکومتوں کی ٹانگیں کھینچنے، ان کو گرانے اور ذلیل کرنے کےلئے استعمال میں لاتی چلی آ رہی تھی۔ ایک وقت میں اس کھیل میں نواز شریف اینڈ کمپنی بھی پوری طرح شریک کار رہے۔ نواز شریف نے تو ایک بار کالا کوٹ بھی پہنا اور کورٹ پہنچ گیا۔ اگلے وقت میں ڈیپ اسٹیٹ نے ایک نیا ہائی برڈ تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی ضروریات کے تحت نواز شریف کو نکالنے اور ذلیل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ متوازی طور پر ایک نئی کٹھ پتلی‘ عمران خان کو تیسری قوت کے طور پر لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس منصوبے کےلئے خفیہ ایجنسیوں، مقتدرہ کےلئے کام کر نے والے ”الیکٹ ایبلز“ اور عدلیہ کو پوری شدت سے استعمال میں لایا گیا۔ یہاں دھرنوں سے لے کر عدالتوں کے ریمارکس اور فیصلوں تک جو کچھ ہوتا رہا وہ پاکستان اور اس کی جوڈیشل تاریخ کا ایک اور سیاہ باب تھا۔ اگرچہ عمران خان پراجیکٹ کو کئی ادوار کا اقتدار دینے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن نہ تو اس نظام میں اتنی گنجائش تھی کہ وہ کسی بھی حکومت کو بہت زیادہ طوالت اور کامیابیاں بخشے۔ نہ ہی عمران خان اور اس کے ساتھیوں کے پاس کہنہ نظام چلانے کی صلاحیت تھی۔ لہٰذا منصوبہ شروع ہوتے ہی کھٹائی میں پڑ گیا۔ جیسے تیسے اقتدار دلانے کے بعد کے ساڑھے تین سال کی خجالت، ناکامیوں اور بدعنوانیوں کے بعد اس منصوبے کو بند کرنے کا کام شروع ہوا۔ جس میں جہاں بے پناہ وسائل اوردولت سے کرایا گیا شہرت کا سفر رکاوٹیں پیدا کرنے کا باعث بنا وہاں اس ذہن سازی کو الٹانا بھی دشوار ہو گیا جو سالوں سے کی گئی تھی۔ جس میں دیگر سیاسی پارٹیوں اور افراد سے نفرت اور عمران خان کےلئے ہر جائز و ناجائز کرنے کی تربیت کی گئی تھی۔ کسی مہلک وائرس کی طرح شکلیں بدل بدل کر نمو پانے والی سوشل میڈیا ٹیموں سے لے کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مختلف صفوں میں موجود افراد اور فدائی ججوں کے خاندانوں تک ناقابل کنٹرول عوامل کو واپس کرنے میں دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔

26ویں ترمیم اسی مہم کا ایک حصہ ہے جس کے ذریعے عمران خان کے حق میں فدائی ججوں کے تحرک پر کنٹرول پانا مطلوب ہے۔ اس ترمیم میں ججوں کی تقرری کا ایک پرپیچ طریقہ کار دراصل ان کو کنٹرول میں رکھ کر استعمال کرنے کےلئے ترتیب دیا گیا ہے۔ لیکن اسے استعمال کرنے کی طاقت کس کے ہاتھ میں ہو گی‘اس کا فیصلہ قوتوں کا توازن مختلف طریقوں سے کیا کرے گا۔ ججوں کے من پسند چناﺅکے طریقہ کار اور الگ سے آئینی بینچ کی تشکیل کے باوجود ریاست کے اندر کی گہری دراڑوں اور نظام کی فرسودگی کی موجودگی میں سیاسی، آئینی اور انتظامی استحکام کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے۔

جہاں تک سیاسی بے چینی کا تعلق ہے تو اس کو بالائی سطح سے درست کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ سطح کے اندر بہت گہرے مسائل پچھلی کئی دہائیوں سے مسلسل بڑھتے اور پھیلتے جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مسلح بغاوت‘ بلوچستان کی جغرافیائی باﺅنڈری سے نکل کر کراچی جیسے معاشی مراکز کہلانے والے شہروں تک پہنچ چکی ہے۔ ماضی کے کنٹرولڈ/نیم کنٹرولڈ بلوچ سردار سیاست سے متروک ہو رہے ہیں۔ جبکہ ایک نئی طرز کی سیاسی تحریک مہرنگ بلوچ کی قیادت میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ یہ تعلیم یافتہ نوجوان عوام کی ان پرتوں سے اٹھے ہیں جو ماضی میں کم ہی سیاسی تحرک میں نظر آتی تھیں۔ ستم رسیدہ خاندانوں کے خون سے لتھڑے پرچم اٹھائے یہ احتجاجی مارچ وہ طاقتور مظہر ہیں جس نے بہت کم عرصہ میں عوامی مقبولیت حاصل کی اور نئے سیاسی منظر نامے کو تشکیل دینے کےلئے سرگرداں ہیں۔

دوسری طرف پختونخواہ میں ایک عرصے سے جاری سماجی اور سیاسی بے چینی کا مختلف طرح سے اظہار بھی اب نئی طاقت اور نئی شکل میں ہوا ہے۔ پی ٹی ایم کی تمام تر سیاسی و نظریاتی کمزوریوں اور ابہاموں کے باوجود 10 سے 13 اکتوبر تک جاری رہنے والا قومی جرگہ کسی حد تک بالغ نظری پر مبنی مطالبات پر ختم ہوا ہے۔ ان میں فوج اور دہشت گرد تنظیموں کے دو ماہ میں اخراج، سستی بجلی کی فراہمی، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، ڈیورنڈ لائن کے آرپار آزادانہ تجارت اور آمد و رفت، فوجی عدالتوں کے خاتمے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی جیسے مطالبات شامل ہیں۔ اگر چہ یہ مطالبات نامکمل ہیں اور پشتون عوام کی معاشی، سیاسی، صنفی اور سماجی آزادی کا حتمی فارمولا نہیں ہیں لیکن ان حالات میں جب مرکزی اور صوبائی حکومت نے پی ٹی ایم پر مکمل پابندی لگاتے ہوئے اس کی تمام سرگرمیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا‘ معقول مزاحمت اور سیاسی حکمت عملی سے جرگے کا انعقاد ہی ایک پیش رفت ہے۔ جرگے کے مطالبات کی تکمیل کےلئے طے کردہ مدت ہی وہ اصل نکتہ ہے جہاں سے جرگے کے قائدین کا امتحان شروع ہو گا۔ کیا ریاست پیچھے ہٹے گی؟ فوج کے قبائلی علاقہ جات سے نکلنے کے مطالبے سے بڑا مطالبہ ان عناصر کی علاقے سے بے دخلی ہے جن کو کبھی ”گڈ“ قرار دیا گیا، کبھی تذویراتی اثاثے مانا گیا اور کبھی انہی کے خلاف آپریشن کیے گئے۔ ان مطالبات کے نہ مانے جانے اور متوقع ریاستی جبر کی صورت میں عمائدین کیا راہ اختیار کریں گے؟ یہ غور طلب سوال ہے۔ بہرحال جرگے کا پانچ روپے فی یونٹ پر بجلی کی فراہمی کا مطالبہ پورے پاکستان پر اپنے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

پچھلے دو سال کی پاورگیم، اکھاڑ پچھاڑ اور پکڑ دھکڑ کے کھیل کے دوران پورا پاکستان اس ٹوٹی پھوٹی سرمایہ داری کے مہلک حملوں کے سپرد ہی رہا۔ تاریخ کی بد ترین مہنگائی نے آبادی کے زیادہ بڑے حصے کو غربت کی طرف دھکیل دیا۔ ملک پہلے سے زیادہ مقروض ہو گیا۔ معیشت دیوالیہ پن کی کھائی کے دہانے پر چلے جانے سے عالمی مالیاتی اداروں کی نت نئی شرائط پر مبنی بلیک میلنگ بھی عروج پر رہی۔ آئی ایم ایف کے 25ویں پروگرام سے پہلے مسلسل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، نئے ٹیکسوں کے نفاذ اور بچی کھچی رعایتوں کے خاتمے کا انت پھر نئی شرائط پر ہوا۔ نئے معاہدے کے مطابق 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈز پر 5 فیصد کی بھاری شرح سے سود وصول کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ سے قبل حکومت کو 11 فیصد شرح سود سے ایک غیر ملکی بینک سے چھ سو ملین ڈالر کا قرضہ لینے پر مجبور کیا گیا۔ 1.8 ٹریلین روپے کے اضافی ٹیکس لگوائے گئے۔ بجلی کی قیمت میں 51 فیصد اضافہ کرایا گیا۔ زرعی انکم ٹیکس کی شرح ساڑھے 12 فیصد کی بجائے 45 فیصد کی گئی۔ اس طرح تقریباً 12 سخت شرائط رکھی گئیں۔ حکومت 4.2 فیصد بجٹ سرپلس دکھانے کی پابند ہو گی ورنہ ٹیکس دہندگان پر جی ڈی پی کا 3 فیصد اضافی ٹیکس لگے گا۔ اسی طرح 25 اداروں کی نجکاری اور صحت اور تعلیم کو پبلک سیکٹر سے نکالنے کے عمل کو تیز کرنے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی فروخت ایجنڈا پر ہے۔

دوسری طرف اس ملک میں نہ صرف دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے پرائمری تعلیم کے عمل سے باہر ہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے فنڈز بند ہونے کی وجہ سے کئی ماہ سے اساتذہ کی تنخواہیں رکی ہوئی ہیں۔ آئی پی پیز اور پاور سیکٹر کے تمام حصوں میں ناقص پالیسیوں کی وجہ سے گردشی قرضے ہر سال بڑھتے جا رہے ہیں۔ دیار غیر میں مشکل حالات میں کام کرنے والے مزدوروں کی بھیجی گئی تقریباًتین ارب ڈالر ماہانہ کی رقم ہی زرمبادلہ کا حقیقی ماخذ ہے۔ ورنہ تجارتی عدم توازن اور کرنسی کی بے قدری کے باعث صرف قرض لے کر ہی سود اور قرض کی ادائیگی واحد طریقہ بچا ہوا ہے۔ یہ قرض ایک گھن چکر ہے جو نئے استحصالی معاہدوں، تلخ شرائط، مہنگائی اور بلیک میلنگ کے ساتھ عدم استحکام کو بڑھاتا جاتا ہے۔

پچھلے عرصے میں پاکستان کے صنعتی او ر زرعی پیداواری شعبے میں مطلوبہ ترقی نہ ہو سکی بلکہ عالمی سرمایہ داری کے بحران، جنگوں اور داخلی طور پر عدم استحکام کے باعث جی ڈی پی کی شرح نمو 0.25 فیصد تھی جو اب 2.38 قرار دی جا رہی ہے۔ جبکہ آبادی بڑھنے کی شرح 1.9 فیصد تک ہو چکی ہے۔ پاکستان کے حالات کی وجہ سے ہر روز یہاں سے دوسرے ممالک ہجرت کر جانے والوں کی تعداد تقریباً چار ہزار تک ہو چکی ہے۔ یہ انسانی صلاحیتوں اور مہارتوں کا بے نظیر ضیاع ہے۔

پاکستان کے دو شہر کراچی اور لاہور ڈھائی کروڑ کی آبادی کے حامل ہیں جبکہ مجموعی طور پر دس بڑے شہر وں کی آبادی دس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ بیماریاں اور معذوریاں بڑھتی جا رہی ہے۔ زیادہ تر بیماریاں گندہ پانی پینے کی وجہ سے ہوتی ہیں جبکہ 40 فیصد اموات کی وجہ بھی گندہ پانی ہے۔ ہر سال 53 ہزار بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی آلودہ پانی پینے سے چل بستے ہیں۔ دنیا بھر میں شوگر کے مریضوں کے حساب سے پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ ہر سال ڈیڑھ لاکھ افراد کے اعضا ذیابیطس کی وجہ سے کاٹے جاتے ہیں۔ ذہنی دباﺅ اور ہیجان کی وجہ سے امراض قلب بھی بڑھتے جا رہے ہیں اور 29 فیصد اموات اس وجہ سے ہوتی ہیں۔ صحت اور تعلیم کے صوبائی و وفاقی بجٹ شرمناک حد تک ناکافی ہیں۔

صحت کا انفراسٹرکچر ہولناک حد تک بوسیدہ ہے۔ دس ہزار انسانوں کےلئے آٹھ ڈاکٹر اور پانچ نرسز جبکہ دو ہزار لوگوں کےلئے محض ایک بستر دستیاب ہے۔ حکمران طبقہ اس صحت کے نظام کو بھی نجی تحویل میں دینا چاہتا ہے۔ تعلیم، روزگار، سڑکوں اور ٹرانسپورٹ، زراعت، صنعت اور موسمیات و ماحولیات کے شعبوں کے اعداد و شمار پاکستان کو ایک غیر صحت مند اور بحران زدہ ریاست قرارد یتے ہیں۔ شکار پور سے لے کر لاڑکانہ، سکھر، کندھ کوٹ، کشمور، گھوٹکی، رحیم یار خاں اور راجن پور تک کے اضلاع کچے کے ڈاکوﺅں اور اغوا کاروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ریاستی رٹ‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ڈاکوﺅں کے تعلقات کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ بد مست بنیاد پرست گروہ کسی پر بھی توہین کا فتویٰ عائد کر کے سٹریٹ جسٹس شروع کر دیتے ہیں۔

یہ حالات ایک طرح کی حکمران طبقے کی بے گانگی کا مظہر بھی ہیں۔ جو خود کو کروڑوں لوگوں کی ہولناک زندگیوں سے الگ کر کے دیکھتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد حکمران طبقے کی اس سفاکی اور بے مہری کو سمجھ رہی ہے۔ آبادی کے ایک حصے کا تحریک انصاف کی طرف مائل ہونا بھی دراصل گہرے اضطراب، غصے اور شدید ردعمل کا نتیجہ ہے جس میں وہ تحریک انصاف کی اہلیت اور ساکھ پرکھنے کی بجائے پہلے سے موجود حکمران گروہوں کے جرائم پر اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف حصوں، کشمیر اور گلگت بلتستان میں ابھرنے والی قومی اور طبقاتی تحریکوں کو الگ تھلگ نبرد آزمائی سے نکل کر نظام کی تبدیلی کے بنیادی ایجنڈے پر خود کو مجتمع کرنا ہو گا۔ سرمایہ داری اور طبقاتی تفریق کے خاتمے سے ہی ایسے عوامل کی تشکیل ممکن ہے جن کے ذریعے قومی، طبقاتی، علاقائی، صنفی، مذہبی اور دیگر بنیادوں پر ہونے والے استحصال اور بے انصافی کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام وسائل کو بہتر انسانی زندگی کی تعمیر کے لئے بروئے کار لایا جا سکے گا۔ عوام کی حالت زار اور ریاست کی فرسودگی کا تقاضا ہے کہ آئینی ترمیموں کی بجائے انقلابی جراحی سے نظام کہنہ کے کینسر کا خاتمہ کیا جائے۔