حارث قدیر
بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں 10 سال بعد بالآخر اسمبلی انتخابات تین مرحلوں میں مکمل ہو کر نتائج جاری ہو چکے ہیں۔ 10 سال بعد البتہ یہ انتخابات ماضی کی خصوصی حیثیت والی جموں کشمیر ریاست کی بجائے ایک مرکز کے زیر انتظام علاقے (یونین ٹیرٹری) کی ایک برائے نام اسمبلی کے لیے ہوئے ہیں۔ منتخب ہونے والی حکومت مکمل طور پر مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف سے نامزد کردہ لیفٹیننٹ گورنر کے رحم و کرم پر ہو گی۔
بی جے پی نے انتخابات جیتنے کے لیے پانچ سالہ منصوبہ بندی کی تھی۔ تاہم ووٹروں نے یہ تمام منصوبے خاک میں ملا دئیے ہیں۔ جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اپنے اتحادیوں کے ہمراہ حکومت بنانے کی مضبوط پوزیشن میں ہے اور عمر عبداللہ کو وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی فرقہ وارانہ تقسیم اور علاقائی تقسیم کو ہوا دے کر اپنے حق میں جو نتائج حاصل کرنا چاہتی تھی اس میں اسے نہ صرف بری طرح ناکامی ہوئی ہے بلکہ پچھلے الیکشن کی نسبت زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود جموں ریجن تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
بھارتی حکمران جماعت بی جے پی نے 2014ء میں اقتدار میں آنے سے قبل جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جسے 2019ء کے انتخابات میں بھی دہرایا گیا تھا۔ مسلسل دوسرے دور اقتدار میں بی جے پی نے اپنے اس وعدے پر پہلی فرصت میں عملدرآمد کیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا مسلسل یہ دعویٰ رہا ہے کہ جموں کشمیر کی ترقی کی راہ میں خصوصی حیثیت رکاوٹ تھی اور ساتھ ہی مسلح بغاوت اور علیحدگی (آزادی) کی آوازوں کی وجہ بھی خصوصی حیثیت کو ہی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مجموعی طور پر بی جے پی اور اس کی مدر آرگنائزیشن راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے مطابق جموں کشمیر میں موجود تمام مسائل کی جڑ خصوصی حیثیت ہی تھی۔
2019ء میں خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سب سے پہلے غیر ریاستی شہریوں کو جموں کشمیر میں آباد کرنے کے اقدامات کیے گئے اور 12 ہزار سے زائد ڈومیسائل جاری کیے گئے۔ دوسرا اقدام حلقہ بندیوں کی صورت کیا گیا۔ قانون ساز اسمبلی کی نشستوں میں 7 کا اضافہ کیا گیا۔ یہ اضافہ ہندوتوا کے ایجنڈے کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا۔ اکثریتی آبادی پر مشتمل کشمیر وادی، جو مسلم اکثریتی علاقہ بھی ہے، کو ایک اضافی نشست ملی۔ جبکہ آبادی میں اقلیتی اور ہندو اکثریتی علاقے جموں کے لیے 6 نشستوں کا اضافہ کیا گیا۔
ہندو وزیر اعلیٰ تعینات کرنے کا ایجنڈا پیش کر کے حلقہ بندیوں میں بھرپور کوشش کی گئی کہ ہندو اکثریتی حلقوں میں اضافہ کیا جائے۔ یوں جموں میں ہندو اکثریتی حلقوں کی تعداد 24 سے بڑھا کر 31 کر دی گئی اور مسلم اکثریتی حلقوں کی تعداد 12 سے کم کر کے 9 کر دی گئی۔
وادی کشمیر میں ریاست کی 56.15 فیصد آبادی رہتی ہے جبکہ جموں میں 43.85 فیصد آبادی رہتی ہے۔ پچھلی اسمبلی میں وادی کشمیر کی 46 نشستیں تھیں۔ اب 47 ہو گئی ہیں۔ تاہم جموں کی 37 نشستیں بڑھا کر 43 کر دی گئی ہیں۔ بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے کی منصوبہ بندی کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جموں کشمیر میں 28 فیصد ہندو آبادی کو نئی حلقہ بندیوں کے بعد 34.44 فیصد نشستیں دی گئی ہیں۔
لوک سبھا کے 5 انتخابی حلقوں کی بھی نئی حلقہ بندیوں میں اس تقسیم کو بڑھاوا دینے کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے راجوری اور اننت ناگ کو ملا کر ایک انتخابی حلقہ بھی بنایا گیا تھا۔ تاہم اس میں بھی بی جے پی کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پائے تھے۔
جموں کے پہاڑی علاقے پیر پنجال کے 8 انتخابی حلقوں سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بی جے پی نے پہاڑی قبائل کو شیڈول ٹرائب میں شامل کر کے ملازمتوں اور تعلیم میں خصوصی کوٹے کا حقدار بھی بنایا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس اسمبلی میں 5 مخصوص نشستیں بھی رکھی گئی ہیں جن کا انتخاب منتخب ممبران اسمبلی نہیں کریں گے بلکہ ان کی نامزدگی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کریں گے۔ ان نامزد ہونے والے ممبران اسمبلی میں دو خواتین، دو کشمیری پنڈت اور ایک پاکستان سے ہجرت کر کے جانے والے ہندو مہاجرین کی نشست ہو گی۔ ان ممبران کو براہ راست منتخب ہونے والے ممبران کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ اس طرح مرکزی حکومت کو تمام تر تعصبات کو استعمال کر نے کے بعد بھی اگر کامیابی نہ مل پائی تو 5 نشستوں کا ٹرمپ کارڈ ان کے پاس محفوظ تھا۔
بہرحال رائے دہندگان نے بی جے پی کی تمام حکمت عملی کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اب 5 ممبران کی نامزدگی کے اختیار کے باوجود ’ہندو‘وزیر اعلیٰ بنانے کا منصوبہ خاک میں مل چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے نتائج کے مطابق 90 نشستوں میں سے 42 نیشنل کانفرنس، 29 بی جے پی، 6 انڈین نیشنل کانگریس، 3 پی ڈی پی، 1 کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) (سی پی آئی ایم)، 1 پیپلز کانفرنس، 1 عام آدمی پارٹی، جبکہ 7 آزاد امیدواروں نے جیتی ہیں۔
مجموعی طور پر انتخابات میں بی جے پی نے سب سے زیادہ ووٹ لیا ہے۔ پہلی بار بی جے پی کشمیر ویلی میں بھی ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تاہم نشست کوئی نہیں جیت سکی ہے۔ بی جے پی کی گزشتہ اسمبلی میں اتحادی پی ڈی پی بری طرح شکست سے دو چار ہوئی ہے اور 28 نشستوں سے 3 نشستوں تک محدود ہو گئی ہے۔
نیشنل کانفرنس واحد ایسی پارٹی رہی ہے جس کے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں مسلم اور ہندو دونوں شامل ہیں۔ کانگریس اپنے ماضی کے گڑھ جموں کے ہندو اکثریتی حلقوں میں بری طرح شکست سے دو چار ہوئی ہے۔ انتخابی تجزیہ کاروں کے مطابق کانگریس نے جموں میں انتخابی مہم چلانے کی بجائے وادی کشمیر میں مہم چلانے کو ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے 5 امیدوار کشمیر سے اور 1 جموں سے کامیاب ہوا ہے۔ اس انتخابی پالیسی کو نیشنل کانفرنس نے بارہا تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ نیشنل کانفرنس کو وادی کشمیر سے 35 اور جموں سے 7 نشستیں ملی ہیں۔ آزاد امیدواروں کے شامل ہونے کے بعد جموں سے نیشنل کانفرنس کی نشستوں میں اضافہ ہو جائے گا۔
جنوبی کشمیر کے کلگام حلقے سے یوسف تاریگامی کا مسلسل پانچویں بار الیکشن جیتنا بھی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ وہ اس اسمبلی میں منتخب ہونے والے واحد کمیونسٹ رہنما ہیں۔ اس بار ان کا مقابلہ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سیار احمد رشی سے تھا جنہوں نے اس انتخاب کو اسلام اور کفر کی جنگ بنا کر پیش کر رکھا تھا۔ تاہم اس کے باوجود محنت کشوں کے نمائندہ سرخ پرچم اور درانتی ہتھوڑے کے انتخابی نشان پر یوسف تاریگامی کامیاب ہوئے۔
نیشنل کانفرنس اور اس کے اتحادیوں کویہ انتخابی فتح آرٹیکل 370 کی صورت خصوصی حیثیت کی بحالی، ریاستی تشخص اور باعزت زندگی کے انتخابی وعدوں پر حاصل ہوئی ہے۔ بالخصوص وادی کشمیر میں ووٹروں نے بی جے پی کے پچھلے پانچ سال کے اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنا ووٹ تقسیم کرنے کی بجائے ایک جماعت کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ درحقیقت یہ کمتر برائی کے حق میں دیا گیا عوامی فیصلہ ہے جس کا جموں کشمیر میں عام تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ نیشنل کانفرنس اور اس کی اتحادی جماعتوں سے جموں کشمیر کے عوام بالخصوص نوجوانوں کو کوئی بہتری کی امید نہیں ہے۔ تاہم وہ اس وقت بی جے پی کے خوف سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت جموں کشمیر کے لوگوں کے لیے سب سے پہلا ہدف بی جے پی سے نجات اور ریاست کی حیثیت کی بحالی ہے تاکہ وہ ماضی میں چھینے گئے مالی اور سیاسی اختیارات کی بازیابی کے لیے آگے کے سفر کی کوشش کر سکیں۔
عمر عبداللہ نے انتخابات میں فتح کے بعد جہاں ریاستی تشخص اور دفعہ 370 کی بحالی کے وعدہ کو دہرایا ہے وہیں اس وعدہ کی فوری تکمیل کے امکان کو بھی خود ہی رد بھی کیا ہے۔ مبہم انداز میں البتہ انہوں نے بھارت کے ساتھ الحاق کے وقت 1947ء میں اپنے دادا شیخ عبداللہ کے ساتھ کیے گئے بھارتی حکومت کے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قبل ازیں وہ لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے مفلوج وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھنے سے انکار کر چکے تھے۔ تاہم انتخابات میں فتح کے بعد وزارت اعلیٰ کے منصب پر بیٹھنے کے لیے وہ کافی جلدی میں نظر آئے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہو گی کہ بھارتی سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کر دی جائے۔ کیونکہ ان کی حکومت کو اپنے دعوؤں اور اعلانات پرعملدرآمد کرنے کے لیے مرکز میں حکمران بی جے پی کے رحم و کرم پر ہی رہنا ہو گا۔
5 اگست 2019ء میں جموں کشمیر تنظیمِ نو بل اور بعد ازاں دسمبر 2023ء میں جموں کشمیر تنظیمِ نو ترمیمی بل کی منظوری کے بعد بھارت کی دیگر یونین ٹیریٹریز کی اسمبلیوں کو حاصل اختیارات سے بھی جموں کشمیر کی اسمبلی کو محروم کر دیا گیا ہے۔ پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنر کا کنٹرول ہو گا۔ تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینا ہو گی۔ مالیاتی اختیارات بھی لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری کے محتاج ہوں گے۔ لیفٹیننٹ گورنر کا نمائندہ کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند ہو گا اور وزرا کے شیڈول اور اجلاسوں کے ایجنڈے کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کروانا ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر کی جانے والی قانون سازی بھی لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری سے ہی مشروط ہو گی۔ لیفٹیننٹ گورنر کے اعتراض کے بعد اسمبلی دوبارہ کوئی بل منظور کر دے تو لیفٹیننٹ گورنر اسے منظور کرنے کے پابند ہوتا ہے۔ تاہم جموں کشمیر میں ایسا نہیں ہے۔
اس طرح عملی طور پر یہ اسمبلی ایک بلدیاتی ادارے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی اور نئی منتخب ہونے والی حکومت اپاہج ہی ہو گی۔ عملی طور پر لیفٹیننٹ گورنر اور اس کے ذریعے بی جے پی کی مرکزی حکومت کی حکمرانی کا سلسلہ مستقبل قریب میں بھی برقرار ہی رہے گا۔
نیشنل کانفرنس کی ساری تاریخ اور جموں کشمیر کے بھارت کے ساتھ سیاسی تعلق کو اگر دیکھا جائے تو 1947ء میں کیے گئے عارضی الحاق کے بعد بتدریج اختیارات چھینے جانے کا ایک عمل نظر آتا ہے۔ ہر بار جب مرکز کی طرف سے آئینی اور سیاسی حملہ کیا گیا تو نیشنل کانفرنس نے کبھی معمولی اور کبھی طویل مزاحمت تو کی۔ لیکن آخری تجزئیے میں مرکز کے ساتھ کمپرومائز کی پالیسی ہی اختیار کی۔ یہی وجہ ہے کہ دفاع، کرنسی اور مواصلات کے علاوہ تمام آئینی، سیاسی اور مالی اختیارات کی حامل نیم خودمختار ریاست کے حکمران شیخ عبداللہ خاندان کی تیسری نسل کو اسی ریاست کے ایک ٹکڑے کی لیفٹیننٹ گورنر کے تابع مفلوج حکومت کا وزیر اعلیٰ بننا بھی قبول کرنا پڑ رہا ہے۔
عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کے لیے صرف یہی چیلنج نہیں ہے کہ انہیں چھینے ہوئے آئینی، سیاسی اور مالیاتی اختیارات واپس حاصل کرنے ہیں بلکہ عوام کے معاشی مسائل کو حل کرنے اور تقریباً منجمد معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ جس کے لیے ان کے پاس کوئی اختیار موجود نہیں ہے۔ جموں کشمیر میں اس وقت بیروزگاری گزشتہ 45 سال کی بلند ترین شرح پر موجود ہے۔ اس وقت اس خطے میں 28.2 فیصد بیروزگاری کی شرح ہے جو ملک (بھارت) کی بیروزگاری کی شرح 6.1 فیصد سے بہت زیادہ ہے۔ 25 لاکھ نوجوان نوکری کی تلاش میں ہیں۔ 10 لاکھ تعلیم یافتہ نوجوان نوکریوں سے محروم ہیں۔ دوسری جانب 65 فیصد سرکاری آسامیاں خالی ہیں۔ تاہم ان پر تقرریوں کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری درکار ہو گی۔ خطے میں 60 ہزار دیہاڑی دار مزدور محض 300 روپے یومیہ کما پا رہے ہیں۔ مودی حکومت کے بھاری اعلانات محض اعلانات تک ہی محدود رہے ہیں اور انڈسٹریل گروتھ کے دعوے بھی پورے نہیں ہو سکے۔ سمال انڈسٹریز، جو اس خطے کی معیشت میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں، بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور معیشت رکی ہوئی ہے۔
مرکز نے 2024-25ء کے مرکزی بجٹ میں جموں کشمیر کے لیے 422 ارب 77 کروڑ بھارتی روپے مختص کیے ہیں جو مودی حکومت کے دعوؤں کے برعکس گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 1.2 فیصد کا معمولی اضافہ ہے۔ خطے کا کل بجٹ 1183 ارب 90 کروڑ بھارتی روپے ہے۔
مودی حکومت کا ایک اور دعویٰ تھا کہ جموں کشمیر سے عسکریت پسندی کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ تاہم عسکریت پسندی وادی کشمیر میں اگر کسی حد تک ترک کی گئی ہے تو جموں عسکری کاروائیوں کا نیامرکز بنتا جا رہا ہے۔ ان عسکری حملوں کو البتہ ماضی کی طرح میڈیا پر زیادہ جگہ نہیں مل رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2021ء کے بعد جموں میں عسکریت پسندوں سے جڑے 33 حملے ہوئے ہیں۔ صرف 2024ء میں خطے میں 8 حملے ہوئے جن میں 11 فوجی ہلاک اور 18 زخمی ہوئے۔ وادی کشمیر میں عسکریت کو ہی نہیں بلکہ پاکستان نواز نام نہاد حریت قیادتوں کو بھی عوام نے بری طرح مسترد کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں سمیت دیگر کچھ نام نہاد حریت رہنماؤں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا۔ لیکن ضمانتیں بچانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
جموں کشمیر کے عوام نے البتہ اس حکمران اشرافیہ سے کوئی امید نہیں لگا رکھی ہے۔ نہ ہی ان کا سیاسی شناخت ہی واحد مسئلہ ہے۔ درحقیقت یہ ان تمام مسائل کا ابتدائی اظہار ہے جو مقامی حکمران اشرافیہ کی سہولت کاری کے نتیجے میں قائم سامراجی قبضے کی وجہ سے اس خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو درپیش ہیں اور ان سے نجات سامراجی قبضے اور سرمائے کی حاکمیت سے مکمل آزادی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ نیشنل کانفرنس اور اتحادیوں کی فتح درحقیقت کسی واضح متبادل کے فقدان کا شاخسانہ ہے۔ ایک خلا ہے جسے انقلابی نظریات سے لیس واضح متبادل پروگرام کی حامل قوتوں کے ذریعے پر کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب بی جے پی کی پالیسیوں کے نتیجے میں جموں اور وادی کے مابین علاقائی تقسیم اب مذہبی تقسیم کی صورت میں مزید گہری اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
یہ پولرائزیشن آخری تجزیے میں محنت کشوں اور نوجوانوں کو تحفظاتی پالیسیوں کے تحت حکمران اشرافیہ کے مفادات کاایندھن بننے پر مجبور کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات میں 68 فیصد سے زائد ووٹر ٹرن آؤٹ بھی سامنے آیا ہے اور نتائج میں ریاست کی پیوست کردہ مذہبی تقسیم اور تعصب کی گہری چھاپ بھی نظر آتی ہے۔ انتخابی نتائج سے البتہ بی جے پی کی پالیسیوں کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار نوجوانوں اور محنت کشوں میں ایک اعتماد کی بحالی ضرور ہو گی۔ جو آنے والے دنوں میں مستقبل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔