عمر عبداللہ

دنیا بھر کی طرح جنوب ایشیا بھی پچھلے کچھ سالوں سے غیر معمولی سیاسی و سماجی ہلچل سے گزر رہا ہے۔ 2022ء میں سری لنکا میں طلبہ اور محنت کشوں کی احتجاجی تحریک کی جانب سے بد عنوان اور عوام دشمن صدر راجا پکسے کو بھاگنے پر مجبور کیے جانے کے بعد سے اٹھنے والی شورش کی لہر پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ طویل عرصے کی شکستوں یا بے عملی کے بعد صرف پچھلے چھ مہینوں میں خطے کے طلبہ اور محنت کش عوام نے اپنے بلند حوصلوں اور قربانیوں سے دو بڑی کامیابیاں سینچی ہیں۔ ایک طرف نوجوانوں کے ہراول کردار کے ساتھ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے عوام نے پورے نو آبادیاتی ریاستی سیٹ اپ کو شکست دے کر سستی بجلی کا بنیادی حق چھینا ہے تو دوسری طرف بنگلہ دیش میں طلبہ نے طویل عرصے سے اقتدار کے ساتھ چمٹی حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ کر اسے ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی طرح کلکتہ میں نوجوان ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف ڈاکٹروں اور طلبا و طالبات کی تحریک سے لے کر پختونخواہ اور بلوچستان میں قومی جبر، سامراجی جنگوں اور آپریشنوں کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کے ابھار سمیت اس وقت خطے میں متعدد چھوٹی بڑی سرکشیاں مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں جو آنے والے دنوں میں طبقاتی کشمکش کے بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔

عام لوگ مسلسل گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران، سرمایہ دارانہ ریاستوں کی تاریخی ناکامیوں، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی نیو لبرل معاشی پالیسوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ نیو لبرل حکومتوں اور عالمی اداروں کے کاغذوں پر اعداد و شمارکے ہیر پھیر سے گھڑی گئی ترقی کی بوگس دیو مالائی داستانوں کی اصل حقیقت بھی اب کھل کر سامنے آنا شروع ہو چکی ہے۔ دنیا کے اس حصے میں آبادی کا ساٹھ سے ستر فیصد تک نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں ان حالات میں اپنا مستقبل مسلسل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف عالمی سامراج اور ان کے مقامی گماشتوں کی نمائندہ ریاستوں کے پاس اس کثیر جہتی بحران میں مروجہ پالیسیوں کو ہی جبراً نافذ کرنے اور ہر مزاحمت کو خون میں نہلا کر کچل دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے تو دوسری طرف اربوں محنت کشوں‘ بالخصوص ان کی نئی نسل کے پاس بھی اپنی زندگیوں کی بقا اور بہتر مستقبل کی امید کی خاطر لڑنے کے سوا دوسرا کوئی آپشن نہیں بچا۔ اس ساری کیفیت کا عکس بنگلہ دیش کی حالیہ طلبہ تحریک کے دوران ایک نوجوان کے پولیس کے ساتھ لڑتے ہوئے بندوقوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو جانے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس اس نوجوان کے سینے پر تین مرتبہ فائر کرتی ہے مگر ہر بار وہ زمین پر گر کر پھر سے کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا سینہ آگ اگلتی بندوقوں کے سامنے دوبارہ تان لیتا ہے۔ یہ منظر تاریخ میں ظالم کے خلاف مزاحمت اور جرات کے استعارے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بنگلہ دیش کی تحریک نے اس طرح کے بے شمار استعاروں کو جنم دیا ہے جنہیں سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا نے براہِ راست دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ اس تحریک نے بنگلہ دیش کے اندر اور باہر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں جو اپنے اسباق کے ساتھ آنے والے دنوں میں دنیا بھر میں طبقاتی جدوجہد کی آگے کی جہتوں اور راستوں کا تعین کریں گے۔ جیسا کہ ہم پاکستان میں طلبہ کے حالیہ مظاہروں کی صورت میں دیکھ بھی رہے ہیں۔

10 جولائی 2024ء کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے سول سروس کی تین ہزار سیٹوں پر 2018ء سے منسوخ شدہ کوٹہ سسٹم بحال کر دیا۔ اس سسٹم کے تحت 30 فیصد سیٹیں جنگ آزادی میں لڑنے والے خاندانوں کے لیے اور مزید 26 فیصد خواتین، معذوروں، اقلیتوں اور پسماندہ اضلاع کے لیے مختص تھیں۔ ماضی میں کچھ بھی رہا ہو لیکن اب یہ اول الذکر 30 فیصد کوٹہ حسینہ واجد اور عوامی لیگ کے ہاتھوں میں ایک اوزار بن چکا تھا جسے وہ سیاسی رشوت، بدعنوانی اور ریاست کے اندر اپنے حمایتی لوگوں کا غلبہ برقرار رکھ کر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ دوسری طرف پڑھے لکھے نوجوانوں کو ان سرکاری نوکریوں کے علاوہ کوئی اور مناسب روزگار میسر نہ تھا۔ چنانچہ طلبہ نے اس متعصبانہ پالیسی کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس مظہر سے بھی نام نہاد نیو لبرل معاشی ترقی کے فراڈ کا پول بھی کھل جاتا ہے کہ مبینہ طور پر تیز ترین ترقی کی سنہری مثال بنگلہ دیش کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان صرف تین ہزار نوکریوں کی خاطر لڑ مر جانے کو تیارہیں۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو طلبہ نے یکسر مسترد کر دیا اور احتجاج میں کود گئے۔ طلبہ کا اس قدر تیزی سے احتجاج میں منظم ہو جانا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ 2018ء کی طلبہ تحریک کا تسلسل تھا جس نے حسینہ واجد کو اس کوٹہ سسٹم کو منسوخ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ا ن مظاہروں میں بھی سینکڑوں نوجوانوں نے جان کی قربانی دے کر اپنے مطالبات منوائے تھے۔ اس تحریک کے دوران بنگلہ دیش ’سدھاروں چھاترا اودھیکر سونگروکخون پریشد‘ (بنگلہ دیش جنرل سٹوڈنٹس رائٹ پروٹیکشن کونسل) ابھر کر سامنے آئی تھی۔ چھ سال بعد جب اسی کوٹے کو سپریم کورٹ کے ذریعے دوبار لاگو کرنے کی کوشش کی گئی تو بنگلہ دیشی طلبہ کے پاس نہ صرف تحریک کا تجربہ موجود تھا بلکہ ان چھ سالوں میں طلبہ نے کسی حد تک اپنی تنظیم اور قیادت بھی تخلیق کر لی تھی۔ اس بار تحریک کی قیادت ’اینٹی ڈسکریمینیشن سٹوڈنٹس موومنٹ‘ (تعصب و تفریق مخالف طلبہ تحریک) نامی 23 رکنی کوآرڈی نیٹرز کی کمیٹی کر رہی تھی جس کا قیام سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے رد عمل میں ہوا اور جس میں ناہید اسلم اور آصف محمود بھی شامل تھے جو بعد ازاں اس تحریک کا چہرہ بن کر ابھرے اور موجودہ عبوری حکومت میں ایڈوائزر بھی ہیں۔ یہ دونوں 26 سالہ نوجوان ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور دونوں ’گانوتنترک چھاترا شکتی‘ (ریپبلکن سٹوڈنٹس پاور) کے ڈھاکہ یونیورسٹی یونٹ کے جنرل سیکرٹری اور کنوینر ہیں۔ ’گانوتنترک چھاترا شکتی‘ بنیادی طور پر 2018ء میں کوٹہ موومنٹ کی قیادت کرنے والی’سدھاروں چھاترا اودھیکرسونگروکخون پریشد‘ سے علیحدہ ہوئی تنظیم ہے اور حالیہ تحریک کی مذکورہ 23 رکنی کمیٹی میں 9 نمائندے اسی تنظیم کے تھے۔ یہ تنظیم سنٹر لیفٹ ڈیموکریٹک نظریات رکھتی ہے اور اس کے علاوہ بھی اس کمیٹی میں جو بعد ازاں 32 رکنی سے بڑھ کر 159 رکنی ہو چکی ہے میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی متعدد تنظیمیں شامل ہیں۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہندوستانی ریاست نے تحریک سے خوفزدہ ہو کر اور سٹالنسٹ رجحانات نے تحریک سے باہر رہ جانے کے غم میں اپنی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتجاجی طلبہ کے خلاف اتنہائی غلیظ اور زہریلا پراپیگنڈہ کیا۔ دونوں نے اپنی پوری طاقت سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس تحریک پر بنیاد پرست تنظیمیں خاص طور پر بنگلہ دیش کی کالعدم جماعت اسلامی کا قبضہ ہے اور بنگلہ دیش آنے والے دنوں میں افغانستان بننے جا رہا ہے۔ پاکستانی ریاست اور یہاں کی جماعت اسلامی کے پراپیگنڈہ نے بھی اس تاثر کو تقویت دی۔ یہ بات درست ہے کہ تحریک کے دوران حسینہ واجد کے بھاگ جانے کے بعد ایک وقت ایسا ضرور آیا تھا جب غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر بنیاد پرستوں نے تحریک آزدی کی یادگاروں اور شیخ مجیب الرحمان سمیت دیگر آزادی کے ہیروز کے مجسموں کو نقصان پہنچایا اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ مندروں پر حملہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ لیکن انتہائی پھرتی کے ساتھ تحریک کی قیادت نے فوراً ملک بھر میں کمیٹیاں تشکیل دے کر سکیورٹی کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اس کے بعد کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہی وہ وقت تھا جب سوشل میڈیا پر تحریک کی فتح کے بعد نوجوان طلبا و طالبات کی جانب سے ٹریفک کا نظام سنبھالنے کی ویڈیوز وائرل ہوئیں اور خطے کے نوجوانوں کے لیے گھٹن کے ماحول میں ٹھنڈی ہوا کاجھونکا بنیں۔ کسی حد رمزی ہی سہی لیکن ان ویڈیوزکا تاثر اپنے اندر بہت اہمیت رکھتا تھا کہ اس متروک نظام کی چکی میں مسلسل پسنے والے ان نوجوانوں کو اگر موقع دیا جائے تو ان میں اتنی شکتی اور حوصلہ ہے کہ یہ اس موت بانٹتے سیارے پر زندگی کی بہار پیدا کر کے دکھا دیں گے۔ اور ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اس عقل پر جو ایک ایسی تحریک میں رجعت تلاشتی ہے یا یہ سمجھتی ہے کہ جماعت اسلامی جیسی فسطائی قوتیں ایسی تحریک میں پنپ سکتی ہیں جس میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد فرنٹ لائنز پرلڑ رہی ہو۔

اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریک سوشلسٹ انقلاب تک کا سفر طے نہ کر سکی جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان سے آزاد ہونے کی پانچ دہائیوں کے بعد بھی محنت کش طبقے کی زندگی کی تلخی میں کوئی کمی نہیں آئی اور شاید کئی حوالوں سے حالات پہلے سے بدتر ہو چکے ہیں۔ لیکن اس ادھورے پن میں بھی اس تحریک کی بہت ساری سیاسی و نظریاتی حاصلات اور اسباق ہیں جن میں بنیاد پرستی کی کمر ٹوٹ جانا اور لسانی و قومی حوالے سے کسی حد تک ایک یکجا قوم پر مبنی ریاست کی تشکیل شامل ہے۔ اگرچہ تحریک آزادی کی روایتی پارٹی عوامی لیگ کے اس عبرت ناک انجام کے بعد بی این پی جو کہ ایک سنٹر رائٹ جماعت ہے اور بنیاد پرستی میں اپنی جڑیں رکھتی ہے کے لیے بھی مواقع کی کھڑکی کھلی ہے لیکن بنیاد پرستی کے بنگلہ دیشی سماج پر حاوی ہو جانے کے امکانات کم از کم فی الوقت ناپید ہیں۔ بنیاد پرستی کا حاوی ہونا تو درکنار تحریک کی موجودہ کیفیت میں تو بی این پی کا اقتدار حاصل کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہو گا۔ کابینہ میں موجود تحریک کے دونوں رہنماؤں نے یہ واضح کیا ہے کہ ا گرچہ اس عبوری حکومت کا کام الیکشن کرا کے اقتدار منتقل کرنا ہے لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ریاست اور خاص طور پر الیکشن کمیشن میں ایسی سٹرکچرل اصلاحات سے پہلے الیکشن کرائے جائیں جن کے ذریعے فسطائیت یا آمریت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روکا جا سکے۔ دوسری طرف طلبہ تحریک اور اس کی قیادت یہ چاہتی ہے کہ الیکشن سے پہلے انہیں کچھ وقت مل جائے تاکہ وہ پارٹی بنا لیں جس کی سر توڑ کوششیں بھی جاری ہیں۔ یہ طلبہ اگر معقول مطالبات، پروگرام اور حکمت عملی کے ذریعے محنت کش طبقے کو بھی اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آئندہ انتخابات غیرمعمولی نتائج اور مضمرات کے حامل ہوں گے۔ لیکن اس کے امکانات بہت زیادہ نظر نہیں آ رہے ہیں۔

طلبہ اپنی حدت اور شورش سے محنت کش طبقے کے اندر تحرک تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن اس سے آگے کے مراحل میں کسی خاطر خواہ انقلابی پیش رفت کے لیے پھر محنت کش طبقے کا ہراول کردار ضروری ہو جاتا ہے۔ حالیہ تحریک میں محنت کش کسی حد تک شامل تو ضرور ہوئے لیکن بحیثیت طبقہ یا سیاسی فارمیشن کے نہیں بلکہ عوام کی صورت میں۔ بہر حال ایک نئی پارٹی تو ہر دو صورتوں میں ضرور بنے گی لیکن صرف طلبہ پر مشتمل اگر کوئی پارٹی بنتی ہے تو اس کی اپنی محدودیت رہے گی۔

تحریک کے خلاف ایک اور بیہودہ پراپیگنڈہ یہ کیا جا رہا ہے کہ چونکہ طلبہ نے ڈاکٹر یونس کو بلا کر عبوری حکومت کا چیف ایڈوائزر بنوایا ہے جو مغربی سامراج اور عالمی مالیاتی بیوروکریسی کا منظور نظر ہے اور دوسری طرف حسینہ واجد یہ کہہ رہی ہے کہ ا مریکہ کو’ایبسلوٹلی ناٹ‘ کہنے پر مجھے سازش کے ذریعے نکالا گیا ہے لہٰذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس ساری تحریک کے پیچھے سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔ سی آئی اے تو کیا دنیا میں کوئی بھی سامراجی طاقت مصنوعی بنیادوں، طریقوں یا سازش کے ذریعے ایسی تحریکیں برپا نہیں کر سکتی جن میں لاکھوں نوجوان شامل ہو ں اور تحریک کی خاطر سینکڑوں کی تعداد میں جانوں کا نذرانہ پیش کر دیں۔ تحریکیں موضوعی عناصر کی مرضی اور ان کے ذہن میں موجود خاکوں کے عین مطابق نہیں ابھرتیں۔ بالخصوص تحریکوں کے ابھار یا شروعات کے حوالے سے موضوعی یا ”بیرونی“ عناصر (چاہے رجعتی ہوں یا انقلابی) زیادہ سے زیادہ پہلے سے جاری معروضی عوامل کو جزوی مہمیز یا تقویت ہی دے سکتے ہیں۔ مزید برآں بالفرض کسی سامراجی یا داخلی رجعتی رجحان کے مفادات وقتی طور پر کسی عوامی تحریک سے میل کھاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہوتا کہ تحریک ان کی مرضی یا ایما سے چل رہی ہے۔

سماج کے اپنے ارتقا کے دوران طبقاتی کشمکش اور فوری واقعات کے زیر اثر تحریک کے ابھرنے، پسپا ہونے یا آگے بڑھ جانے میں موضوعی عنصر کے علاوہ کئی اور محرکات بھی شامل ہوتے ہیں جس کے باعث تحریکوں کی ایک آزادانہ حرکت بھی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موضوعی عنصر کی مکمل غیر موجودگی میں بھی تحریکیں ابھرتی ہیں اور انتہائی ٹھوس موضوعی عنصر کے ہوتے ہوئے بھی بعض اوقات تحریکیں برپا نہیں ہو پاتیں۔ خالصتاً انقلابی تحریک دانشور دماغوں میں ہی وجود رکھتی ہے۔ اس لیے انقلابیوں کا یہ کام نہیں ہے کہ جو تحریکیں ان کی خواہشات کے تابع نہ ہوں ان پر فتوے بازی کرتے پھریں بلکہ ان کے سامنے ہمیشہ یہ سوال ہونا چاہیے کہ ان میں مداخلت کر کے انہیں انقلابی عمل کی طرف موڑا کیسے جائے اور اپنی قوتوں اور اثر و رسوخ میں اضافہ کیسے کیا جائے۔

بنگلہ دیش کی حالیہ تحریک‘ طلبہ تک ہی محدود ہو جانے سے فی الوقت پیٹی بورژوا جمہوری امنگوں سے آگے نہیں بڑھ پائی۔ اس کا واضح اظہار طلبہ کی طرف سے ڈاکٹر یونس جیسے نوسرباز اور نیو لبرل سامراجی گماشتے کو عبوری حکومت کا چیف ایڈوائزر بنا نے کے مطالبے میں بھی ہو تا ہے۔ وہ ایک بینکار ہے جسے مائیکرو فنانسنگ کے ذریعے غربت مٹانے کی ایسی پالیسی پر نوبل انعام دیا گیا تھا جو درحقیقت ایک فراڈ تھا۔ المیہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی حالیہ صورتحال خود ڈاکٹر یونس کی پالیسیوں کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن پیٹی بورژوازی سے تعلق رکھنے والے طلبہ (بالخصوص یونیورسٹیوں تک پہنچ سکنے والے) ایسی نسبتاً مراعت یافتہ سماجی پرت سے تعلق رکھتے ہیں جن کے شعور پر ڈاکٹر یونس یا عبدالستار ایدھی یا دوسری ایسی اصلاح پسند شخصیات اور رجحانات، جنہیں حکمران طبقات تعلیمی نصابوں اور میڈیا کے ذریعے خوب ابھارتے ہیں، ایک بوجھ کی طرح سوار ہوتے ہیں۔ بالخصوص ایسے حالات میں جب محنت کش طبقہ مجہول ہو یا سیاسی و نظریاتی کمزوریوں سے دوچار ہو۔ اگرچہ ناہید اسلم اور دیگر طلبہ پر عزم ہیں کہ وہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے عوام دوست جمہوری اور معاشی اصلاحات کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن وقتی کامیابیوں کے باوجود یہ آئیڈیلزم آج نہیں تو کل ناگزیر طور پر تلخ مادی حقائق سے ٹکرائے گا۔ سامراجی و مقامی حکمران فی الوقت پسپا ہوئے ہیں۔ لیکن لمبے عرصے میں وہ طلبہ کو بغاوت کی سزا دینے کا کوئی موقع گنوائیں گے نہیں۔ ان گنت قربانیوں سے قومی آزادی حاصل کرنے کے باوجود بنگلہ دیش میں بھی ایک سرمایہ دارانہ ریاست اقتدار پر قابض ہے۔ جس کا کردار جبر و تشدد کے ذریعے طبقاتی استحصال کے نظام کو قائم رکھنا ہی ہے۔ ان حالات میں اس نظام کی زوال پذیری کی حقیقتیں اور حکمرانوں کی انتہائی پرفریب مکاریاں زیادہ واضح ہو کے سامنے آئیں گی اور سب سے پہلے طلبہ کی زیادہ باشعور پرتوں کے سامنے یہ عیاں کریں گی کہ کسی انسان دوست سرمایہ داری کی گنجائش اس زماں و مکاں میں موجود نہیں ہے۔ یہ نظام ایک بہت چھوٹی سی مراعت یافتہ اقلیت کے علاوہ باقی انسانوں میں غربت، موت، جبر اور ذلت ہی بانٹ سکتا ہے۔

بنگلہ دیش کی عمومی معاشی کیفیت مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام، نجکاری، کٹوتیوں، بجلی کی قیمتوں میں اضافے، بیروزگاری، مہنگائی، سکڑتی اجرتوں اور کام کرنے کے انتہائی برے حالات کے خلاف محنت کش طبقے کے اندر ایک تحریک پک رہی ہے جو گاہے بگاہے چھوٹے بڑے احتجاجوں اور ہڑتالوں میں اپنا اظہار بھی کر تی نظر آتی ہے۔ طلبہ کی حالیہ تحریک جہاں بنگلہ دیش کے اندر اور باہر آنے والی تحریکوں کے لیے اپنے اسباق چھوڑ جائے گی وہاں ناگزیر طور پر محنت کش طبقے کے تاریخ کے میدانِ عمل میں اترنے کی پیش رفت کو بھی مہمیز دے گی۔ جب دنیا کی نصف سے زائد ٹیکسٹائیل مصنوعات پیدا کرنے والا بنگلہ دیش کا دیوہیکل پرولتاریہ پیش قدمی کرے گا تو نہ صرف جنوب ایشیا بلکہ ساری دنیاکا منظر نامہ بدل کے رکھ دے گا۔