اویس قرنی

ماہ اکتوبر کے وسط سے لاہور کے پنجاب کالج سے پھوٹنے والے طلبہ مظاہرے، جو کئی شہروں تک پھیل گئے، درحقیقت سماجی سطح کے نیچے پلنے والی نفرت، غصے اور مسلسل عدم اطمینان کا اظہار تھے۔ ان مظاہروں کی شدت اور ان میں شریک کالج کے طلبا و طالبات پر ہونے والی بدترین پولیس گردی نے اس بحث کو بے معنی بنا دیا ہے کہ مظاہروں کا موجب بننے والے مبینہ زیادتی کے واقعے کی حقیقت کیا ہے۔ پنجاب گروپ آف کالجز تعلیم کے دھندے میں ایک ٹائیکون کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ریاست نے اس منافع بخش سرمایہ کاری کی حفاظت کی خاطر انٹرمیڈیٹ کے معصوم بچوں پر ایسی یلغار کی کہ لاہور، راولپنڈی اور گجرات جیسے شہروں کی شاہراہیں جنگی محاذ کا منظر پیش کرتی رہیں۔ ایک طرف نہتے بچے‘بالخصوص بچیاں تھی۔ دوسری جانب لاٹھیوں، بندوقوں، بکتر بند گاڑیوں اور ان گنت آنسو گیس کے شیلوں سے مسلح ریاستی اہلکار۔ سولہ سترہ سال کے بچوں پر بدترین تشدد کے علاوہ سینکڑوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ لیکن ان بے باک مظاہروں نے اس نسل سے متعلق تمام مغالطوں کے پہاڑوں کو زمیں بوس کر دیا اور اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کی کہ نئی نسل جبر و استحصال پر مبنی اس نظام کے لیے ماضی سے کہیں بڑا چیلنج ہے۔

نوجوانوں کی اس محدود لیکن دلیرانہ لڑائی کا کئی زاویوں سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور پھر اس بات کا بھی گہرائی میں مشاہدہ درکار ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میں کس طرح نوجوانوں کی اس دیوہیکل شکتی کو حکمران دھڑوں کے مختلف رحجانات اپنی داخلی لڑائیوں، عدم استحکام اور انتشار کی جانب دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ حالیہ مظاہروں کو تحریک انصاف کی رجعتی سوشل میڈیا مشینری اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتی نظر آئی۔ شخصیت پرستی اور نرگسیت پر مبنی ایسے رحجانات اس قدر سفاک ہوتے ہیں کہ اپنے گھٹیا اور معمولی قسم کے عزائم کے لیے معصوم بچوں کی بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

حالیہ مظاہروں میں سب سے بنیادی سوال یا نکتہ یہ ہے کہ جنسی تشدد اور ہراسانی کو اس بحران زدہ سرمایہ داری نے ایک سماجی معمول بنا دیا ہے تو پھر ایک اور واقعہ، جس کے بظاہر شواہد بھی موجود نہیں، بدترین ریاستی خوف اور جبر کے ماحول کے باوجود نوجوانوں کو اس قدر بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے پر کیسے آمادہ کر سکتا ہے؟ مروجہ سوچ یا رسمی منطق کے حساب سے یہ ایک بچگانہ عمل ہے جس کی کوئی ضرورت یا جواز نہیں بنتا تھا۔ لیکن محنت کش عوام کی نسبتاً بے عملی کے بظاہر شانت اور غیر انقلابی وقتوں میں بھی سماج کی بالائی تہہ کے نیچے مسلسل لاوا پک رہا ہوتا ہے۔ جبر، پابندیوں اور محرومیوں کے خلاف حقارت اور نفرت کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ جسے کوئی بہانہ، کوئی موقع چاہئے ہوتا ہے۔ یہ لاوا جب پھٹ پڑتا ہے تو عام حالات میں جس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا جرم بنا دیا گیا ہوتا ہے‘ لوگ اسے بھسم کر کے رکھ دیتے ہیں۔ وہ ان ایوانوں کو آگ لگا دیتے ہیں جہاں ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ استحصالی سرمایہ داری نظام کی علامت سمجھے جانے والے بینکوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس نظام کی پولیسنگ کرنے والوں پر زمین تنگ کر دیتے ہیں۔ طلبہ کے حالیہ مظاہروں میں اسی کیفیت کی جھلک نظر آئی ہے۔ طلبا و طالبات نے سب سے پہلے ان کیمپس عمارات کو نقصان پہنچایا جو دراصل جیلوں سے کم نہیں ہیں۔ ان بسوں کو جلایا گیا جن میں عام حالات میں انہیں فیس دینے کے باوجود سیٹ نہیں ملتی۔ ان سکیورٹی گارڈز کو غیض وغضب کا نشانہ بنایا گیا جو انتظامیہ کی ایما پر ان کی ہر روز تذلیل کرتے ہیں اور تعلیمی اداروں میں ریاستی دھونس کی علامت بن چکے ہیں۔

ان مظاہروں کی سب سے خاص بات طلبہ کا نجی تعلیمی اداروں کی دھونس اور بدمعاشی کو سہتے رہنے سے انکار تھا۔ آج تمام نجی تعلیمی ادارے‘ بالخصوص کالجز باقاعدہ جیل خانہ جات کی طرز پر چلائے جا رہے ہیں۔ بیشتر نجی یونیورسٹیوں کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ ادارے کے مرکزی گیٹ میں سے داخل ہونے کے بعد ہر نوجوان ایک نفسیاتی ہیجان اور خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ کہاں اور کیسے کھڑا ہونا ہے؟بیٹھنا کیسے اور کہاں ہے؟ کس سے اور کیا بات کرنی ہے؟ کیا پہننا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہر لمحہ نوجوان خود کو ایک جعلی اور رجعتی ڈسپلن کا پابند اور قیدی محسوس کرتے ہیں۔ آزادی سے سانس لینا تک دشوار ہے۔ سوچوں پر پہرے ہیں۔ کلاس روموں کے اندر اور باہر‘ ہر جگہ تذلیل ہے۔ بھاری بھرکم فیسیں ہیں لیکن مستقبل تاریک۔ یہ مظاہرے نجی تعلیمی اداروں کی اسی جابرانہ روش کے خلاف ایک انتباہ تھے۔ جنہوں نے واضح کیا ہے کہ نجی تعلیم حاصل کرنے والے نسبتاً مراعت یافتہ نوجوان بھی بغاوت پر اتر سکتے ہیں اور لڑنے مرنے کی حد تک جا سکتے ہیں۔

تاریخ بڑی ستم ظریف ہے۔ منافعوں کے حصول کے لیے ملک بھر میں پنجاب گروپ آف کالجز کے بچھائے ہوئے جال نے ہی ان احتجاجوں کی وسعت اور پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ”گروپ آف کالجز“ کی بدنام زمانہ انتظامیہ نے ہمیشہ دھونس اور بدمعاشی کو طلبہ کو کنٹرول کرنے کا کلیہ بنایا۔ لیکن پھر طلبہ کے اندر مسلسل مجتمع ہوتے جانے والے غم و غصے کے پریشر نے پھٹ کر ان کی ساری رعونت پر خاک ڈال دی۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ آج کے نوجوان کو رائج الوقت سیاست، حکومت اور ریاست پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جب سے ان نوجوانوں نے ہوش سنبھالا ہے‘ جو سیاسی و ریاستی کھلواڑ جاری ہے اس کے ہوتے کوئی اعتماد بن بھی کیسے سکتا ہے؟ اس پولیس کی پریس بریفنگ یا تحقیقات پر بھلا کون یقین کر سکتا ہے جو روازنہ کی بنیاد پر بدعنوانی، بھتہ خوری اور سیاسی کاسہ لیسی کی نئی مثالیں قائم کرتی ہو۔ یہی کیفیت حکومتوں کی بھی ہے۔ مبینہ ریپ کے واقعے کے تناظر میں بھی خود وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کی حکومت کے نمائندوں کے بیانات میں تضادات موجود تھے۔ جن کی وجہ سے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی خاک میں مل گئی اور ایک بڑی اکثریت نے حکومتی موقف کو یکسر مسترد کر دیا۔

سرمایہ داری کے بڑھتے بحران کے ساتھ بالخصوص پاکستان اور انڈیا جیسے معاشروں میں جنسی ہراسانی اور بلادکار جیسے قبیح رجحانات ایک زہر کی طرح سماج کے رگ و پے میں سرایت کر گئے ہیں۔ حکمران اشرافیہ اور ان کی ریاستوں کے رجعت اور ڈھٹائی پر مبنی رویوں نے اس وحشت کو ایک تسلیم شدہ معمول بنا دیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسے واقعات کی بھرمار ہے۔ لیکن کبھی وزرائے اعظم اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار وکٹم بلیمنگ کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی کوئی لوکل یا امپورٹڈ مولوی مین سٹریم میڈیا پر ہراسانی اور جنسی زیادتیوں کا ذمہ دار خود خواتین، ان کے پہناوے اور بعض صورتوں میں محض ان کے وجود کوقرار دے رہا ہوتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں، نوجوان لڑکے اور لاشیں تک اس درندگی سے محفوظ نہیں۔

پھر ایسے فسطائی رحجانات بھی ہیں جو ہراسانی کے معاملے کو ”بیہودگی“ اور پردے کیساتھ جوڑ کے بچیوں کی تعلیم کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ڈِسکو قسم کے مولوی سوشل میڈیا پر گانوں وغیرہ کے ذریعے خواتین کی تعلیم کے خلاف ذہنوں میں گند انڈیل رہے ہیں اور ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ جنونی عناصر بچیوں سے تعلیم کا حق ہی چھین لینے کے درپے ہیں۔حالانکہ مدرسوں کے اندر کئی گنا بڑے اور شدید جنسی جرائم کا بازار گرم ہے۔ یہاں انٹرنیٹ فائر وال بنا کر سیاسی مخالفوں کی زبان بندی کے پورے پورے ڈیپارٹمنٹ بنا دیے گئے ہیں لیکن ایسے جنونیوں کو کھلی چھٹی حاصل ہے۔

بہرحال حالیہ واقعہ کے ابہام کے باوجود تعلیمی اداروں میں یہ مسئلہ شدت سے موجود ہے توطلبہ اس کرب کو محسوس کر کے سڑکوں پر آئے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی ہراسانی کے واقعات پر انکوائری رپورٹوں کے احکامات صادر ہوئے لیکن آج تک ان کے نتائج کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ بلوچستان یونیورسٹی ہو، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور یا پھر مالاکنڈ یونیورسٹی‘ سب جگہ معاملہ دبا دیا گیا۔

اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ جنسی تشدد و ہراسانی کوئی ذاتی یا انفرادی نوعیت کا عارضہ نہیں بلکہ ایک معاشرتی مظہر ہے اور اب استحصال اور جبر پر مبنی اس نظامِ تعلیم میں بھی سرایت کر گیا ہے۔ طلبہ جو اس شعبہ کی بنیاد ہیں‘ ان کا کردار محض فیسوں کی ادائیگی تک مقید کرتے کرتے‘ انہیں ادارہ جاتی پالیسیوں اور تعلیمی نظام کی تشکیل کے عمل سے یکسر کاٹ دیا گیا ہے۔ طلبہ یونین پر ضیا آمریت کی لگائی پابندی آج تک بدستور قائم ہے۔ بلکہ آج کی تمام مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کے دورِ اقتدار میں اس قدغن کو سخت ہی کیا گیا ہے۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنا ”ترقی پسندی“ کا امیج بنانے کے لیے جوش میں طلبہ یونین بحالی کی بات تو کی لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

تعلیمی اداروں میں ایسے مسائل کے خلاف جدوجہد این جی اوز کے نسخوں یا حکومتی ٹریننگ اور ورکشاپوں وغیرہ کے ذریعے ممکن نہیں۔ محض قانون سازیوں سے بھی بات بننے والی نہیں۔ بلکہ تعلیمی اداروں کی عملداری اور فیصلہ سازی میں طلبہ کی فعال شمولیت کے ذریعے سے ہی کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ حکمرانوں کے جھانسے میں آئے بغیر جمہوری انداز سے منتخب طلبہ کی ہراسانی مخالف کمیٹیوں کی تشکیل اور ادارے کے معاملات میں اپنی آواز ٹھانے کا حق حاصل کرنے کی جدوجہد اس جانب ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔

حالیہ خود رو مظاہروں نے یقینا گہرے سماجی عدم اطمینان کی کیفیت کو آشکار کیا ہے لیکن خود رو تحریکوں کی اپنی حدود ہوتی ہیں۔ زماں و مکاں میں اپنی محدودیت کے باوجود یہ پیش رفت نہایت خوش آئند اور متاثر کن ہے۔ فی الوقت یہ مظاہرے تھمتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ہر تحریک اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتی۔ یہ پشیمانی یا پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیے کہ پیٹی بورژوا بے صبرے پن میں ”واردات“ کے ذریعے تحریکیں چلانے یا ان پر سوار ہونے کی کوشش کی جائے۔ انقلاب کے نام پر کی جانے والی ایسی مکاری اور عیاری کو لوگ کبھی نہیں بھولتے۔ انقلاب ایک صبر آزما کام ہے جو دیانتداری اور سچائی کا متقاضی ہوتا ہے۔ نامکمل تحریکیں بھی آنے والی بغاوتوں کے لیے اہم اسباق چھوڑ جاتی ہیں۔ یہ ادراک نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ جن مسائل کے خلاف غصے اور نفرت کو حالیہ طلبہ احتجاجوں میں اپنے اظہار کا موقع ملا ہے ان کا اس بوسیدہ استحصالی نظام میں خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یہ شورش دوبارہ بھڑکے گی اور زیادہ شدت کے ساتھ بھڑکے گی۔ ایسے حالات کی تیاری کی ذمہ داری انقلابیوں پر عائد ہوتی ہے۔

پوری دنیا میں سرمایہ داری کو نہ صرف بحرانات کا سامنا ہے بلکہ طلبہ و محنت کشوں کی مسلسل تحریکیں بھی ہر طرف ابھر رہی ہیں۔ عامیانہ اور قدامت پرستانہ سوچ آئی ٹی انقلاب اور سوشل میڈیا کے عہد کی نئی نسل پر ہمیشہ طعنہ زن رہی ہے۔ لیکن سامراجی ریاست کے گڑھ میں ابھرنے والے ان احتجاجوں نے مستقبل کے امکانات بالکل واضح کر دئیے ہیں۔ یہ نسل اپنے سے پہلے والوں سے زیادہ محرومی اور نفسیاتی ہیجان کا شکار ہے۔ مسلسل انتشار اور بحرانات میں پلنے والے یہ نوجوان شدید غیر یقینی سے دوچار ہیں۔ لیکن ان کی لڑائی طبقاتی جدوجہد کے نصب العین اور مقاصد سے ہی ہم آہنگ ہے۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمگیر تحریک سے لے کے لبنان، چلی، سری لنکا، سوڈان اور بنگلہ دیش میں ہونے والی بغاوتیں نئی نسل کی انقلابی صلاحیتوں کی گواہ بنی ہیں۔ مزدور تحریک کی انقلابی اٹھان کے ساتھ نوجوان طلبہ کی جڑت وقت کا دھارا موڑ کے رکھ سکتی ہے۔