راہول

سنگین سیاسی و اقتصادی بحران میں دو سال گزارنے کے بعد سری لنکاکے عوام نے صدارتی انتخابات میں ”بائیں بازو“ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاست دان اور جناتھا ومکتی پیرامونا (جے وی پی) کے رہنما انورا کمار ڈسانائیکے (اے کے ڈی) کو ملک کا صدر منتخب کیا ہے۔ 21 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بائیں بازو کے نیشنل پیپلز پاور اتحاد کے مشترکہ امیدوار ڈسانائیکے نے سب سے زیادہ ووٹ (42 فیصد) حاصل کر کے اپوزیشن رہنما سجیت پریماداسا کو شکست دی جبکہ سابق صدر رانیل وکرماسنگھے مجموعی طور پر تیسرے نمبر پر رہے۔

ڈسانائیکے کی اس فتح کو سری لنکا کے سیاسی منظر نامے میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ یقینا یہ نتیجہ ایک ایسی شخصیت کے حوالے سے نہایت حیران کن ہے جس نے 2019ء کے انتخابات میں محض تین فیصد ووٹ لیے ہوں اور صرف پانچ سال بعد ملک کا صدر منتخب ہو جائے۔ مگر ڈسانائیکے کی یہ کامیابی جہاں سری لنکا کے عوام کی جانب سے روایتی سیاسی جماعتوں کے واضح استرداد کی نشاندہی کرتی ہے وہیں خود ڈسانائیکے کے لیے ان انتخابات کا نتیجہ اقتصادی دباؤ اور بدلتے ہوئے عالمی حالات میں ایک سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔

2022ء میں سری لنکا کو اپنی تاریخ کے بدترین اقتصادی بحران کا سامنا تھا جس کے نتیجے میں عوام نے سڑکوں پر نکل کر سابق صدر گوتابایا راجاپاکسے کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ اگرچہ اُس وقت کی پارلیمنٹ، جو کہ راجاپاکسے کے حامیوں پر مشتمل تھی، نے رانیل وکرما سنگھے کو صدر منتخب کیا جس نے آئی ایم ایف کی ایما پر بیل آؤٹ پیکیج کے عوض عوام پر بدترین معاشی حملے جاری رکھے۔ ایسے میں یہ ناگزیر تھا کہ حالیہ انتخابات میں عوام ان تمام پرانی جماعتوں اور سیاسی خاندانوں کو مکمل طور پر مسترد کر دیں جو دہائیوں سے ملک کو تباہی کی طرف دھکیل رہے تھے۔
ڈسانائیکے کی کامیابی کی بنیادی وجہ مروجہ سیاست کی کرپشن، بدنامی اور عوام کو در پیش معاشی مسائل ہیں۔ وہ خود بھی معاشی دیوالیے کے موجودہ حالات، جن میں بھوک، غربت اور بیروزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے، کی سنگینی سے اچھی طرح واقف ہے۔ لیکن جہاں تمام عالمی میڈیا اسے ”مارکسی“ یا ریڈیکل بائیں بازو کے نظریات کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاست دان کے طور پر متعارف کروا رہا ہے وہیں موصوف خود کو ایک اصلاح پسند اور لبرل ڈیموکریٹ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس کا پروگرام اقتصادی بہتری کو اپنی ترجیح بنانا، حکومت کی بدعنوانی کو ختم کرنا، شفافیت کو فروغ دینا اور آئی ایم ایف سے دوبارہ مذاکرات کرنا وغیرہ ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بالکل غیر حقیقی اور غیر عملی باتیں بن کے رہ جاتی ہیں۔

اگر ماضی میں دیکھا جائے تو جے وی پی خود کو ایک ’مارکسسٹ لیننسٹ‘ پارٹی کہتی تھی۔ اگرچہ اس وقت بھی اس کی پالیسیوں پر سنہالی قوم پرستی اور طبقاتی مصالحت کی چھاپ واضح تھی۔ لیکن ریاست کے خلاف مسلح بغاوتیں کرنے پر اس کے کارکنوں کو بڑے پیمانے پر قتل کرنے سمیت قید اور جلا وطن بھی کیا گیا۔ مگر آج اس جماعت کا عملی پروگرام نہ صرف سوشل ڈیموکریسی کی حدود میں مقید ہے بلکہ اس نے اپنے انقلابی ماضی سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔

ڈسانائیکے نے اپنی انتخابی مہم میں بدعنوانی کے خاتمے اور آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ معاہدے کو دوبارہ مذاکرات کے ذریعے بہتر کرنے کے وعدے تو کیے ہیں۔ لیکن ایسی مبہم معاشی پالیسیاں اس کے اقتدار کے لیے شدید مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ اکانومسٹ کے مطابق ”ڈسانائیکے کا اقتدار ایک نازک کیفیت میں کھڑا ہے۔ جہاں اس کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ ایک مشکل وقت ہے اور سری لنکا کو مستقبل کے لیے کسی معجزے کی ضرورت ہے۔“

جے وی پی کا ماضی کافی تلخیوں سے دوچار رہا ہے۔ یہ جماعت ماضی میں اقلیتی گروہوں‘ خصوصاً تاملوں اور مسلمانوں کے حوالے سے متنازعہ رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھی ان علاقوں میں جے وی پی کی حمایت کمزور رہی جہاں تامل اور مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اس جماعت کو ماضی میں سنہالی قوم پرست جماعت سمجھا جاتا تھا اور اقلیتیں اب بھی جے وی پی پر مکمل اعتماد کرتے دکھائی نہیں دیتیں۔ ان آبادیوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ہی اس نے اپنے انتخابی منشور میں مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان اتحاد کا وعدہ کیا ہے۔

آنے والے عرصے میں صدر ڈسانائیکے کو نہ صرف سنگین معاشی چیلنجوں کا سامنا رہے گا بلکہ ایک ممکنہ سیاسی بحران بھی اس کا منتظر ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ، جسے 24 ستمبر کو تحلیل کر دیا گیا تھا، میں ڈسانائیکے کی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں تھی۔ ایسے میں جے وی پی کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ نومبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کرے۔ اگر جے وی پی ان انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو انہیں حکومت بنانے اور قانون سازی وغیرہ کے لیے سیاسی اتحادی تلاش کرنے ہوں گے اور اس کے لیے شاید دوبارہ انہی پرانی جماعتوں کے ساتھ اتحاد اور مفاہت کرنی پڑے جن کے خلاف وہ اپنی پوری انتخابی مہم چلاتے رہے ہیں۔ ایسے میں سری لنکا کے عوام، جو معاشی مشکلات سے پہلے ہی بدحال ہیں، جلد نئے صدر سے بھی مایوس ہونے کی طرف جائیں گے۔

ڈسانائیکے کی کامیابی نہ صرف سری لنکا کی داخلی سیاست بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں بھی اہمیت رکھتی ہے۔ سری لنکا کے جغرافیائی محل وقوع اور تذویراتی (Strategic) اہمیت نے بھارت اور چین دونوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے (جبکہ پاکستان کی مداخلت بھی موجود رہی ہے)۔ بحر ہند میں واقع ہونے کی وجہ سے سری لنکا عالمی تجارتی راستوں کے بیچ شمار کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث یہ خطہ بھارت اور چین کے لیے نہ صرف اقتصادی بلکہ جغرافیائی لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت کی سری لنکا میں دلچسپی کئی پہلوؤں پر مبنی ہے۔ سب سے پہلے تو سری لنکا‘ بھارت کے جنوبی ساحل کے قریب واقع ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تاریخی ثقافتی اور مذہبی تعلقات بھی رہے ہیں۔ اگرچہ تاملوں کی مسلح بغاوت کو لے کے دونوں ممالک کے سرکاری تعلقات میں تضادات اور تلخیاں بھی آئیں۔ حالیہ عرصے میں بھارت‘ سری لنکا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے محتاط نظر آتا ہے اور وہاں اپنا اقتصادی اور سیاسی اثر برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرا بھارت نے سری لنکا کے مختلف ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ خاص طور پر شمالی سری لنکا میں جہاں تامل نسل کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ تامل اقلیت کے حقوق کا مسئلہ بھارت کے لیے اہم رہا ہے کیونکہ بھارت میں تامل ناڈو کی ریاست کے لوگ سری لنکا کے تاملوں کے ساتھ نسلی اور ثقافتی جڑت رکھتے ہیں۔ بھارت نے سری لنکا کو 2022ء میں بڑے پیمانے پر اقتصادی امداد بھی فراہم کی تھی اور وہاں کے اہم بندرگاہی منصوبوں میں بھی بھارتی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے تاکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر کا مقابلہ کیا جا سکے۔ جے وی پی کو تاریخی طور پر بھارت مخالف سمجھا جاتا رہا ہے۔ تاہم اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈسانائیکے کو انتخابی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہار کیاہے۔ بھارت اور سری لنکا کے درمیان نزدیکیاں چین کے لیے ناخوشگواری یا مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔

چین کی سری لنکا میں دلچسپی ”بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے“ کا اہم پہلو ہے۔ جس کے تحت چین بحر ہند میں اپنے تجارتی راستوں کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ چین نے سری لنکا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سلسلے میں ہمبنتوتا بندرگاہ کی تعمیر اور کولمبو میں اربن ترقیاتی منصوبے اہم ہیں۔ہمبنتوتا بندرگاہ کو چین کے لیے اہم تذویراتی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جو کہ بحر ہند میں چین کی موجودگی کو تقویت دیتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ چین‘ سری لنکا کو بنیادی انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے قرضے بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سری لنکا پر چینی قرضوں کا بوجھ بڑھا ہے۔ جس پر پھر بھارت اور مغربی ممالک کی جانب سے خدشات ظاہر کیے گئے کہ سری لنکا‘ چینی قرضوں کے جال میں پھنستا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ مزید چین کے سیاسی اور اقتصادی دائرہ اثر میں آ سکتا ہے (اگرچہ سری لنکا پر مغرب سمیت دوسرے ممالک کے قرضوں کا بوجھ چین سے کہیں زیادہ ہے)۔ اس تناظر میں سری لنکا‘ بھارت اور چین دونوں کے لیے ایک اہم میدانِ جنگ بن چکا ہے جہاں دونوں ممالک اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ صدر ڈسانائیکے کے لیے یہ بھی اہم چیلنج ہو گا کہ وہ بھارت اور چین جیسی سامراجی قوتوں کے درمیان کیسے توازن برقرار رکھتا ہے۔ خاص طور پر ان منصوبوں کے حوالے سے جو دونوں ممالک کے معاشی و تذویراتی مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔

عالمی سرمایہ داری آج گہرے بحران کا شکار ہے۔ دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو‘ اس نظام کی متروکیت ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنا اظہار کر رہی ہے۔ بحران کی سنگینی جیسے جیسے بڑھ رہی ہے‘ محنت کش عوام پر معاشی حملوں کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ ان حملوں کے خلاف خود رو تحریکوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سری لنکا کے حالیہ انتخابات میں عوام نے پرانے نظام کو مسترد کرنے کا واضح پیغام دیا ہے۔ کسی متبادل انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں عارضی طور پر ہی سہی لیکن عوام نے جے وی پی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اب صدر ڈسانائیکے کا کڑا امتحان عوام کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ عوام کو یہ توقع ہے کہ معیشت کو بحال کیا جائے گا، ان کے حالاتِ زندگی میں بہتری آئے گی اور بدعنوانی کو ختم کیا جائے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ڈسانائیکے کو آئی ایم ایف اور دیگر عالمی قرض دہندگان کے ساتھ کیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے معاہدوں پر بھی عمل درآمد کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کیساتھ معاہدے پر نظر ثانی کی باتیں قابل عمل نہیں ہیں۔ بہترین صورتوں میں بھی بہت معمولی رعایات ہی مل سکیں گے۔ چنانچہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہوتے ہوئے محنت کش عوام کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھانے کی گنجائش کم و بیش ناپید ہی ہو گی۔ چاہے کرپشن کو کنٹرول بھی کر لیا جائے۔ اگرچہ ہم سمجھتے ہیں کہ بحران زدہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے بدعنوانی کے خاتمے کی باتیں بھی سراب ہی ہیں۔

یوں پوری عالمی سرمایہ داری کے بحران کے حالات میں خاطر خواہ معاشی بحالی کے لیے سطحی قسم کی اصلاحات ناکافی ہو کے رہ جاتی ہیں۔ ڈسانائیکے نے اپنی وکٹری سپیچ میں سری لنکا کو آئی ایم ایف کے ساتھ ”شراکت داری“ میں آگے بڑھانے کی بات کی ہے۔ جو کمپرومائیز کا واضح اشارہ ہے۔ مارکسی نظریات سے انحراف کرنے والی اس قیادت کا طبقاتی جدوجہد، بیرونی قرضوں کی ضبطی، نیشنلائزیشن اور نجی ملکیت کے خاتمے جیسے انقلابی اقدامات سے کوئی لینا دینا نہیں۔ لیکن پھر ایسے اقدامات کے بغیر بہتری کی کوئی صورت بھی نہیں ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کی طرح ڈسانائیکے کا اقتدار بھی عالمی قرضوں، مالیاتی اداروں اور سامراجی سرمایہ کاری کا مرہون ِ منت ہی رہے گا۔ ان سامراجی اداروں اور قوتوں کے ایجنڈے میں عوامی فلاح جیسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ ان کے لیے مقدم صرف منافعوں کا حصول ہے۔ یہ حالات 2022ء میں انقلابی سرکشی کی نہج تک چلے جانے والے محنت کش عوام‘ بالخصوص نوجوانوں کے سامنے نئے چیلنج اور نئے سوالات رکھیں گے۔ نہ صرف سری لنکا بلکہ دنیا بھر کے استحصال زدہ لوگوں کے سامنے اصلاح پسندی کی محدودیت اور متروکیت ایک بار پھر واضح ہو گی اور ناگزیر طور پر آگے کی جدوجہدوں کی سیاسی و نظریاتی سمت کے تعین میں اہم کردار ادا کرے گی۔