بابر پطرس

معیشت کا بحران جب گہرا ہو جائے تو یہ محض اقتصادیات تک محدود نہیں رہتا بلکہ پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کے ہر ادارے اور ہر شعبے کو داغدار کر دیتا ہے۔ بڑی طبقاتی تحریکیں نہ اٹھیں تو عمومی شعور پیچھے ہٹ کر زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال میں مروجہ دانش سماج میں رونما ہونے والے ہر واقعے، سانحے، وبا، جنگ، یہاں تک کہ انقلاب کو بھی تجرد میں دیکھنے کی عادی ہو جاتی ہے۔ اور کمرہ جماعت سے ٹی وی کی سکرینوں تک‘ شعور پر اثر انداز ہونے والے ہر ادارے کو اپنی بے ہودہ اور غیر منطقی فکر عوام پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ واقعات‘ وقت کی لڑی میں پروئے ہوئے لمحوں کا سلسلہ ہوتے ہیں۔ کسی ایک واقعے کی کوکھ سے دوسرا واقعہ جنم لیتا ہے۔ پھر تیسرا اور چوتھا۔ واقعات و سانحات ہوں، نظریات و روایات یا پھر نفسیات اور انسانی رویے، یہ کوئی الگ تھلگ وقوع پذیر ہونے والے معاملات نہیں ہوتے۔

اسی طرح ایک بوسیدہ ہو چکے نظام کے کھنڈرات سے دوسرا نظام برآمد ہوتا ہے۔ پرانے ہو چکے سماج سے نیا سماج نمو پاتا ہے۔ اور یوں تاریخ ایک تسلسل کے ساتھ لیکن جستوں کے ذریعے اپنے آگے کا سفر جاری رکھتی ہے۔ فطرت ایک مربوط مظہر ہے اور اس کی ترتیب کے ساتھ تخریبی چھیڑ چھاڑ اس کے نظم و ضبط میں بے قاعدگی کا باعث بنتی ہے۔ جس کے ردعمل میں مختلف ’’قدرتی‘‘ آفات پھٹ پڑتی ہیں۔

گزشتہ سالوں میں کورونا وائرس کی وبا یا ماضی کا سپینش فلو (Spanish Flu)، خشک سالی، سیلاب اور گلوبل وارمنگ وغیرہ اس عمل کی بڑی مثالیں ہیں۔ دراصل یہ سب فطرت کا انتقام تھا جو کروڑوں انسانوں کی موت کا سبب بنا۔ اور اب سموگ کی آفت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ فی الحال یہ بڑے شہروں تک محدود ہے۔ لیکن اگر اس کے تدارک کی سبیل نہ ہوئی تو یہ پھیل کر اور مزید شدت کیساتھ اس سے کہیں بڑی وبا بھی بن سکتی ہے۔ جیسا کہ ہر سال اس کی سنگینی میں اضافے سے واضح ہے۔

فی الحال حکومتیں جو کر رہی ہیں وہ ہمسایوں کو مورد الزام ٹھہرانے، سکولوں میں چھٹیاں کرانے، گرین لاک ڈاؤن لگانے، چاند گاڑیوں (موٹر سائیکل رکشوں) کے چلانے پر پابندی عائد کرنے اور تکے، کباب لگانے والی ریڑھیوں کو بند کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک طرف سموگ کا عفریت ہے تو دوسری جانب روزی روٹی کے لالے۔ اور تیسری جانب زہریلی ہوا کے نتیجے میں ہسپتالوں کے اضافی اخراجات۔ گویا یہ چہار سو کا حملہ ہے جس کی بھینٹ پھر غریب آدمی ہی چڑھتا ہے۔

نہ زراعت کی ماڈرنائزیشن اور فصلوں کے بھوسے کو ٹھکانے لگانے کا بندوبست ہے، نہ پاور پلانٹس میں کوئلہ اور فرنس فیول جلانے کی بجائے ہوا اور پانی وغیرہ سے سستی اور صاف بجلی پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ ہے، نہ مطلوبہ عوامی ضروریات کو پورا کرنے والی پبلک ٹرانسپورٹ چلانے کا کوئی ارادہ کہ تیل کی کھپت کم ہو اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے، نہ زرخیز زمینوں کے بچاؤ اور جنگلات کی کٹائی کی روک تھام کا کوئی پلان ہے۔

دراصل فضائی آلودگی اور سموگ جیسے مسائل کا تعلق مذکورہ بالا عوامل سے ہے۔ ہوا میں پی ایم 2.5 اور 10 جیسے زہریلے ذرات کی مقررہ حد سے زیادہ موجودگی اس امر کی دلیل ہے کہ سرمایہ داری اس نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں اس کے پاس بربادی کے سوائے دینے کو کچھ نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ یہ نظام اس سیارے کی ماحولیات کو بچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔

لاہور شہر کا ایئر کوالٹی انڈیکس گیارہ سو کا ہندسہ بھی عبور کر چکا ہے۔ جو کم ہونے کی بجائے ہر سال بڑھ رہا ہے۔ ملتان میں صورتحال اس سے بدتر ہے۔ دہلی کے حالات بھی زیادہ مختلف نہیں۔ حتیٰ کہ اسلام آباد، مری اور پشاور جیسے نسبتاً سرسبز یا کم شہری علاقے بھی اس زہریلی دھند کا شکار بن رہے ہیں۔

بارشوں میں کمی، آبی، فضائی، ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ ایسے مظاہر گہرے سائنسی تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان میں نجی ٹرانسپورٹ، ہوائی جہازوں، سپیس راکٹوں اور آمد و رفت کے دوسرے ذرائع میں استعمال ہونے والا ایندھن اور کاربن کے اخراج کے صنعتی و دیگر ذرائع بنیادی عاملین ہیں۔ یہ تمام کے تمام براہ راست منڈی کی معیشت، سرمائے کی حاکمیت اور کم وقت اور کم پیداواری لاگت میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے پاگل پن کے ساتھ منسلک ہیں۔

محض فضائی آلودگی ہر سال سات ملین افراد کو نگل جاتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مقرر کردہ پیمانے کے مطابق اس کرۂ ارض کی ننانوے فیصد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہے۔ اور پاکستان جیسی پسماندہ معیشتیں کاربن کے نسبتاً کم اخراج کے باوجود بڑے متاثرین میں شامل ہیں۔

صنعتی انقلاب نے سماج کی کایا پلٹ کر دی تھی۔ معاشی ترقی ہوئی، نئی ایجادات ہوئیں، دریافتوں کے جہان آباد ہوئے۔ طبقاتی بنیادوں پر ہی سہی‘ آسائشوں کا سامان دستیاب ہوا یا کم از کم اس طرف پیش رفت ضرور ہوئی۔ لیکن نسل انسان کو آج اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا:

؎ مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
 ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

صنعت کی بھاری مشینری اور انجن کا پہیہ گھمانے کے لیے توانائی کی ضرورت تھی۔ کوئلے سمیت فوسل فیول اس توانائی کے حصول کا بنیادی ذریعہ تھا۔ لیکن نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ اس کے استعمال نے کاربن کے اخراج کی بھاری مقدار کے ذریعے ہوا کو آلودہ کرنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف صنعتی انقلاب نے زرعی سماج کے دہقان اور مزارعے کو صنعتی شہروں کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ 1801ء میں لندن اور ویلز ایسے شہروں کی آبادی ملک کا سترہ فیصد تھی جو 1891ء تک 72 فیصد ہو گئی۔ گنجان آبادیوں، صنعت کاری اور ایندھن کے جلاؤ نے ماحول کو سخت نقصان پہنچایا۔

آخری برفانی دور کے بعد رہائش کے قابل زمین کا ساٹھ سے ستر فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل تھا۔ اب حالت یہ ہے کہ منافع حاصل کرنے والے انسان نما درندوں نے اس کا ایک تہائی حصہ کاٹ ڈالا ہے۔ اس پر المیہ یہ ہے کہ اس ایک تہائی کا آدھے سے زیادہ حصہ محض گزشتہ ایک صدی میں کاٹا گیا ہے۔ جنگلات اس لیے اہم ہیں کہ یہ زمین پر سانس لینے کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ ایک طرف فضا کو گاڑیوں کے اخراج، فیکٹریوں کی چمنیوں کے دھویں، گھریلو گیس کے استعمال، ہیٹنگ اور کولنگ سسٹمز، کوئلے اور گیس وغیرہ کے پاور پلانٹس اور سپیس راکٹوں کے ایندھن کے ذریعے آلودہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگلات کا صفایا بھی جاری ہے۔

یہاں خلائی مشن دوسرے سیاروں کی سیاحت پر بھیجنے کے بعد ہر طرف کامیابی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ ایسے ملکوں کو رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ حریف ملکوں پر تکنیکی و سفارتی برتری حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ لیکن ان سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں پر کہیں بات نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ فضا میں بھیجا جانے والا ایک راکٹ لانچ ہونے کے بعد 300 سے 400 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ 2022ء میں ناسا کی ایک سٹڈی نے انکشاف کیا کہ عالمی اسپیس انڈسٹری سالانہ 1.4 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا سبب بنتی ہے۔ اکیلا اسپیس ایکس (Space X) 2024ء یعنی محض ایک سال میں 104 راکٹ لانچ کر چکا ہے۔

اس کے علاوہ 1750ء کے اعداد و شمار کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم و بیش 270 پی پی ایم کے قریب تھی (فضا میں موجود دیگر دس لاکھ مالیکولوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ذرات کی تعداد)۔ جو اب بڑھ کر 415 سے 450 کے درمیان ہو چکی ہے۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ فضا کس تیزی سے زہریلی ہوتی جا رہی ہے اور اس سب کے پیچھے ہر قسم کا جلنے والا فوسل ایندھن اور جنگلات کی کٹائی جیسے عوامل کارفرما ہیں۔

انسانی سرگرمیوں کے باعث فضا میں 30 بلین ٹن سالانہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ سالانہ ہو رہا ہے۔ اٹھارہویں صدی سے اب تک اس کی مقدار میں 40 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بھی خطرناک حد تک بڑھی ہے۔ یوں ہر طرف تباہی کا سامان بکھرا ہوا ہے۔

لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ صنعتی ترقی، ٹیکنالوجی یا مشین اپنے آپ میں کوئی منفی یا قابل نفرت شے ہے جس نے فطرت اور سماج کی بقا کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آج توانائی کے متبادل وسائل موجود نہیں ہیں یا ان کو مزید دریافت یا ایجاد نہیں کیا جا سکتا۔ آج سورج، ہوا اور پانی ایسی قابل تجدید توانائی استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس میں منافعوں کا مسئلہ ہے۔ اور موجودہ ٹیکنالوجی اور پالیسی سازی پر منافع خوروں کا قبضہ ہے جو اپنے طبقاتی مفاد پر ہرگز مصالحت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جب تک زمین، مشین، پیداواری آلات اورذرائع پر منافع خوروں کا کنٹرول ہے‘ اس وقت تک اس سیارے پر زندگی کے بچاؤ کی کوئی خاطر خواہ اور دوررس تدبیر ممکن نہیں ہے۔ ان سب ماحولیاتی مسائل سے نپٹنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ جو بھاری منافعوں کی یقین دہانی کے بغیر نہ کوئی کرنے کو تیار ہے، نہ اس نظام کی حکومتوں میں اتنی سکت موجود ہے۔ منڈی اور منافعے سے پاک ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں ہی اس بارے ٹھیک سے سوچا بھی جا سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ یہ سماج آج سرمایہ داری کے تحت کسی بہتری اور آسودگی کیساتھ نہیں چل سکتا۔ ایک مسئلہ بالفرض حل بھی ہوتا ہے تو اس سے کہیں بڑا مسئلہ سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اگر یہ معاشرہ انہی خطوط پر آگے بڑھتا رہا تو نسل انسان کی ہزاروں سالوں کی تہذیب کا اگلا پڑاؤ تباہی ہے۔ یوں سرمایہ داری کا انقلابی خاتمہ انسانیت کے وجود کی بنیادی شرط بن چکا ہے۔