انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ
ترجمہ: عمر عبداللہ
پہلے سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کی صیہونی ریاست کے لبنان پر حملے سے تباہ حال مشرق وسطیٰ میں چند روز قبل شام میں بشار الاسد کی ظالمانہ آمریت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کی جگہ ایک اسلامی بنیاد پرست گروہ نے اقتدار سنبھال لیا ہے جو مختلف قسم کے گروہوں پر مبنی باغی اتحاد کی قیادت کر رہا ہے۔ یوں شام سمیت پورے خطے میں غیر یقینی صورتحال کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
ایک غیر معمولی پیش رفت
شامی عوام اور خطے کی دیگر عرب اقوام کے لوگوں کے لیے یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ اس نے اسد خاندان کی بعث پارٹی کے ذریعے قائم 54 سالہ آمریت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جس میں بشار الاسد کے 24 سالہ اقتدار کے علاوہ اس کے والد حافظ الاسد کے اقتدار کے 30 سال بھی شامل ہیں۔ ابتدا میں عرب قوم پرستی کی پاپولسٹ تحریک کے طور پر ابھرنے والی یہ حکومت وقت کے ساتھ دائیں بازو کی طرف مائل ہوتی گئی، مختلف سامراجی طاقتوں کے ساتھ معاملات طے کرنے لگی اور بالخصوص حالیہ دہائیوں میں صیہونیت کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی کسی خاطر خواہ حمایت اور مدد کرنے سے قاصر رہی۔ عملی طور پر اس نے خود کو فلسطینی جدوجہد کی زبانی کلامی ہمدردی تک محدود کر لیا اور اس مسئلے کو داخلی جبر کے جواز کے لیے استعمال کرتی رہی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ حماس سمیت بیشتر فلسطینیوں نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے۔
یہ قابل غور بات ہے کہ شام میں بعث پارٹی کی حکمرانی 1960ء کی دہائی کے وسط میں ایک طرح کے انقلابی اور سامراج مخالف نصب العین کے طور پر شروع ہوئی۔ جس کی قیادت صالح جدید جیسے رہنما کر رہے تھے۔ لیکن مارکسی قیادت کے فقدان، نظریاتی ابہامات اور پارٹی کے اندرونی تنازعات کے سبب یہ ایک انتہائی کرپٹ اور اقربا پرور قسم کی سرمایہ داری میں تبدیل ہو گئی۔ جسے چلانے کے لیے شامی عوام کی اکثریت پر بے حد اور مسلسل ریاستی جبر درکار تھا۔ اس ریاست کی زوال پذیری کا عمل 1990ء میں منڈی کی نیولبرل معاشی پالیسیوں کو اپنانے کے ساتھ تیز تر ہو گیا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں بعث پارٹی کی حکومت اس عوامی حمایت سے بھی محروم ہوتی گئی جو ایک وقت میں اسے حاصل تھی۔ شامی عرب فوج میں بڑے پیمانے پر فوجیوں کا بھگوڑا ہوجانا اور محض دس دن میں باغیوں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نظامِ حکومت شدید زوال پذیری سے دوچار اور عوام کی حمایت سے محروم ہو چکا تھا۔ اسد خاندان اور اس کے کاسہ لیسوں کے مفادات کی نمائندہ اس کرپٹ آمریت کے ہوتے کوئی جمہوری پیش رفت ممکن نہ تھی۔ اسی لیے اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام اور دیگر کئی ممالک میں لوگ خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس وقت شام کی دو کروڑچالیس لاکھ آبادی میں سے 50 لاکھ پناہ گزین، جو 2011ء کے جبر اور خانہ جنگی کے دوران اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت کر گئے تھے، ملک سے باہر زندگی گزار رہے ہیں اور اب واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔
روس اور ایران کی کمزوری
بشار الاسد حکومت کے خاتمے سے روس اور ایران جیسے ممالک، جو خود کئی دہائیوں سے آمرانہ حکومتوں کے زیر سایہ ہیں، کا خطے میں اثر و رسوخ خاصا کمزور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پیوٹن حکومت اور ایرانی ملاؤں کی آمریت دونوں برسوں تک بشار الاسد کو سیاسی اور عسکری حمایت فراہم کرتے رہے ہیں۔ روس، جو ایک ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت ہے اور یوکرائن پر چڑھائی اور جنگ میں مصروف ہے، کی خفیہ ایجنسیاں شام میں باغیوں کے حملے کو بھانپ نہیں سکیں۔ یہی بات انتہائی کمزوری سے دوچار حزب اللہ اور بالخصوص ایران کی مذہبی آمریت بارے بھی درست ہے۔ جو اپنے وعدوں کے مطابق صیہونیت کے خلاف ’مزاحمتی محور‘ کی قیادت کے بجائے عملاً فلسطینیوں کی جدوجہد کے ساتھ غداری کی مرتکب ہوئی ہے۔ بہرصورت ایران، اس کے پراکسی گروہ اور روس ایک ایسی کمزور اور کھوکھلی حکومت کو کوئی مدد فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے جو تاش کے پتوں سے بنے گھر کی طرح معمولی دھچکے سے زمین بوس ہو گئی۔ اس دوران طاقت کے خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں (جن پر اس نے 1967ء میں غیرقانونی قبضہ جمایا تھا) اور شام کے درمیان کے غیر فوجی علاقے میں اپنی فوجیں داخل کر دی ہیں۔
بھانت بھانت کے گروہوں پر مبنی باغی اتحاد
یہ اتحاد مختلف گروہوں پر مشتمل ہے۔ جو وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے بھی متصادم رہتے ہیں:
لیوانت لبریشن کمیٹی (ہیئت تحریر الشام یا ”HTS“): ایک سنی بنیاد پرست گروہ، جو حالیہ برسوں میں خود کو ایک ”اعتدال پسند“ اور مین سٹریم قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا سیاسی ونگ ”شامی حکومت برائے نجات“ ہے اور اہم رہنما الشرع (عرف الجولانی) ہے۔
شامی نیشنل آرمی (SNA): یہ ترکی کا حمایت یافتہ گروہ ہے جس کے ساتھ نیشنل لبریشن فرنٹ بھی مل گیا تھا۔ یہ لوگ کرد جدوجہد کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ترکی کی سرحد کیساتھ ایک بفر زون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF): یہ کرد مسلح گروہ ہیں جن کی قیادت پیپلز پروٹیکشن یونٹس (YPG) والے کر رہے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ یہ گروہ روجاوا کے علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں اور مذکورہ بالا شامی نیشنل آرمی کے حملوں کا شکار رہتے ہیں۔
احرار الشام: 2011ء میں کئی شدت پسند گروہوں کے اتحاد سے ابھرنے والا گروہ، جو افغان طالبان سے متاثر ہے۔
داعش (اسلامک اسٹیٹ) اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے کیونکہ یہ ہیئت تحریر الشام کی حریف ہے۔ لیکن موجودہ بحران میں یہ دوبارہ ابھر سکتی ہے۔
بیرونی مداخلت نامنظور!
2011ء کے عرب بہار کے سلسلے میں شام میں بھی عوامی بغاوت ہوئی۔ جسے اسد حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس میں چھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک لاکھ سے زائد عام شہری تھے۔ ایک کروڑ لوگ بے گھر ہوئے جن میں سے آدھے ملک کے اندر اور باقی آدھے ملک سے باہر دربدر ہو گئے۔ باغی عسکری و سیاسی گروہوں (جو پہلے پہل کسی حد تک آزاد اور خودمختار تھے) پر اب امریکہ اور ترکی کا اثر و رسوخ خاصا بڑھ گیا ہے۔ یہ قوتیں اس اثر و نفوذ کو برقرار رکھنے یا مزید بڑھانے کی کوشش کریں گی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، قطر، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسی دوسری رجعتی ریاستوں کی مختلف دھڑوں کے لیے حمایت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ صورتحال اتنی پیچیدہ ہے کہ یہ سامراجی طاقتیں ملک کے ایک حصے میں اتحادی اور کسی دوسرے حصے میں مخالف اور حریف ہو سکتی ہیں۔ ان دنوں ہیئت تحریر الشام‘ اقوام متحدہ کے نمائندے گیئر پیڈرسن، سابق اسدی وزیر اعظم الجلالی اور دیگر ممالک کے نمائندوں سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 2254 بارے مذاکرات کر رہی ہے۔ یہ قرارداد 18 ماہ میں اقتدار کی سویلین انتظامیہ کو منتقلی کے عمل، نئے آئین اور تازہ انتخابات کی تجویز پیش کرتی ہے۔ تاہم اس سارے عمل کے دوران باغی گروہوں کے درمیان خونی تصادم کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
حل کیا ہے؟
بشار الاسد کی آمریت کے خاتمے پر شامی عوام کے بیشتر حصوں کے جشن کے باوجود خطرات موجود ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ صورتحال پر سامراجی طاقتوں، توسیع پسند ترکی اور بنیاد پرست گروہوں بشمول ہیئت تحریر الشام کی گہری چھاپ موجود ہے۔ موخرالذکر کا مقصد ایک مذہبی ریاست قائم کرنا ہے جس میں طویل التوا سے دوچار جمہوری، معاشی اور سماجی حقوق کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہو گی۔ ایک حقیقی جمہوری حل کے لیے ضروری ہے کہ آزاد اور خودمختار آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے، جس میں واپس آ رہے مہاجرین بھی شرکت کر سکیں۔ تاکہ ملک کی تنظیم نو قومی و سماجی آزادی، فلسطینی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی اور سیکولر ریاست کی بنیادوں پر کی جا سکے۔ جہاں تمام اقوام اور مذہبوں کے لوگ پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہ سکیں۔ اس تناظر میں انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کا نصب العین ایک انقلابی اور سامراج و سرمایہ داری مخالف متبادل کی تعمیر ہے جو مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کی کڑی کے طور پر ایک سوشلسٹ شام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھائے۔ ہم زور دیتے ہیں کہ یہ صرف شام کے محنت کش اور محکوم عوام کی انقلابی تنظیم سازی اور مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کے مظلوم اور استحصال زدہ طبقات کے ساتھ ان کے اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
شام میں ہر قسم کی سامراجی دخل اندازی نامنظور!
تھیوکریسی اور مذہبی انتہا پسندی مردہ باد!
شام میں سامراج کے سہولت کاروں اور پراکسی گروہوں بارے کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہوا جائے!
شامی عوام کی جمہوری امنگوں کا احترام کیا جائے!
ایک جمہوری، سیکولر اور سوشلسٹ شام کے لیے شامی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی!
12 دسمبر، 2024ء