لانس سیلفا/ شیرن سمتھ

تلخیص و ترجمہ: ریحانہ اختر

(زیر نظر مضمون حالیہ امریکی انتخابات کے فوراً بعد 8 نومبر کو انٹرنیشنل سوشلزم پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔)

2024ء کے انتخابات کی کہانی غیر معمولی طور پر سیدھی اور سادہ رہی۔ ایسے سیاسی ماحول میں جہاں زیادہ تر رائے دہندگان کا خیال تھا کہ ملک غلط سمت میں جا رہا ہے، معیشت بدحال ہے اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے‘ ووٹ ڈالنے والوں نے ایک برسر اقتدار پارٹی، جس کی نمائندگی اب کملا ہیرس کر رہی تھیں، کو نکال باہر کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی اور واحد مرتبہ پاپولر ووٹ حاصل کیا ہے۔ اس نے نہ صرف دیہاتوں اور قصبوں بلکہ چھوٹے شہروں، مضافاتی علاقوں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے گڑھ سمجھی جانے والی نیویارک اور شکاگو جیسی جگہوں میں بھی پیش قدمی کی ہے۔ ایگزٹ پولز کے مطابق آسودہ حال یا امیر امریکیوں میں کملا ہیرس کی مقبولیت 2020ء میں بائیڈن کی مقبولیت سے زیادہ تھی۔ تاہم آبادی کے دوسرے تمام حصوں میں ٹرمپ کی مقبولیت 2020ء کی نسبت بڑھنے کی طرف گئی۔

امریکی سیاست میں ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ’’سارا چکر معیشت کا ہے!‘‘ جب معیشت ترقی کر رہی ہو، لوگوں کے پاس روزگار ہو اور مناسب اجرتیں مل رہی ہوں تو عموماً برسر اقتدار پارٹی ہی دوبارہ منتخب ہوتی ہے۔ لیکن اگر معیشت تنزلی کا شکار ہو اور لوگوں کو اپنی ضروریات زندگی کے حصول میں مسائل کا سامنا ہو تو وہ حریف پارٹی کو ووٹ دے کر برسر اقتدار جماعت کو لات رسید کر دیتے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے زیادہ تر عرصے میں معیشت کا بڑا حصہ کورونا کی گراوٹ سے بحال ہونے کے باوجود بائیڈن ایک انتہائی غیر مقبول صدر ثابت ہوا۔ اس کی عدم مقبولیت اس کے مشیروں کے لیے پریشانی کا باعث بنی رہی۔ جو ان حالات میں اس کی وجہ اور منطق کی وضاحت میں ناکام رہے جب میکرو اکنامک اشاریوں کے حساب سے امریکہ کی کورونا بحران سے بحالی تمام ہم پلہ معیشتوں سے زیادہ مضبوط تھی۔

تاہم کورونا اپنے پیچھے معاشی تعطل بہرحال چھوڑ کے گیا۔ امریکی عوام کو پچھلے 40 سالوں کے بدترین افراط زر کا سامنا کرنا پڑا۔ جو عملاً اجرتوں میں کٹوتی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ یوکرائن اور غزہ کی جنگوں پر ہونے والے بے تحاشہ عسکری اخراجات بھی افراط زر میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ نتیجتاً بائیڈن کے دورِ اقتدار میں محنت کشوں کا معیارِ زندگی تنزلی کا شکار رہا۔ جبکہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے محض امیر ترین افراد کے منافعوں میں ہی اضافہ ہوا۔

یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں تقریباً ہر حکومت کو امریکہ کی نسبت کورونا کے باعث زیادہ مسائل کا سامنا رہا ہے۔ چنانچہ پچھلے ایک سال میں انتخابات میں جانے والی ایسی تمام حکومتیں یا تو ہار گئیں یا بری طرح کمزور ہوئیں۔ موسم گرما کے وسط میں بائیڈن کی جگہ ہیرس کے سامنے آنے سے ڈیموکریٹک پارٹی میں یہ امید جاگی تھی کے شاید اب قسمت کا لکھا ٹل جائے گا۔ کیونکہ بائیڈن تو واضح طور پر ٹرمپ سے ہارنے جا رہا تھا۔ لیکن ہیرس اس حقیقت سے نہیں بچ پائی کہ نائب صدر ہونے کے ناتے بائیڈن کے تمام کرتوت اس کے ساتھ بھی جڑے ہوئے تھے۔

یہ امریکہ کے تیسرے لگاتار صدارتی انتخابات ہیں جن میں حکومتی جماعت ہاری ہے اور صدر نے اپنا زیادہ تر وقت پچاس فیصد سے بھی کم مقبولیت کیساتھ گزارا ہے۔ جس سے کسی شخصیت کی ہار جیت سے زیادہ امریکی معاشرے میں سطح کے نیچے پنپنے والی بے چینی کا پتہ چلتا ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی روایتی حکمت عملی ایک بار پھر الٹی پڑ گئی…

2016ء میں ہیلری کلنٹن نے اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ کے اس وقت کے سفید فام حامیوں کے غصّے کی وجہ‘ یعنی انتہاؤں کو چھوتی معاشی نابرابری کو تسلیم کرنے کی بجائے انہیں گھٹیا کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا تھا۔ آٹھ سال کے بعد جب ٹرمپ کی حمایت آبادی کے تقریباً ہر حصے میں بڑھی ہے‘ اس معاشی بدحالی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے جس نے ووٹروں کو ڈیموکریٹک پارٹی سے دور کیا ہے۔ لیکن بائیڈن بدستور یہ شیخی بگھارتا رہا کہ اس کے دورِ اقتدار میں امریکی معیشت دنیا کی سب سے مضبوط معیشت بن کے ابھری ہے۔

تاہم اسٹاک مارکیٹ میں لوٹ مار کرنے کے مالیاتی وسائل سے محروم لوگ بڑی مشکل سے اپنی تنخواہ میں گزارا کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر دو دو نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔

ایسے سیاسی نظام میں جہاں بغیر کسی حقیقی اپوزیشن کے دو بڑی سیاسی جماعتیں (ریپبلکن اور ڈیموکریٹک) ہی اقتدار کی باریاں لیتی رہتی ہیں‘ ووٹروں کے پاس برسر اقتدار پارٹی پر اپنے عدم اعتماد کے اظہار کا صرف یہی راستہ بچتا ہے کہ وہ کمتر برائی سمجھ کر دوسری پارٹی کو ووٹ دے دیں۔

مزید برآں بل کلنٹن کے اقتدار کے وقت سے ڈیموکریٹس بھی عین انہی نیو لبرل پالیسیوں کو اپنا چکے ہیں جن کے علمبردار ریپبلکن سمجھے جاتے تھے۔ واحد فرق صرف یہ ہے کہ اس معاملے میں ڈیموکریٹس تھوڑے کم جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ رونلڈ ریگن کے وقت سے ریپبلکن پارٹی والے ’’فلاحی دھوکہ دہی‘‘ کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ لیکن کلنٹن وہ پہلا صدر تھا جس نے ’’(ریاستی) ویلفیئر کے مروجہ نظام‘‘ کو عملاً ختم کیا اور دسیوں لاکھ لوگوں کو غربت کے ایسے پاتال میں دھکیل دیا جو وقت کے ساتھ وسیع ہی ہوا ہے۔

حالیہ دہائیوں میں ڈیموکریٹک پارٹی نے جان بوجھ کر خود کو پڑھے لکھے اور مالدار ووٹروں کے لیے پرکشش بنایا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی جو روایتی حمایت محنت کش طبقے اور سیاہ فام آبادی میں موجود تھی وہ مٹتی چلی گئی ہے۔ یہ عمل ہیلری کلنٹن کے بطور صدارتی امیدوار ہار جانے کے بعد بے حد تیز ہو گیا ہے۔ پھر بھی پارٹی کے کرتا دھرتاؤں نے اس تباہ کن لائحہ عمل کو بدلنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے 2024ء میں صدارتی نمائندے کے طور پر بائیڈن کی تاج پوشی کی۔ حالانکہ اس کی دماغی صلاحیتیں اور صحت تیزی سے روبہ زوال تھی۔ اور آخر کار اس کو فارغ کرتے وقت پارٹی میں سے جمہوریت کا شائبہ تک مٹاتے ہوئے اوپن کنونشن منعقد کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

اب مکافات عمل کا وقت ہے۔ اور ایک متعصب، ہٹ دھرم، ذہنی طور پر غیر متوازن اور عدالت میں ثابت شدہ مجرم‘ ڈونلڈ ٹرمپ بھاری انتخابی کامیابی کے ساتھ دوبارہ وائٹ ہاؤس جا رہا ہے۔ جبکہ ریپبلکن پارٹی نے سینیٹ کا کنٹرول بھی دوبارہ سنبھال لیا ہے۔ شاید وہ ایوان نمائندگان پر بھی قابض رہیں۔

2024ء کے ووٹ کا آبادی کے مختلف حصوں میں تناسب کا جائزہ اس فسانے کو جھٹلاتا ہے کہ زیادہ تر امریکی آبادی ناقابل اصلاح نسل پرستوں اور عورت دشمنوں پر مشتمل ہے جو ٹرمپ کے تمام جھوٹوں پر یقین کرتی ہے۔ مثلاً یہ کہ ہیٹی سے آنے والے مہاجرین (Immigrants) بلیاں کھاتے ہیں یا یہ کہ فوج کو بڑے پیمانے پر مہاجرین کو گھیر کے اور قید کر کے امریکہ سے نکال دینا چاہئے۔ ایسے کئی شواہد پہلے سے موجود ہیں کہ ٹرمپ کے بہت سے حمایتی اس کے بیہودہ قسم کے دعووں پر یقین نہیں کرتے۔ نہ ہی اس سے اپنے خوفناک قسم کے ارادوں کو عملی جامع پہنانے کی توقع رکھتے ہیں۔

جیسا کہ نیو یارک ٹائمز نے اکتوبر میں رپورٹ کیا تھا، ’’ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی مہم میں زیادہ خاص بات یہ تھی کہ بہت سے لوگ اس کو ووٹ دے کر اس لئے خوش ہیں کہ وہ یقین ہی نہیں کرتے کہ اس نے ان کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں ان میں سے بیشتر کو کبھی پورا کرے گا۔ سابق صدر (ٹرمپ) نے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کو مسلح کرنے اور سیاسی مخالفین کو جیل بھیجنے کی بات کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ وہ اپنے سے غیر وفادار لوگوں کو ریاستی انتظامیہ سے نکال باہر کرے گا اور ایسے کسی بندے کو بمشکل ہی لے گا جو یہ سمجھتا ہے کہ 2020ء کے انتخابات چوری نہیں ہوئے تھے۔ اس نے ’’ایک انتہائی تشدد کا دن‘‘ منانے کی تجویز دی ہے جس میں پولیس والے کسی روک ٹوک کے بغیر ’’غیر معمولی سختی‘‘ دکھا سکیں گے۔ اس نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو امریکہ سے نکالنے کا وعدہ کیا ہے اور ساتھ ہی پیش بینی بھی کی ہے کہ یہ خاصا ’’خون آشام معاملہ‘‘ ہو گا۔ لیکن جہاں اس کے بہت سے حمایتی ان باتوں سے خوش اور پرجوش ہو رہے ہیں وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ یہ ایک بڑے پیمانے کی ڈرامہ بازی ہی ہے۔‘‘

جیسا کہ ریپبلکن پارٹی کے حق میں ووٹ دینے والے ایک شخص نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف دکھاوے کے لیے ایسی باتیں کرتا ہے، کہ وہ بڑھ چڑھ کر اس لئے بول رہا ہے کہ یہ اس کے مکارانہ انداز کا ہی ایک پہلو ہے۔ انہیں کوئی یقین نہیں کہ وہ واقعی یہ سب کچھ کرے گا۔‘‘ بہرحال وقت ہی بتائے گا کہ یہ مفروضہ کہاں تک درست ہے۔

ایگزٹ پولز کے مطابق ٹرمپ کے ہر پانچ ووٹروں میں سے ایک غیر سفید فام ہے۔ جو کہ 2016ء کی نسبت بڑی تبدیلی ہے۔ ٹرمپ نے 26 فیصد لاطینی افراد کا ووٹ جیتا ہے جن میں جنوبی ٹیکساس کے سرحدی لاطینی علاقے بھی شامل ہیں۔ سیاہ فام آبادی میں اس کے ووٹوں میں اضافہ اتنا ڈرامائی نہیں تھا۔ پھر بھی اس نے مجموعی سیاہ فام ووٹوں میں سے 13 تا 16 فیصد حاصل کیے (پچھلے انتخابات میں یہ شرح 10 فیصد سے کم تھی) اور سیاہ فام مردوں کے ووٹ کا 21 سے 24 فیصد حاصل کیا۔

اسقاط حمل پر پابندی سے پیدا ہونے والے تولیدی حقوق کے بحران کے باوجود خواتین ووٹروں میں کملا ہیرس محض 8 فیصد زیادہ ووٹ ہی حاصل کر سکی۔ جو 2004ء کے بعد کم ترین شرح ہے۔ ایسی کئی ریاستوں میں بھی جہاں اسقاط حمل کے حق کو عوامی رائے دہی سے منظور کیا گیا ہے‘ ٹرمپ بازی لے گیا۔ ان میں میسوری بھی شامل ہے جہاں لوگوں نے اسقاط حمل پر پابندی ختم کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے اکثریتی ووٹ حاصل کر لیا۔

بائیڈن کی غزہ میں جاری نسل کشی کی غیر مشروط حمایت نے بھی کملا ہیرس کا ووٹ کسی حد تک عربوں، مسلمانوں اور فلسطینیوں کے حمایتی افراد میں کم کیا۔ لیکن ٹرمپ نے عرب اکثریتی شہر ڈیئربورن (مشی گن) میں کامیابی حاصل کی جہاں فلسطین اور لبنان میں جاری مظالم کے لیے بائیڈن اور پھر ہیرس کی حمایت کی وجہ سے ووٹر ان کے خلاف ہو چکے تھے۔ ہیرس کو ڈیئربورن میں صرف 36 فیصد ووٹ پڑے۔ جب کہ 2020ء میں بائیڈن کو وہاں سے 68 فیصد ووٹ ملے تھے۔ ایسے میں جہاں کچھ لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ ڈالے وہاں ایک غیر معمولی تعداد‘ یعنی 18 فیصد نے گرین پارٹی کے جل سٹین کو ووٹ دیا۔ حالانکہ پوری ریاست (مشی گن) میں گرین پارٹی کو ملنے والے ووٹوں کی شرح صرف ایک فیصد ہے۔

تاہم ہیرس نے ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ سالانہ کمانے والوں میں واضح برتری حاصل کی۔ اگرچہ انتہائی امیر لوگوں کی حمایت بدستور ٹرمپ کو حاصل ہے۔

برنی سینڈرز کی نصیحت

جیسا کہ توقع تھی برنی سینڈرز نے صرف ایک دن کے انتظار کے بعد ہیرس کی انتخابی مہم پر سخت تنقید شروع کر دی۔ سینڈرز نے بیان دیا، ’’اس میں حیران کرنے والی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے اگر محنت کشوں کو چھوڑ دیا ہے تو محنت کشوں نے بھی اسے چھوڑ دیا ہے… کیا ڈیموکریٹک پارٹی کو کنٹرول کرنے والے مہنگے تجزیہ نگار اور مالدار افراد اس تباہ کن انتخابی مہم سے کچھ سیکھیں گے؟… شاید نہیں!‘‘

سینڈرز کی تنقید درست ہے (خاص طور پر ’’شاید نہیں‘‘ والی بات)۔ لیکن اس کو سیدھا سیدھا مان لینا بھی مشکل ہے۔ آخرکار یہ سینڈرز اور الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز (AOC) جیسے ڈیموکریٹک پارٹی کے دیگر’’ ترقی پسند‘‘ نائبین و مددگار ہی تھے جو پہلے بائیڈن اور پھر ہیرس کی مختصر انتخابی مہم میں ’’پوری طرح‘‘ شامل اور ملوث تھے۔ ایسی فیصلہ کن ریاستیں جہاں ہیرس کا ووٹ غیر یقینی تھا (سوئنگ سٹیٹس) وہاں ان دونوں نے اس کے لیے بھرپور مہم چلائی اور پرجوش تقاریر کیں۔ ہیرس نے پارٹی کے نیشنل کنونشن میں ان دونوں کو بولنے کا خاص وقت دیا (جبکہ فلسطین کے ایک بھی حمایتی کو بولنے کا موقع نہیں دیا گیا)۔ اس موقع پر ان دونوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند حامیوں کے سامنے کملا ہیرس کی دیانتداری اور سنجیدگی کی گواہیاں پیش کیں۔ اور اب یہی سینڈرز ہمیں بتا رہا ہے کہ ہیرس کی مہم شروع سے ہی بیکار تھی!

یقینا سینڈرز درست کہتا ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اب محض امیر افراد اور سٹیٹس کو کی پارٹی ہے۔ اگرچہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سینڈرز اور الیگزینڈرا اس وقت بائیڈن کے آخری آخری محافظوں میں شامل تھے جب ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں اور چندہ دینے والوں نے اسے انتخابی مہم میں سے اٹھا کے باہر پھینکا تھا۔ ہیرس کے ’’عام لوگوں کو مواقع دینے والی معیشت‘‘ پر مبنی انتخابی پروگرام میں چھوٹے کاروباروں کی سہولت کاری پر ہی زور دیا گیا تھا۔ جبکہ علاج معالجے، ہاؤسنگ اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں کمی بارے چند ایک مبہم سے اشارے ہی موجود تھے۔ حتیٰ کہ اس کی بوڑھے اور معذور افراد کے لیے گھریلو نگہداشت کو میڈی کیئر (سرکاری ہیلتھ انشورنس) میں شامل کرنے کی ’’بڑی‘‘ تجویز بھی باتوں کی حد تک ہی تھی۔ لیکن اس پر عمل درآمد ہو بھی جائے تو امریکہ میں یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی ہو گا۔ جہاں منافع خوری پر مبنی نظام صحت دسیوں لاکھ لوگوں کے لیے علاج معالجے کا حصول ویسے ہی ناممکن بنا دیتا ہے۔

تو کیا ہیرس اگر برنی سینڈرز کے پروگرام کی طرف جاتی تو ٹرمپ کو ہرا سکتی تھی؟ شاید یہ بھی یقینی نہیں تھا۔ جب آپ ایک غیر مقبول اقتدار میں نائب صدر کی حیثیت سے موجود ہوں تو ایک ’’سرکش‘‘ یا ’’باغی‘‘ کے طور پر اپنی انتخابی مہم نہیں چلا سکتے۔

ہیرس اور الیگزینڈرا نے یونائیٹڈ آٹو ورکرز یونین کے صدر شان فین کے ساتھ کچھ روایتی اور طے شدہ قسم کے جلسوں میں بھی شرکت کی۔ جہاں یونین لیڈران نے حوالہ دیا کہ بائیڈن نے ہڑتالوں میں شانہ بشانہ ان کا ساتھ دیا اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے ’’یونین سازی پر مبنی معقول نوکریوں‘‘ کی بات وغیرہ کی۔ یوں وہ ایک طرح سے ثبوت پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ بائیڈن (اور اس کے جانشین کے طور پر ہیرس بھی) کئی دہائیوں کا سب سے یونین دوست صدر تھا۔ تاہم ٹریڈ یونین میں منظم محنت کش‘ ڈیموکریٹک پارٹی کو معمولی فائدہ ہی دے سکتے ہیں۔ ایسے محض 53 فیصد مزدوروں کے خاندانوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ جب کہ 2012ء میں یہ شرح 58 فیصد تھی۔ اور اب جبکہ ٹریڈ یونین میں منظم محنت کشوں کی شرح مجموعی ورک فورس میں محض 10 فیصد (پرائیویٹ سیکٹر میں صرف 6 فیصد) ہی رہ گئی ہے‘ ٹریڈ یونین کے حق میں کی گئی باتیں بھی وسیع تر محنت کش طبقے میں زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کرتی ہیں۔

بہرحال ایسے وقت میں جب عوام ان یونینوں کو تاریخی حمایت دے رہے ہیں‘ یونین لیڈران کو چاہئے کہ اپنا وقت اور پیسہ محنت کشوں کو منظم کرنے میں لگائیں۔ نہ کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی مہم میں دسیوں لاکھ ڈالر جھونکتے پھریں۔

فاتح کون رہا؟

ٹرمپ 2004ء میں جارج بش کے بعد پہلا ریپبلکن امیدوار ہے جس نے اکثریتی صدارتی ووٹ حاصل کیا ہے۔ 7 نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق ٹرمپ نے 7 کروڑ 20 لاکھ جبکہ ہیرس نے 6 کروڑ 80 لاکھ ووٹ حاصل کیے۔ ٹرن آؤٹ تقریباً 64 فیصد رہا۔ اس میں 2020ء کے ٹرن آؤٹ، جو 1900ء کے بعد سے بلند ترین تھا، کی نسبت معمولی کمی واقع ہوئی ہے ۔

ٹرمپ نے ان 8 فیصد ووٹروں کے ووٹ کا 56 فیصد حاصل کیا جنہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ووٹ دیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے تقریباً 6 فیصد ووٹر ٹرمپ کی طرف مڑ گئے۔ جب کے اس کے الٹ یہ شرح 4 فیصد رہی۔ ہیرس کی ریپبلکن ووٹروں کو ڈیموکریٹک پارٹی کی چھتری تلے لانے کی کوششوں سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ 2020ء کے مقابلے میں دونوں پارٹیوں کو کم ووٹ پڑے ہیں۔ شاید ٹرمپ 2020ء کی سطح تک چلا جائے مگر ڈیموکریٹک پارٹی کی تنزلی ایک کروڑ ووٹوں سے زیادہ رہے گی۔

تو پھر ڈیموکریٹک پارٹی کا 2020ء کا باقی ووٹ کہاں گیا؟ ایک چھوٹی تعداد تو ٹرمپ کی طرف گئی۔ مگر یوں لگتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر نے ووٹ ہی نہیں ڈالا۔

کملا ہیرس: ایک نیم ریپبلکن

کارپوریٹ میڈیا نے 2024ء کے انتخابات سے تمام نتائج غلط ہی اخذ کیے ہیں۔ مثلاً نیو یارک ٹائمز نے تمام الزام ترقی پسندوں پر ڈالتے ہوئے کہا،’’پارٹی کو سخت جائزہ لینا ہو گا کہ اس نے الیکشن کیوں ہارا… یہ سمجھنے میں دیر کر دی گئی کہ ان کے ترقی پسند انتخابی منشور کے بڑے حصے نے ووٹروں کو دور ہی کیا۔ جن میں پارٹی کے انتہائی وفادار حامی بھی شامل تھے…‘‘

لیکن جیسا کہ میڈیا کا تنقیدی جائزہ لینے والی ایک (ترقی پسند) تنظیم (FAIR) نے نشاندہی کی ہے کہ ’’کملا ہیرس کی انتخابی مہم نہ تو اقتصادی و معاشی پالیسی اور نہ ہی شناخت کی سیاست کے حوالے ترقی پسندانہ تھی۔ لیکن ایک ایسا کارپوریٹ میڈیا جس نے مہاجرین، ٹرانس جینڈر، صنفی طور پر مختلف لوگوں اور جرائم سے متعلق ٹرمپ کے خوف پر مبنی بیانئے کا موثر طور پر جواب دینے کی بجائے اسے آگے ہی بڑھایا، کے لیے اپنے جرم کا اعتراف کرنے کی بجائے بائیں بازو کو الزام دینا کہیں زیادہ آسان اور فائدہ مند ہے۔‘‘

ہیرس نے ترقی پسندوں کی بجائے ریپبلکن ووٹروں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ یوں روایتی انتخابی خوش آمد الٹ پلٹ ہو گئی۔ کیونکہ ڈیموکریٹک ہیرس‘ ریپبلکن ووٹروں کے تلوے چاٹ رہی تھی اور ریپبلکن ٹرمپ لاطینی ووٹروں کے پیچھے بھاگ رہا تھا (اگرچہ ٹرمپ زیادہ کامیاب رہا)۔ اور ہیرس کی جانب سے تولیدی حقوق کی حمایت اور صنفی رکاوٹوں کو توڑنے کی باتیں پس منظر میں چلی گئیں۔ کیونکہ اس نے سماجی مسائل پر ریپبلکن ووٹروں کے ساتھ مشترکہ نکات و صفات تلاش کرنے کو ترجیح دی۔

بجائے اس کے کہ ہیرس بتاتی کہ اس میں اور ٹرمپ میں کیا فرق ہے‘ اس نے زور دیا کہ اس میں اور ریپبلکن پارٹی میں کیا مشترک ہے۔ یوں اس نے ایک نیم ریپبلکن مہم ہی چلائی اور ایک ہلکے انداز میں انہی کا ایجنڈا پیش کیا۔ مثلاً تارکین وطن کی مخالفت، جنوبی سرحدوں پر سختی کی بات، اسرائیل کی فلسطین میں نسل کشی کی بھرپور حمایت اور خود ایک گلاک پستول رکھنے کی شیخی بگھارنا تاکہ اسلحے کی حمایت کرنے والے افراد کی توجہ حاصل کی جا سکے۔

حتیٰ کہ ریپبلکن پارٹی کی ایک سابق ممبر پارلیمنٹ لیز چینی بھی ہیرس کی انتخابی مہم میں شامل ہو گئی اور اس کے جنگی مجرم ا ور نو قدامت پرست (Neoconservative) باپ ڈک چینی نے شہنائیاں بجاتے ہوئے ہیرس کی حمایت کی۔

تاہم اس سارے انتخابی کھیل تماشے کے دوران یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ہیرس آخر چاہتی کیا ہے۔ اپنے کیریئر میں کیلیفورنیا کی ڈسٹرکٹ اٹارنی اور پھر اٹارنی جنرل کے طور پر وہ کبھی مستقل مزاجی سے نہ دائیں بازو کا حصہ رہی نہ ہی بائیں بازو کا۔ لیکن 2019ء میں صدارتی امیدواروں کی ابتدائی دوڑ میں ایک فخریہ لبرل بن گئی۔ بائیڈن کے فارغ ہونے کے بعد اس سال بطور صدارتی امیدوار وہ خود کو ایک نیم قدامت پسند کے طور پر پیش کرنا چاہتی تھی۔ یوں اس نے اپنی 2019ء کی تیل فریکنگ کی مخالفت اور ’’سب کے لیے سرکاری ہیلتھ انشورنس‘‘ کی حمایت پر یو ٹرن لے لیا۔ لیکن یہ تسلیم بھی نہیں کیا کہ اس نے ان کلیدی مطالبات بارے اپنی سوچ بدل لی ہے۔ چنانچہ اس میں حیرانی والی کوئی بات نہیں کہ بیشتر ووٹروں نے برسر اقتدار بائیڈن انتظامیہ کے ایسے جعلی، ابن الوقت اور مطلبی نمائندے کو مسترد کر دیا اور ایک ایسے بدتمیز ارب پتی (ٹرمپ) کو ووٹ دینا زیادہ مناسب سمجھا جس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ (مروجہ نظام میں) بھونچال لا سکتا ہے۔ چاہے اس کا فائدہ ہو یا نقصان۔

بائیں بازو کے خاطر خواہ متبادل کے فقدان میں ووٹروں کی جانب سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ

حالیہ دہائیوں میں امریکہ کا بایاں بازو انتخابات پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے کمزوری کا شکار رہا ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں یہ صورتحال مزید ابتری کا شکار ہی ہوئی ہے۔ ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکا (ڈی ایس اے) کا ابھار ایک آزاد سوشلسٹ امیدوار کے طور پر برنی سنڈرز کی 2016ء اور 2020ء کے انتخابات کے دوران بڑھتی ہوئی شہرت سے متاثر تھا۔ لیکن دونوں مرتبہ سینڈرز نے ڈیموکریٹک پارٹی کے کرتا دھرتاؤں کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور بائیڈن اور ہیلری کلنٹن کی صورت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اور جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ سینڈرز بہت جوش و خروش سے ان جیسوں کی انتخابی مہم بھی چلاتا رہا ہے۔

یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ڈی ایس اے کا پھلنا پھولنا (اگرچہ یہ اب بھی ایک بہت چھوٹی تنظیم ہے جس کا امریکی سیاست پر صرف معمولی اثر و رسوخ ہے) انقلابی بائیں بازو کے بیشتر حصے کی تباہی اور انہدام کے ساتھ ہی ممکن ہوا ہے۔ ایک ایسا بایاں بازو جو پہلے ہی دہائیوں سے زوال پذیر تھا۔ بائیں بازو کے ڈیموکریٹک پارٹی کے ذریعے وسیع تر سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کے قلیل المدتی، ناعاقبت اندیش اور کوتاہ نظری پرمبنی نصب العین نے اس زوال پذیری کے عمل کو اور آگے بڑھایا۔ لیکن بائیں بازو کی مجموعی تنزلی کو روکنے میں ناکام رہا۔ سینڈرز اور الیگزینڈرا کی جانب سے بائیڈن اور ہیرس کی حمایت اس کا واضح ثبوت ہے۔

ڈی ایس اے نے گراس روٹ سطح پر عوامی تحریکیں، جو انتخابی میدان سے باہر سیاست پر اثر انداز ہو سکتیں، تعمیر کرنے کی بجائے انتخابات پر ضرورت سے زیادہ فوکس کر کے بائیں بازو کی زوال پذیری کے عمل کو تیز تر ہی کیا ہے۔ اس تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انقلابی بایاں بازو کیوں ڈیموکریٹک پارٹی کو ’’سماجی تحریکوں کا قبرستان‘‘ قرار دیتا چلا آیا ہے۔

اس بات کو آسانی سے اسقاط حمل کے حق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے جو ہمیشہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدانوں پر انحصار کرتی رہیں۔ حقوق نسواں کی تحریکوں نے گراس روٹ تنظیموں کے ذریعے اسقاطِ حمل کا حق حاصل کیا تھا۔ جب 1973ء میں امریکی سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل مخالف رچرڈ نکسن کے اقتدار میں اسقاطِ حمل کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کی دہائیوں میں ان تنظیموں نے اسقاطِ حمل کے حق کے دفاع کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی پر انحصار کیا اور گزشتہ دو دہائیوں میں اسقاط حمل کے حق میں کوئی بڑے مظاہرے منعقد نہیں کیے۔ لیکن انہی ڈیموکریٹس نے ’’مصالحتی پارٹی‘‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے اسقاطِ حمل کے حق کو پہلے پہل محدود اور آخر کار 2022ء میں یکسر ختم ہونے دیا۔ اس کے بعد سے ان میں سے کسی سیاستدان نے صورتحال کو بدلنے کے لیے ان مطالبات کے گرد تحریک منظم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے باوجود کہ تولیدی حقوق کا بحران ہر روز خواتین کی جان لے رہا ہے۔

اب نیو یارک ٹائمز (اور لبرل اسٹیبلشمنٹ) کے پاس لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے یہی حل ہے کہ وہ اگلے الیکشن تک انتظار کریں: ’’جنہوں نے مسٹر ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے وہ اس کے طرزِ عمل کا بغور مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ وہ ان کی توقعات اور امیدوں پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ اور اگر نہیں اترتا تو 2026ء کے مڈٹرم انتخابات اور 2028ء کے صدارتی انتخاب میں اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ملک کو واپس پٹری پر چڑھائیں۔‘‘

لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے۔ انتخابات از خود کسی مخصوص عہد میں سیاسی اور سماجی طاقتوں کے توازن کا تعین نہیں کرتے۔ بلکہ قوتوں کے توازن کا اظہار ہی کرتے ہیں (اگرچہ بعض اوقات وہ ان قوتوں کو مضبوط یا کمزور کر سکتے ہیں) اور اسی لئے انتخابی میدان سے باہر کی تحریکوں سے متاثر بھی ہو سکتے ہیں۔

آج امریکا میں طاقتوں کا توازن فیصلہ کن طور سے دائیں بازو کے حق میں ہے۔ کیونکہ بایاں بازو بہت کمزور ہے۔ جیسا کہ مشہور مقولہ ہے کہ فطرت خلا کو پسند نہیں کرتی۔ جب ڈیموکریٹس‘ ریپبلکن پارٹی والی باتیں کرنے لگیں گے اور بایاں بازو الیکشن جیتنے کے چکر میں ڈیموکریٹس کے پیچھے لگ جائے گا تو ظاہر ہے ووٹ دینے والوں کے سامنے بائیں بازو کا کوئی متبادل نقطہ نظر پیش ہی نہیں ہو سکے گا۔ چنانچہ دایاں بازو ہی جیتے گا۔ آج ہمیں اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ جب بایاں بازو گرتی ہوئی اجرتوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وضاحت پیش کرنے میں ناکام رہے گا تو (دائیں بازو کی جانب سے) مہاجرین کو قربانی کا بکرا بنانا اور سارے مسائل کی وجہ انہیں قرار دینا آسان ہو جائے گا۔ یہی سرمایہ دار طبقے کی ’’عوام کو تقسیم کر کے حکمرانی کرنے‘‘ کی پالیسی ہے۔

طاقتوں کے توازن کو بدلنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ عوامی سطح پر جدوجہد اور تنظیم سازی کی جائے۔ ایسی جدوجہد جس کی ایک جھلک ہم نے پچھلے برس یونائیٹڈ آٹو ورکرز کی تین بڑی کاریں بنانے والی کمپنیوں کے خلاف کامیاب ہڑتال میں دیکھی بھی ہے۔ ہم نے گزشتہ بہار میں اس کی ایک اور جھلک فلسطینیوں کے حمایتی مظاہرین کی جانب سے پورے امریکہ کے تعلیمی اداروں میں لگائے گئے احتجاجی کیمپوں میں بھی دیکھی۔

تاہم طاقتوں کے توازن کو بدلنے کے لیے طبقاتی جدوجہد میں اس سے کہیں بڑا ابھار درکار ہے۔ تب تک دولت والے اپنی خوش قسمتی کا جشن مناتے رہیں گے اور سٹیٹس کو کا غلبہ رہے گا ۔ قطع نظر اس کے کہ ہم نے کس کو ووٹ دیا اور کس کو نہیں دیا۔ ٹرمپ جنوری میں اقتدار سنبھالے گا۔ جس کے مضمرات کا اندازہ اس وقت کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔