بابر پطرس

بشار الاسد کی طویل حکومت 8 دسمبر 2024ء کو بالآخر اپنے انجام کو پہنچی۔ 2011ء میں عرب بہار کے نتیجے میں تیونس اور مصر سمیت مشرق وسطیٰ و نواحی خطوں کے بیشتر ممالک انقلابی طوفانوں کی لپیٹ میں تھے۔ دہائیوں سے چلی آ رہی یہ آمریتیں محنت کش عوام کی طاقت کے سامنے ٹک نہ سکیں اور ایک کے بعد ایک‘ ڈھیر ہوتی گئیں۔ جب مظلوموں کی بغاوت کی سرکش لہریں اٹھتی ہیں تو سیلابوں کے مانند راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔ اگر ان کو درست سمت و معقول لائحہ عمل مل جائے تو ایک نئے عہد کا آغاز ہوتا ہے۔ ورنہ ناکام ہو کے پسپائی، خوف، پژمردگی اور مایوسی کو جنم دیتی ہیں۔ یقیناً عرب بہار میں عام لوگوں کی حکمران طبقات اور ان کے نظام سے نفرت کو وہ انقلابی قیادت میسر نہ آ سکی جو تاریخ کے دھارے کو موڑ سکتی۔ لہٰذا اس صورتحال میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو ”دیگر قوتوں“ نے پر کیا۔ مشرق وسطیٰ انہی ناکامیوں اور پسپائیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ ایک طرف مقامی اور علاقائی اشرافیہ کا جبر و استحصال ہے۔ دوسری جانب عالمی سامراجی قوتوں کی چیرہ دستیاں۔ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ان عوامل کے ہوتے محنت کشوں کی زندگیوں میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آتی۔

مشرق وسطیٰ کی سیاست بہت پیچیدہ ہے۔ موجودہ انتشار تقریباً ایک صدی قبل فرانس اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے سامراجی معاہدوں کی بندر بانٹ کا نتیجہ ہے۔ 1916ء کے سائیکس پیکو نامی خفیہ سامراجی معاہدے کے تحت موجودہ عراق، اردن اور فلسطین کے علاقے برطانیہ اور شمالی عراق، لبنان اور شام‘ فرانس کے زیر انتظام چلے گئے۔ بعد ازاں اس معاہدے میں روس اور اٹلی کو بھی حصہ دار کے طور سے شامل کیا گیا۔ 1917ء میں روس میں بالشویکوں نے برسر اقتدار آ کر بندر بانٹ کے ان سامراجی معاہدوں کا بھانڈا پھوڑا۔ ورنہ یہ نہ جانے کب تک خفیہ ہی رہتے۔ اس کے بعد 1920ء کا ”معاہدہ سیورے“ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ اگرچہ بعد ازاں مصطفیٰ کمال کے برسر اقتدار آنے سے اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔

یوں پہلی عالمی جنگ کے بعد قبائلی، قومی اور نسلی تعلق داریوں کا لحاظ رکھے بغیر نقشوں پر نئی لکیریں کھینچ کر ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کو بڑی بے دردی سے کاٹ دیا گیا۔ تیل کی دریافت اور عالمی سطح پر توانائی کے ذریعے کے طور پر اس کی بڑھتی مقبولیت اس خطے کے لیے ایسا وبال ثابت ہوئی کہ یہ نہ ختم ہونے والی پراکسی جنگوں اور سامراجی جارحیتوں کا میدان بن گیا۔

قومی ریاست کی تشکیل نے وہ حالات پیدا کر دئیے ہیں جن میں قومی برتری اور ”قوم“ کے دفاع کے لیے افواج اور ہتھیاروں کو ناگزیر ضرورت کے طور پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ طبقاتی سماج میں ایک قوم کے اندر حاکموں اور محکوموں پر مشتمل دو قومیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن حکمران طبقات قومی برتری کی نفسیات کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں اسلحہ سازی کی صنعت فروغ پا کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتی ہے۔ بڑی بڑی افواج کے وجود کا جواز پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ سامراج کی دیگر ممالک میں مداخلت کا تعلق انسانی حقوق یا جمہوری آزادیوں سے ہرگز نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا مطمع نظر اپنے دائرہ اثر کو توسیع دیتے ہوئے وسائل کی لوٹ مار ہی ہوتا ہے۔

2011ء میں مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر شام کی انقلابی تحریک سخت ریاستی کریک ڈاؤن کے تحت ایک خونریز خانہ جنگی میں ڈھل گئی۔ جس میں پھر علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتوں کی مداخلت بڑھتی گئی۔ اس دوران روس کی شام میں اسد حکومت کو بچانے کی حکمت عملی اور شامی خانہ جنگی میں براہ راست مداخلت مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ اور طاقتوں کے پرانے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش تھی۔ جبکہ ایران بھی شام میں اسد خاندان کی حکومت کو اپنے علاقائی اتحادی کے طور پر دیکھتا رہا ہے۔ لہٰذا ان دونوں ریاستوں نے اسد حکومت کو فوجی مدد دینے کے ساتھ ساتھ اس کی بھرپور مالی معاونت بھی کی۔ روسی فضائیہ، جنگی ماہرین، ایران کی پراکسی حزب اللہ کے جنگجو، بیشتر دوسرے شیعہ ملیشیا گروہ اور ایرانی پاسداران انقلاب کے لوگ بھی بشار حکومت کے دفاع کی خاطر براہ راست جنگ میں شامل تھے۔

ادھر کرد چار ہمسایہ ملکوں (ترکی، عراق، شام اور ایران) میں بٹے ہوئے ہیں اور صدیوں سے ان ریاستوں کے جبر کا شکار ہیں۔ ترکی میں کرد آبادی کا کم و بیش 20 فیصد ہیں۔ یہاں کردوں کی مزاحمت زیادہ تر کردستان ورکرز پارٹی (PKK) میں منظم رہی ہے۔ اس تنظیم کو امریکہ اور دوسری مغربی حکومتیں دہشت گرد قراد دیتی ہیں۔ لیکن شام کے تنازعے میں کردوں کی شامی ڈیموکریٹ فورسز (SDF) کو امریکی حمایت اور امداد حاصل ہے۔ جسے وہ اسد حکومت اور داعش وغیرہ کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ ساتھ ہی شام میں بنیاد پرست رجحانات رکھنے والے مختلف گروہوں کے لیے امریکہ اور یورپی طاقتوں کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ خود داعش کے حولے سے بھی ان کا رویہ مشکوک ہی رہا ہے۔ یوں نائن الیون کے بعد ایک طرف یہ مغربی سامراجی طاقتیں ’وار آن ٹیرر‘ میں مصروف تھیں تو دوسری طرف القاعدہ سے جڑی نصرہ فرنٹ جیسی قوتوں کو بھی اسد حکومت کے خلاف درپردہ مدد فراہم کر رہی تھیں۔ اسد حکومت کے انہدام کے بعد نئی شامی حکومت کی قیادت کرنے والی ہیئت تحریر الشام نامی تنظیم بھی ماضی میں داعش اور القاعدہ سے وابستہ رہی ہے۔ اس کے مرکزی کمانڈر کے سر کی قیمت امریکہ نے دس ملین ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔ تاہم گزشتہ کچھ سالوں سے یہ تنظیم خود کو ”معتدل“ قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کا سربراہ اب عالمی طاقتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس نظام میں دوستی اور دشمنی کے رشتے مفادات کے تابع ہیں۔

ترکی پی کے کے اور ایس ڈی ایف دونوں کے خلاف آپریشن کرتا آ رہا ہے۔ شام میں اس مقصد کے لیے وہ اپنے پراکسی گروہ کا استعمال بھی کرتا ہے۔ ترکی کا خیال ہے کہ امریکہ کا دیا ہوا اسلحہ شام کی کرد ایس ڈی ایف ترکی کے خلاف بھی استعمال کرتی ہے۔ جبکہ امریکہ‘ ترکی کو ایس ڈی ایف کے خلاف کاروائیوں پر تنقید کا نشانہ بناتا ہے کہ یہ کاروائیاں داعش کو مضبوط کریں گی۔

غرضیکہ شام کی خانہ جنگی میں تمام ”فریق“ اپنے اپنے مفادات کے زیر اثر اسد حکومت یا اس سے باغی گروہوں کی حمایت میں برسر پیکار تھے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اس لڑائی میں لاکھوں کی تعداد میں معصوم شامی لوگ مارے گئے۔ بے گھر ہونے والوں کی درست تعداد کا تعین بھی مشکل ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق (او سی ایچ اے) کی رپورٹ کے مطابق شام کی تیس فیصد آبادی اپنے ہی ملک میں دربدر ہو گئی ہے۔ ملک سے باہر پناہ گزین ان اعداد و شمار میں شامل نہیں ہیں۔ ملک میں ہونے والی خانہ جنگی نے انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے۔ بجلی کا نظام معطل ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ نظام صحت کی صورتحال دگرگوں ہے۔ حلب، رقہ اور حمص جیسے تاریخی شہر ان برباد حالات کی منظر کشی کرتے ہیں۔

سیرین سینٹر آف پالیسی ریسرچ کی 2023ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ شام کی پچاس فیصد سے زائد آبادی انتہائی غربت سے دوچار ہے۔ جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔ 2010ء سے قبل شام کے جی ڈی پی میں تیل اور زراعت کا پچاس فی صد حصہ تھا۔ لیکن خانہ جنگی کے بعد تیل کا بڑا حصہ داعش وغیرہ اور کرد گروہوں کے قبضہ میں چلا گیا۔ 2011ء میں 67.5 ارب ڈالر کی معیشت 2023ء میں 9 ارب ڈالر پر آ گئی ہے۔ افراط زر 140 فیصد تک ہے۔ 2017ء کی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق صرف 2016ء تک کے پانچ سالوں میں شام کو 226 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو ملکی جی ڈی پی کے چار گنا سے بھی زیادہ ہے۔

بعث پارٹی 1960ء کی دہائی میں عراق اور شام میں برسر اقتدار آئی۔ اپنے بائیں بازو کے پروگرام کے تحت اس نے تیل سمیت اہم صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا۔ زرعی اصلاحات کے قوانین کے ذریعے سے زمینوں کی ازسر نو تقسیم کی۔ خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ ان کے لیے تعلیم کو لازم ٹھہرایا گیا۔ روزگار میں ان کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا۔ خانگی قوانین میں ان کے لیے وراثت اور بچوں کی کسٹڈی کے قوانین متعارف کرائے گئے۔ رہائش سمیت بڑے پیمانے کا انفرسٹرکچر تعمیر ہوا۔ ایک جدید سماج کی بنیادیں استوار ہوئیں۔ لیکن اس پارٹی کا انجام بھی پاپولسٹ اصلاح پسندی کے دیگر رجحانات والا ہی ہوا۔ جو ادھورے انقلاب کے ذریعے اپنی قبریں خود کھودنا شروع کر دیتے ہیں۔ شام اور عراق میں بعث پارٹی کی حکومتیں شخصی آمریتوں، فرقہ وارانہ اور جابر ریاستوں اور اقربا پروری پر مبنی سرمایہ داری میں بدلتی گئیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد انہوں نے سوشلزم کی لفاظی بھی ترک کر دی۔ شام میں بعث پارٹی کا انجام بھی سامراج اور سرمایہ داری کے ساتھ مصالحت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ ایسی پارٹیاں جب محنت کش طبقات سے غداری کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں سے مفاہمت کا راستہ اپناتی ہیں تو عوام بھی آخر کار انہیں دھتکار دیتے ہیں۔ بعث پارٹی کا بھی یہی حشر ہوا ہے۔ اب ایک طویل خانہ جنگی سے ہیئت تحریر الشام برآمد ہوئی ہے۔

؎اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

شام میں اسد خاندان کے عہد کا اختتام کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ عرصے میں روس کے یوکرائن محاذ اور اسرائیل کے حزب اللہ پر پے درپے حملوں نے بھی شام پر براہِ راست اثرات مرتب کیے ہیں۔ حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی نے نہ صرف فلسطینی مزاحمت کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ایران بھی دو قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے گر جانے سے ایران کا نام نہاد ”مزاحمتی محور“ بہت کمزور ہو گا۔ لبنان میں حزب اللہ تک رسد کے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ یمن میں حوثیوں کی پوزیشن بھی کمزور ہو گی۔

اسد خاندان کے جابرانہ اقتدار کا خاتمہ تو ہوا ہے لیکن ہیئت تحریر الشام ایسی قوتوں سے امیدیں وابستہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔ سرمائے کے اس نظام میں بنیاد پرستی، نام نہاد سیکولر آمریتیں اور جمہوری حکومتیں‘ سب ایک تھالی کے بینگن ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں شام کے عوام کو دوبارہ سنبھلنے اور منظم ہونے کا موقع ملتا ہے یا نہیں۔ محنت کش عوام ہی اس تبدیلی اور انقلاب کے عامل ہیں جس میں ملکیت کے رشتے اور پیداواری تعلقات تبدیل ہوں گے اور اخلاص و محبت کے رشتے تعمیر ہوں گے۔ سرمائے کے نظام کی کسی طرز میں یہ ممکن نہیں ہے۔