لانس سیلفا

تلخیص و ترجمہ: عمران کامیانہ

(امریکہ کے 39ویں صدر جمی کارٹر کی موت پر لکھا گیا مضمون، جو 2 جنوری 2025ء کو انٹرنیشنل سوشلزم پراجیکٹ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔)

یہ جمی کارٹر کی ساکھ کے لیے اچھا ہی تھا کہ اس نے اتنی طویل عمر پائی۔ جن لوگوں نے کارٹر کی 1977ء تا 1981ء حکومت کو نہیں دیکھا وہ اسے انسانی حقوق، عالمی صحت عامہ اور غریبوں کی خدمت گزاری کے وکیل اور علمبردار کے طور پر جانتے ہیں۔ اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کو ’’نسلی تفریق‘‘ (Apartheid) قرار دینے پر اس نے ایک سچ کہنے والے شخص کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی۔

سیاسی نسیان (بھلکڑ پن) کی بیماری، جو کارٹر کی صدارت کے بعد کے دور کی پیداوار ہے، کے تحت لبرل‘ کارٹر کے دورِ حکومت کی تمام تر برائیوں کو فراموش کر کے محض ’’مثبت‘‘ پہلوؤں کو ہی پیش کرتے ہیں۔ مثلاً آل شارپٹن، جو ایک شہری حقوق کے کارکن ہیں لیکن حقیقت میں لبرل رجحان رکھنے والے ایم ایس این بی سی نیٹ ورک پر ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں، کارٹر کے اس اقدام کی مدح سرائی کر رہے تھے کہ اس نے ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے اہم ساتھی اینڈریو ینگ کو اقوام متحدہ میں امریکہ کا سفیر مقرر کیا۔ تاہم شارپٹن نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ کارٹر نے ہی 1979ء میں اینڈریو ینگ کو برطرف بھی کر دیا تھا (جس پر شہری حقوق کے رہنماؤں نے شدید احتجاج بھی کیا تھا)۔ اس کی ’’خطا‘‘ صرف اتنی تھی کہ اس نے فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے ایک نمائندے سے ملاقات کی تھی۔ (اس ملاقات میں بظاہر ینگ کا مقصد یہ تھا کہ وہ پی ایل او کو قائل کرے کہ وہ اقوام متحدہ کی اُس رپورٹ کو ملتوی کرنے کی حمایت کریں جو ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی!)

واشنگٹن کی اشرافیہ اور اس کے تجزیہ نگاروں میں سے بیشتر لوگ کارٹر کی صدارت کو ناکامی کی علامت گردانتے ہیں (اس کے دورِ حکومت میں پٹرول پمپوں پر گھنٹوں انتظار کرتی ہوئی گاڑیوں کی قطاریں، تہران میں امریکی سفارتخانے کے عملے کا یرغمال بنایا جانا وغیرہ)۔ جب کارٹر نے دوبارہ صدارتی انتخاب کی مہم چلائی تو ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک بڑے حصے نے اسے مسترد کر دیا اور پرائمری انتخاب میں لبرل سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی کی حمایت کی (اگرچہ ایڈورڈ کینیڈی یہ انتخاب ہار گیا تھا)۔ لیکن کارٹر کو 1980ء کے انتخابات میں رونالڈ ریگن کے ہاتھوں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اس نے اپنا عہدہ چھوڑا تو قومی رائے عامہ کے سروے میں اس کی حمایت 30 فیصد سے کچھ ہی زیادہ تھی۔

بہرحال سوشلسٹوں کو کارٹر کے دورِ حکومت کا تجزیہ کرتے ہوئے واشنگٹن اشرافیہ کے سطحی قسم کے معیارات اور درجہ بندیوں کو مسترد کرنا چاہیے۔ ہمارے لیے کارٹر ایک خوفناک حد تک منفی کردار کا حامل صدر تھا۔ اس لیے نہیں کہ وہ بہت سے معاملات میں ناکام یا غیر مؤثر رہا یا اپنی عوامی تقاریر میں وعظ و نصیحت سے کام لیتا تھا۔ بلکہ وہ عین ان امور کی وجہ سے انتہائی منفی کردار کا حامل تھا جن میں وہ موثر تھا اور جنہیں انجام دینے میں وہ کامیاب رہا۔ کیونکہ جس دور کو ہم آج ’’نیو لبرل‘‘ کہتے ہیں اس کی شروعات ریگن کی بجائے کارٹر کی حکومت میں ہوئی۔

کارٹر کے دورِ صدارت کے آغاز اور اختتام پر دو گہرے معاشی بحرانات ملتے ہیں۔ جو بنیادی طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد کے طویل معاشی عروج کے خاتمے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت میں چلنے والی نیو ڈیل (ایک طرح کی ریاستی سرمایہ داری) کی سیاسی معیشت، جو بعد از جنگ کے سارے عرصے میں بنیادی کردار کی حامل تھی، زوال پذیری سے دوچار ہوئی اور کارٹر ہی کی حکومت نے ایک نئے معاشی ماڈل کی جانب عبور کا کردار ادا کیا۔ ایک ایسا نظام جس کے شخصی اظہار بعد ازاں امریکہ میں رونالڈ ریگن اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر جیسے لوگ بنے۔ لیکن اس سمت میں پہلے قدم کارٹر نے ہی اٹھائے۔

ریگنزم کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں؟ سماج فلاح و بہبود کے اخراجات میں کٹوتیاں۔ امیروں کے لیے ٹیکس چھوٹ پر مبنی ٹریکل ڈاؤن معیشت۔ فوجی اخراجات میں اضافہ۔ رجعت پسندانہ سماجی پالیسیاں۔

سماجی منصوبوں میں کٹوتیوں کے لیے سرمایہ دار طبقے کی منظم مہم کے نتیجے میں کارٹر نے عوامی بہبود کے پروگراموں کی توسیع کے طویل عمل کو الٹ دیا۔ کارٹر کی 1978ء کی ٹیکس پالیسی نے ہی ریگنامکس کی بنیاد رکھی۔ اس پالیسی میں کارپوریٹ منافعوں پر ٹیکسوں میں کمی کی گئی جبکہ مزدوروں پر سوشل سیکیورٹی ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا۔ یہ 1930ء کی دہائی کے بعد پہلا موقع تھا جب کانگریس (جو ڈیموکریٹک پارٹی کی بھاری اکثریت پر مشتمل تھی) نے ایک ایسی ٹیکس پالیسی کی منظوری دی جو بالکل واضح طور سے غیر منصفانہ اور سرمایہ داروں کے حق میں تھی۔

1979ء میں کارٹر نے بینکر پال والکر کو فیڈرل ریزرو (امریکی مرکزی بینک) کا چیئرمین مقرر کیا۔ کارٹر کی حمایت سے والکر نے بلند سطح کے افراطِ زر کو کم کرنے کے لیے شرح سود بڑھانے کا اقدام کیا۔ والکر نے جان بوجھ کر کساد بازاری اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری کے حالات پیدا کیے تاکہ محنت کشوں کو مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے کے مطالبات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جا سکے۔

1979ء  میں ہی کارٹر انتظامیہ نے دیوالیے کا شکار (کاریں بنانے والی کمپنی) کرائسلر کارپوریشن کے لیے وفاقی حکومت کے بیل آؤٹ کی راہ ہموار کی۔ اس سلسلے میں مزدور یونین کو ماضی کی کئی مراعات سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا گیا اور یوں اگلے پورے عشرے میں بڑی یونینوں سے سرمایہ داروں کو چھوٹ اور رعایت دینے پر مبنی معاہدوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ کارٹر نے کان کنوں کی 1977-78ء کی ہڑتال کو روکنے کے لیے یونین مخالف ٹافٹ ہارٹلے ایکٹ کا نفاذ بھی کیا۔ ٹریڈ یونینوں کو تنظیم سازی میں سہولت دینے کے لیے تیار کی گئی ایک قانونی ترمیم کو 1977ء میں کانگریس میں شکست کا سامنا ہوا تو کارٹر نے اس معاملے پر خاموشی اور لاتعلقی پر مبنی مجرمانہ رویہ اپنایا۔

کارٹر حکومت نے ہی ہڑتال کرنے والے فضائی ٹریفک کنٹرولرز کو برطرف کر کے ان کی جگہ نئے افراد کو تعینات کرنے کا وہ منصوبہ تیار کیا تھا جسے 1981ء میں ریگن نے عملی جامہ پہنایا۔

کارٹر حکومت نے ڈی ریگولیشن کے اس پاگل پن کا آغاز بھی کیا جو بعد کی حکومتوں کے لیے ایک معاشی عقیدہ بن گیا۔ کارٹر کی جانب سے ٹرکنگ، ہوائی سفر اور توانائی کی قیمتوں کی ڈی ریگولیشن سے قیمتوں میں اضافہ ہوا، سروسز کے معیار میں شدید کمی آئی اور اہم صنعتوں میں ٹریڈ یونین کی ٹوٹ پھوٹ اور خاتمے کی راہ ہموار ہوئی۔

صدارت کے بعد ایک نوبل انعام یافتہ اور عالمی امن کے سفیر کے طور پر کارٹر کے امیج کے حوالے سے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کارٹر نے ہی عسکری اخراجات، قوت اور جارحیت میں اضافے کا وہ سلسلہ شروع کیا جسے پھر ریگن نے بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا۔ 1980ء میں ایران اور نکاراگوا میں انقلابات اور افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد کارٹر نے فوجی بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا، فوجی خدمات کے لیے دوبارہ رجسٹریشن کا آغاز کیا اور مشرق وسطیٰ میں مداخلت کے لیے ریپڈ ڈپلائمنٹ فورس تشکیل دی۔

1980ء میں کارٹر نے امریکہ کی جوہری ہتھیاروں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کی تاکہ ’’محدود جوہری جنگ‘‘ میں امریکہ کے ’’پیشگی حملے‘‘ کو ممکن بنایا جا سکے۔ اسی طرح کارٹر حکومت نے افغانستان میں سوویت یونین کی دراندازی سے بھی پہلے بنیاد پرست گوریلوں کو اسلحہ اور تربیت دینے کا آغاز کیا۔ اس خفیہ کاروائی، جسے بعد میں ریگن کی حکومت نے کھلے عام فروغ دیا، نے ہی آگے چل کر وہ نیٹ ورک پروان چڑھائے جن سے القاعدہ نے جنم لیا۔

1980ء میں اس نے ’’کارٹر ڈاکٹرائن‘‘ نامی اعلامیہ جاری کیا جس کے مطابق ’’کسی بھی بیرونی طاقت کے خلیج فارس کے علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کو امریکہ کے کلیدی مفادات پر حملہ سمجھا جائے گا اور اس حملے کو ہر ضروری طریقے سے روکا جائے گا۔ جس میں فوجی طاقت کا استعمال بھی شامل ہے۔‘‘ یہ وہ بھونڈا جواز تھا جس کے تحت 1991ء میں عراق کے خلاف امریکہ کی جنگ کا آغاز ہوا۔ جو پھر کسی نہ کسی شکل میں دو دہائیوں تک جاری رہی۔

داخلی سطح پر کارٹر نے 1977ء کی اس ’ہائیڈ ترمیم‘ کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس پر دستخط بھی کیے جس کے تحت اسقاط حمل کے لیے حکومتی انشورنس کی فنڈنگ کو بند کر دیا گیا۔ یہ عمل 1973ء میں امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے ملکی سطح پر اسقاط حمل کو قانونی قرار دئیے جانے کے بعد اسقاط حمل مخالف تحریک کی پہلی کامیابیوں میں سے ایک تھا۔ جب ایک رپورٹر نے کارٹر سے پوچھا کہ وہ ایک ایسے قانون کی منظوری کیونکر دے سکتا ہے جو غریب خواتین پر بے حد منفی اثرات مرتب کرے گا تو اس نے جواب دیا: ’’دیکھیں زندگی میں بہت سی چیزیں غیر منصفانہ ہیں۔ جنہیں امیر لوگ افورڈ کر سکتے ہیں جبکہ غریب نہیں کر سکتے۔‘‘ مزید یہ کہ وفاقی حکومت کا کام ’’مواقع کو سب کے لیے بالکل مساوی بنانا نہیں ہے۔ بالخصوص جب اخلاقی عنصر شامل ہو۔‘‘

کارٹر کی مسیحی تعلیمات پر مبنی اخلاقیات نے 1980ء میں اس وقت کوئی جوش نہیں مارا جب ایل سلواڈور کے آرچ بشپ رومیرو نے کارٹر کو اس کے ’’مذہبی جذبات اور انسانی حقوق کے دفاع کے احساس‘‘ کا واسطہ دے کر اپیل کی کہ اس کے ملک میں انتہائی دائیں بازو کی فوجی حکومت کی امداد بند کی جائے۔ وہ حکومت جو عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس خط کے ایک ماہ بعد انتہائی دائیں بازو کے ایک ڈیتھ اسکواڈ نے اسے قتل کر دیا۔ جبکہ کارٹر نے وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے سلواڈور کی فوجی آمریت کی امداد میں مزید اضافہ کر دیا۔

ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکہ کے بانیوں میں شامل مائیکل ہیرینگٹن ان لوگوں میں سرفہرست تھا جو کارٹر کے بارے سب سے زیادہ غلط فہمی کا شکار رہے۔ 1976ء کے الیکشن کے موقع پر سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے پیٹر کیمیجو کے ساتھ ہونے والے ایک مشہور مباحثے میں ہیرینگٹن نے کارٹر کی حمایت کرتے ہوئے کہا: ’’…کارٹر کی جیت  سے محنت کش طبقے، خواتین اور جمہوری اصلاحات کی تحریک کے لیے سازگار حالات پیدا ہوں گے اور ہم مکمل روزگار، تمام لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہمی اور ایسے دیگر ایشوز کے حوالے سے کامیابیاں حاصل کر سکیں گے۔‘‘

لیکن پیدا ہونے والے حالات ہیرینگٹن کی پیش گوئیوں کے بالکل برعکس تھے۔ کارٹر کا دورِ حکومت ایک اہم موڑ تھا۔ جہاں سے مزاحمتی تحریکوں کے عروج کی بجائے دہائیوں پر مبنی پسپائی اور گراوٹ کے سفر کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ ایڈ برمیلا نے لکھا تھا، ’’کارٹر نے بعد از جنگ کے سیاسی و معاشی آرڈر کے زوال کا محض مشاہدہ نہیں کیا بلکہ اسے فعال انداز سے آگے بڑھایا۔‘‘

آج کے لبرل شاید کارٹر کو رعایت دینے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کے رجحان کا الزام ریگن اور ریپبلکن پارٹی پر عائد کرنے کے خواہشمند ہوں۔ لیکن اس راستے کو ہموار کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری کارٹر پر عائد ہوتی ہے۔