بابر پطرس

اکیسویں صدی اپنے آغاز سے ہی پُر انتشار رہی ہے۔ اس میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نام نہاد ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں عراق اور افعانستان پر چڑھائی، 2007-08ء کا مالیاتی کریش اور عالمی معاشی بحران، یونان کی انقلابی تحریک، عرب بہار کے انقلابات کا سلسلہ، کورونا وائرس کی وبا، ایک کے بعد دوسرے ملک میں عوام کی سرکشیاں، بغاوتیں اور خانہ جنگیاں، موسمیاتی بدلاﺅ کی شدت کے نتیجے میں سیلاب، طوفان، خشک سالیاں اور جنگلات کی آگ کے سلسلے، روس یوکرائن جنگ، شام کی خانہ جنگی، حماس اسرائیل تصادم ایسے تنازعات میں دسیوں ہزار بے گناہوں کی اموات سمیت بیشتر واقعات شامل ہیں۔ لیکن غور کریں تو ایسے تمام خونریز واقعات، انسانیت کو شرما دینے والے سانحات اور آفات کے پیچھے سرمائے کا شرح منافع اور توسیع پسندی پر مبنی متروک و غیر انسانی نظام ہی کھڑا نظر آتا ہے۔ جسے سرمایہ داری کہا جاتا ہے۔

کرہ ارض کا شاید ہی کوئی خطہ ہو جہاں غربت، افلاس، لاعلاجی، بےروزگاری کی ذلت اور رسوائی کے ہاتھوں تنگ عوام نے مختلف طریقوں سے اس نظام اور اس کے حواریوں کے خلاف نفرت کا اظہار نہ کیا ہو۔ کہیں براہ راست عوامی طاقت کے ذریعے حکمرانوں کے تخت الٹ دیے گئے تو کہیں ”تبدیلی“ کے نام پر ووٹ کے ذریعے روایتی اور مروجہ سیاسی پارٹیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ لیکن اس نظام کی حدود و قیود میں الیکشن لڑنے والے تو ”تبدیلی“ کے نعروں پر جیت جاتے ہیں۔ تاہم ان پر اعتماد کرنے والے خاک نشین ہارتے ہی ہیں۔

اب بدلتے حالات میں سامراجی ملکوں کا حکمران ٹولہ دنیا کو نئے بحرانات کی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس سلسلے میں قدیم مذہبی دیومالائی داستانوں پر مبنی اسرائیل کی قدیم یہودی ریاست کا نقشہ جاری کرنا عیاں کرتا ہے کہ (حماس اسرائیل جنگ بندی کے باوجود) مشرق وسطیٰ کا انتشار کہیں ختم ہونے والا نہیں ہے۔ یہ کسی ایک یا دوسری صورت میں جاری رہے گا۔ کیوں کہ اس کے پیچھے وسائل پر قبضے کی سامراجی مقابلہ بازی کارفرما ہے۔

اساطیری حوالوں سے دیکھا جائے تو کنعان کا علاقہ موجودہ اسرائیل، فلسطین ( فلسطین کی اصطلاح قدیم یونانی‘ کنعان کے ساحلی علاقوں کے لیے استعمال کرتے تھے)، لبنان، اردن اور شام وغیرہ پر مشتمل تھا۔ یہودیوں نے ان علاقوں پر بعد میں قبضہ کیا تھا۔ کنعان میں یہودیوں کی آباد کاری کے سلسلے میں کئی جنگیں ہوئیں جن میں مقامی آبادیوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ کچھ نے فرار کی راہ اختیار کی اور کچھ قبائل نے باہمی شراکت کے معاہدات کیے۔ یوں سارا کنعان (جسے ”گریٹر اسرائیل“ میں شامل کیا جاتا ہے) بھی یہودیوں کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ بہرصورت یہودی بھی بیرونی حملہ آور ہی تھے۔ اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو ایسی ہجرتوں اور آبادی کاری کی جنگوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ دنیا کی بیشتر قومیں یا نسلیں کسی نہ کسی تاریخی عہد میں کہیں سے ہجرت کر کے ہی اپنے موجودہ خطوں میں آباد ہوئی ہیں۔

لیکن ملکیت کا سوال اس وقت تک موجود رہے گا جب تک نجی ملکیت کے رشتوں پر مبنی طبقاتی نظام قائم ہے۔ یہ سرمایہ داری کی خباثت ہی ہے جو ماضی بعید کی دیومالائی داستانوں، مذہبی قصے کہانیوں اور قومی و نسلی برتری کے قدیم رجعتی خیالات کو کرید کرید کر اکیسویں صدی میں درآمد کرتی ہے اور انہیں سامراجی قبضہ گیری اور جنگوں کا جواز بناتی ہے۔ دھرتی کے سینے پر خونی لکیریں کھینچ کر قائم کی گئی قومی و جغرافیائی سرحدوں سمیت ایسی ہر طرح کی تقسیم کوئی ازلی اور ابدی حقیقت نہیں ہے۔ یہ زمین اور اس کے وسائل قدرت کا عطیہ ہیں۔ جسے انسان کی اجتماعی محنت نے ہی نسل در نسل ترقی دے کر موجودہ شکل بخشی ہے۔ اس طرح یہ نجی نہیں بلکہ اجتماعی اثاثہ ہے جس پر اقلیت کا قبضہ ہے۔ اس قبضے کی توسیع یا تشکیل نو کے لیے لڑی جانے والی جنگیں بھی، جنہیں ”قومی“ شکل دی جاتی ہے، محکوموں کی فلاح کے لیے ہرگز نہیں ہوتیں۔ بلکہ یہ حکمران اقلیت کے طبقاتی مفادات، ملکیت اور مراعات کی جنگیں ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا ایندھن محکوم طبقات کے لوگ ہی بنتے ہیں۔

اب ٹرمپ کی گرین لینڈ کو خریدنے کی باتیں، پاناما کینال پر قبضے کی دھمکیاں اور کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کے خیالات مستقبل میں نئے تنازعات کا اشارہ دے رہے ہیں۔ نئے اتحاد بنیں گے، نئی صف بندیاں ہوں گی اور نئے محاذ کھلیں گے۔ یہ محض کسی لاابالی طبیعت کے مالک منہ پھٹ انسان کا بیان بھی نہیں ہے۔ اگرچہ ایسی حرکتیں ٹرمپ اور حالیہ سالوں میں ابھرنے والے اس قبیل کے دوسرے سیاسی رہنماﺅں کا خاصہ ہیں۔ بلکہ یہ ایک زوال پذیر سامراج کی خود کو زیادہ ضد اور جارحیت سے دوبارہ مسلط کرنے کی نفسیات اور کوشش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد بھی امریکہ نے کینیڈا پر قبضہ کرنے کا ایک خفیہ منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کو ”وار پلان ریڈ“ کا نام دیا گیا تھا۔ اس پلان کا مقصد تھا کہ اگر برطانیہ‘ کینیڈا کے راستے امریکہ پر حملہ کرتا ہے تو کینیڈا پر قبضہ کر کے اسے پیچھے دھکیلا جا سکے۔ اگرچہ اس کی کبھی نوبت نہیں آئی لیکن تذویراتی نقطہ نظر سے کینیڈا‘ امریکہ کے لیے اہم رہا ہے۔

اسی طرح گرین لینڈ کا معاملہ ہے۔ اس میں بھی امریکہ و کینیڈا سمیت کئی فریقین موجود ہیں جن کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ چین نے 2013ء میں”آرکٹک سلک روڈ“ کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس حوالے سے چین نے روس کے تیل اور معدنیات کے منصوبوں میں بھی بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ آرکٹک یا پولر سلک روڈ کا چین اور روس کا مشترکہ منصوبہ 2018ء میں لانچ ہوا تھا۔ یہ راستہ ایشیا اور یورپ کے درمیان سفر کے دورانیے کو سویز کینال جیسے روایتی راستوں کے مقابلے میں کم کر دے گا۔ مثلاً اس سے چین اور یورپ کے درمیان شپنگ کا فاصلہ 40 فیصد تک کم ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کا پاناما کینال پر انحصار بھی کم ہو جائے گا۔ لیکن اس روٹ کے حوالے سے گرین لینڈ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ٹرمپ کی گرین لینڈ کو ”خریدنے“ کی باتوں کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار ٹرمپ 2019ء سے کرتا آ رہا ہے جب اس نے گرین لینڈ کی خریداری کو ”بڑی رئیل اسٹیٹ ڈِیل“ سے تشبیہ دی تھی۔ یاد رہے کہ آرکٹک (قطب شمالی) کے خطے میں سامراجیوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کی اہم وجہ وہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے برف کا پگھلاﺅ بھی ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں تجارتی راستوں اور معدنیات کی لوٹ مار کے نئے مواقع کھل سکتے ہیں۔

یوں ایک طرف پہلے سے مشرق وسطیٰ میں”گریٹر اسرائیل“ منصوبے کے تحت جاری خون ریزیاں ہیں اور اب ٹرمپ کے تحت چین اور روس سے امریکہ کا تضاد دنیا بھر میں مزید تنازعات کا راستہ کھول رہا ہے۔ اور اس سب کے سامنے اقوام متحدہ جیسے اداروں کا منافقت اور بے عملی پر مبنی مکروہ اور مجرمانہ کردار ہے۔

اس سیارے پر زندگی پہلے ہی اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔ گلوبل وارمنگ کی بدولت آرکٹک کی برف پگھل رہی ہے۔ لیکن انسانی ماس نوچنے والے گدھ شادیانے بجا رہے ہیں کہ تجارت کے لیے نئے اور کم فاصلوں کے راستے ابھر رہے ہیں اور قیمتی معدنیات و فاسل فیول کے ذخائر دریافت ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ ترقی کی طرف کوئی آگے کا قدم نہیں بلکہ زندگی کی بربادی کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن پھر مسلسل منافع حاصل کرنے اور بڑھاتے جانے کا پاگل پن‘ اجتماعی بقا کے نظرئیے کو چند اشتراکی کوچہ گردوں کا دماغی خلل کہہ کر رد کر دیتا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات ہرگز نہیں ہے۔ طبقات میں بٹے ہوئے سماج میں سرکاری طور پر ہر اس فکر، نظرئیے اور سوچ کو دبا دیا جاتا ہے جو سماج کے بالائی ڈھانچوں کے مفاد پر ضرب لگا کر نفرتوں سے پاک سماج کی تعمیر کی بات کرے۔ نظام زر کے ان ہوس پرستوں کے سامنے اجتماعی ترقی کا ہر حرف بے معنی ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ کے پہیے کو آگے گھمانے والی قوت کے حامل محنت کش طبقات‘ حکمرانوں کے ہر کھلواڑ اور انسان دشمن کردار کو اچھی طرح دیکھ رہے ہیں۔ وہ ہر عمل کا اپنی زندگی کی تلخ حقیقتوں کی روشنی میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تک برداشت کرتے ہیں۔ پھر دوسرے لمحے میں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز بھی ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ اپنا مقدر اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے تاریخ کے میدان میں اترتے ہیں اور انقلابات کے ذریعے نئے سماج کی تعمیر میں مگن ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے نئے وقت اور نئے عہد کا آغاز ہوتا ہے۔