انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ
اسرائیل آخرکار حماس کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچ گیا ہے جس کے تحت غزہ پر اس کے نسل کشی پر مبنی حالیہ حملے کے بعد پہلی جنگ بندی ہوئی ہے اور قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو چکا ہے۔ فلسطینی عوام نے بمباری کے خاتمے اور ایک ایسے معاہدے پر جشن منایا جسے وہ اپنی جرات مندانہ مزاحمت کی فتح سمجھتے ہیں۔ نیتن یاہو کو اپنے زیادہ انتہا پسند دائیں بازو کے اتحادیوں، جو اس معاہدے کو مسترد کر رہے ہیں، کی جانب سے احتجاج اور سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا صیہونی ریاست معاہدے کی تمام شرائط پر عمل درآمد کرتی ہے۔
غزہ میں پندرہ ماہ کی مسلسل بمباری کے بعد ہونی والی جنگ بندی کا خیر مقدم خاصے جوش و خروش اور خوشی سے کیا گیا ہے۔ اس بمباری میں 50 ہزار سے ایک لاکھ تک فلسطینی شہید ہوئے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ عملی طور پر پوری غزہ کی پٹی کو تباہ کر دیا گیا۔ 40 لاکھ فلسطینیوں کو بے گھری اور بھوک کا شکار بنا دیا گیا اور انہیں بری طرح سے دہشت اور تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ جنگ بندی کا یہ وقفہ اس لیے خوش آئند ہے کہ غزہ کے لوگ دوبارہ اکٹھا ہونے، اپنے پیاروں کو یاد کرنے اور ملبے میں سے جو کچھ بچایا جا سکتا ہے اسے بچانے کی کوشش کر سکیں گے۔ مزید برآں اتنی بربادیوں میں زندہ اور قائم رہنا بھی ایک انمول کامیابی ہے۔
اس کے برعکس اسرائیل میں کوئی جشن نہیں منایا گیا۔ وہاں بہت سے لوگ اس معاہدے کو شکست کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ کئی وزرا نے حکومت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ نیتن یاہو کے لیے یہ ایک پسپائی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے وعدے کے مطابق نہ تو ’’مکمل فتح‘‘ حاصل کر سکا نہ ہی حماس اور فلسطینی مزاحمت کو کچل سکا۔ بہرحال سب سے زیادہ خوشی اسرائیلی یرغمالیوں کے رشتہ داروں کو ہے۔ جنہیں اپنے پیاروں سے دوبارہ ملنے کی امید ہے۔
لیکن جنگ بندی اب بھی غیر مستحکم ہے اور غیر یقینی سے دوچار ہے۔ اعلان کردہ تین مراحل میں سے پہلا مرحلہ 19 جنوری کو شروع ہوا ہے۔ اس کے تحت چھ ہفتوں کے لیے تصادم اور حملوں کو روک دیا جائے گا جس دوران حماس 33 اسرائیلی یرغمالیوں جبکہ اسرائیل کئی سو فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔ اسرائیل کو اپنی افواج کو جزوی طور پر مشرق کی طرف واپس بلانا ہو گا اور فلسطینی پناہ گزینوں کو غزہ کے جنوب سے شمال کی طرف واپس جانے اور روزانہ 600 امدادی ٹرکوں کے غزہ میں داخلے کی اجازت دینا ہو گی۔
تاہم اسرائیل کی معاہدوں کی منظم خلاف ورزی کی پرانی عادت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جس دن اس معاہدے کا اعلان ہوا اسی دن اسرائیل نے اپنی بمباری تیز کر دی جس میں کم از کم 113 مزید فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ یہ معاہدہ اسرائیل کو کچھ مبہم صورتوں میں جنگی کاروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا حق بھی دیتا ہے۔ معاہدے میں صیہونی افواج کے جزوی انخلا کے حوالے سے بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہر چیز اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ صیہونی افواج نیتزاریم کوریڈور (جو غزہ کے جنوب اور شمال کو تقسیم کرتا ہے) اور مصری سرحد کا کنٹرول برقرار رکھیں گی۔ ظاہر ہے اس سے پناہ گزینوں کی واپسی اور امداد کی فراہمی میں مشکلات پیش آئیں گی۔
جنگ بندی معاہدے کے دوسرے اور تیسرے مراحل، جن میں غزہ کی پٹی سے اسرائیل کی مکمل واپسی اور تمام یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے، کو پہلے مرحلے کے دوران بعد کے مذاکرات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آئندہ چھ ہفتوں میں یہ جنگ بندی کس طرح آگے بڑھتی ہے۔ لیکن اسے مؤثر بنانے، فلسطینیوں کی نسل کشی کے تمام ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے، مغربی کنارے میں صیہونی آبادکاری کو روکنے اور صیہونی محاصرے کو مکمل شکست دینے کی جدوجہد ایجنڈے پر بدستور موجود ہے۔
سامراج کا کردار
امریکہ، قطر اور مصر کے زیر سرپرستی ہونے والا یہ معاہدہ اس الٹی میٹم کی عکاسی کرتا ہے جو اسرائیل کو ٹرمپ کی جانب سے دیا گیا۔ دراصل ٹرمپ اپنی حکومت کا آغاز غزہ کے تنازعے کو ختم کرنے کے وعدے کو پورا کرتے ہوئے کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد مشرق وسطیٰ کے بحران، جو شام میں حالیہ بغاوت کے ساتھ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، کو بے قابو ہونے سے روکنا اور قطر کیساتھ مفاہمت کے اس سلسلے کو بحال کرنا ہے جو 7 اکتوبر کو ٹوٹ گیا تھا۔
سامراجی طاقتیں اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ گزشتہ 15 مہینوں میں صیہونیت ایک بھاری نقصان اور گہرے زوال سے دوچار ہوئی ہے۔ اسرائیل کی ریاست دنیا کی آبادی کے بڑے حصوں کے سامنے اس قدر بے نقاب اور بدنام ہو چکی ہے جس کی مثال 76 سالہ صیہونی قبضے میں پہلے کہیں نہیں ملتی۔ اس سے خطے میں بطور سامراجی پولیس مین اسرائیلی ریاست کا کردار، جس مقصد کے لیے اسے بنیادی طور پر تخلیق کیا گیا تھا، کمزوری سے دوچار ہوا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ نیتن یاہو کو فلسطینیوں کی جنونی نسل کشی کا سلسلہ بند کرنا پڑا ہے۔
اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جرائم کے خلاف دنیا بھر میں عوامی تحریک نے زور پکڑا ہے۔ جس کے مراکز امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں موجود رہے ہیں۔ جہاں آبادی کے بڑے حصے نے پہلی بار اپنی ہمدردی فلسطین کے ساتھ ظاہر کی ہے۔ چنانچہ کئی حکومتوں کے لیے اسرائیل کو دی جانے والی حمایت کی قیمت پریشان حد تک بڑھتی جا رہی تھی۔
یہ دباؤ اتنا بڑھ چکا ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی حکام کے خلاف جنگی جرائم کے تحت گرفتاری کے احکامات تک جاری کرنے پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں ممالک فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ مثلاً سپین کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گی۔ اسی طرح کے اعلانات ناروے اور آئرلینڈ نے بھی کیے۔ سپین نے یورپ سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ اسی طرح برازیل کے صدر لولا نے موجودہ نسل کشی کا موازنہ ہٹلر کے جرائم سے کیا اور اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ یہاں تک کہ پوپ فرانسس نے بھی غزہ میں ’’نسل کشی کی خصوصیات کے حامل‘‘ اسرائیلی ’’ظلم‘‘ کی مذمت کی۔
دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ ٹنوں کے حساب سے بموں کی بوچھاڑ، غزہ پر خونریز قبضے اور امریکہ کی بھرپور مالی و فوجی امداد کے باوجود نیتن یاہو وہ بنیادی مقصد حاصل نہیں کر سکا جس کا وعدہ اس نے اسرائیلیوں سے کیا تھا۔ یعنی حماس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ۔ حتیٰ کہ وہ (جنگ کے ذریعے) اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی آزاد نہیں کروا سکا۔ اگر وہ اپنی جارحیت جاری بھی رکھتا تو خاطر خواہ نتائج کے امکانات موجود نہیں تھے۔
حماس اگرچہ واضح طور پر کمزور ہوئی ہے لیکن آخری کار اسرائیل کو اسی کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے مذاکرات کرنا پڑے۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ابھی بھی غزہ کی پٹی پر حماس کا کنٹرول موجود ہے۔
ایک سال سے زائد عرصے پر محیط یلغار کے باوجود بیان کردہ مقاصد کے حصول میں ناکامی اور بین الاقوامی دباؤ کے علاوہ نیتن یاہو پر ایک اضافی دباؤ یہ بھی تھا کہ اسرائیل کے اندر بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی حکومت اسرائیلی یرغمالیوں کو اپنے دوسرے مقاصد پر قربان کر رہی ہے۔
ان سب عوامل نے نیتن یاہو کو اس حد تک کمزور کر دیا کہ اسے اپنی پسند اور مرضی کے خلاف ایک معاہدے کو قبول کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں وہ پارلیمان میں بھی اکثریت کھونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
معاہدے کے لیے صیہونیت کے مرکزی پشت پناہ (امریکہ) کا دباؤ اس تاریخ سے بھی عیاں ہوتا ہے جو اس کے نفاذ کے لیے منتخب کی گئی: ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے ایک دن پہلے۔ امریکہ خطے میں عدم استحکام کے پھیلاؤ کو روکنا اور قطر سمیت عرب حکمران طبقات کی مدد سے مشرق وسطیٰ کے حالات کو ’’معمول‘‘ پر لانا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں عرب حکمرانوں کا مطالبہ ہے کہ نیتن یاہو کو روکا جائے اور فلسطینیوں کا بلا تفریق قتل عام بند کیا جائے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی سنجیدہ سمجھوتہ یا مفاہمت ممکن نہیں ہے۔
امریکی سامراج اگرچہ جنگ بندی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کھلی، واضح اور بڑے پیمانے کی ’’جنگ‘‘ کا خاتمہ چاہتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کے کالونیل منصوبے کو جاری رکھنے سے روکے گا۔ وہ بس یہ چاہتا ہے کہ یہ عمل ایک مبہم انداز، چھوٹے پیمانے اور کم رفتار سے جاری رہے۔
لیکن اسرائیل کے اندر انتہائی دائیں بازو کے حلقے مخالف سمت میں دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور راستوں کی بندش کے ماحول میں اسرائیلی کابینہ نے اس معاہدے کی منظوری دے تو دی ہے۔ لیکن اسے زیادہ فسطائی حلقوں کی جانب سے سخت مخالفت اور مزاحمت کا سامنا ہے۔ قومی سلامتی کے وزیر بن گویر اور اس کی پارٹی کے وزرا نے کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں حکومت پارلیمانی اکثریت کھونے سے صرف دو ارکان کی دوری پر کھڑی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ نیتن یاہو نے معاہدے کے پہلے مرحلے کے اختتام پر غزہ میں شدت سے دوبارہ جنگ شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ وزیر خزانہ سموترچ کو استعفیٰ دینے سے روکا جا سکے۔
فلسطینی مزاحمت
حماس اس معاہدے کو ایک بڑی فتح کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ 15 ماہ تک صیہونی محاصرے کا مقابلہ کرنا فلسطینی عوام کی جرات، بہادری اور مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ ان کے تعلق کو واضح کرتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس دوران حماس خاصی کمزور ہوئی ہے اور اپنے اہم رہنماؤں اور غزہ میں اپنے انفراسٹرکچر کے ایک بڑے حصہ سے محروم ہوئی ہے۔
اس کا اسرائیل کے خلاف ایران کی حمایت پر انحصار اور اعتماد ایک خوش فہمی اور خام خیالی ہی ثابت ہوا ہے۔ اور یہ پہلی بار ہے کہ اسے غزہ میں اپنی سماجی حمایت کا کچھ حصہ کھونا پڑا ہے۔ بہترین امکانی صورت یہ ہے کہ حالیہ معاہدہ صیہونی افواج کے مکمل انخلا پر منتج ہو۔ لیکن اس صورت میں بھی حالات 7 اکتوبر سے پہلے والی کیفیت کی طرف ہی واپس جائیں گے۔ لیکن ان میں 50 ہزار سے ایک لاکھ افراد کی ہلاکت اور بدترین تباہی و بربادی کیساتھ ساتھ ممکنہ طور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی دشمن غیر ملکی قوتوں کی اسیر حکومت بھی شامل ہو گی۔
گزشتہ مہینوں کی پیش رفتوں کے جمع حاصل میں صیہونیت کے ہاتھوں حزب اللہ کو پہنچنے والا بڑا نقصان بھی شامل ہے۔ وہ حزب اللہ جو خطے میں حماس کی واحد ٹھوس اور عملی مددگار رہی ہے۔ مزید برآں اس دوران شام میں اسد کی دوستانہ حکومت کے خاتمے سے ایران بھی بڑی کمزوری سے دوچار ہو چکا ہے۔
یہ سب کچھ اس بات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے کہ فلسطینی جنگجوؤں سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں یہ بحث شروع کی جائے کہ آنے والے وقت میں اس صیہونی درندے کے مقابلے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جانی چاہئے۔ وہ درندہ جو دوبارہ اپنی واردات اور (فلسطینی زمینوں کی) نوآبادکاری کے عمل کو جاری رکھنے کی پوری کوشش کرے گا۔
جدوجہد تیز ہو!
قطر اور خطے کی دیگر عرب حکومتیں امریکی حکمت عملی کی حمایتی ہیں اور اپنے سرمایہ دارانہ امور کے دوام کے لیے کچھ امن و سکون چاہتی ہیں۔ لیکن ان کے جبر سے دوچار محنت کش عوام کی کیفیت خاصی مختلف ہے۔ اور یہ محنت کش عوام ہی ہیں جو امن و آشتی کے راستے کی کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امن اسرائیل کی قاتل اور نسل کش ریاست کی شکست کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اور صرف عرب عوام کی انقلابی تحریک ہی اس قوت کی حامل ہو سکتی ہے جو اس وحشی درندے کو شکست دینے کے لیے درکار ہے۔
ہم خطے میں سوشلسٹ اور بائیں بازو کی طاقتوں سے از سرِ نو تنظیم و اتحاد کی اپیل کرتے ہیں۔ ہم اپیل کرتے ہیں کہ اس واحد دستور و لائحہ عمل سے مسلح ہو کے لڑا اور آگے بڑھا جائے جو عرب عوام کی مستقل اور دیرپا آزادی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ یہ سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام ہی ہے جس کے ذریعے مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ جمہوری ریاستوں کی رضاکارانہ فیڈریشن کے حصے کے طور پر ایک متحد، سیکولر، جمہوری اور سوشلسٹ فلسطین کا حصول ممکن ہے۔
جنگ بندی سے اسرائیلی ریاست کی قتل عام پر مبنی حکمت عملی کو دھچکا لگا ہے جبکہ فلسطینی عوام کو کچھ مہلت اور وقتی سکون میسر آیا ہے۔ لیکن اس معاہدے کی غیر مستحکم نوعیت کی وجہ سے مستقبل خاصی غیر یقینی سے دوچار ہے۔ صورتحال کے مزید واضح ہونے تک ہمیں دنیا بھر میں فلسطینی عوام کی حمایت کی جدوجہد تیز کرنا ہو گی۔