انعم اختر

دنیا بھر میں 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لیکن سامراجی سرمایہ داری اس دن کی مزاحتمی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی واردات میں مسلسل کوشاں رہتی ہے۔ مختلف برانڈز کی جانب سے ’’عورتوں کے دن‘‘ پر بڑی ڈسکاؤنٹس کے اعلانات کیے جاتے ہیں۔ خصوصی ٹی وی پروگرام نشر کیے جاتے ہیں اور مبارکبادیں دی جاتی ہیں۔ اس طرح بڑی عیاری سے محنت کش خواتین کے عالمی دن کے پیچھے کارفرما مزاحمت کو تاریخ کے پنوں سے کھرچتے ہوئے اسے محض ’’عورت کے دن‘‘ کے طور پیش پر کیا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح مزدوروں کے عالمی دن ’یوم مئی‘ کے ساتھ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس دن کا آغاز 1908ء میں نیو یارک کی ایک گارمنٹس فیکٹری کے اس احتجاج سے ہوا جب 15,000 کے قریب محنت کش خواتین نے بہتر اجرت، کام کے اوقات کار میں کمی اور ووٹ کے حق کا مطالبہ کیا۔ بعض مورخین کے مطابق اس دن کا انتخاب 1857ء کی اسی طرح کے مطالبات پر مبنی جدوجہد کی یاد میں کیا گیا تھا۔ 1909ء میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے گارمنٹس فیکٹری کی ان محنت کش خواتین کی جدوجہد کی یاد میں اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں 1910ء میں کوپن ہیگن میں ایک بین الاقوامی سوشلسٹ کانفرنس میں خواتین کی جفا کش مزاحمت کی یاد میں جرمن سوشلسٹ رہنما کلارا زیٹکن نے اس دن کو محنت کش خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کی تجویز دی۔ جس کو 17 ممالک کی مندوبین نے متفقہ طور پر منظور کیا۔

زار شاہی روس میں اسی دن 1917ء کو جنگ کے خاتمے اور روٹی کے حصول کے لیے خواتین کے احتجاج، جس نے 90,000 سے زائد لوگوں کو متحرک کیا، نے بالشویک انقلاب کی راہ ہموار کی۔ جس کے بعد 8 مارچ کو سوویت یونین میں قومی تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ 1977ء میں اقوام متحدہ نے اس دن کو باضابطہ طور پر خواتین کے حقوق اور عالمی امن کے دن کے طور پر تسلیم کر لیا۔ آج یہ دن دنیا بھر میں بائیں بازو کے رحجانات کی جانب سے خواتین کے حقوق، صنفی مساوات اور ان کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی آزادی کے مطالبات کو اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔

ہر سال خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد جدوجہد اور مزاحمت کی اس عظیم یاد کو زندہ رکھنا اور صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور ان کے خلاف ہونے والے مظالم کو منظر عام پر لانا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خواتین کے مسائل صرف صنفی بنیادوں پر نہیں بلکہ طبقاتی نظام کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ سرمایہ داری میں عورت کو دہری سطح پر استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں ایک طرف قدامت پرستانہ جکڑ بندیوں میں اسے گھریلو ذمہ داریوں تک محدود رکھا جاتا ہے یا کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ وہیں دوسری صورتوں میں عورت کو ایک جنس کے طور پر منڈی کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔

آج بحران زدہ سرمایہ داری میں دنیا بھر میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد، ہراسانی اور گھریلو تشدد میں مسلسل شدت آ رہی ہے۔ بھارت، پاکستان، امریکہ، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں جنسی بلادکار جیسے وحشیانہ جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جن میں زیادہ تر متاثرہ خواتین کو انصاف نہیں مل پاتا۔ بھارت کے شہر کلکتہ میں حال ہی میں ایک میڈیکل کالج کی 31 سالہ ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور قتل کے واقعے نے ایک بار پھر ہندوستانی سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی جنسی زیادتی کے واقعات سنگین شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جو معاشرتی اور قانونی دونوں سطحوں پر توجہ کے متقاضی ہیں۔ حالیہ برسوں میں بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے متعدد ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جنہوں نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ ایک رپوٹ کے مطابق صرف اوکاڑہ میں 2010ء سے 2018ء کے درمیان بچوں کے ساتھ زیادتی کے 238 مقدمات درج کیے گئے جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ سماج کے بحران کیساتھ خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کا مسئلہ کس حد تک شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے بہت سے واقعات سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ 

معاشی ناہمواری بھی خواتین کے استحصال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دنیا بھر میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ چاہے وہ ایک جیسا کام ہی کیوں نہ کر رہی ہوں۔ بے روزگاری کی شرح خواتین میں زیادہ ہے اور انہیں معیاری روزگار کے مواقع کم ہی ملتے ہیں۔ تعلیم اور ملازمت کے شعبے میں صنفی امتیاز ایک اہم مسئلہ ہے۔ کئی ممالک میں خواتین کو مردوں کے برابر تعلیمی اور پیشہ وارانہ مواقع ہی میسر نہیں آتے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو کم اہمیت دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی معاشی اور سماجی ترقی کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں۔ جو خواتین ملازمت حاصل کر لیتی ہیں انہیں بھی کام کی جگہ پر صنفی امتیاز اور کم تنخواہوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کو دہری ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جہاں وہ دفتر کے بعد بھی گھر کے تمام کاموں کی ذمہ دار بھی سمجھی جاتی ہیں۔ اس دباؤ کو وہ اکثر ظاہر نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ ان کی تھکن اور شکایات کو زیادہ تر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پھر تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر ہراسانی کا مسئلہ ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پھر اس لعنت کا قصور وار بھی خواتین کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

حالیہ عرصے میں پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے جنسی وحشت کے دہلا دینے والے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ لیکن بلوچستان، بہاولپور، لاہور اور سوات سمیت کئی یونیورسٹیوں کے یہ دیوہیکل سکینڈل منظر عام سے غائب کر دئیے گئے۔ ان کا خمیازہ بھی پھر آخر کار عورت ذات کو ہی بھگتنا پڑا ہے۔ پسماندہ سماجوں میں پہلے ہی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف رجعتی خیالات کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ پھر ایسے واقعات کے بعد تو والدین و وارثین بچیوں کے تعلیمی سلسلے کو ہی روک دیتے ہیں۔ مجرموں کو سزا دینے کی بجائے یہاں متاثرین کو ہی اجتماعی سزا سنا دی جاتی ہے۔ خواتین کے خلاف سائبر کرائم، دھمکیاں، بہتان تراشی اور آن لائن بلیک میلنگ بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے خواتین کی ہراسانی ایک معمول ہے۔

پاکستان، بھارت، افغانستان اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں خواتین کو گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور جبری شادی جیسے مسائل کا سامنا ہے اور قانونی نظام بھی اکثر متاثرین ہی کے خلاف ہوتا ہے۔ گھریلو تشدد اور جنسی جبر پر مبنی رویوں جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔ خواتین کو گھروں میں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن خوف، معاشرتی دباؤ اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ انصاف حاصل نہیں کر پاتیں۔ دفاتر، تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات پر انتہائی عورت دشمن قسم کے لمپن رویوں کی اجارہ داری مسلط ہے۔ جس کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ کئی خواتین اپنی امنگوں، تعلیم یا کیریئر کو صرف اس لیے ترک کر دیتی ہیں کیونکہ خاندان یا معاشرہ انہیں اجازت ہی نہیں دیتا۔ ان کے خواب، محبتیں اور پسند‘ ناپسند اکثر دوسروں کی خواہشات کے تحت دبا دی جاتی ہے۔

یہ وہ مسائل ہیں جن کا سامنا ہر روز کروڑوں خواتین کرتی ہیں۔ لیکن وہ انہیں کھل کر بیان نہیں کر پاتیں۔ کیونکہ ہمارے سماجی ماحول میں ان کے جذبات اور مشکلات کو یا تو تسلیم ہی نہیں جاتا یا کمتر سمجھا جاتا ہے۔

خواتین کو صحت کے حوالے سے بھی سنجیدہ چیلنجوں کا سامنا ہے۔ لیکن ان کی صحت کو بھی اہم نہیں سمجھا جاتا۔ پاکستان کی تقریباً نصف خواتین (بچیوں سمیت) آئرن کی کمی سے دوچار ہیں۔ جبکہ 70 فیصد تک حاملہ عورتیں اس کمی سے متاثرہ ہیں۔ جہاں کوکھ سوکھی ہو وہاں صحت مند زندگی کیسے پنپ سکتی ہے؟ ورلڈ بینک کے مطابق پانچ سال تک کی عمر کے 40 فیصد بچے نامکمل نشوونما (Stunted Growth) سے دوچار ہیں۔ جس کے جسمانی اور ذہنی پرورش پر مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منافع خوری کی غرض سے ملٹی نیشنل کمپنیاں ان سنجیدہ مسائل کے گرد اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے کروڑوں روپے صرف کرتی ہیں۔ لیکن اس کی بنیادی وجوہات (خوراک کی کمی، صحت کی سہولیات کا فقدان اور غربت) کے بارے کوئی بات نہیں کی جاتی۔ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی زچگی اور تولیدی صحت کی مناسب طبی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ خواتین کو حیض، حمل اور مینوپاز جیسے جسمانی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ جس کے نفسیاتی مضمرات بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان ایشوز پر کھل کر بات کرنا اب بھی کئی معاشروں میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور اضطراب جیسی بیماریاں بھی عام ہیں۔ لیکن انہیں اکثر ’’نخرے‘‘ یا ’’غیر ضروری پریشانیاں‘‘ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

سیاست میں بھی خواتین کی شمولیت محدود ہے۔ انتہائی قلیل مواقع کے باوجود جب وہ سیاست میں آتی بھی ہیں تو انہیں شدید مخالفت اور سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے نظریات یا عمل کی بجائے ان کی صنف اور کردار کو موضوع بنا دیا جاتا ہے۔ محنت کش طبقے کی پسی ہوئی عورت جب اس گھٹن زدہ سماج میں اپنی شناخت کی تلاش میں نکلتی ہے اور اس نظام کے رکھوالوں کے بنانے گئے ضابطوں سے ٹکراتی ہے تو صدیوں کے قوانین اور پسماندہ و بحران زدہ سرمایہ داری کی پروردہ سوچ سے اس کا تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ جس میں اسے ہر طرح سے توڑنے اور رسوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کا اظہار ہمیں کشمیر سے بلوچستان تک کی حالیہ مزاحمتی تحریکوں میں دیکھنے کو ملا ہے۔ لیکن ان حوصلہ شکن رجحانات کے باوجود نہ صرف اِس خطے بلکہ دنیا بھر میں خواتین نے انقلابی تحریکوں کے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ خواتین نے بیشتر صورتوں میں انقلابی تحریکوں کی شروعات کی ہے۔ چاہے وہ نو آبادیاتی تسلط کے خلاف جنگیں ہوں، محنت کشوں کے حقوق کی تحریکیں ہوں یا جدید دور میں آزادی اور سماجی انصاف کی جدوجہدیں۔ خواتین نے ایسی ہر طبقاتی لڑائی کے انتہائی کٹھن اور نازک مراحل میں اپنی استقامت اور جرات کا لوہا منوایا ہے۔ حالیہ سالوں میں ہم نے کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر محنت کش طبقے کو اپنے حقوق کی خاطر یکجا ہو کر سامراجی سرمایہ داری کے نظام کے خلاف لڑتے دیکھا ہے۔ جس میں خواتین اپنے طبقے کے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔ انہوں نے میدان میں ڈٹ کر سفاک حکومت اور نوآبادیاتی ریاست کو للکارا اور اکھاڑے گئے دھرنوں کو بحال کر کے تحریک میں نئی روح پھونک دی۔ محنت کش گھروں کی ان خواتین نے اپنے مزاحمت کار ساتھیوں اور عزیزوں کو محاذ جنگ پر بھیج کر ان کی کمک اور حوصلہ بننے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان میں وہ عام گھریلو خواتین بھی شامل تھیں جنہیں اس سماج نے کبھی چولھے چوکھے سے فرصت نہیں دی اور جن کی بے پناہ صلاحیتوں کو بنا پہچانے‘ بنا سراہے انہیں ادھورا اور کمتر انسان سمجھ لیا گیا۔ تاہم کشمیر کی تحریک نے ثابت کیا کہ شعور کو جھنجوڑ دینے والے واقعات سماج کو بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور فرسودہ روایات اور سوچوں کو بڑے پیمانے پر چیلنج کرنے لگتے ہیں۔ پختونخواہ میں پی ٹی ایم کی طرح بلوچستان کی قومی تحریک کے حالیہ مراحل میں بھی خواتین کا ناقابل فراموش کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جن کی تحریک میں نہ صرف شمولیت موجود ہے بلکہ وہ انتہائی جرات سے تحریک کی قیادت کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔

لیکن خواتین کا یہ کردار کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں بلکہ ایک عالمی حقیقت ہے۔ وہ نظریاتی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں انقلابی تحریکوں کا ہراول حصہ ہیں۔ ان کی قربانیاں اور جرات ہر اس جدوجہد کی میراث ہے جو ظلم، استحصال اور ناانصافی کے خلاف علم بغاوت بلند کرتی ہے۔

آج سرمایہ داری کے حکمران خود اس متروک اور بحران زدہ نظام کے ہر فریب اور منافقت کا پردہ چاک کر رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ داری کے عروج کے دنوں میں امن و آزادی اور جمہوریت کے جو خواب دکھائے گئے تھے آج کی بحرانی کیفیت میں وہ چکنا چور ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی خواتین سے وہ حقوق چھینے جا رہے ہیں جو دہائیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئے تھے۔ مثلاً امریکہ میں اسقاطِ حمل کا حق مسلسل محدود کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ اور اس سے ملتے جلتے فار رائٹ کے دوسرے رجحانات مغربی دنیا میں صنفی آزادیوں اور حقوق کی سلبی کا بے رحم ایجنڈا لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان عورت دشمن‘ غیر انسانی رحجانات کا قلع قمع محنت کشوں کی عالمی جڑت اور بغاوت سے ہی ممکن ہے۔ اس نظام کی حدود سے باہر سوچنا ہی آج کے وقتوں کی واحد عملی حقیقت ہے۔

خواتین کے استحصال اور مسائل کی وجہ مرد ذات نہیں۔ جیسا کہ عمومی لبرل بیانیہ اپنایا جاتا ہے۔ بلکہ بنیاد کارن طبقاتی جبر و استحصال پر مبنی یہ نظام ہے۔ مردانہ تسلط اور پدر شاہی پر مبنی سوچیں اور رجحانات‘ سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر پیداوار ہیں۔ جو محروموں و محکوموں کا بلا صنفی، مذہبی و لسانی تفریق استحصال کرتا ہے اور پدر سری معاشرے کو وہ بنیادیں فراہم کرتا ہے جس سے خواتین کا دہرا تہرا استحصال ممکن ہو پاتا ہے۔ اس لیے خواتین کی حقیقی آزادی بھی صرف اسی وقت ممکن ہے جب نجی ملکیت پر قائم اس سرمایہ داری کا خاتمہ ہو اور ایک سوشلسٹ معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لیے خواتین کو فوری نوعیت کے مطالبات اور حاصلات کی لڑائیاں جاری رکھنا پڑیں گی۔ اپنی جہدوجہد کو تسلسل اور بالغ سیاسی و طبقاتی شعور کیساتھ آگے بڑھانا ہو گا۔ برابر کی اجرت، تعلیم و ملازمت کے مساوی مواقع اور معاشی خود مختاری کے مطالبات کو ایجنڈے پر رکھنا ہو گا۔ تعلیمی اداروں، کام کی جگہوں اور گلیوں بازاروں میں جنسی ہراسانی کے خلاف ٹھوس پروگرام اور لائحہ عمل وضع کرنا ہو گا۔ صحت، تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی انسانی حقوق پر سرمایہ داری کے حملوں (نجکاری) کے خلاف مزاحمت کرنا ہو گی۔ خواتین کو فیصلہ سازی میں برابر کا حصہ دار بنانے کے لیے انقلابی سیاست کے میدان میں اترنا ہو گا۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان مسابقت کی بجائے مساوات اور تعاون کے نظرئیے کو فروغ دیتے ہوئے پدر سری نظام کے خاتمے کے لیے سماجی شعور میں تبدیلی لانا ہو گی۔ سب سے بڑھ کر بھرپور اعتماد اور بیباکی کے ساتھ ہر رجعتی حملے، دھمکی اور بدتمیزی کو جھٹکتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔

8 مارچ محض ایک دن نہیں بلکہ محنت کش خواتین کی جہدوجہد کا تسلسل ہے۔ وہ جدوجہد جو بنیادی طور پر محنت کشوں کی عالمی و تاریخی طبقاتی جدوجہد کے لازمی جزو کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کا خاتمہ نہیں ہوتا‘ صنفی مساوات کے نصب العین کا حصول بھی ممکن نہیں ہے۔ محنت کش مرد و خواتین کو اپنی آزادی و نجات کے لیے ایک ایسے معاشرے کا قیام عمل میں لانا ہو گا جہاں انسان بغیر کسی صنفی اور طبقاتی تفریق کے‘ مساوی حقوق اور مواقع کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔ ہمارے وقتوں میں یہ فریضہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔