طبقاتی جدوجہد

ہم اپنے قارئین کے لئے طبقاتی جدوجہد کی کانگریس 2025ء کی پہلی مجوزہ دستاویز ’’تاریخ کا نیا موڑ: ٹرمپ، بحران اور لبرل آرڈر کا زوال (عالمی صورتحال و پیش منظر 2025ء)‘‘ ٹیکسٹ اور پی ڈی ایف دونوں میں شائع کر رہے ہیں۔ پی ڈی ایف میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ دستاویز کا انگریزی ورژن پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔


’’بورژوازی وہ پہلا طبقہ ہے جس نے واضح کیا کہ انسان کیا کچھ کرنے کے قابل ہے۔ اس نے وہ معجزے پیش کیے جن کے مقابلے میں مصر کے اہرام، روم کی نہریں اور عظیم الشان گوتھک گرجے بھی ہیچ ہیں۔ اس نے وہ معرکے انجام دئیے جن کے سامنے گزری ہوئی تمام قوموں کی مہمات اور صلیبی جنگیں بھی ماند پڑ جائیں… بورژوازی نے اتنی بڑی اور دیوہیکل پیداواری قوتیں تخلیق کی ہیں جو پچھلی تمام نسلیں مل کے بھی نہ کر پائی تھیں… جدید سرمایہ دارانہ سماج نے گویا جادو کے زور سے پیداوار اور تبادلے کے دیوقامت ذرائع کھڑے کر دئیے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسا جادوگر ہے جو اب اپنی ہی بیدار کی ہوئی شیطانی طاقتوں کو قابو میں رکھنے سے قاصر ہے۔ صنعت و تجارت کی گزشتہ کئی دہائیوں کی تاریخ‘ ملکیت کے جدید رشتوں کے خلاف پیداواری قوتوں کی بغاوت کی تاریخ ہے۔ اس سلسلے میں ان تجارتی بحرانات کا ذکر ہی کافی ہے جو ہر کچھ عرصے بعد لوٹ کے آ تے ہیں اور سارے سرمایہ دارانہ سماج کے وجود کو پہلے سے بڑے خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان بحرانات میں ایک ایسی وبا پھوٹ پڑتی ہے جس کا تصور بھی پچھلے زمانوں میں محال تھا: زائد پیداوار کی وبا۔ کچھ وقت کے لئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ واپس بربریت کی حالت میں جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی قحط یا عالمگیر جنگ کی تباہ کاری نے انسانی بقا کے لئے ضروری ہر شے کی رسد بند کر دی ہے… لیکن کیوں؟ اس لئے کہ وسائل کی بہتات ہے۔ صنعت کی بہتات ہے۔ تجارت کی بہتات ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے کے پیداواری تعلقات کا دامن اتنا تنگ ہے کہ وہ خود اپنی پیدا کی ہوئی دولت کو سمونے اور سمیٹنے کے قابل نہیں ہیں۔ لیکن پھر بورژوازی ان بحرانات پر قابو کیسے پاتی ہے؟ ایک طرف نئی منڈیاں تسخیر کی جاتی ہیں۔ دوسری طرف پرانی منڈیوں کے استحصال میں مزید شدت لائی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اور بھی زیادہ وسیع اور تباہ کن بحرانات کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے اور ان پر قابو پانے کی گنجائش مزید کم کر دی جاتی ہے۔‘‘

کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز، کمیونسٹ مینی فیسٹو (1848ء)

 (1) یہ الفاظ آج اس سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل اور غور و فکر کے متقاضی ہیں جتنے تقریباً پونے دو سو سال قبل اپنی تحریر و اشاعت کے وقت تھے۔ یہ حقیقت ہر گزرتے دن کے ساتھ واضح ہو رہی ہے کہ نسل انسان ایک دوراہے پہ کھڑی ہے۔ جس کا ایک راستہ ناگزیر طور پر ایسی بربریت کی طرف جاتا ہے جو پیداوار، معیشت، معاشرت، سیاست و ثقافت سمیت تہذیب و تمدن کی گزشتہ کئی سو سال کی بے نظیر حاصلات بہت مختصر وقت میں مٹا کے رکھ سکتی ہے۔ اپنی ابتدائی شکلوں اور آثار کے ساتھ یہ بربریت ہر روز اپنا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔

 (2) دو عالمی جنگوں کے بعد گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی کے حالات نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ترقی یافتہ ترین سماجوں میں بھی سرمایہ دارانہ نظم و نسق اور تمدن کی بنیادیں اٹل اور مستقل نہیں ہیں۔ بحران کے حالات میں یہ معاشرے تیزی سے ٹوٹ پھوٹ، انتشار اور جنگ و جدل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ جبکہ پہلے سے غربت، پسماندگی اور عدم استحکام کے شکار پسماندہ یا نام نہاد ترقی پذیر معاشروں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

 (3) انسان جس بڑے پیمانے پر پیداوار اور کھپت آج کر رہا ہے‘ ماضی کی کوئی تہذیب اس کے عشر عشیر کی حامل بھی نہیں تھی۔ لیکن سرمایہ داری نے سائنس، ٹیکنالوجی اور پیداواری قوتوں کو جس تیزی سے ترقی دی ہے‘ اس کے پیدا کردہ بحرانات اسی قدر سنگین شکلوں میں انسان کے سامنے کھڑے ہیں۔

 (4) دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سرمایہ داری میں اتنے دیوہیکل‘ بلکہ ناقابل یقین پیمانے کی پیداوار کے اندر ایک محرومی، بقا کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اور بے یقینی پنہاں ہے۔ بنیادی طور پر یہ قلت کے بیچوں بیچ بہتات اور بہتات کے بیچوں بیچ قلت کا مظہر ہے۔ یہ تضاد بھی اس نظام کی حدود و قیود میں حل کرنا ممکن نہیں ہے۔

 (5) نسل انسان کو ایک کثیر جہتی بحران کا سامنا ہے۔ جس کی نئی جہتیں مسلسل سامنے آتی ہیں۔ گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحولیات کی بربادی ایک تباہ کن شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن بگڑ رہا ہے۔ جس کا ایک اظہار یوکرائن جنگ ہے لیکن جو اس سے کہیں زیادہ خونریز داخلی و خارجی تصادموں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

(6) 2008ء کے بعد بیشتر معیشتیں عملاً ایک جمود کا شکار ہیں۔ چند ایک استثنائی صورتوں کے علاوہ جہاں کچھ گروتھ ہو رہی ہے وہ کسی خاطر خواہ سماجی ثمرات سے عاری ہے۔ قرضوں کے بحران، معیارِ زندگی میں گراوٹ، آسٹیریٹی، مہنگائی اور چھانٹیوں وغیرہ جیسے عوامل کے تحت نہ صرف تیسری دنیا بلکہ ترقی یافتہ معاشرے بھی مسلسل ہیجان سے دو چار ہیں۔ مغرب کی ویلفیئر ریاست ایک بتدریج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جبکہ سابق نوآبادیاتی خطوں میں بہتر زندگی کے مواقع اس قدر مفتود ہوتے جا رہے ہیں کہ مغرب کی طرف قانونی و غیر قانونی ہجرت کا کبھی نہ دیکھا گیا سیلاب امڈ آیا ہے۔ ان حالات میں نسلی و مذہبی بنیاد پرستی کا ابھار اور اس سے جڑی شدت پسندی کی سیاست اور دہشت گردی وغیرہ بھی اسی بحران کی مختلف جہتیں یا پہلو ہیں۔

(7) ’تاریخ کا خاتمہ‘ ہو یا بین الاقوامی تناؤ اور اسلحہ سازی میں تخفیف کی باتیں‘ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سٹالنزم کے انہدام کے بعد سامراجی سرمایہ داری کے نمائندوں کے تمام وعدے اور دعوے اپنے الٹ میں بدلتے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر چھوٹی بڑی طاقتوں کے درمیان تناؤ کی شدت، سنگینی اور پیچیدگی آج سرد جنگ سے کہیں زیادہ ہے۔ معیشت اور معاشرت سمیت 2008ء کے بعد گلوبلائزیشن کا عمل پسپائی کا شکار ہوا ہے۔ قومی سرحدوں میں نرمی اور ممالک کو سیاسی و معاشی بلاکوں میں ضم کرنے کے لبرل خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ یورپی یونین میں مسلسل دراڑیں نمودار ہو رہی ہیں جبکہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ’نیٹو‘ گہرے تعطل سے دوچار ہو چکی ہے۔ آزاد منڈی ہر جگہ قدغنوں کی زد میں ہے اور تحفظاتی پالیسیوں (پروٹیکشنزم) کا دور دورہ ہے۔

(8) 2008ء کے مالیاتی کریش میں سے پھوٹنے والا معاشی بحران بنیادی طور پر سرمایہ داری کے انہی تضادات کی ناگزیر پیداوار تھا جو روزِ اول سے اس نظام کے بطن میں پنپتے رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کینیشینزم کا ابھار اور پھر نیولبرلزم کی یلغار وغیرہ بنیادی طور پر ان تضادات پر قابو پانے کی کوششوں کے ہی مختلف مراحل رہے ہیں۔ یہ تضادات اور ان سے نبرد آزما ہونے کی پالیسیاں زماں و مکاں کے مطابق مختلف شکلیں اور شدتیں اختیار کر سکتی ہیں۔ مسئلے کے اساس بہرصورت وہی ہے جس کی دریافت اور وضاحت مارکس نے کی تھی۔

(9) 2008ء کے بعد کے بحرانی دور میں ماضی کا ہر قاعدہ اور معمول تتر بتر ہو گیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سیاست، ریاست، سفارت اور معاشرت جن معاشی بنیادوں پر استوار تھی‘ وہ ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ اس کیفیت میں کسی زلزلے کی طرح سارا ’سپر سٹرکچر‘ ایک ارتعاش اور انہدام کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔ آج سرمایہ داری صرف معاشی اور سیاسی ہی نہیں‘ گہرے ثقافتی اور نظریاتی بحران کا شکار بھی ہو چکی ہے۔ جو اپنا ناگزیر اظہار پھر بورژوا قیادت کے بحران میں کر رہا ہے۔

(10) 2011ء کے بعد سے دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں، احتجاجوں اور بغاوتوں کے سلسلے، حکومتی بحرانات، دھڑن تختوں، خانہ جنگیوں، بائیں اور دائیں بازو کے نئے رجحانات کے ابھار اور سامراجی طاقتوں کے درمیان بڑھتے تناؤ وغیرہ جیسے عوامل کی وضاحت اسی طور سے کی جا سکتی ہے۔

 (11) پے درپے واقعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ یہ غیر معمولی تبدیلیوں کا نیا معمول ہے جس میں ٹرمپ کا دوسرا اقتدار کئی حوالوں سے ایک معیاری تبدیلی کا غماز ہے۔ جس نے سوویت یونین کے انہدام سے مماثل صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس کیفیت میں صورتحال کے درست ادراک سے غفلت‘ انقلابیوں کے لئے جرم بن جاتی ہے ۔

 (12) دوسری عالمی جنگ کے بعد استوار ہونے والا عالمی لبرل آرڈر اپنی تمام اقدار اور اداروں سمیت بحرانی حالات کی بھٹی میں پگھل رہا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اس بھٹی میں سے معیشت، سیاست اور معاشرت کی کیا نئی شکلیں برآمد ہو سکتی ہیں۔

 بیمار معیشت

 (13) لمبے عرصے میں سرمایہ داری کوئی متوازن نظام نہیں ہے۔ اس کا توازن مسلسل بگاڑ کا شکار رہتا ہے۔ یہ عمل سطح کے نیچے غیر محسوس انداز میں سالہا سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ لیکن بحرانی ادوار میں بہت واضح ہو کے سامنے آتا ہے۔ ان بحرانات سے نکلنے کے بعد ایک نئی سطح پر نیا توازن قائم ہوتا ہے۔ جہاں اس کے بگاڑ کا عمل ایک بلند تر پیمانے پر شروع ہو جاتا ہے۔

 (14) مارکسزم کے علاوہ کوئی فلسفہ اس قابل نہیں ہے کہ تاریخ کے ارتقا اور حرکت کی سائنسی وضاحت پیش کر سکے۔ چنانچہ لبرلزم اور بائیں بازو کی اصلاح پسندی جیسے رجحانات‘ تجزئیے کے میکانکی طریقہ کار کے تحت نئے ابھرنے والے مظاہر کی غیر تاریخی (Ahistorical) تشریح ہی پیش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ کار آخر کار عینیت پرستی کی طرف لے جاتا ہے۔ جس میں تاریخی پیش رفتوں یا واقعات کی قوت محرکہ بالعموم اہم شخصیات کی موضوعی خواہشات، سرکاری پالیسیوں یا ’اچانک‘ رونما ہونے والے حادثات کو قرار دے دیا جاتا ہے۔

 (15) ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ایک تاریخ دان کے لئے تاریخ کی روش یا اہم واقعات کو بیان کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ یہ واقعات آخر تب ہی کیوں رونما ہوئے اور تاریخ نے یہی روش کیوں اختیار کی (یعنی یہ واقعات اس سے پہلے یا بعد میں کیوں رونما نہ ہوئے اور تاریخ نے اس سے مختلف راستہ کیوں اختیار نہ کیا)۔ لیکن تاریخ کے علاوہ مارکسی طریقہ کار کا میتھڈ اور مطمع نظر حالات حاضرہ کے تجزئیے اور مستقبل کے امکانات کی نشاندہی کے حوالے سے بھی یہی ہوتا ہے۔

 (16) اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی کلاسیکی سیاسی معاشیات (Political Economy) ایک ابھرتی ہوئی بورژوازی کے دانشوروں کی جانب سے معاشی عوامل کے ادراک اور وضاحت کی ایک سنجیدہ کوشش تھی۔ اپنے تمام تر تضادات اور نقائص کے باوجود وہ قیمت کے ساتھ ساتھ ویلیو (قدر) کو ملحوظ خاطر رکھتی تھی۔ معیشت کو سماجی گروہوں یا طبقات کے تعامل پر مبنی سماجی عمل سمجھتی تھی اور اسے سیاست اور معاشرت کے ساتھ جوڑ کے دیکھتی تھی۔ مائیکرو اور میکرو اکانومی کو ایک فریم ورک میں رکھتی تھی اور اس کا بنیادی فوکس کھپت اور منڈی کے لین دین سے زیادہ پیداواری عمل پر تھا۔ اس سب کے پیچھے نشاۃ ثانیہ کی روشن خیالی اور جاگیر داری کے مقابلے میں سرمایہ داری کو ایک بہتر اور منصفانہ نظام کے طور پر پیش کرنے کی سعی بھی کارفرما تھی۔

 (17) مارکس نے بنیادی طور پر بورژوازی کے اسی علم کا تنقیدی جائزہ پیش کیا۔ جدلیاتی اپروچ کے ذریعے اس کے تضادات واضح کیے اور معیشت کے تجزئیے و وضاحت کا وہ مربوط فریم ورک پیش کیا جسے مارکسی معاشی تھیوری بھی کہا جاتا ہے۔

 (18) بیسویں صدی میں کلاسیکی سیاسی معیشت کی جگہ بتدریج وہ معاشی علم لیتا گیا جسے آج ہم ’اکنامکس‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے اپنے وقت میں ’اکنامکس‘ کے رجحانات کو بجا طور پر بیہودہ، عامیانہ یا ’ولگر‘ معاشیات کے زمرے میں رکھا تھا۔ لیکن آج یونیورسٹیوں کالجوں میں جو اکنامکس پڑھائی جاتی ہے اس کی بیہودگی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ گزشتہ کچھ دہائیوں میں یہ ایک علم سے زیادہ سرمایہ داری کے جواز کے پروپیگنڈا کا اوزار بن چکی ہے۔ جس کا مقصد حقائق کو جھٹلانا اور غیر منطقی بنیادوں پر نوجوانوں کی ذہن سازی کرنا ہے۔

 (19) پولیٹیکل اکانومی سے اکنامکس کی طرف مراجعت کے عمل میں ایک بار پھر بورژوازی کی اپنی ہیئت اور سماجی کردار میں تبدیلی، پیداواری عمل سے فرار، آزاد منڈی کے مقابلے کی بجائے بڑی اجارہ داریوں کے تسلط اور معیشت پر مالیاتی سٹہ بازی اور ’رینٹ سیکنگ‘جیسے غیر پیداواری رجحانات کے غالب آ جانے کے عوامل کارفرما ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک نظام کی نظریاتی شکست خوردگی اور زوال پذیری ہے۔ جو خود اپنی معیشت کا سنجیدہ تجزیہ کرنے سے عاری ہے۔ یا شاید اپنے مکروہ کردار، تاریخی متروکیت اور تلخ حقائق کے آشکار ہو جانے کے ڈر سے کرنا ہی نہیں چاہتا۔

 (20) نوبل انعام یافتہ معیشت دان پال کروگ مین نے 2008ء کے معاشی کریش کے تناظر میں کہا تھا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں میکرواکنامکس میں جتنا بھی کام ہوا ہے وہ اپنی بہترین صورتوں میں بیکار اور بدترین صورتوں میں نقصان دہ رہا ہے۔ اس ایک بات سے جہاں نیو لبرلزم کی نو کلاسیکی معاشیات (Neo Classical Economics) کا دیوالیہ پن واضح ہوتا ہے وہاں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سرمائے کے زیادہ ذہین اور سنجیدہ پالیسی ساز خود اپنے مین سٹریم علوم اور نظریات پر یقین نہیں رکھتے۔ ان میں سے بیشتر نہیں تو بہت سے لوگ عملی تجربات اور شواہد کی روشنی میں آخر کار انہی نتائج پر پہنچتے ہیں جو نظریاتی طور پر مارکس وادیوں نے اخذ کیے ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ کائنات کو سرمایہ داری کی حدود و قیود سے باہر دیکھنے کی اہلیت سے معذور ہوتے ہیں‘ لہٰذا آخر کار دائیں یا بائیں بازو کی اصلاح پسندی میں واپس غرق ہو جاتے ہیں۔

 (21) معاشی حقائق اپنا زوردار اظہار آخر کار سیاست میں کر کے رہتے ہیں۔ معیشت کی حالت ہی بالآخر سیاست کی طرز کا فیصلہ کرتی ہے۔ دنیا میں گزشتہ تقریباً ڈھائی دہائیوں کی سیاسی و سفارتی اتھل پتھل کی سائنسی وضاحت انہی بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔ بصورت دیگر ایسی توجیہات ہی باقی بچتی ہیں کہ لوگوں کی سوچ میں بلاوجہ اور ’اچانک‘ کوئی تبدیلی رونما ہوتی ہے جس کے تحت وہ انقلاب کے راستے پر چل نکلتے ہیں یا نسل پرست بن کے انتہائی دائیں بازو (فار رائٹ) کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔ یا پھر یہ کہ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگ اچانک کہیں سے وارد ہو کے‘ لوگوں کو گمراہ کر کے اقتدار پر براجمان ہو جاتے ہیں۔

 (22) حادثہ لمبے عرصے سے چلی آ رہی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے اور ’ضرورت‘ کے ادراک کے لئے اس عمل(پراسیس) یا عوامل کو سمجھنا لازم ہو جاتا ہے جو طویل عرصوں تک غیر محسوس انداز میں جاری رہتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک تسلسل میں سرمایہ داری کی معیشت کا جائزہ ضروری ہو جاتا ہے۔

 (23) سرمایہ داری کی جنم بھومی مغرب سے ہی شروع کریں تو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے تمام اہم واقعات اور مراحل کی وضاحت منڈی کی معیشت کی طویل مدتی زوال پذیری (Secular Decline) کو مدنظر رکھنے سے ہی ممکن ہے۔ سامراجی سرمایہ داری کی پالیسی میں آنے والی تمام تبدیلیاں (Shifts) بنیادی طور پر اس تنزل کو الٹنے یا کم از کم روکنے کی کوششوں پر مبنی رہی ہیں۔

 (24) دوسری عالمی جنگ نے بڑے پیمانے کی وار اکانومی (جنگی معیشت) اور بے نظیر بربادی کے ذریعے سرمایہ داری کو نئی زندگی تو دی تھی لیکن بنیادی تضادات بدستور موجود اور سرگرمِ عمل رہے۔ اس حوالے سے بعد از جنگ معیشت کی نمو کی شرح (گروتھ ریٹ) کا جائزہ بہت کچھ واضح کر دیتا ہے۔ مثلاً امریکی معیشت کی شرح نمو جو 1945ء سے 1973ء تک ’سرمایہ داری کے سنہری دور‘ میں اوسطاً 4 فیصد رہی‘ 1973ء سے 2000ء کے عرصے میں گر کے 3 فیصد اور 2000ء سے 2020ء کے درمیان مزید گراوٹ کے ساتھ تقریباً 2 فیصد ہو گئی۔ اس وقت یہ گروتھ ریٹ 1.5 فیصد سے 2 فیصد کے درمیان جھول رہا ہے۔

 (25) ایک اور انداز سے جائزہ لیں تو گزشتہ 15 سالوں کے دوران‘ اس سے پہلے کے 25 سال کی نسبت امریکی معیشت کی اوسط شرح نمو میں 40 فیصد سے زائد کمی آئی ہے۔

 (26) مغربی یورپ کے بڑی معیشتوں کی شرح نمو بھی 1950ء سے 1973ء کے درمیان کے اوسطاً 5 .5 فیصد سے 1990ء کی دہائی میں 3 فیصد تک گری۔ 2008ء تک یہ گروتھ ریٹ 2 فیصد کے آس پاس منڈلاتا رہا۔ 2008ء کے بعد مزید سست روی نظر آتی ہے۔ جبکہ 2020ء کے کووڈ بحران کے بعد سے یہ معیشتیں بمشکل 1 فیصد کی شرح نمو حاصل کر پا رہی ہیں۔

 (27) کم و بیش یہی صورتحال جاپانی معیشت کی ہے۔ جو 1973ء تک 8 سے 10 فیصد کی شرح سے نمو پا رہی تھی۔ 2008ء کے بعد سے یہ شرح صفر سے بمشکل ہی اوپر جا پاتی ہے۔

 (28) آئیے اِس کیفیت کو 2008ء سے پہلے اور بعد کے تناظر میں نسبتاً آسان انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ہم 2008ء کے سال کو نکال کے کچھ اہم معیشتوں کے حوالے سے 1993ء تا 2007ء تک کے پندرہ سالوں کا موازنہ 2009ء تا 2023ء تک کے پندرہ سالوں سے کریں تو اوسط گروتھ ریٹ (شرح نمو) میں گراوٹ کچھ یوں سامنے آتی ہے:

 جرمنی: 1.4 فیصد سے کم ہو کے 0.9 فیصد۔ فرانس: 2 فیصد سے 0.9 فیصد۔ برطانیہ: 2.7 فیصد سے 1.2 فیصد۔ تمام یورو زون: 2 فیصد سے 0.9 فیصد۔ جاپان: 1 فیصد سے 0.4 فیصد۔ امریکہ: 3 فیصد سے 2 فیصد۔ عرب دنیا: 4.4 فیصد سے 2.5 فیصد۔

 (29) اسی ٹائم فریم میں کل عالمی معیشت کی اوسط شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہو کے 2.6 پر آ گئی ہے۔

 (30) تجزئیے کے وقت کو اگر ماضی میں مزید پھیلائیں تو شرح نمو میں گراوٹ کا رجحان مزید واضح ہو جاتا ہے۔ بہرحال مذکورہ بالا تمام صورتوں میں 2008ء کے بعد معاشی ترقی کی شرح‘ پہلے کی نسبت سے واضح طور پر کم ہے اور کئی صورتوں میں عملاً جمود کے زمرے میں آتی ہے۔

 (31) یہ بنیادی طور ایک طویل عرصے پر مشتمل دیوہیکل سست روی (Great Slowdown) ہے۔ لیکن اس زوال یا جمود کی وضاحت جن عوامل کی بنیاد پر کی جاتی ہے (معیشتوں کا ’میچور‘ہو جانا، قرضوں میں اضافہ اور مالیاتی گنجائش کا سکڑ جانا، آبادیوں میں کمی، بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ، معاشی ناہمواری، پیداواریت (Productivity) میں اضافے کی شرح میں گراوٹ وغیرہ) وہ خود وضاحت کے متقاضی بن جاتے ہیں۔ یعنی یہ جواب مزید سوالات کھڑے کر دیتے ہیں۔ شرح نمو کی اس گراوٹ کو جیسے اور جتنا مرضی ’فطری‘ قرار دیا جائے‘ یہ بہرصورت سرمایہ داری کے لئے سنگین مسئلہ ہے۔

 (32) کووڈ بحران سے وقتی بحالی کے بعد حالیہ سالوں میں اِن معیشتوں کی حالت مزید پتلی ہو گئی ہے۔ یورپ کی بات کریں تو 2023ء میں آئر لینڈ، ہنگری، آسٹریا، جرمنی اور سویڈن جیسی معیشتیں بڑھنے کی بجائے سکڑنے کی طرف گئیں۔ ناروے، پولینڈ، ہالینڈ اور برطانیہ وغیرہ کی شرح نمو صفر سے بمشکل ہی اوپر رہی ہے۔ سوئٹزلینڈ اور اٹلی کی معاشی نمو 1 فیصد کی شرح سے نیچے رہی ہے جبکہ فرانس بمشکل ہی 1 فیصد تک پہنچ پایا ہے۔ مجموعی طور پر یورپی یونین کا گروتھ ریٹ صرف 0.4 فیصد رہا ہے۔

 (33) آسٹریا 2024ء میں بھی معاشی سکڑاؤ سے دو چار رہا۔ آئر لینڈ اور ہنگری کے گروتھ ریٹ صفر سے بمشکل ہی اوپر تھے۔ جبکہ سویڈن اور بیلجئم بمشکل 1 فیصد تک پہنچ پائے۔ برطانیہ کی معیشت 2024ء میں بھی 1 فیصد شرح نمو تک نہیں پہنچ سکی۔ جبکہ فرانس کی کیفیت کم و بیش 2023ء والی ہی رہی (1 فیصد سے بمشکل اوپر)۔ 2024ء میں یورپی یونین کا مجموعی گروتھ ریٹ معمولی ’’بہتری‘‘ کیساتھ 1 فیصد رہا۔

 (34) جرمنی کو یورپ کا معاشی پاور ہاؤس سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یورپ کی یہ سب سے بڑی معیشت گزشتہ تین سالوں سے گہرے بحران سے دوچار ہے اور گزشتہ دو سالوں میں متواتر سکڑی ہے (2023ء میں 0.3 فیصد جبکہ 2024ء میں 0.2 فیصد سکڑاؤ)۔

 (35) گزشتہ دو سالوں کے دوران کینیڈا کا گروتھ ریٹ بھی ایک سے ڈیڑھ فیصد کے آس پاس ہی منڈلاتا رہا ہے۔

 (36) لیکن اس صورتحال کا تجزیہ فی کس جی ڈی پی (آسان الفاظ میں ’اوسط فی کس آمدن‘) کی شرح نمو کے حوالے سے کرنا بھی ضروری ہے۔ جس سے ترقی یافتہ معیشتوں کی زوال پذیری مزید واضح ہو جاتی ہے۔ اگر ہم لبرل دنیا کی سات بڑی صنعتی معیشتوں (G7) کو لیں تو 2019ء سے 2023ء کے درمیان برطانیہ، کینیڈا اور جرمنی کے فی کس جی ڈی پی میں بالترتیب 1.8 فیصد، 1.4 فیصد اور 0.5 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس دوران فرانس کے فی کس جی ڈی پی میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ جاپان اور اٹلی کے فی کس جی ڈی میں بالترتیب 2.1 فیصد اور 3.4فیصد کا معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اس عرصے کے دوران مذکورہ گروہ میں صرف امریکہ کے فی کس جی ڈی پی کی 5.2 فیصد نمو کو کسی حد تک بہتر یا تسلی بخش قرار دیا جا سکتا ہے (امریکی معیشت کا مزید تجزیہ نیچے کیا گیا ہے)۔

 (37) یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ شرح نمو میں گراوٹ پیداواریت، نجی و سرکاری سرمایہ کاری، سرکاری آمدن، قرضے واپس کرنے کی صلاحیت، انفراسٹرکچر کی تعمیر، روزگار کے مواقع اور معیار زندگی وغیرہ پر منفی اثرات ڈالتی ہے۔ درحقیقت ان سارے عوامل میں جدلیاتی تعلق پایا جاتا ہے اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم گروتھ ریٹ معیشت کی حالت کا ایک مجتمع شدہ شکل میں اظہار کرتا ہے اور اس میں کمی ناگزیر طور پر سیاسی و سماجی استحکام میں خلل ڈالتی ہے۔

 (38) حالیہ عرصے میں امریکہ کو ترقی کے حوالے سے ایک ’استثنائی‘ نوعیت کی معیشت قرار دیا جا رہا ہے جو اپنی ہم پلہ معیشتوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مثلاً 2023ء اور 2024ء میں اس نے بالترتیب 2.9 اور 2.8 فیصد کی شرح نمو دکھائی ہے جبکہ کووڈ بحران کے بعد سے مجموعی ترقی کی شرح تقریباً 11 فیصد بنتی ہے۔ لیکن اوپر پیش کیے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو اس تجزئیے کا نقص بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جن ترقی یافتہ ممالک سے امریکہ کا موازنہ کیا جاتا ہے ان کی اپنی حالت اتنی خراب ہے کہ امریکی معیشت بہتر نظر آتی ہے۔

 (39) درحقیقت دوسری ترقی یافتہ معیشتوں کی طرح امریکی معیشت بھی ایک طویل عرصے کے بحران کا شکار ہے۔ جس میں 2008ء کے بعد شدت آئی ہے۔ 2008ء کے بعد سے امریکی معیشت کا اوسط گروتھ ریٹ 2 فیصد سے کم ہی رہا ہے۔ پیداواریت اور پیداواری سرمایہ کاری کی شرح نمو بھی کمی کا شکار ہے۔ 2025ء میں امریکی معیشت کی شرح نمو کا ابتدائی تخمینہ بھی صرف 1.9 فیصد لگایا گیا تھا۔ تاہم اب ٹرمپ کے آنے کے بعد کساد بازاری اور معاشی سکڑاؤ کی باتیں ہو رہی ہیں۔

 (40) بہرحال گزشتہ سالوں میں امریکہ کی نسبتاً بہتر اقتصادی ترقی کے پیچھے اہم کردار امیگریشن کا بھی رہا ہے۔ جس سے لیبر فورس اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔

 (41) یہ بات اہم ہے کہ بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مغرب ممالک کی ترقی میں تارکین وطن (Immigrants) کا بہت اہم حصہ رہا ہے۔ یہ سامراجی ممالک کسی رحم یا انسان دوستی کے جذبے کے تحت تارکین وطن کو پناہ (بشمول طلبہ کے وظیفے، سٹڈی ویزے، ورک پرمٹ، ریزیڈنسی، شہریت وغیرہ) نہیں دیتے ہیں بلکہ اس کے پیچھے ٹھوس معاشی مفادات کارفرما ہوتے ہیں۔

 (42) بنیادی طور پر ان کا مطمع نظر یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے ذہین، ماہر اور ذہنی و جسمانی طور پر صحتمند ترین انسانوں کو اٹھا کے اپنے ممالک میں بسایا جائے۔ جس کے دوررس اقتصادی ثمرات ملتے ہیں۔ حتیٰ کہ غیر قانونی ہجرت بھی ان کی معیشتوں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہے۔

 (43) اس قانونی و غیر قانونی ہجرت سے انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کے جدید ترین شعبوں سے لے کر انتہائی حقیر سمجھے جانے والے کاموں تک کے لئے لیبر میسر آتی ہے۔ جو ان کی لیبر مارکیٹ کے خلا پرُ کرنے کے ساتھ ساتھ اجرتوں کو دبانے یا کنٹرول میں رکھنے کا موقع بھی دیتی ہے۔ لیبر فورس میں اضافے سے ان ریاستوں کی ٹیکس آمدن بھی بڑھتی ہے۔ حتیٰ کہ غیر قانونی تارکین کو بھی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر ٹھیک ٹھاک ٹیکس دینے پڑتے ہیں۔

 (44) مہاجرین کے ساتھ نئے علوم، ہنر اور کاروبار ان ممالک میں آتے ہیں۔ غیر ملکی طلبہ ان کی تعلیمی صنعت کو منافع بخش بناتے ہیں اور سائنس، تکنیک، سماجی سائنس اور ادب وغیرہ کے شعبہ جات میں ان طلبہ کی بیش قیمت ریسرچ نئی ایجادات ا ور دریافتوں وغیرہ کیساتھ منافع خوری و معاشی ترقی کے نئے مواقع کی راہ ہموار کرتی ہے۔

 (45) کوریا، جاپان اور ترقی یافتہ مغرب کے نوجوانوں میں شادی اور بچے پیدا کرنے سے گریز جیسے رجحانات (جو سرمایہ داری کے بحران کیساتھ ہی جڑے ہیں) کی وجہ سے آبادیوں میں کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور بوڑھے افراد کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں اوسط عمر میں اضافہ بھی ایک ’’مسئلہ‘‘ بنتا جا رہا ہے۔ کیونکہ ریٹائرڈ لوگوں کو پنشن اور دیکھ بھال وغیرہ کی سہولیات دینی پڑتی ہیں۔ جن کے اخراجات بحران زدہ سرمایہ داری اٹھانے سے قاصر ہو رہی ہے۔ لہٰذا ان عوامل کی وجہ سے بھی گزشتہ عرصے میں کئی ممالک کو امیگریشن اور طویل المدت ویزا کی پالیسیوں میں نرمی کا کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا ہے۔

 (46) اس ساری صورتحال کو مد نظر رکھیں تو حالیہ سالوں میں ابھرنے والے فار رائٹ کی امیگریشن مخالفت اور نسل پرستی کی سیاست کی نامعقولیت اور کھوکھلا پن مزید واضح ہو جاتا ہے۔ ایسے رجحانات کے بیشتر رہنما خود بھی مذکورہ بالا حقائق سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ لیکن بحران کے حالات میں ترقی یافتہ خطوں کی مہاجرین کو جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور نسلی تعصب اور تضاد کے رجحانات کا ابھار ناگزیر ہو جاتا ہے۔

 (47) اس حوالے سے دیکھیں تو امریکہ‘ ہجرت سے فائدہ اٹھانے والے ممالک میں سر فہرست نظر آتا ہے (بلکہ ایک طرح سے ملک ہی مہاجرین کا ہے)۔ ان تارکین وطن کا دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کی بے نظیر ترقی میں کلیدی کردار رہا ہے۔ مثلاً امریکہ میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے جڑے ہر چار میں سے ایک کاروبار کی شروعات کوئی امیگرنٹ (غیر مقامی انسان جو امریکہ میں پیدا نہیں ہوا) کرتا ہے۔ نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی سے جڑی پیش رفتوں اور ایجادات کے گڑھ کی حیثیت رکھنے والی’سلیکان ویلی‘ میں تو یہ شرح 50 فیصد تک ہے۔ اسی طرح عام نوعیت کے چھوٹے کاروباروں کو شروع کرنے کا رجحان بھی مقامی آبادی کی نسبت مہاجرین میں دگنا ہے۔

 (48) یوں اپنی ہم پلہ معیشتوں کی نسبت امریکہ کی کسی قدر بہتر معاشی صورتحال کے پیچھے امیگریشن ایک بنیادی عامل کے طور پر موجود ہے۔ لیکن ٹرمپ جیسے لوگوں کی جانب سے تارکین وطن کی تعداد کو بہت بڑھا چڑھا کے ایک خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ زمینی حقائق ان کی نفی کرتے ہیں۔ امریکہ میں غیر قانونی مہاجرین کی تعداد آج بھی کم و بیش اتنی ہی ہے جتنی دو دہائیاں پہلے تھی۔

 (49) بہرحال اگر تھوڑی گہرائی میں مشاہدہ کریں تو معاشی و سماجی حوالے سے امریکہ کی حالت اتنی اچھی نہیں ہے جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ وگرنہ ٹرمپ آج اقتدار میں نہ ہوتا۔

 (50) مسئلہ یہ بھی ہے کہ معیشت کی اِس نسبتاً بہتر کارکردگی کے ثمرات بھی بیشتر عام امریکی شہریوں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کئی وجوہات کارفرما ہیں۔ جن میں سب سے اہم شاید معاشی ناہمواری یا عدم مساوات ہے۔ مثلاً آمدن کی ناہمواری کے لحاظ امریکہ اس وقت جی سیون (G7) ممالک میں سر فہرست ہے۔ امریکہ میں رہائش بھی ان ممالک کی نسبت بہت مہنگی ہے۔ جبکہ اوسط عمر سب سے کم ہے۔

 (51) دوسری عالمی جنگ کے بعد سے عام امریکی شہریوں کی آمدن میں اضافے کی شرح کم سے کم ہوتی گئی ہے۔ 2008ء کے بعد سے اس میں محض 0.9 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔

 (52) افراطِ زر کو مد نظر رکھیں تو ایک عام امریکی محنت کش کی فی گھنٹہ حقیقی اجرت کم و بیش 1979ء کی سطح پر ہی کھڑی ہے۔ جبکہ اس دوران پیداواریت میں کم از کم تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

 (53) اقتصادی ترقی کی باتوں اور عوام کی اصل حالت زار میں تفاوت کی ایک اور وجہ اِس ترقی یا گروتھ کی کمتر ’کوالٹی‘ بھی ہے۔ 1980ء میں نیولبرلزم کی یلغار کے بعد سے معیشت میں غیر پیداواری شعبوں کا کردار بڑھتا چلا گیا ہے۔ ان میں مالیات، رئیل اسٹیٹ، سٹاک مارکیٹ وغیرہ شامل ہیں جن کا حقیقی پیداواری معیشت سے تعلق زیادہ سے زیادہ بالواسطہ ہی ہوتا ہے۔ لیکن ان کے بوم کے اشاریوں کو ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان شعبوں میں تیزی سے جی ڈی پی کی نمو کا اشاریہ بڑھتا بھی ہے تو یہ زیادہ تر بے ثمر ترقی (Joyless Boom) ہوتی ہے۔

 (54) مثلاً 2023ء میں امریکی جی ڈی پی میں فنانس، انشورنس، رئیل اسٹیٹ اور رینٹل اور لیزنگ سرگرمیوں کا حصہ 20 فیصد سے زیادہ تھا۔ اس کے مقابلے میں مینوفیکچرنگ کا حصہ صرف 10 فیصد جبکہ زراعت سے وابستہ سرگرمیوں کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم تھا۔ ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا غیر پیداواری شعبوں کی ترقی، جو بنیادی طور پر کم مدتی سرمایہ کاری، سٹہ بازی اور تیز منافع خوری وغیرہ پر مبنی ہوتی ہے، عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی خاطر خواہ بہتری لانے سے عاری ہوتی ہے۔

 (55) یہ مسئلہ صرف امریکہ کا نہیں بلکہ نیولبرل طرز پر استوار تمام معیشتوں، جنہیں واشنگٹن اتفاقِ رائے (Washington Consensus) کی معیشتیں بھی کہا جاتا ہے، کی یہی کیفیت ہے۔ ان میں سب سے اہم مثال ہندوستان کی ہے۔ جس کی اقتصادی گروتھ کے چرچے ہیں۔ لیکن معاشرے کی حالت بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے۔

 (56) امریکی کمپنیاں اس وقت تاریخ کے بھاری ترین قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ ان کے واجب الادا قرضے‘ ان کی آمدن کے 487 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔ گزشتہ دو سال کے دوران کارپوریٹ دیوالیوں (Bankruptcies) کی تعداد میں 87 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس حوالے سے یہ کووڈ بحران سے بھی زیادہ گھمبیر صورتحال بنتی ہے۔ جس میں افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود میں اضافے کا کلیدی کردار ہے۔

 (57) کووڈ کے بعد دنیا میں افراطِ زر کا رجحان کسی قدر کم ہوا ہے۔ لیکن امریکی مرکزی بینک (فیڈرل ریزرو) نے شرح سود کو بدستور 4.5 فیصد پر برقرار رکھا ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ افراطِ زر میں دوبارہ اضافے کے خطرات نہ صرف موجود ہیں بلکہ ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔

 (58) نجی منافع خوری پر مبنی امریکہ کا نظام صحت‘ ترقی یافتہ دنیا میں بدترین نتائج کے حوالے بدنام ہے اور امریکی عوام میں غم و غصے اور اضطراب کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ سالانہ ساڑھے پانچ لاکھ لوگ صرف اپنے میڈیکل بل ادا نہ کر پانے کی وجہ سے دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ یہ دیوالیہ ہونے والے افراد کی کل تعداد کا 66 فیصد بنتا ہے!

 (59) یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ کچھ ماہ پہلے ملک کی ایک بڑی ہیلتھ انشورنس کمپنی کے سی ای او کو قتل کرنے والے 26 سالہ نوجوان کو امریکی عوام کے بڑے حصے نے ایک ہیرو کا درجہ دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد امریکی سوشل میڈیا پر باقاعدہ جشن کا سماں تھا۔ مذکورہ نوجوان کی تصاویر کے ساتھ ساتھ ہیلتھ انڈسٹری کی لوٹ مار کی مذمت پر مبنی مزاحیہ یا طنزیہ پوسٹیں (Memes) کئی ہفتوں تک بڑے پیمانے پر شیئر کی جاتی رہیں۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اس عمل میں دائیں اور بائیں‘ دونوں طرح کے سیاسی رجحانات رکھنے والے لوگ شامل تھے۔

 (60) اس ایک واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لوگ اپنے حالات زندگی سے کتنے تنگ ہیں اور مالکان کے خلاف کس قدر نفرت اور غصے سے بھرے ہوئے ہیں۔

 (61) یوں امریکی معیشت کی نسبتاً ’’بلند‘‘ شرح نمو بھی عوام کی اکثریت کے لئے کسی بہتری کی بجائے ابتری کا اشاریہ ہی ثابت ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن کے معیشت کی ’’غیر معمولی‘‘ اور ’’استثنائی‘‘ ترقی کے دعووں پر لوگوں نے کان نہیں دھرے۔

 (62) امریکہ کی اِس کیفیت کی روشنی میں ہم مغربی دنیا کے دوسرے اہم ممالک (جن کی امریکہ سے بھی گئی گزری اقتصادیات کا جائزہ اوپر پیش کیا گیا ہے) کو دیکھیں تو سیاسی و سماجی اتھل پتھل کی صورتحال بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہے۔

 (63) تمام تر جبر و استحصال اور دوسری لعنتوں کے باوجود معیشت کی مسلسل نمو، سماجی دولت میں اضافہ اور معیارِ زندگی میں بہتری کو سرمایہ داری اپنے حتمی جواز کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔ لیکن اب یہ جواز اپنی ترقی یافتہ ترین شکلوں میں بھی کھوتی جا رہی ہے۔ یہ اس نظام کی طویل مدتی زوال پذیری، لمبے عرصے کی کساد بازاری (Long Depression) اور تاریخی متروکیت کا مظہر ہے۔

 (64) سرمایہ داری میں معاشی نمو کس انسانی اور ماحولیاتی قیمت پر حاصل کی جاتی ہے‘ اس بات سے قطع نظر اس نظام کی معاشی و سماجی طرز ہی ایسی ہے کہ معیشت میں ایک مسلسل اور خاطر خواہ پھیلاؤ کے بغیر یہ چل نہیں سکتا۔

 (65) ترقی یافتہ دنیا کے مسائل کو اسی کے معیارات کے مطابق دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے غور کریں تو مغربی معاشرے جس گہرے بحران کا شکار ہو چکے ہیں وہ آنے والے دنوں میں بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ہے۔ ایسے طوفان جن کے سامنے شاید 2008ء سے اب تک کے غیر معمولی واقعات بھی ماند پڑ جائیں۔

بحران کی نوعیت

 (66) سرمایہ داری کے بحران کی نوعیت یا اساس کیا ہے؟ یہ سوال مارکسی حلقوں میں طویل عرصے سے بحث کا موضوع رہا ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ دھڑے بندیاں اور علیحدگیاں تک ہوتی رہی ہیں۔ لیکن اگر فرقہ پرور نفسیات، نظریاتی ہٹ دھرمی، ضد اور ’اکیڈمک مارکسزم‘کی پیچیدگیوں کو ایک طرف رکھ کے غور کریں تو یہ کوئی ایسا معمہ بھی نہیں ہے جسے سلجھایا نہ کیا جا سکے۔

 (67) مارکس اور اینگلز وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے کلاسیکی معاشیات کے نام نہاد ’سے کے قانون‘ (Say’s Law) (کہ اشیا کی پیداوار/رسد اپنی طلب یا ڈیمانڈ خود پیدا کر لیتی ہے) کو سائنسی بنیادوں پر رد کر کے سرمایہ داری میں زائد پیداوار کے ناگزیر رجحان کو واضح کیا تھا۔ یہ مظہر بنیادی طور پر نجی ملکیت اور سماجی پیداوار یا پیداواری قوتوں اور طرزِ پیداوار کے درمیان تضاد کا ہی نتیجہ ہے۔ بلکہ باریک بینی سے جائزہ لیں تو خود ’کموڈیٹی‘ کے متضاد کردار میں پنہاں نظر آتا ہے۔

 (68) لیکن مسئلہ اگر اتنا ہی ہوتا تو ان دو عظیم انسانوں کو جوانی سے بڑھاپے تک سرمایہ دارانہ معیشت کے تجزئیے پر ہزاروں صفحات کالے کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ کیونکہ یہ بات وہ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں ہی واضح کر چکے تھے۔ یاد رہے کہ مارکس آخری وقت تک ’سرمایہ‘ (Das Kapital) کی تحریر میں مصروف رہا۔ جس کی دوسری اور تیسری جلد اس کی وفات کے بعد اینگلز نے مکمل کر کے شائع کروائی۔ جبکہ ’’قدرِ زائد کے نظریات‘‘ جسے ’سرمایہ‘ کی چوتھی جلد گردانا جاتا ہے‘ اینگلز کی بھی وفات کے بعد نامکمل شکل میں شائع ہوئی۔

 (69) سرمایہ داری میں زائد پیداوار کا رجحان ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ لیکن یہ اس نظام کے طویل المدتی اور نامیاتی بحران کا محض ایک پہلو ہے۔ سارے مسئلے کو محض ’زائد پیداوار کا بحران‘ کہہ دینا ایک لایعنی تسہیل (Oversimplification) کے زمرے میں آتا ہے۔ جس سے نہ صرف صورتحال کی یک رخی تصویر کشی ہوتی ہے بلکہ بہت سے معاشی و سیاسی مظاہر کی مناسب تشریح یا وضاحت نہیں ہو پاتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ اپروچ آخر کار کینیشین اصلاح پسندی کی طرف لے جاتی ہے۔

 (70) اس حوالے سے ’سرمایہ‘کی تیسری جلد انتہائی اہمیت کی حامل ہے جسے کا بنیادی فوکس سرمایہ داری کی کلیدی قوت محرکہ‘ یعنی منافع اور ہزارہا معاشی اشاریوں کے پیچھے کارفرما اشاریہ ‘ یعنی شرح منافع ہے۔ آسان الفاظ میں یہ سمجھ لیں مارکس نے ہر پہلو سے منافع خوری کے عمل کو بیان کرتے ہوئے سرمایہ داری کے بحران کی کثیر جہتی تھیوری وضع کی ہے۔ جسے اس نے ’شرح منافع میں گراوٹ کے رجحان کا قانون‘کہا۔ یہاں واضح رہے طویل عرصوں میں شرح منافع میں گراوٹ کے مسئلے سے کلاسیکی معیشت دان بھی واقف تھے۔ لیکن اس کی خاطر خواہ تفہیم سے قاصر تھے۔

 (71) اس دستاویز کا بنیادی مقصد سرمایہ داری میں بحران کی نوعیت کی نظری بحث یا مذکورہ بالا قانون کی تفصیل میں جانا نہیں ہے۔ لیکن بنیادی نکتے کو مختصراً بیان کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ جو سادہ الفاظ میں کچھ یوں ہے: سرمایہ داری میں یہ جبلی رجحان موجود ہے کہ پیداواری عمل میں مستقل سرمائے ( مشینری، کمپیوٹر، روبوٹس، اوزار وغیرہ۔ موجودہ دور میں اس میں مصنوعی ذہانت کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے) کا تناسب متغیر سرمائے (بنیادی طور پر انسان کی قوت محنت) کے مقابلے میں بڑھتا جاتا ہے۔ جس سے ’سرمائے کی زائد پیداوار‘ کا مظہر جنم لیتا ہے۔ جس کے لئے زیادہ بہتر اصطلاح ’سرمائے کا ضرورت سے زیادہ اجتماع‘ (Overaccumulation) ہو سکتی ہے۔ مارکس اسے سرمائے کی بہتات بھی کہتا ہے۔ چنانچہ ایک مخصوص حد سے آگے سرمایہ دار اس سرمائے کو منافع بخش طریقے سے بروئے کار لانے سے عاری ہوتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ پیداواری عمل جتنی قدرِ زائد پیدا کر رہا ہوتا ہے وہ مجموعی سرمایہ کاری کے مقابلے میں ناکافی ہوتی ہے۔ جس سے شرح منافع کمی یا گراوٹ کا شکار ہونے لگتی ہے۔ اس کیفیت میں یہ عین ممکن ہو سکتا ہے شرح منافع گراوٹ سے دوچار ہو لیکن مجموعی منافعوں میں اضافہ ہوتا رہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ منافعوں کی مقدار بھی گرنے لگتی ہے۔ یہ درحقیقت بحران کے پھوٹ پڑنے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ جب سرمایہ کاری رک جاتی ہے۔ پیداواری عمل میں تعطل آ جاتا ہے۔ معیشت سکڑنے لگتی ہے۔ روزگار کے مواقع میں کمی کے ساتھ اجرتیں بھی گرنے لگتی ہیں۔ جس سے منڈی میں ’ڈیمانڈ‘ کم ہو جاتی ہے۔ یعنی اشیا تو موجود ہیں۔ پیداواری صلاحیت بھی موجود ہے۔ لیکن خریدنے والا کوئی نہیں ہے (زائد پیداوار!)۔

 (72) اس ساری صورتحال کا ناگزیر اظہار پھر مالیاتی شعبے، رئیل اسٹیٹ اور سٹاک مارکیٹ وغیرہ میں ہوتا ہے۔ جہاں لمبے عرصے تک پھولنے والے بلبلے آخر کار پھٹنے لگتے ہیں۔ یہ ساری کیفیت ہم ماضی قریب میں 2008ء کے مالیاتی کریش میں دیکھ چکے ہیں۔

 (73) یوں اشیا (Commodities) کی زائد پیداوار‘ سرمائے کی زائد پیداوار کیساتھ جڑی ہوئی ہے۔ مارکس کے الفاظ میں ’’سرمائے کی زائد پیداوار میں ہمیشہ اشیا کی زائد پیداوار بھی شامل ہوتی ہے…‘‘

 (74) تو پھر نظام بحران سے کیسے نکلتا ہے؟ دراصل شدید بحران کے حالات ہی بحالی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ دیوالیوں کی وجہ سے بہت سا ’زائد‘سرمایہ تلف ہو جاتا ہے یا کوڑیوں کے مول بیچنا پڑتا ہے۔ اسی عمل کو’تخلیقی تباہی‘ (Creative Destruction) کہتے ہیں۔ پیداواری عمل کے لئے درکار اشیا یعنی مستقل سرمائے کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔ بیروزگاری کی وجہ سے اجرتیں گر جاتی ہیں۔ مختصراً یہ کہ سرمایہ کاری دوبارہ منافع بخش ہو جاتی ہے۔ جس سے معاشی سائیکل دوبارہ چل پڑتا ہے۔

 (75) اگر غور کریں تو بڑی جنگیں بھی ایک زیادہ تباہ کن اور خونریز انداز کیساتھ مذکورہ بالا طریقوں سے ہی ’بحالی‘ کی راہ ہموار کرتی ہیں۔

 (76) لیکن غیر بحرانی اور امن کے حالات میں بھی ایسے عوامل موجود ہوتے ہیں جو شرح منافع میں گراوٹ کے رجحان کی مخالف سمت میں زور لگاتے ہیں۔ مثلاً محنت کشوں کے زیادہ سے زیادہ استحصال (یونین سازی پر قدغنیں، چھانٹیاں، کم اجرتیں وغیرہ) کے ذریعے قدرِ زائد میں اضافہ کر کے گرتی ہوئی شرح منافع کو بحال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کی ترقی مستقل سرمائے کو سستا کر کے شرح منافع کو سہارا دیتی ہے۔ نجکاری کے ذریعے سرکاری شعبوں کو منافع خوری کا ذریعہ بنایا جاتا ہے یا نئی ایجادات اور تکنیکی پیش رفتوں کے ذریعے نئے معاشی شعبے یا شاخیں تخلیق کی جاتی ہیں۔ ماحولیاتی بربادی، سامراجی تسلط، پھیلاؤ اور قبضہ گیری کے ذریعے نئی منڈیوں اور سستی لیبر و خام مال وغیرہ پر تصرف حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ منڈی کو ڈی ریگولیٹ کرنے اور سرمایہ داروں کو ٹیکس چھوٹ دینے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ان کے منافعوں میں اضافہ کیا جا سکے۔ جس کے لئے ٹیکسوں کا بوجھ محنت کشوں پر منتقل کیا جاتا ہے یا ریاست اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے سماجی فلاح کے پورے پورے منصوبے ہی بند کر دیتی یا سرمایہ داروں کو بیچ دیتی ہے۔ اسی چیز کو ’آسٹیریٹی‘ کہا جاتا ہے۔

 (77) نیولبرلزم بنیادی طور پر شرح منافع کی بحالی کے انہی عوامل کو بڑھاوا دینے کا ایک دیوہیکل پراجیکٹ تھا۔

 (78) لیکن لمبے عرصے میں شرح منافع میں گراوٹ کا رجحان موجود رہتا ہے، بحالی کی گنجائش کم سے کم ہوتی جاتی ہے اور بحرانات کی شدت بڑھتی جاتی ہے۔ ’سرمایہ‘ کی اشاعت سے بھی بہت پہلے ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ میں کی جانے والی اس پیشین گوئی کو تاریخ نے سچ ثابت کیا ہے۔

 (79) شرح منافع کی اس ساری بحث کو اگر ہم دستاویز کے پچھلے سیکشن (’بیمار معیشت‘) کیساتھ جوڑیں تو سرمایہ داری کی بیماری اور اس کے ہر طرح کے اثرات و مضمرات (بشمول معاشی جمود) ایک تاریخی تسلسل کیساتھ بالکل واضح ہو کے سامنے آ جاتے ہیں۔ اس پورے مظہر کو آسان الفاظ میں نظامِ سرمایہ کی تاریخی متروکیت سے بہتر عنوان دینا شاید ممکن نہیں ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ: معانی و مضمرات

 (80) جہاں 2016ء میں ٹرمپ کا ابھار ایک اہم پیش رفت تھی وہاں اس کا دوسرا اقتدار لبرل سرمایہ داری کے بحران میں ایک معیاری جست کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن یہاں ایک بار پھر یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ ایک شخص نہیں بلکہ سیاسی رجحان (’ٹرمپزم‘) کا نام ہے۔ جسے ظاہر ہے کہ مخصوص معروضی حالات میں پنپنے کا موقع ملا ہے۔

 (81) اگر وسیع تر تناظر میں بات کریں تو یہ 2008ء کے بعد دائیں بازو کی نئی اور زیادہ انتہا پسند شکلوں کے ابھار کا ہی تسلسل ہے۔ جسے فار رائٹ، پاپولسٹ رائٹ، ہارڈ رائٹ یا آلٹ رائٹ وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک ہی رجحان کی مختلف صورتیں اور انداز ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ ایک دوسرے کے ’سسٹر‘رجحانات ہیں۔ اپنی تنظیمی فارم، سماجی اثر و رسوخ، شدت اور ابھار کے طریقوں وغیرہ میں فرق کے باوجود ان میں گہری مماثلت موجود ہے۔ مثلاً انہیں ایک جیسے حالات میں پنپنے کا موقع ملا ہے (معاشی حوالے سے جس کا تفصیلی جائزہ اوپر لیا گیا ہے)۔ قدامت پسندی، صنفی حقوق سے نفرت، توہماتی سوچ، نسلی تعصب، امیگریشن مخالفت اور سامراجی قوم پرستی جیسی قدریں اور عقائد بھی ان میں کافی حد تک مشترک ہیں۔ اس حوالے سے ان کے عزائم اور پروگراموں میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔

 (82) ہنگری میں اوربان، اٹلی میں جیورجیا میلونی (FdI) ، جرمنی میں اے ایف ڈی، برطانیہ میں نائجل فراج (ریفارم یو کے) اور یو کے آئی پی (UKIP) ، فرانس میں میری لی پن (نیشنل ریلی) ، برازیل میں بولسونارو، ہالینڈ میں گیرٹ ولڈرز (پارٹی آف فریڈم) ، ارجنٹینا میں ہاویئر ملے، انڈیا میں نریندر مودی، پاکستان میں عمران خان اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ وغیرہ کو اس زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ روس میں پیوٹن، اسرائیل میں نیتن یاہو اور ترکی میں اردگان بھی اس قبیل سے مماثلت رکھتے ہیں۔ بلکہ شاید بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کا مظہر بھی اس سے ملتا جلتا ہی تھا۔

 (83) مندرجہ بالا فہرست میں سے صرف جرمنی، فرانس اور برطانیہ کی مثالوں کو چھوڑ کے باقی تمام پارٹیاں یا افراد اقتدار میں ہیں یا اقتدار میں آ کے جا چکے ہیں۔ لیکن ان تین ممالک میں بھی یہ رجحانات یا تو اقتدار کے آس پاس منڈلا رہے ہیں یا آنے والے دنوں میں تیزی سے اس طرف بڑھ سکتے ہیں۔

 (84) نظریاتی حوالے سے بات کریں تو ان سب میں اہم قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ جمہوریت سمیت کسی لبرل قدر، روایت اور رکھ رکھاؤ یا ’تکلف‘ پر یقین نہیں رکھتے اور سرمایہ داری کے بحران کا غیر لبرل حل چاہتے ہیں۔

 (85) معاشی پروگرام کے حوالے سے بظاہر یہ ایک دوسرے سے کچھ مختلف نظر آ سکتے ہیں۔ لیکن گلوبلائزیشن اور آزاد بین الاقوامی تجارت کی بجائے قومی سرمایہ داری کے تحفظ (Protectionism) کے رجحانات مختلف شدتوں کے ساتھ تقریباً سب میں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین جیسے اقتصادی اتحادوں (Blocs) اور آزاد تجارت کے معاہدوں کو یہ محدود یا یکسر ختم کرنا چاہتے ہیں۔

 (86) داخلی معیشت کے حوالے سے ان میں نیو لبرل پالیسیوں کو زیادہ وحشیانہ اور آمرانہ انداز سے نافذ کرنے کا عمومی رجحان موجود ہے۔ معیشت میں ریاست کی مداخلت یہ اسی قدر اور انداز سے چاہتے ہیں جس سے ان کے طبقے یا مخصوص ٹولے کے مفادات کا تحفظ یقینی بن سکے۔

 (87) ملے، نائجل فراج اور ٹرمپ وغیرہ کا معاشی پروگرام تو باقاعدہ ’لبرٹیرینزم‘ (Libertarianism) کے زمرے میں آتا ہے۔ جو بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ انارکزم کا ایک انتہائی غیر حقیقی، غیر سائنسی اور انسان دشمن نظریہ ہے۔ یعنی ریاست (اگر ہو بھی تو!) کا کردار صرف نجی ملکیت کی حفاظت ہونا چاہئے۔ باقی سب کچھ منڈی پر چھوڑ دینا چاہئے۔ لیکن ان کا لبرٹیرینزم‘ محنت کش طبقے کے حقوق کی مکمل سلبی اور یونین سازی کے یکسر خاتمے تک ہی منڈی کی آزادی چاہتا ہے۔ باقی ان میں اقربا پروری اور بدعنوانی کے رجحانات بدرجہ اتم موجود ہیں۔

 (88) دلچسپ امر یہ بھی ہے اگرچہ یہ سب کے سب بورژا جمہوریت کے فریم ورک میں ہی اقتدار میں آئے ہیں یا آنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سیاست اور ریاست کے مروجہ قوانین اور اصولوں کو وہاں تک ہی مانتے ہیں جہاں تک وہ ان کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ضرورت پڑنے اور موقع ملنے پر یہ انتہائی جارحانہ اور آمرانہ روش اپنا لیتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ریاست کو اپنے مطلق العنان اقتدار کا اوزار بنانے کے لئے ہر ممکن حد تک ٹرانسفارم کیا جائے۔ اس عمل میں ریاست کے مختلف حصوں سے ان کا ٹکراؤ بھی بن سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں دیکھا بھی ہے۔

 (89) اگر غور کریں تو پیوٹن، اوربان، مودی اور اردگان وغیرہ بڑی حد تک بورژوا جمہوری سیٹ اپ کو لپیٹ چکے ہیں۔ محض انتخابی طریقوں سے ان سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے۔ پاکستان میں عمران خان کے بھی یہی عزائم تھے جبکہ امریکہ میں ٹرمپ بہت تیزی سے یہ عمل آگے بڑھا رہا ہے۔ بہرصورت یہ کُو کے ذریعے اقتدار میں آنے والی روایتی فوجی آمریتوں سے مختلف مظہر ہے۔

 (90) بنیادی طور پر یہ صورتحال دوسری عالمی جنگ کے بعد کے لبرل آرڈر کے گہرے بحران‘ بلکہ متروکیت کا اظہار ہے۔ جو ظاہر ہے سرمایہ داری کی متروکیت کا ہی ایک پہلو ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نظام پرانے طریقوں سے چلنے سے قاصر ہے۔ لبرل سیاست اپنی اقتصادی بنیادوں سے محروم ہو چکی ہے۔ لوگوں میں شدید بے چینی موجود ہے۔ جس سے دائیں اور بائیں بازو کے روایتی اصلاح پسند رجحانات اپنی ’سنٹر لیفٹ‘ اور ’سنٹر رائٹ‘ کی سیاست کیساتھ بڑے پیمانے کے استرداد کا شکار ہیں۔

 (91) لیکن اِس انتہاپسند یا غیر روایتی دائیں بازو کے ابھار میں جہاں پرانے بائیں بازو کی مصالحانہ روش، غداریوں اور نظریاتی انحراف کا کردار ہے وہاں 2008ء کے بعد ابھرنے والے بائیں بازو کے نئے رجحانات کی ناکامی اور پسپائی بھی کارفرما ہے۔ یونان میں سائریزا، سپین میں پوڈیموس، برطانیہ میں جیرمی کوربن اور امریکہ میں برنی سینڈرز وغیرہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

 (92) اسی طرح لاطینی امریکہ میں ہوگو شاویز (وینزویلا)، رافیل کورایا (ایکواڈور)، ڈلما روزیف (برازیل)، ایوو مورالس (بولیویا) وغیرہ جیسے رہنماؤں اور مختلف ممالک میں چھوٹی بڑی تحریکوں سے جڑا بائیں بازو کے ابھار کا عمل بھی، جسے گلابی لہر (Pink Tide) کا نام دیا جاتا ہے، شکست خوردگی سے دوچار ہوا ہے۔ علاوہ ازیں عرب بہار کی ناکامی نے بھی بڑے پیمانے کی بددلی کو جنم دیا ہے۔

 (93) اقتدار میں آنے یا نہ آ سکنے سے قطع نظر‘ بائیں بازو کی ناکامی کی تقریباً تمام مذکورہ بالا صورتوں میں اصلاح پسندی کی روش کا عنصر مشترک ہے ۔ جس میں وسیع اور بار بار کے مواقع کے باوجود اپنے پروگرام، لائحہ عمل اور تناظر کو سرمایہ داری کی معاشی و سیاسی حدود کے اندر رکھنے پر اصرار کیا گیا۔

 (94) حتیٰ کہ اصلاح پسندانہ پروگرام کو اگر مقبولیت ملی بھی تو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ جیسے کہ برنی سینڈرز کا معاملہ ہے۔ جس کے عوام دوست نعروں کو 2016ء میں خاصی پذیرائی ملی۔ لیکن اس ساری تحریک کو آخر کار ڈیموکریٹک پارٹی (جسے بجا طور پر تحریکوں کا قبرستان کہا جاتا ہے) کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ ڈی ایس اے (ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکا)، برنی سینڈرز اور الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز (AOC) وغیرہ ڈیموکریٹک پارٹی سے الگ ہو کے اگر ٹھوس طبقاتی نعروں و پروگرام کیساتھ تحریک کو آگے بڑھاتے اور تنظیم سازی کرتے تو امریکہ کے حالات بہت مختلف ہو سکتے ہیں۔ بالفرض اس کے باوجود بھی ٹرمپ اقتدار میں آ جاتا تو آج اس کے خلاف بڑی مزاحمت ضرور کی جا سکتی تھی۔

 (95) سیاسی خلا زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتا۔ اگر بایاں بازو اسے پرُ نہ کر پائے تو دایاں بازو کرتا ہے۔ معقولیت اور ذہانت اگر اپنا لوہا نہ منوا سکے تو حماقت اور جہالت راج کرتی ہے۔ ’ہارڈ‘ رائٹ کے ابھار کی صورت میں یہ کیفیت آج ہم بیشتر خطوں میں دیکھ رہے ہیں۔

 (96) یہ حقیقت بہرصورت مدنظر رہنی چاہئے کہ ایسے رجحانات مروجہ معاشی و سیاسی حالات سے لوگوں کی شدید بیزاری اور نفرت کے حالات میں ہی مقبولیت پاتے ہیں۔ لہٰذا پرانے سیاسی و ریاستی سیٹ اپ یا ’سٹیٹس کو‘ کے خلاف مختلف شکلوں اور شدتوں میں گالم گلوچ اور نفرت و تضحیک کا مسلسل اظہار ان کی سیاست کا لازمی جزو ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے یہ خود کو عوام کے ہمدرد اور مسیحا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

 (97) ویسے بھی گزشتہ تقریباً چار دہائیوں میں نیولبرلزم کی پرائیویٹائزیشن، کمرشلائزیشن، ڈی انڈسٹریلائزیشن اور کارپوریٹ میڈیا کی یلغار نے معاشروں کو ثقافتی طور پر مسخ کر کے جاہلوں کی فوج ظفر موج تیار کی ہے۔ اس میں محنت کش طبقے کی لمپن پرتیں بھی شامل ہو سکتی ہیں لیکن بڑی تعداد نیولبرل پالیسیوں کے نتیجے میں ابھرنے والی نئی مڈل کلاس او ر نودولتیوں کی ہے۔

 (98) بحرانی حالات کی فرسٹریشن سے دوچار اس معروضی منافقت، قدامت پسندی، بیہودگی اور حماقت کو جب حاوی سیاست میں اپنا موضوعی اظہار ملتا ہے تو بولسونارو، ہاویئر ملے، عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ وغیرہ جیسے مظاہر وجود میں آتے ہیں۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کے حامیوں کو جس مخصوص نام یا لقب سے پکارا جاتا ہے وہ محض سیاسی حملہ یا مذاق نہیں ہے بلکہ مخصوص عادات و اطوار، سوچ اور کردار کا نام ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کے حامی بھی زیادہ تر اسی قماش کے لوگ ہیں۔ بلکہ شاید اس سے دو ہاتھ بڑھ کے ہیں۔

 (99) محنت کش طبقہ جب تحریکوں میں اترتا اور انقلابی جہت اختیار کرتا ہے تو نہ صرف مڈل کلاس کی اچھی خاصی تعداد بلکہ لمپن عناصر کی کئی پرتوں کو بھی اپنے پیچھے گھسیٹ لے جاتا ہے۔ لیکن طبقاتی پسپائی اور رجعت کے ادوار میں اس سے الٹ ہوتا ہے اور خود محنت کش طبقے کی کئی پرتوں سمیت اچھے خاصے معقول دانشور بھی لمپن اور بیہودہ قسم کے رجحانات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ لوگوں کے لاشعور میں دبی پسماندگی، رجعت اور گھٹیا قسم کے عقائد و تعصبات عود کر آتے ہیں اور منطقی سوچ پر غالب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں تحریک انصاف کے مظہر میں ہم نے ان ساری چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے۔

 (100) اس حوالے سے غور کریں تو شخصیت اور رویوں کے حوالے سے عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ میں گہری مماثلت موجود ہے۔ اگرچہ امریکہ‘ پاکستان کی نسبت جتنا زیادہ ترقی یافتہ ہے‘ ٹرمپ کی ڈھٹائی اور بیہودگی اسی قدر شدت، وسعت اور گہرے مضمرات کی حامل بھی ہے۔

 (101) ضد، خود پسندی، انا پرستی اور لاابالی پن اس قماش کے رہنماؤں کی شخصیت کا بنیادی خاصہ ہوتا ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ یہی عادات انہیں مخصوص سماجی پرتوں یا طبقات میں مقبولیت دیتی ہیں۔ ریاستی مقتدرہ اور سرمائے کے زیادہ گھاگ اور سنجیدہ نمائندوں سے ان کے تضاد کی وجہ محض پالیسی اختلافات نہیں ہیں۔ بلکہ یہ لوگ ویسے ہی خود سر اور ناقابل اعتبار ہیں۔ جن کے تحت لانگ ٹرم منصوبہ بندی اور کسی بھی قسم کی پالیسیوں کا تسلسل ناممکن ہو جاتا ہے۔

 (102) اسی لئے انہیں لمپن سرمایہ دار یا سرمایہ داری کے لمپن نمائندے بھی کہا جاتا ہے۔ جو بنیادی طور پر انتہائی کوتاہ بین ہوتے ہیں۔ یعنی اپنے اقدامات کے نتائج سے بے پرواہ اور لانگ ٹرم دیکھنے یا سوچنے کی صلاحیت سے عاری۔ علاوہ ازیں بیشتر صورتوں میں ان کی ذاتی خواہشات اور عزائم‘ نظام کے تقاضوں پر حاوی نظر آتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر بورژوا قیادت کا گہرا بحران ہے۔

 (103) سامراجی ریاستیں اور حکمران طبقات اپنے انتہائی گھاگ اور قابل اعتماد لوگوں کو ہی اقتدار سونپتے ہیں۔ چاہے ان کا تعلق دائیں بازو سے ہو یا بائیں بازو سے۔ اس کے پیچھے دہائیوں کے چناؤ، رائے عامہ کی ہمواری اور تربیت کا عمل کارفرما ہوتا ہے۔ جس میں ناقابل اعتماد لوگوں یا ’’آؤٹ سائیڈرز‘‘ کو بڑے طریقے سے کارنر کر دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان جیسی ریاستوں میں بھی یہ میکنزم کسی حد تک موجود رہا ہے۔ لیکن بحران نے سب کچھ تتر بتر کر دیا ہے۔ کسی زمانے میں سو سال آگے کی پلاننگ کرنے والے مغربی سامراج کی باگ ڈور آج بائیڈن جیسے مخبوط الحواس لوگوں اور ٹرمپ جیسے مسخروں کے ہاتھ میں ہے۔ جو ہر روز کوئی نیا تماشہ کھڑا کرتے ہیں۔ ٹرمپ جو حرکتیں کر رہا ہے ان کے بارے میں چند دہائیاں پہلے تو دور کی بات‘ اس کے اپنے سابقہ اقتدار میں سوچنا بھی محال تھا۔

 (104) ٹرمپزم اور کلاسیکی جرمن و ا طالوی فاشزم میں کیا مماثلت یا فرق موجود ہے‘ اس بحث کو ہم کسی اور وقت کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔ اسی طرح اقتدار میں آنے کے بعد ٹرمپ کی دھمکیوں، بیانات اور اقدامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ جن کی فہرست یہاں مرتب کرنے کی نہ گنجائش ہے‘ نہ ضرورت۔ ہمارے لئے اہم ٹرمپ کے عزائم اور ان کے مضمرات ہیں۔ یعنی وہ کرنا کیا چاہتا ہے اور اس کے نتائج کیا برآمد ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا ٹرمپ واقعی کسی ٹھوس منصوبے اور مربوط نصب العین کا حامل ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس سوال کا جواب جو بھی ہو‘ ہر صورت میں یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔

 (105) بہرحال ہر پاگل پن کے اندر کوئی میتھڈ‘ کوئی منطق ضرور پوشیدہ ہوتی ہے۔ احمق ترین لوگوں کے بھی کچھ نہ کچھ مقاصد اور منصوبے ضرور ہوتے ہیں۔ چاہے وہ ان ہی کی طرح کتنے ہی احمقانہ کیوں نہ ہوں۔ ویسے بھی متروک اور بحران زدہ نظاموں کے آقاؤں سے روشن خیالی، حقیقت پسندی اور معقولیت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ان کے نظام کا بحران انہیں پاگل کر دیتا ہے۔ یہ ایک طرح سے حکمران طبقات کا خود اپنے نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔

 (106) ٹرمپ کے معاملے میں بھی ہر روز ایک نیا محاذ کھولنے، نئی بدتمیزی کرنے اور نئی بڑھک مارنے کے پیچھے کئی طرح کی تذویراتی اور سیاسی وجوہات کارفرما ہیں۔ اول تو اس نوعیت کے رجحانات کے لئے اپنے پیروکاروں کو ’’دشمن‘‘ کے خلاف ایک جنون، ہیجان، عدم تحفظ اور جنگ کی نفسیات میں مسلسل مبتلا رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کی ساری سیاست ہی اس واردات پر مبنی رہی ہے۔ جس میں جھوٹ، بہتان اور مبالغہ آرائی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ مزید برآں ایسے خود پرستی میں مبتلا لوگ خبروں میں رہنے کے لئے بھی الٹی سیدھی حرکتوں کا سہارا لیتے ہیں۔

 (107) لیکن ٹرمپ کی پلاننگ اس سے آگے بھی جاتی ہے۔ جس میں ایک طرف اچانک اور غیر متوقع جارحیت کیساتھ ہر ممکن حد تک پیش قدمی کی کوشش شامل ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک کثیر جہتی انتشار کے اندر حقیقی واردات کو چھپانا مقصود ہے۔ اس کی بہت سی الٹی سیدھی حرکتوں اور احکامات کا مقصد محض ایک ’سموک سکرین‘ قائم کرنا ہوتا ہے۔ اس سے وہ اپنے پیروکاروں کو یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ دن رات کسی بڑے مقصد کی تکمیل کا کام جاری ہے۔

 (108) ایلون مسک اور ٹرمپ سمیت اس پورے ٹولے کا بنیادی مقصد اپنی دولت میں اضافہ ہے۔ جس کی ظاہر ہے کوئی حدود نہیں ہیں۔ اس مقصد کے لئے جہاں انہیں آمرانہ طرز کا بے لگام اقتدار چاہئے وہاں معیشت کے بے قابو خساروں اور قرضوں پر قابو پانا بھی ضروری ہے۔ جس کے لئے منڈی کی معیشت کا ایک انتہائی جارحانہ اور بے رحمانہ پروگرام درکار ہے۔ جس کے لئے پھر جمہوری حقوق کی سلبی اور ہر طرح کی مزاحمت کو کچلنا ضروری ہے۔ چاہے وہ مزاحمت سیاسی ہو، طبقاتی ہو یا ریاست کے کسی دھڑے کی جانب سے ہو۔ یہ اس سارے پاگل پن اور انتشار کی بنیادی منطق ہے۔ باقی ساری واردات اسی کے گرد گھومتی ہے۔ چاہے ان کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل ہے یا محض ’ہٹ اینڈ ٹرائل‘ کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔

 (109) یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے فار رائٹ سے جڑے انتہائی رجعتی اور قدامت پرستانہ قسم کے سماجی و ثقافتی خیالات (صنفی حقوق سے انکار، نسلی برتری و تعصب، ’’مذہبی ٹچ‘‘ وغیرہ) اِس پراجیکٹ کا ناگزیر حصہ ہیں۔ یہ محض اِس ٹولے کے ذاتی عقائد یا نظریات کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کی سماجی و سیاسی ضرورت ہے۔ جیسا کہ امریکی مارکس وادی ایڈم شلز واضح کرتے ہیں:

’’ٹرمپ دانستہ اور شعوری طور پر ان نظریات کو سماجی حمایت کے حصول کے لئے استعمال کرتا ہے۔ وہ محض یہ کہہ کر لوگوں سے اپنی پیروی نہیں کروا سکتا کہ ’مجھے مزید امیر ہونا ہے۔‘ لہٰذا وہ خود کو فار رائٹ کے نظریہ دان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ خود کو ’اشرافیہ کے خلاف عام آدمی‘ کے حق کے لئے کھڑے پاپولسٹ کے طور پر پیش کرنے میں خاصا کامیاب بھی رہا ہے۔ کسی بھی جذباتی مقرر کی طرح وہ نہ صرف عوامی احساسات اور جذبات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ انہیں مزید ہوا بھی دیتا ہے۔‘‘

 (110) لیکن مسئلہ صرف امریکہ تک محدود نہیں ہے۔ اپنے انہی عزائم کے تحت یہ ایک نیا ورلڈ آرڈر (یا ڈِس آرڈر؟) بھی تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ جس کے سٹیک ہولڈر اسی قبیل کے حکمران ہوں۔ ٹرمپ کا پیوٹن کے ساتھ ہاتھ ملانا بے وجہ نہیں ہے۔ لیکن یہ یارانہ اتنا نیا بھی نہیں ہے۔ ارجنٹینا کا ہاویئر ملے ‘ ایلون مسک کا آئیڈیل ہے۔ اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ یورپ میں بھی فار رائٹ کے رجحانات کی کھلی حمایت کر رہی ہے۔ یوں ایک بار پھر یہ ایک بین الاقوامی ٹولہ ہے۔ جن کے بہت سے مفادات مشترک ہیں اور اس حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ گہرے کاروباری، نظریاتی اور سیاسی مراسم موجود ہیں۔

 (111) لبرل آرڈر کے تکلفات کو یہ انتہائی تضحیک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ پرانے تجارتی معاہدے، معاشی /عسکری/سیاسی اتحاد (یورپی یونین، اقوام متحدہ، نیٹو وغیرہ) اور ماحولیات، جمہوریت اور انسانی حقوق وغیرہ کی باتیں ان کے نزدیک سراسر گھاٹے کا سودا ہیں۔ یہ درست ہے کہ سرمایہ داری انسان بھلائی و بہتری کے ایسے نعروں کو ہمیشہ ایک فریب اور منافقت کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ لیکن آج اسے یہ منافقت بھی بوجھ لگنے لگی ہے۔

 (112) ریاست بذات خود نہ سرمایہ دار ہوتی ہے‘ نہ حکمران طبقہ ہوتی ہے۔ بلکہ یہ ایک طرح سے حکمران طبقے کی انتظامی کمیٹی ہوتی ہے۔ جس کا کام نظم و نسق کو قائم رکھنا اور نظام کے دوررس مفاد کو مدنظر رکھ کے پالیسیاں تشکیل دینا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئے یہ بوقت ضرورت حکمران طبقے کے ایسے حصوں پر بھی جبر سے نہیں کتراتی جو پورے نظام کے لئے خطرہ بن رہے ہوتے ہیں۔ بالخصوص عدلیہ جیسے ادارے خود کو سماج سے ماورا، محترم اور مقدس ثابت کرنے کے لئے ایسے فیصلے دیتے رہتے ہیں جن سے ان کے ’نیوٹرل‘ ہونے کا تاثر ملتا ہے۔

 (113) اس حوالے سے ریاستیں بہت سے اخراجات ایسے بھی کر رہی ہوتی ہیں جن کا فوری یا براہِ راست کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایک عام سرمایہ دار انہیں نقصان یا زیاں ہی خیال کرے گا۔ لیکن وہ بالواسطہ اور لانگ ٹرم ثمرات کے حامل ہوتے ہیں اور نظام کا استحکام اور تسلط برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن اس سے ہٹ کے اور بھی کئی طرح کے کھاتے ہو سکتے ہیں۔ جو ریاستی ’پی آر‘کی بہتری اور نظام کی ’امیج بلڈنگ‘ وغیرہ کے لئے کھولے جاتے ہیں۔

 (114) اسی قسم کے اخراجات سامراجی ریاستوں کو عالمی سطح پر بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ جن میں غریب ممالک کے لئے سستے قرضے، اتحادیوں کے دفاع کی گارنٹی، تیسری دنیا کے طلبہ کے لئے وظائف، گرانٹس، امداد، اقوام متحدہ کے مختلف منصوبوں اور این جی اوز کو دئیے جانے والے پیسے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ اخراجات فوری ریٹرن تو نہیں دیتے لیکن یہ ’چیریٹی‘ بھی ہرگز نہیں ہوتے۔ بلکہ لمبے عرصے میں سامراجی آرڈر کو قائم رکھنے کے لئے لازم ہوتے ہیں۔

 (115) لیکن سرمایہ داری کے خسارے اور قرضہ جات اس قدر بڑھ چکے ہیں وہ ایسے اخراجات کا بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے لیکن 2008ء کے بعد سے اس میں شدت آئی ہے۔ جس کا سب سے واضح اظہار پھر ٹرمپ اور ملے جیسے حکمران ہیں ۔

 (116) جیسے عمران خان ہر چیز کو کرکٹ کا کھیل سمجھتا تھا‘ اسی طرح ٹرمپ اور ایلون مسک کے لئے ہر معاملہ کاروباری ڈیل ہے۔ امریکی ریاست ان کے لئے ایک نجی کارپوریشن ہے جس کے ہر معاشی معاملے کو فوری نفع و نقصان کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ بنیادی طور پر یہ ریاست کو اس کی تمام ریگولیٹری، فلاحی اور انتظامی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ کر کے محض مسلح افراد کے جتھوں تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ جو ننگے جبر کے اوزار کے طور پر ان کے طبقے یا ٹولے کے مفادات کا تحفظ کریں۔ انہیں مسیحا و آقا نہ ماننے والا ہر انسان غدار اور دشمن ہے۔ اسی نظر سے یہ لوگ ایف بی آئی، سی آئی اے اور فوج جیسے اداروں سمیت ریاستی بیوروکریسی میں بڑی تطہیر (Purge) کر رہے ہیں۔

 (117) مذکورہ بالا نصب العین کے تحت یہ ٹولہ امریکہ میں نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ کا انتہائی بے رحمانہ پروگرام نافذ کر رہا ہے۔ جس میں وفاقی حکومت کے 24 لاکھ ملازمین کی اکثریت (یا کم از کم بہت بڑی تعداد) شامل ہے۔ فی الوقت اگرچہ ان جارحانہ منصوبوں کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا جا رہا۔ لیکن محکمہ تعلیم، لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت پورے پورے سرکاری شعبے ختم یا اندر سے کھوکھلے کر دینے کا پلان ہے۔ اس مقصد کے لئے دھمکیاں اور گولڈن شیک ہینڈ جیسے پیکیج بیک وقت استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق اب تک 75 ہزار ملازمین موخر الذکر آفر کو قبول کر چکے ہیں۔ لیکن یونینوں کی مزاحمت کے ابتدائی آثار بھی نمودار ہو رہے ہیں۔

 (118) یہاں بھی ان کا طریقہ واردات عمران خان سے بہت ملتا جلتا ہے۔ جیسے اُس نے اقتدار میں آ کے وزیر اعظم ہاؤس کی بھینسوں اور کھٹارہ گاڑیوں کو لے کے رائی کا پہاڑ کھڑا کیا تھا‘ ایلون مسک اپنے ’ڈوج‘ (DOGE) نامی ادارے (جس کی کوئی خاص آئینی و قانون حیثیت نہیں ہے اور جو ایلون مسک سے بھی بڑے نوسر بازوں اور مسخروں پر مشتمل ہے) کے ذریعے ہر روز اربوں کھربوں ڈالر کی مبینہ کرپشن آئے روز پکڑ رہا ہے۔ اس دوران یہ لوگ ریاست کے انتہائی حساس مالیاتی امور اور معلومات پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جھوٹ، دروغ گوئی اور مبالغہ آرائی کا بازار گرم ہے۔ لیکن عام لوگ چونکہ پیچیدہ معاشی اعداد و شمار اور ریاستی کھاتہ داریوں سے زیادہ واقف نہیں ہوتے‘ لہٰذا گمراہی یا کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 (119) خارجی معیشت کے معاملات میں بھی ان کا یہی رویہ ہے۔ ویسے تو یہ لوگ انسانی حقوق، جمہوری اقدار، آزادی اظہار، ماحولیاتی تحفظ اور صحت عامہ (بشمول ویکسینیشن) وغیرہ جیسی چیزوں کو منافقت یا لفاظی کی حد تک بھی نہیں مانتے۔ لیکن اقوام متحدہ کے صحت اور انسانی حقوق کے اداروں سے امریکہ کو نکالنے اور یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے پیچھے معاشی وجوہات بھی کارفرما ہیں۔ یا کم از کم امریکی عوام کے سامنے یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پہلے ساری دنیا جس امریکی پیسے پر پل رہی تھی‘وہ اب بچایا جا رہا ہے۔ لیکن ان کی دوسری حرکتوں کی طرح بچت کے ایسے دعوے بھی انتہائی بھونڈے اور مضحکہ خیز ہیں (اس بارے مزید وضاحت ہم نیچے کریں گے)۔

 (120) ماحولیات کا معاملہ خاص طور پر سنگین ہے۔ یہ سارا ملکی و بین الاقوامی ٹولہ گلوبل وارمنگ کا انکاری ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ کو ماحولیاتی تحفظ کے پیرس ایگریمنٹ سے نکال لیا ہے اور منافع خوری کے لئے پٹرولیم کی بے دریغ ڈرلنگ سمیت ماحولیات کی بے لگام بربادی کا عندیہ دیا ہے۔ یاد رہے گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران کرہ ارض کا اوسط درجہ حرارت مسلسل 1.5 ڈگری تک بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے جس کے اثرات شدید موسمیاتی واقعات کی صورت میں ہم پہلے سے دیکھ بھی رہے ہیں اور جس کا تفصیلی جائزہ ہم نے عالمی تناظر کی پچھلے سال کی دستاویز میں لیا ہے۔ ویسے تو دوسرے سلگتے ہوئے مسائل کی طرح اس مسئلے کا خاطر خواہ حل بھی سرمایہ داری میں ممکن نہیں ہے۔ لیکن ٹرمپ جیسے حکمرانوں کے تحت ماحولیاتی بربادی شدت ہی اختیار کرے گی۔ یہ پاگل لوگ انسانیت کو مکمل بربادی اور فنا کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

 (121) سوال یہ ہے کہ ان طریقوں سے یہ کتنی بچت کر سکتے ہیں؟ اس کے لئے پہلے دیکھنا پڑے گا کہ امریکہ کے خساروں اور قرضوں کی کیا صورتحال ہے۔ اس وقت امریکہ کا داخلی (مالیاتی) خسارہ تقریباً 2 ہزار ارب ڈالر اور بیرونی (کرنٹ اکاؤنٹ) خسارہ 1 ہزار ارب ڈالر ہے۔ کل ملا کے یہ خسارے جی ڈی پی کے 10 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں۔ جبکہ وفاقی حکومت کے ذمے 36 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ واجب الادا ہے۔ جو جی ڈی پی کاتقریباً 125 فیصد بنتا ہے (2001ء میں صرف 55 فیصد تھا!)۔ یہ ایک تباہ کن معاشی صورتحال ہے جو لمبے عرصے تک نہیں چل سکتی۔

 (122) اب ذرا ان اعداد و شمار کا موازنہ یو ایس ایڈ سے کریں جس کا سالانہ بجٹ 40 ارب ڈالر بھی نہیں ہے۔ باقی ہر قسم کی بیرونی امداد اور اقوام متحدہ کو دئیے جانے والے پیسے شامل کریں تو بھی شاید یہ رقم 100 ارب ڈالر تک نہیں پہنچتی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ امریکی خساروں کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ یو ایس ایڈ یقینا ایک سامراجی پراجیکٹ ہے۔ لیکن واضح رہے کہ انتہائی غریب ممالک کے تقریباً 25 لاکھ لوگ غذا، ادویات اور دوسری بنیادی ضروریات زندگی کے لئے اس پر انحصار کرتے ہیں۔

 (123) ویسے تو ان لمپن سرمایہ داروں سے آنے پائی کے حساب کتاب کی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ لبرل عالمی اداروں سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ لیکن بچت کی ان بظاہر مضحکہ خیز کوششوں کے پیچھے ایک اور بڑی واردات کارفرما ہے۔ ان لوگوں کا اصل ہدف امریکہ کا سوشل سکیورٹی سسٹم ہے جس کے سالانہ اخراجات تقریباً 1300 ارب ڈالر بنتے ہیں اور جس کے پیچھے ایلون مسک پہلے دن سے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں کبھی سوشل سکیورٹی میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن دریافت کی جاتی ہے‘ کبھی ایسے ڈیڑھ سو سالہ بوڑھے منظر عام پر آتے ہیں جو مرنے کے بعد بھی سرکاری امداد کی رقوم حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن چند دن پہلے اس پراپیگنڈا کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس نے صاف کہہ دیا ہے کہ سوشل سکیورٹی ایک ’پونزی سکیم‘ (فراڈ) ہے!

 (124) اب آتے ہیں ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کی طرف‘ جس نے پہلے سے نحیف عالمی معیشت کی حالت مزید بگاڑ دی ہے۔ بین الاقوامی منڈیاں شدید غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ امریکہ سمیت بیشتر دنیا میں سٹاک مارکیٹیں تیزی سے گر رہی ہیں۔ گہری کساد بازاری کے امکانات بڑھ رہے ہیں اور عالمی معیشت کی ممکنہ گروتھ ریٹ کے اعداد و شمار کو نئے سرے سے ترتیب دیا جا رہا ہے۔

 (125) ٹیرف (محصول) بنیادی طور پر درآمدات پر ایک طرح کا ٹیکس ہوتا ہے۔ جو کوئی ریاست کسی شے یا بیشتر اشیا کی درآمد کی حوصلہ شکنی کے لئے لگاتی ہے۔ اس پالیسی کا مقصد تجارتی خسارے میں کمی اور مقامی سرمایہ دار کو ایک ایسے مقابلے میں تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے جسے جیتنے کی سکت وہ نہیں رکھتا۔

 (126) عمومی خیال یہ ہوتا ہے کہ قومی سرمایہ دار کو بیرونی مقابلے سے تحفظ ملے گا تو وہ بتدریج سرمائے کے اجتماع سے مستقبل میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔ یوں یہ قومی سرمایہ داری کو پروان چڑھانے کا ایک طریقہ کار ہے۔ جسے انڈیا بھی 1991ء تک خاصی سخت گیری سے استعمال کرتا رہا ہے۔ چین آج بھی مختلف شکلوں میں ایسے طریقے اپناتا ہے جس پر لبرل معیشت کے ماہرین خاصے سیخ پا ہوتے ہیں۔ لیکن خود مغرب کی ترقی یافتہ ریاستیں بھی پرانے وقتوں میں ایسی تحفظاتی (Protectionist) پالیسیوں پر طویل عرصہ کاربند رہی ہیں۔ اگرچہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے سامراجی مفادات کے تحت وہ ایک منافقانہ انداز میں آزاد تجارت کی طرف مراجعت کر گئیں (اور ہم جیسے پسماندہ ممالک کو بھی منڈیاں کھولنے پر مجبور کیا)۔

 (127) ٹیرف کا ہدف کسی مخصوص ملک یا ممالک کو بھی بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاً امریکہ اگر کینیڈا اور چین دونوں سے سٹیل خریدتا ہے تو وہ صرف چین کے سٹیل پر 25 فیصد ٹیرف لگائے گا (صرف ایک فرضی مثال)۔ لیکن بالعموم ہوتا یہ ہے کہ ٹیرف کا جواب بھی ٹیرف سے دیا جاتا ہے۔ مثلاً امریکہ نے چین کی مصنوعات پر ٹیرف لگایا تو چین بھی اپنے ملک میں آنے والی امریکہ مصنوعات پر ٹیرف لگائے گا۔ یہ دراصل تجارتی جنگ کی صورتحال ہوتی ہے۔

 (128) یہاں کچھ باتیں قابل غور ہیں۔ ایک تو جس ملک کی مصنوعات پر ٹیرف لگایا جاتا ہے‘ اس کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کی برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ جو ملک ٹیرف لگاتا ہے‘ اس کے اندر مہنگائی بڑھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ درآمد ہونے والی کوئی چیز پہلے 100 روپے کی تھی تو ٹیرف کی شکل میں ٹیکس کے نفاذ کے بعد 125 روپے کی ہو جائے گی۔ اور یہ اضافی 25 روپے صارفین کی جیبوں سے نکلیں گے۔ تیسرا یہ کہ ریاست کی آمدن بڑھے گی۔ کیونکہ یہ اضافی 25 روپے ریاست کے خزانے میں جائیں گے۔

 (129) یوں ملکی و عالمی معیشت پر ٹیرف کے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم مضمرات کیا ہو سکتے ہیں‘ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ داخلی طور پر یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ ٹیرف لگانے والے ملک کا معاشی ماڈل کن بنیادوں پر استوار ہے۔ اس تحفظاتی پالیسی کا فائدہ آخر کار عوام کو ہو گا یا یہ محض قومی سرمایہ دار کو نوازنے کی کوشش ہے۔ اور قومی سرمایہ دار کو نوازا بھی جا رہا ہے تو کیا وہ اس قابل ہے کہ کل کو اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے۔ بہرحال تنہائی سے دوچار ایک مزدور ریاست کو بھی ایسے اقدامات کرنے پڑ سکتے ہیں‘ جو ظاہر ہے محنت کش عوام کے فائدے میں ہی ہوں گے۔

 (130) عالمی یا علاقائی معیشت پر ٹیرف کے اثرات میں اہم عنصر یہ بھی ہے کہ ٹیرف لگانے والے ملک کا عالمی معیشت میں حصہ یا ہجم کتنا ہے۔ اگر کوئی بڑی معیشت ٹیرف عائد کرتی ہے (جیسا کہ امریکہ کا معاملہ ہے) تو اس سے عالمی اقتصادیات و تجارت پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بورژوا معاشیات اس سلسلے میں ایک عمومی نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ لمبے عرصے میں ٹیرف کسی کے فائدے میں نہیں ہوتے۔ ان سے کھپت گرتی ہے، مہنگائی بڑھتی ہے اور گروتھ ریٹ کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن منڈی کے مقابلے کا یہی تضاد ہے کہ وہ افراد کے درمیان ہو یا قومی ریاستوں کے درمیان‘ آخر کار سب کو لے ڈوبتا ہے۔

 (131) معاشی عروج کے عرصوں میں تو سامراجی ریاستیں گلوبلائزیشن اور آزاد تجارت کے گن گاتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے 2008ء سے پہلے کی کئی دہائیوں میں دیکھا ہے۔ لیکن بحران میں انہیں جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں تحفظاتی پالیسیوں کا عود کر آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ ہر چیز اپنے الٹ میں بدل جاتی ہے۔

 (132) لیکن غور کریں تو آج ٹیرف کی باتیں کوئی کمزور یا چھوٹی ریاست نہیں کر رہی۔ بلکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور تاریخ کی طاقتور ترین سامراجی ریاست ہے۔ جو تقریباً 80 سال تک آزاد منڈی کی معیشت پر مبنی لبرل ماڈل کی سرغنہ رہی ہے۔ اِس نظام کی ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت بھلا کیا ہو سکتا ہے؟

 (133) اس ساری بحث کی روشنی میں دیکھیں تو ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی پہلے سے لمبے عرصے کی زوال پذیری کا شکار عالمی معیشت کو مزید گہرے بحران میں دھکیلنے کا مکمل نسخہ ہے۔

 (134) ٹیرف کا جواز وہ یہ پیش کر رہا ہے کہ کینیڈا، میکسیکو اور چین وغیرہ سے امریکہ میں منشیات اور غیر قانونی مہاجرین کی ترسیل ہوتی ہے۔ لہٰذا انہیں سزا دینا ضروری ہے (ویسے اب وہ یورپی مصنوعات پر بھی بھاری ٹیرف لگانے کی دھمکیاں دے رہا ہے)۔ ظاہر ہے جھوٹ اور مبالغہ آرائی اس کی عادت ہے۔ لیکن یہ محصولات دنیا پر ضعیف امریکی سامراج کی دھونس جمانے کا ایک مصنوعی اور بھونڈا طریقہ بہرحال ہیں۔

 (135) لیکن بدمعاشی اور بڑھک بازی سے ہٹ کر ٹیرف کے ذریعے وہ کچھ ٹھوس معاشی اہداف بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایک تو اس کا خیال ہے کہ اس سے تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کے ساتھ ساتھ نہ صرف امریکہ کی مقامی صنعت کو فائدہ ہو گا بلکہ متاثر ہونے والی غیر ملکی کمپنیاں بھی اپنی پیداوار امریکہ میں منتقل کرنے پر مجبور ہوں گی۔ جس سے امریکہ میں نئی نوکریاں پیدا ہوں گی اور معیشت پھلے پھولے گی۔ لیکن شاید اس سے بھی زیادہ اہم مقصد یہ ہے کہ محصولات سے حکومتی آمدن میں جو اضافہ ہو گا (وہ کئی ہزار ارب ڈالر اضافی آمدن کے خواب دیکھ اور دکھا رہا ہے) اس سے داخلی خسارہ بھی کم ہو گا اور اس کے طبقے یا ٹولے کو بڑی ٹیکس چھوٹ مل سکے گی۔

 (136) لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ ظاہر ہے جن ممالک پر امریکہ ٹیرف لگائے وہ جوابی ٹیرف عائد کرنے کی طرف جائیں گے۔ اس سے پہلے سے گراوٹ کا شکار بین الاقوامی تجارت مزید سکڑے گی اور عالمی معیشت کی شرح نمو گرے گی۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ سٹاک مارکیٹیں گر رہی ہیں اور معاشی گروتھ میں خوفناک کمی کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ سنجیدہ معیشت دان مسلسل تنبیہ کر رہے ہیں کہ صورتحال ایک بڑی تجارتی جنگ میں بدل سکتی ہے اور یہ ایک ایسا گھن چکر ہو گا جس میں سے معیشت کو نکالنا محال ہو جائے گا۔

 (137) اِن محصولات سے مہنگائی بھی بڑھے گی۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کووڈ بحران کے بعد سے مہنگائی یا افراطِ زر دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ قوت خرید میں کمی نے مغربی ممالک میں بھی شدید بے چینی کو جنم دیا ہے۔ مثلاً 2020ء سے 2024ء کے درمیان امریکہ میں ضروریات زندگی کی قیمتیں اوسطاً 21.1 فیصد بڑھ چکی ہیں۔ 52 فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ ان کی معاشی حالت 2020ء کے بعد خراب ہی ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ مہنگائی حالیہ امریکی انتخابات میں ایک اہم ایشو تھی۔

 (138) پہلے سے نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں افراطِ زر کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ 2024ء میں عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کی شرح 5.76 فیصد تھی۔ جو 1996ء کے بعد بلند ترین ہے۔ لیکن ٹرمپ جس تجارتی جنگ کو ہوا دے رہا ہے اس سے امریکہ سمیت پوری دنیا میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔ جس سے نپٹنے کے لئے شرح سود میں دوبارہ اضافہ کرنا پڑے گا۔ نتیجتاً نحیف قومی معیشتوں اور کمپنیوں پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو گا اور دیوالیے بڑھیں گے۔ نہ صرف رئیل اسٹیٹ اور سٹاک مارکیٹ وغیرہ میں سٹہ بازی کے بلبلے پھٹیں گے بلکہ پیداواری شعبے میں بھی سرمایہ کاری گرے گی۔ یوں ایک سنگین قسم کی سٹیگفلیشن کی صورتحال بن جائے گی۔

 (139) ٹرمپ کے ابھار اور لبرل سامراجی آرڈر پر پے درپے یلغار کے حوالے سے سرمائے کے سنجیدہ پالیسی سازوں کا تبصرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ اِس حوالے سے ہم دی اکانومسٹ کے تازہ شماروں میں سے کچھ اقتباسات پیش کرنا چاہیں گے۔ 8 مارچ کو شائع ہونے والے شمارے میں دی اکانومسٹ معاشی صورتحال اور امکانات کا ازسرِ نو جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے:

’’4 مارچ کو کانگریس سے اپنے خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالات کی بہت خیالی اور مبالغہ آمیز تصویر کشی کی ہے۔ اس نے اعلان کیا کہ امریکی خواب (American Dream) پہلے سے کہیں زیادہ بڑا اور بہتر ہو رہا ہے۔ اس کے ٹیرف ملازمتوں کو محفوظ بنائیں گے، امریکہ کو مزید امیر کریں گے اور اس کی روح کو بچائیں گے۔ بدقسمتی سے حقیقی دنیا میں صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ سرمایہ کاروں، صارفین اور کمپنیوں نے ٹرمپ کے وژن پر پہلی بار مایوسی کے آثار ظاہر کیے ہیں۔ اپنی جارحانہ اور غیر مستقل مزاج تحفظاتی پالیسیوں کے ذریعے ٹرمپ آگ سے کھیل رہا ہے۔ 4 مارچ کو کینیڈا اور میکسیکو سے درآمد ہونے والی اشیا پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر کے ٹرمپ نے دنیا کی سب سے مربوط سپلائی چینز میں سے ایک کو آگ لگا دی ہے… اس نے چین پر ٹیرف بڑھا دئیے ہیں اور یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا کو بھی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ان میں سے کچھ ٹیرف موخر بھی ہو سکتے ہیں جبکہ کچھ شاید عملی شکل اختیار ہی نہ کریں۔ تاہم معاشیات اور خارجہ تعلقات دونوں میں یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ساری پالیسیاں صدر کے خبط اور لاابالی پن پر مبنی خواہشات کے تحت ہی تشکیل پا رہی ہیں۔ اس سے امریکہ کے اندر اور باہر‘ایک مستقل نوعیت کا نقصان ہو گا… مسٹر ٹرمپ کے الیکشن جیتنے پر سرمایہ کاروں اور مالکان نے خوب جشن منایا تھا… افسوس کہ ان کی ساری امیدوں پر پانی پھرتا جا رہا ہے۔ ایلون مسک کا ’ڈوج‘ ہر طرف افراتفری پھیلا رہا ہے اور شہ سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ لیکن ڈی ریگولیشن کے کوئی واضح آثار نہیں آتے… سٹاک مارکیٹیں سرخ ہو رہی ہیں… اِس تشویش کے پیچھے یہ ابھرتا ہوا ادراک کارفرما ہے کہ ٹرمپ پر جکڑ بندیاں اس سے کہیں کم ہیں جتنی کہ سرمایہ داروں کو توقع تھی… صدر کے ارد گرد کے لوگ بھی اسے کنٹرول کرنے سے قاصر ہیں… ٹرمپ کے خوف کی وجہ سے بہت تھوڑے کاروباری لوگ ایسے ہیں جو سچ بولنے کی جسارت کر رہے ہیں… جوں جوں یہ بات پھیلے گی کہ ٹرمپ معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے‘ وہ بات کرنے والوں پر ہی غصہ نکالے گا۔ اس زد میں اس کے اپنے مشیر، مرکزی بینک اور میڈیا بھی آ سکتا ہے۔ صدر صاحب تو کچھ عرصہ اپنی تحفظاتی پالیسیوں کی خیالی دنیا میں کھوئے رہیں گے۔ لیکن قیمت حقیقی دنیا کو ادا کرنی پڑے گی۔‘‘

(140) 15  مارچ کے شمارے میں ٹرمپ کے عتاب کا شکار اتحادی ممالک کے حوالے سے کچھ یوں تبصرہ کیا گیا ہے:

’’دہائیوں تک امریکہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا رہا اور اپنے دشمنوں کو روکنے میں کامیاب رہا۔ لیکن یہ ثابت قدمی اب اپنے الٹ میں بدلتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اتحادیوں کے بازو مروڑ رہا ہے جبکہ مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملا رہا ہے۔ 3 مارچ کو یوکرائن کی تمام امداد منجمد کرنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے اسے تب بحال کیا جب یوکرائن نے اصولی طور پر تیس روزہ جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ وائٹ ہاؤس‘ ولادیمیر پیوٹن پر یہ جنگ بندی قبول کرنے کے لئے کس حد تک دباؤ ڈالے گا۔ اسی دن مسٹر ٹرمپ نے کینیڈا پر مزید ٹیرف بھی عائد کر دئیے… مسٹر ٹرمپ اور ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان کے جارحانہ اور برق رفتار اقدامات سے امریکی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے، رکاوٹیں ٹوٹ رہی ہیں اور کاہل یا طفیلی اتحادی جھنجھوڑے جا رہے ہیں۔ (ان کے خیال میں) یوکرائن میں مجوزہ جنگ بندی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ممالک کے رویوں کو بدل سکتے ہیں۔ لیکن کس قیمت پر؟ ان کی تجارتی جنگ مالیاتی منڈیوں میں خوف و ہراس پیدا کر رہی ہے۔ وہ چالیس سے زائد ممالک جنہوں نے 1945ء کے بعد سے اپنی سکیورٹی امریکہ کے سپرد کر رکھی تھی‘ اعتماد کے بحران کا شکار ہیں۔ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی غیر مستقل مزاجی اور قلیل مدتی سوچ سے خوفزدہ ہیں۔ غزہ میں ایک ایسی جنگ بندی، جو یوکرائن والی جنگ بندی سے مشابہ ہے، جلد ہی ناکام ہو سکتی ہے… اتحادی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا وہ اس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی سنگین بحران آیا تو مسٹر ٹرمپ یا (ممکنہ طور پر) صدر جے ڈی وینس ان کے ساتھ کھڑا ہو گا؟ بدقسمتی سے اس کا جواب ہے: کچھ نہیں کہا جا سکتا… ایشیا کے اتحادیوں کو فکر ہے کہ اگلی باری ان کی آ سکتی ہے۔ آسٹریلیا، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک امید کر رہے ہیں ٹرمپ کی چین سے دشمنی اتنی گہری ہے کہ وہ انہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ لیکن اس کے (اپنے اتحادیوں سے) تجارتی اور دفاعی معاہدوں سے متعلق شکوے کسی مخصوص خطے تک محدود نہیں ہیں۔ اس کی یوکرائن کے معاملے پر روس کے ساتھ تیسری عالمی جنگ سے بچنے کی کوششوں کو مد نظر رکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ چین یا شمالی کوریا کو بھی رعایت دے سکتا ہے۔ اس سے اتحادی کمزور ہوں گے اور تائیوان زیادہ غیر محفوظ ہو جائے گا… امریکہ کے اتحادیوں کو آج ہی سے اس مایوس کن انجام سے بچنے کی کوششیں شروع کرنا ہوں گی۔ ایک تجویز یہ ہے کہ امریکہ کو ایسے کاموں سے روکنے کی حکمت عملی اپنائی جائے جن میں سب کا نقصان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ غیر روایتی جوابی اقدامات ڈھونڈے جائیں۔ لیکن ان کا استعمال اس انداز میں کیا جائے کہ 1930ء کی دہائی جیسے تباہ کن سلسلے سے بچا جا سکے…امریکہ کے اتحادیوں کو عددی طاقت میں اپنی مضبوطی تلاش کرنا ہو گی۔ یورپ کو چاہئے کہ وہ نیٹو کی قیادت سنبھالنے کا منصوبہ تیار کرے۔ سی پی ٹی پی پی، جو کہ ایک ایشیائی تجارتی معاہدہ ہے، میں شمولیت اختیار کرے اور جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ فوجی اور سول ٹیکنالوجی کے شعبے میں قریبی تعاون کرے۔ اس سے ایک وسیع اتحاد تشکیل پائے گا اور باہمی رقابتوں سے نپٹنے میں مدد ملے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک متبادل لبرل نظام بھی برقرار رہے گا۔ اگرچہ وہ پہلے سے کہیں کمتر ہو گا۔ اتحادیوں کو 2029ء میں ایک نئے امریکی صدر کے تحت امریکہ کو دوبارہ خوش آمدید کہنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اگرچہ اس وقت تک دنیا پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا خطرہ پیدا ہو چکا ہو گا، چین مزید طاقتور ہو چکا ہو گا اور امریکہ کی قوت و ساکھ کو شدید نقصان پہنچ چکا ہو گا۔ تاہم شکوے شکایتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اتحادیوں کو سخت فیصلے لینے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

 (141) اس سے قبل یکم مارچ کے شمارے میں ایسے ہی خیالات جھلکتے ہیں:

’’1945 کے بعد قائم ہونے والا عالمی آرڈر تیزی سے ٹوٹ کے بکھر رہا ہے۔ اس ہفتے اقوام متحدہ میں غیر معمولی مناظر دیکھنے کو ملے۔ جہاں امریکہ نے یوکرائن اور یورپ کے خلاف روس اور شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جرمنی کے متوقع نئے چانسلر فریڈرک مرز خبردار کر رہے ہیں کہ جون تک نیٹو کا وجود ختم ہو سکتا ہے…ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ اس کی سودے بازی سے امن قائم ہو گا اور 80 سال تک دوسروں کے مفادات کا شکار رہنے کے بعد امریکہ اپنی سپر پاور حیثیت کو منافع بخش بنا سکے گا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ طرزِ عمل دنیا کو مزید خطرناک بنائے گا اور امریکہ کو کمزور اور غریب کر کے رکھ دے گا… دنیا کو تو نقصان اٹھانا ہی پڑے گا۔ لیکن جس بات کا مسٹر ٹرمپ کو ادراک نہیں وہ یہ ہے کہ خود امریکہ بھی اس نقصان کا شکار ہو گا۔ یہ درست ہے کہ اس کا عالمی کردار ایک عسکری بوجھ اور تجارتی کشادگی کا متقاضی رہا ہے۔ جس نے بعض امریکی صنعتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اس کے فوائد کہیں زیادہ رہے ہیں۔ (آزاد) تجارت صارفین اور درآمدی صنعتوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ ڈالر پر مبنی مالیاتی نظام کا مرکز ہونے کی بدولت امریکہ سالانہ 100 ارب ڈالر سے زائد سود کی ادائیگی سے بچتا ہے اور اسے زیادہ مالی خسارہ جاری رکھنے کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ امریکی کمپنیوں کا غیر ملکی کاروبار 16 ٹریلین ڈالر کی مالیت رکھتا ہے۔ یہ کمپنیاں بیرون ملک اس لئے ترقی کرتی ہیں کہ وہاں تجارت کے نسبتاً مستحکم اور غیر جانبدار عالمی اصول رائج ہیں… امریکہ کی سودے بازی کی طاقت تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کانگریس، مالیاتی منڈیاں اور ووٹر‘ مسٹر ٹرمپ کو یہ روش ترک کرنے پر آمادہ تو شاید کر لیں۔ لیکن دنیا نے ایک لاقانونیت پر مبنی عہد کے حوالے سے منصوبہ بندی پہلے سے شروع کر دی ہے۔‘‘

 (142) ان سطور کی تشویش میں صورتحال کی سنگینی واضح جھلکتی ہے۔ بہرحال کئی باتیں قابل غور ہیں۔ مثلاً ان کے اپنے مطابق غزہ کی جنگ بندی پائیدار نہیں ہے۔ دنیا کے بیشتر دوسرے تنازعات کی طرح سامراج کا پیدا کردہ یہ مسئلہ بھی ایک مسلسل رِستا ہوا زخم ہے۔ لیکن ٹرمپ نے ساری فلسطینی آبادی کے انخلا اور غزہ کو ایک ’ریزوٹ‘ (عیاشی کے اڈے) میں بدلنے پر مبنی اس مسئلے کا جو ’’حل‘‘ پیش کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ سرمائے کے آقا کس قدر ڈھٹائی پر اتر آئے ہیں۔ غزہ میں بھی ٹرمپ کو انسانوں کی نسل کشی اور بربادی نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ کی ایک منافع بخش ڈِیل نظر آ رہی ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو اس نے وہی بات کی ہے جو ’’مہذب‘‘ سامراجی حکمران برملا کہنے سے گھبراتے رہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ چونکہ بدتمیز اور جلد باز انسان ہے‘ اس لئے دہائیوں کے کام کو مہینوں یا سالوں میں نپٹانا چاہتا ہے۔ بہرحال یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار ہو رہا ہے کہ سرِ عام کسی قوم کے یکسر خاتمے (Ethnic Cleansing) کی بات کی جا رہی ہے۔

 (143) فلسطینیوں کو بے دخل کرنا یقینا آسان نہیں ہے۔ لیکن اسرائیل کے ساتھ حالیہ تصادم میں حزب اللہ اور حماس کو پہنچنے والے بھاری نقصان (جس میں اہم قائدین کا قتل بھی شامل ہے) اور شام میں بشار حکومت کے خاتمے کی وجہ سے ایران کو خاصا دھچکا لگا ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کے بھی ایران کھوکھلی بڑھکوں اور اسرائیل کے ساتھ کنٹرولڈ قسم کے تصادم کے علاوہ فلسطینیوں کے حق میں کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے سے قاصر رہا ہے۔ جس کے پیچھے ایرانی ریاست کے داخلی کھوکھلے پن کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے مقابلے میں تکنیکی، عسکری اور معاشی کمزوری بھی کارفرما ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر فلسطین کے مسئلے اور امریکہ دشمنی جیسے ایشوز کو کرپٹ ایرانی ملائیت نے ہمیشہ اپنے جابرانہ اقتدار کے جواز کے طور پر ہی استعمال کیا ہے۔ خود اپنے عوام پر جبر کے پہاڑ کے توڑنے والی ایک رجعتی اور استحصالی ریاست سے بھلا سامراج کے خلاف جدوجہد کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ بہرحال ان واقعات کے نتیجے میں ایران سے جڑی بہت سی خوش فہمیاں بھی دور ہو گئی ہیں۔

 (144) اسرائیل اگرچہ خود ایک گہرے داخلی بحران کا شکار ہے۔ لیکن اسے ایران کی کمزور پوزیشن اور ٹرمپ کی بھرپور پشت پناہی سے مزید شہ ملی ہے۔ تاہم حماس اور حزب اللہ بھی کمزور ضرور ہوئے ہیں لیکن جنگی طریقوں سے ان کا خاتمہ کم و بیش ناممکن ہے۔ اس حوالے سے حالیہ جنگ بندی ایک عارضی بندوبست ہی ہے۔ جو کسی بھی وقت ملیا میٹ ہو سکتا ہے۔ تنازعے کے پیچھے کارفرما تمام تضادات بدستور موجود ہیں۔ جب تک مشرقِ وسطیٰ کے جسم پر اسرائیل کا ناسور موجود ہے‘ یہ خطہ درد اور اذیت سے کراہتا رہے گا۔

 (145) لیکن ٹرمپ یوکرائن کا مسئلہ بھی عین اسی طریقے سے ’’حل‘‘ کرنا چاہ رہا ہے جیسے وہ فلسطین کا کرنا چاہتا ہے۔ اس کی ’’تجویز‘‘ یہ ہے کہ یوکرائن کے جتنے حصہ پر روس قابض ہے (تقریباً 20 فیصد) وہ مستقل روس کے حوالے کر دیا جائے۔ جبکہ باقی ماندہ یوکرائن اپنی تمام معدنیات امریکہ کے حوالے کر دے۔ جسے وہ روس کے ساتھ مل کے لوٹ سکے۔ یہ بنیادی طور پر روس اور امریکہ کے درمیان یوکرائن کی بندر بانٹ کا منصوبہ ہے۔ اس حوالے سے زیلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان جو منہ ماری ساری دنیا کے سامنے وائٹ ہاؤس میں ہوئی ہے‘ وہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ جس کا پیشگی تصور بھی محال تھا۔

 (146) یوکرائن جنگ کے حوالے سے بائیں بازو کے بہت سے رجحانات کا نظریاتی دیوالیہ پن بھی کھل کے سامنے آیا ہے۔ جو اس مسئلے سے جڑے طویل تاریخی پس منظر، قومی سوال، خطے کے زمینی حقائق اور یوکرائنی ریاست و عوام کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنے میں بالکل ناکام رہے ہیں۔ اس تنازعے کو محض نیٹو کے پھیلاؤ کا نتیجہ یا دو سامراجی طاقتوں کی پراکسی جنگ کہہ کر ہاتھ جھاڑ لینا نہ صرف غلط بلکہ مجرمانہ پوزیشن ہے۔ ویسے ان میں سے بیشتر تو ایسے بھی ہیں جو روس کو سامراجی طاقت سمجھتے ہی نہیں ہے۔ یا کم از کم ’’کمتر برائی‘‘ خیال کرتے ہیں۔ ایسے ہی وِچار ان کے بشار الاسد حکومت کے حوالے سے رہے ہیں۔ لہٰذا ہم شام اور یوکرائن کی صورتحال کا الگ سے تجزیہ ضروری سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے دو ضمیمہ جات اِس دستاویز کے آخر میں شامل کیے گئے ہیں۔

 (147) ’اکانومسٹ‘ کے مندرجہ بالا اقتباسات پر غور کریں تو یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انہیں ٹرمپ کی پالیسیوں سے زیادہ اس کے طرزِ عمل اور طریقہ کار سے مسئلہ ہے۔ مثلاً وہ کسی کی نہیں سنتا، کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے، مستقل مزاج نہیں ہے اور من مانی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ قابل اعتماد نہیں ہے اور اس کے ہوتے کوئی دوررس پلاننگ ممکن نہیں ہے۔ امریکہ کے اندر ڈی ریگولیشن کی پالیسی کی حمایت کے باوجود اکانومسٹ کا شکوہ ہے کہ شور زیادہ ہے اور کام کم ہے۔

 (148) ان سطور میں بچے کھچے لبرل آرڈر کو بچانے کی منصوبہ بندی پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے یورپی حکمران سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس بلا کر زیلنسکی کو ڈانٹ پلانے کے واقعے کے بعد یورپی یونین کے خارجہ پالیسی چیف نے کھل کے کہا ہے کہ ’’آزاد دنیا کو اب ایک نئے رہنما کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ انتہائی غیر معمولی الفاظ ہیں۔

 (149) لیکن امریکہ کے بغیر اس آرڈر کو چلانا نہ صرف بہت مشکل بلکہ مہنگا بھی ہے۔ اس کے لئے یورپ کو ازسر نو خود کو مسلح کرنا ہو گا، افواج کو بڑے پیمانے پر توسیع دینا ہو گی اور جتنے بھی عسکری معاملات کی گارنٹیاں پہلے امریکہ نے لی ہوئی تھیں وہ خود سنبھالنے ہوں گے۔ اس کے لئے بھاری اخراجات درکار ہیں۔ یہ پہلے سے بحران سے دوچار معیشتوں اور آسٹریٹی کا شکار عوام کے لئے کوئی اچھی نوید نہیں ہے۔

 (150) یورپی ’ری آرما منٹ‘ کا مطلب اسلحے کی ایک نئی دوڑ ہے۔ اس کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ کئی یورپی ممالک جوہری ہتھیار بھی حاصل کرنا چاہیں گے۔ کیونکہ اس سے پہلے جوہری جنگ کی صورت میں ان کے دفاع کی ذمہ داری امریکہ نے لی ہوئی تھی (یورپ میں صرف فرانس اور برطانیہ کے پاس جوہری ہتھیار ہیں)۔ لیکن نئی صورتحال میں جوہری پھیلاؤ (Proliferation) کے تاریک رجحانات بڑھیں گے۔

 (151) نیٹو پہلے سے ایک تعطل کا شکار ہے۔ ٹرمپ یورپ کو نیٹو میں پیسے نہ لگانے کے طعنے دے رہا ہے۔ لیکن ایک نئی درفتنی اس نے یہ چھوڑی ہے کہ گرین لینڈ کو ہتھیانے میں نیٹو اس کا ساتھ دے۔ یعنی نیٹو اپنے ہی ایک رکن ملک کے وسیع حصے پر قبضہ کرنے میں ایک اور رکن ملک کا ساتھ دے! ڈنمارک پہلے ہی گرین لینڈ پر امریکہ کے قبضے کی باتوں کی شدید مذمت کر چکا ہے۔ ڈنمارک کے وزیر اعظم نے تو بالواسطہ طور پر ٹرمپ کو بکواس بند کرنے کو کہا ہے۔ اسی طرح کا ردِ عمل کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کی باتوں پر کینیڈین حکومت، سیاسی شخصیات اور عوام نے دیا ہے۔

 (152) تاہم مسئلہ صرف نیٹو کا نہیں یورپی یونین کا بھی ہے۔ یورپی یونین پہلے سے مرکز گریز رجحانات کی زد میں ہے۔ لیکن ٹرمپ کی جانب سے فار رائٹ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی حمایت اِن رجحانات کو تقویت ہی دے گی۔ اگر دیکھا جائے تو یورپی ممالک پہلے سے ہی ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کی گرمجوشی کے حوالے سے تقسیم ہو چکے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کی پارٹیاں اگر مزید ممالک میں برسر اقتدار آتی ہیں تو یہ تقسیم وسیع اور گہری ہی ہو گی۔

 (153) ویسے یہ بات قابل غور ہے یورپ سے باہر بھی ٹرمپ کا رویہ آمرانہ ریاستوں یا حکومتوں کی طرف نسبتاً گرمجوش ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ تاریخی طور پر امریکہ کے دشمن ممالک کو بھی بعض اوقات ایک غیر متوقع انداز میں مذاکرات کی دعوت دے دیتا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں شمالی کوریا کا معاملہ رہا ہے اور اب اس نے جوہری امور پر ایران کو بھی بات چیت کی دعوت دی ہے (ساتھ ہی ایران کے اتحادی حوثی باغیوں پر حملے بھی شروع کر دئیے ہیں جو بڑے تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں)۔ اگرچہ ایرانیوں نے اسرائیل کے سامنے اپنی بے بسی کی خفت مٹانے کے لئے یہ دعوت بظاہر مسترد کر دی ہے۔ ویسے بھی حالیہ تصادم کے بعد شاید وہ جوہری ہتھیار بنانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچیں۔ یا سودے بازی میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے کم از کم ایسا تاثر دیں۔ بہرحال پس پردہ کسی نہ کسی سطح پر انڈرسٹینڈنگ بنانے کی کوششیں یقینا جاری ہوں گی۔ اسی طرح ٹرمپ نے کانگریس سے اپنے حالیہ خطاب میں حیران کن طور پر پاکستان کی بھی تعریف کر دی ہے!

 (154) اس تناظر میں دیکھیں تو چین کے حوالے سے اس کے دوسرے اقتدار کی پالیسی ابھی تک واضح نہیں ہے۔ ٹیرف تو وہ اپنے اتحادیوں پر بھی لگا رہا ہے۔ اس حوالے سے چین پر لگائے گئے ٹیرف کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہیں۔

 (155) کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ روس سے ہاتھ ملانے، پاکستان کی طرف نسبتاً نرم رویہ اپنانے اور امریکہ میں جنونی قسم کے قوم پرستانہ رجحانات کو ہوا دینے جیسی پالیسیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ چین کو ایک بتدریج انداز میں تنہا (Isolate) کر کے گھیرنا چاہتا ہے۔ اس میں ظاہر ہے سی پیک جیسے منصوبوں اور چین کی بیرونی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی شامل ہو گی۔ لیکن ہم نے اوپر ’اکانومسٹ‘ سے پیش کیے گئے اقتباسات میں دیکھا ہے کہ خود سامراجی پالیسی سازوں کو خدشہ ہے کہ روس اور شمالی کوریا کی طرح وہ چین کی طرف بھی ہاتھ بڑھا سکتا ہے ( یا جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ ’رعایت‘ دے سکتا ہے)۔ لہٰذا یہ معاملہ بھی غیر یقینی سے ہی دوچار ہے۔ بہرحال دستاویز کے اگلے حصے میں ہم ایک تاریخی پس منظر میں چین کا نسبتاً تفصیلی جائزہ لیں گے۔

 (156) حالیہ سالوں یا دہائیوں میں ابھرنے والے فار/ہارڈ رائٹ کو لے کے مارکسی حلقوں میں دو انتہائی رجحانات دیکھے گئے ہیں۔ پہلا اس خطرے کو مبالغہ آرائی سے پیش کرتا ہے۔ جس کے ذریعے وہ لبرل بورژوا زی یا بائیں بازو کی اصلاح پسندی سے اتحاد اور مصالحت کے پرچار کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کے متضاد ایسے رجحانات بھی موجود ہے جو یا تو فار رائٹ کو بطور ایک مختلف مظہر تسلیم ہی نہیں کرتے یا ان کے نزدیک یہ کوئی خطرہ نہیں ہے (کیونکہ کلاسیکی فاشزم کی تعریف پر پورا نہیں اترتا یا اب وہ حالات نہیں ہیں!)۔

 (157) وقت نے ان دونوں پوزیشنوں کو غلط ثابت کیا ہے۔ حالیہ عرصے میں ابھرنے والے انتہائی دائیں بازو کے رجحانات‘ روایتی دائیں بازو سے خاصے مختلف ہیں، آنے والے دنوں میں مزید شدت اور وسعت اختیار کر سکتے ہیں اور اِس حوالے سے محنت کشوں کے لئے سنجیدہ خطرات کے حامل ہیں۔ لیکن ان کی راہ اصلاح پسندی کی ناکامی نے ہی ہموار کی ہے۔ لہٰذا وہ ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔

 (158) نہ ہی عدالتوں سے زیادہ امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ کچھ ذیلی عدالتیں ٹرمپ کے اقدامات کو روکنے کی کوشش تو کر رہی ہیں۔ لیکن اعلیٰ عدالتوں میں زیادہ تر ٹرمپ کے حمایتی ہی بیٹھے ہیں۔جو نہیں ہیں انہیں وہ فارغ کروا دے گا۔ یوں عدلیہ کے ذریعے لمبے عرصے تک اس کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ طاقت کا مقابلہ طاقت ہی کر سکتی ہے۔ یہ جنگ محنت کشوں کو خود ہی لڑنا ہو گی۔

 (159) ٹرمپ آنے والے دنوں میں مزید کیا حرکتیں کرتا ہے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ فی الوقت امریکی حکمران طبقے کا ایک بڑا حصہ ٹرمپ سے مرعوب ہے۔ اپنے منافعوں اور دولت میں اضافے کی امید میں وہ اس کی بدتمیزیاں بھی برداشت کر رہے ہیں۔لیکن آنے والے دنوں میں حالات کی خرابی کیساتھ صورتحال تیزی سے بدل سکتی ہے۔ حواریوں سمیت ٹرمپ کو راستے سے ہٹائے جانے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

 (160) بہرصورت ہم نے موجودہ عہد کے کردار اور معروضی حالات کے تناظر میں ٹرمپ اور اس سے مماثل دوسری شخصیات اور رجحانات کی سماجی و معاشی بنیادوں اور عزائم کا عمیق جائزہ لیا ہے۔ جس کی روشنی میں مستقبل کے امکانات بڑی حد تک واضح ہو جاتے ہیں۔

چین، انڈیا اور ’برکس‘ (BRICS)

 (161) حالیہ سالوں میں مغربی سامراج کی زوال پذیری اور چین کے ابھار کے ساتھ اس تاثر نے تقویت پکڑی ہے کہ ’برکس‘ جیسے اتحاد آنے والے دنوں میں بریٹن ووڈز اور واشنگٹن اتفاق ِ رائے پر مبنی ورلڈ آرڈر (نیٹو، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یورپی یونین وغیرہ) کا متبادل ہو سکتے ہیں۔

 (162) اس بیانئے کی کئی شکلیں ہیں۔ جن میں مغربی سامراج کے مقابلے میں چین کو ترقی پسند سمجھنے کی سوچ بھی شامل ہے۔ پاکستان میں مشاہد حسین جیسے لوگ اس سلسلے میں باقاعدہ لابنگ میں مصروف ہیں۔ اسی طرح چین، روس، ایران اور تیسری دنیا کے مختلف ممالک پر مبنی ایک نئے سامراج مخالف ’مشرقی بلاک‘ کی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بلاک پہلے سے ایک حقیقت ہے۔ جبکہ کچھ ایسی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے خواب دیکھنے کی آزادی سب کو حاصل ہے۔ ویسے بھی حماقت کی کوئی حدود تو ہوتی نہیں ہیں۔

 (163) اس کے مقابلے میں ایسے رجحانات بھی ہیں جو چین کو کوئی ترقی پسند عامل تو خیال نہیں کرتے۔ لیکن اس کی صلاحیتوں اور اثر و رسوخ کے معاملے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ اسے امریکہ کا ہم پلہ یا اس سے بھی زیادہ طاقتور خیال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک امریکی سامراج کا سورج ڈوب چکا ہے۔

 (164) ایک اور صورت میں چین کی معیشت کو محض ’’سرمایہ دارانہ‘‘ کہہ کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں اور چینی ریاست و اقتصادیات کو اس کے امتیازی، استثنائی یا مخصوص پہلوؤں (Peculiarities) کے ساتھ دیکھنے کی بجائے بورژوا معاشیات کے اصول اور سامراجی معیشت دانوں کے تجزئیے زبردستی منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

 (165) یہ درست ہے کہ گزشتہ تقریباً تین دہائیوں کے دوران چین ایک بڑی اقتصادی قوت کے طور پر دنیا میں ابھرا ہے۔ ایک ایسی قوت جو نسبتاً جدید اور وسیع عسکری صلاحیتوں کی حامل ہے اور ان میں مسلسل اضافہ بھی کر رہی ہے۔ جبکہ امریکہ سمیت مغربی سامراج ایک تاریخی کمزوری، زوال اور ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہے۔ لیکن یہ ابھی تک ایک جاری عمل ہے۔ جو تضادات سے لبریز ہے اور جس کا کوئی حتمی نتیجہ اتنی آسانی سے برآمد ہونے والا نہیں ہے۔

 (166) اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم چین کی اٹھان کا جائزہ لیتے ہیں۔ چند دہائیوں میں وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا ہے۔ اگر آبادی کی تعداد کو مدنظر رکھیں تو یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی معاشی ترقی ہے۔ جس میں ایک سے ڈیڑھ ارب انسانوں پر مبنی ایک ملک نے کئی دہائیوں تک کسی بڑی گراوٹ کے بغیر مسلسل اقتصادی نمو حاصل کی ہے۔

طویل عرصے کی تیز اور مسلسل ترقی کے آغاز پر ملکی آبادی کا کل عالمی آبادی میں حصہ

(167) 1949ء میں انقلاب کے وقت کا انتہائی پسماندہ اور غربت، ناخواندگی، جہالت، غلامی اور بربریت میں گھرا ہو چین آج ایک شہری، صنعتی، خواندہ اور صحت مند معاشرہ ہے۔ جو معیارِ زندگی، تہذیب اور ترقی کے حوالے سے کم از کم اس سطح پر ہے کہ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے معاشروں کا اس سے موازنہ ہی نہیں بنتا۔ یاد رہے کہ 1947ء یا 49ء میں یہ سب ممالک کم و بیش ایک اقتصادی سطح پر کھڑے تھے۔

(168) 1978ء کے بعد عام گھریلو کھپت میں 1800 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ شرح خواندگی جو 1949ء میں صرف 20 فیصد تھی‘ اس وقت 98 فیصد ہے۔ جبکہ چینی شہریوں کی اوسط عمر امریکہ سے بھی زیادہ ہے۔ آنے والے دنوں میں ورلڈ بینک کے معیارات کے مطابق چین ایک ’ہائی انکم‘ معیشت کا درجہ حاصل کر لے گا۔

 (169) عالمی معیشت میں چین کا حصہ 1982ء میں 2 فیصد سے تھوڑا ہی زیاد ہ تھا۔ لیکن صرف تیس سال بعد 2012ء میں یہ تقریباً 15 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ 2010ء میں چین نے جاپان کو کراس کر کے دوسری بڑی عالمی معیشت کا درجہ حاصل کیا۔ جبکہ امکانات ہیں کہ یہ 2028ء تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا درجہ امریکہ سے چھین لے گا۔

(170) 2022ء سے پہلے کی دو دہائیوں کے دوران عالمی جی ڈی پی میں چین کا حصہ 8 فیصد سے بڑھ کے 18 فیصد ہو گیا جبکہ امریکہ کا حصہ تقریباً 20 فیصد سے کم ہو کے 15فیصد تک آ گیا۔ 2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق چین کا حصہ 20 فیصد کے قریب ہو چکا ہے۔ امریکہ کی بوکھلاہٹ بے وجہ نہیں ہے۔ اعداد و شمار خود بولتے ہیں!

(171) 2011ء سے 2013ء تک کے صرف دو سالوں میں چین نے 6.6 گیگا ٹن کنکریٹ استعمال کیا۔ جو پوری 20ویں صدی میں امریکہ میں استعمال ہونے والے کنکریٹ سے 2 گیگا ٹن زیادہ ہے!اس وقت چین مصنوعی ذہانت، ہائی سپیڈ ریلوے، خلائی تحقیق اور روبوٹکس سمیت جدید ترین ٹیکناجیوں میں بھاری سرمایہ کاری کرتے ہوئے تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور کئی صورتوں میں امریکہ کو مات دے رہا ہے۔ چین پر امریکہ کی جانب سے عائد کی جانے والی تجارتی قدغنوں کا اصل مقصد اپنے تجارتی توازن کو ٹھیک کرنے سے زیادہ چین کو ان جدید تکنیکی شعبوں میں ترقی کرنے سے روکنا ہے جو امریکی یا مغربی سامراج کی اجارہ داری سمجھے جاتے ہیں۔

(172) 1970ء کے اواخر سے 2018ء تک چینی معیشت 9.5 فیصد سالانہ کی اوسط شرح سے ترقی کرتی رہی ہے۔ جبکہ اس دوران عالمی معیشت کا اوسط گروتھ ریٹ صرف 2.8 فیصد رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان 40 سالوں کے دوران چینی معیشت کا ہجم ہر آٹھ سال میں دگنا ہوتا رہا ہے!

 (173) ماؤ کے انتقال اور ڈینگ ژاؤ پنگ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1978ء میں چین کی منڈی کی پالیسیوں کی طرف مراجعت مغربی سرمایہ داری کے لئے ایک بڑا معاشی اور نظریاتی سہارا بنی تھی۔ اس سے انہیں انتہائی سستی لیبر میسر آئی ہے۔ لیکن یہ لیبر محض سستی نہیں تھی بلکہ انتہائی ہنر مند، نظم و نسق کی پابند، صحتمند، مہذب اور تعلیم یافتہ بھی تھی۔ یہ انتہائی قابل غور بات ہے۔

 (174) مغربی سامراج کا خیال تھا کہ سرمایہ داری کی بحالی کا عمل چین کو بتدریج لبرل یا نیولبرل معاشی و سیاسی طرز پر ڈھالتے ہوئے آخر کار ان کی ذیلی و مطیع ریاست میں تبدیل کر دے گا۔ ایسے ہی خواب انہوں نے سوویت یونین کے انہدام کے وقت روس کے بارے میں بھی دیکھے تھے۔ لیکن غور کریں تو دونوں صورتیں ان کے لئے بھیانک سپنا بن کے رہ گئی ہیں۔

 (175) ایسا کیوں ہوا؟ کچھ بنیادی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جن میں سب سے اہم ان ممالک کا باقی پسماندہ یا نوآبادیاتی خطوں سے مختلف تاریخی ارتقا ہے۔ روس میں 1917ء کے بالشویک انقلاب نے جاگیرداری کی باقیات سمیت سرمایہ داری کا خاتمہ کیا۔ جس سے آخر کار (سٹالنسٹ یا بیوروکریٹک شکل میں ہی سہی) ایک منصوبہ بند معیشت کی راہ ہموار ہوئی۔ 1949ء کے انقلاب کے بعد بڑی حد تک سوویت یونین کا معاشی ماڈل ہی چین میں کاپی کیا گیا۔ یہ وہ تاریخی پیش رفتیں ہیں جو ان ممالک کو سرمایہ داری کے راستے پر چلنے والے جنوب ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بیشتر پسماندہ اور بحران زدہ خطوں سے مختلف بناتی ہیں۔

 (176) سوال یہ ہے کہ 1978ء کے بعد محض سستی لیبر یا منڈی کی معیشت ہی چین کی ترقی کی وجہ رہی ہے تو پھر یہ ترقی ہمیں تیسری دنیا کے باقی ممالک میں نظر کیوں نہیں آتی (چند ایک بالکل چھوٹی یا استثنائی صورتیں یقینا ہو سکتی ہیں)۔ مثلاً پاکستان میں اِن دونوں عناصر میں سے کس چیز کی کمی ہے؟

 (177) سرمائے کی دانش ان سوالات کا جواب دینے سے یا تو قاصر ہے یا خاموش رہنے میں عافیت جانتی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ (بیوروکریٹک کنٹرول سے جڑے ضیاع اور بدانتظامی کے باوجود) ریاستی ملکیت اور منصوبہ بندی پر مبنی معیشت کے تحت اقتصادی و سماجی ترقی، زمینی اصلاحات (لینڈ ریفارمز) اور نسبتاً جدید زراعت کی استواری، بڑے پیمانے کی صنعتکاری اور تکنیکی ترقی کے جو تاریخی فرائض روس اور چین میں ادا کیے گئے وہ پاکستان جیسے ممالک میں سرمایہ داری آج تک ادا کرنے سے قاصر ہے۔ چین میں 1978ء کے بعد کی تمام تر معاشی گروتھ ان معاشی بنیادوں پر کھڑی ہے جو 1949ء کے بعد ماؤ کے دورِ حکومت میں تعمیر کی گئی تھیں۔ ان میں مذکورہ بالا ہنرمند، تعلیم یافتہ اور صحتمند لیبر فورس بھی شامل ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ان دہائیوں میں دیوہیکل پیمانے پر وہ بنیادی معاشی و سماجی انفراسٹرکچر تشکیل دیا گیا جو مزید ترقی اور گروتھ کی بنیادی شرط ہوتا ہے۔

 (178) بعد از انقلاب چین کی سیاسی معیشت کی تاریخ اور موجودہ معاشی ماڈل پر ہم آنے والے دنوں میں الگ سے روشنی ڈالیں گے۔ لیکن بنیادی حقیقت یہ ہے کہ 1953ء کے بعد کے ابتدائی پانچ سالہ منصوبوں نے ہی ہزاروں فیکٹریوں اور کارخانوں کی تعمیر سے چین کو سٹیل، بجلی، ٹرکوں، ٹریکٹروں، جیٹ جہازوں اور بھاری مشینری وغیرہ کی پیداوار میں بڑی حد تک خود کفیل بنا دیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں بھی آمدن اور کھپت کے لحاظ سے چین اگرچہ ایک پسماندہ ملک تھا۔ لیکن اس کے سماجی اشارئیے (خواندگی، اوسط عمر، بچوں میں اموات کی شرح وغیرہ) 2025ء کے پاکستان اور انڈیا سے بھی کہیں بہتر تھے۔

 (179) آخری دو دہائیوں کو چھوڑ کے‘ سوویت دور میں روس کی ترقی چین سے بھی کہیں بڑھ کے تھی۔

 (180) اس تاریخی تناظر میں دیکھیں تو واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کی کلی یا جزوی بحالی کی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود روس اور چین کے پاس وہ معاشی بنیادیں موجود تھیں جن کے بلبوتے پر وہ مغرب کے مقابلے میں ایک نسبتاً آزادانہ اور خودمختار روش اپنانے کے قابل تھے۔

 (181) لیکن 1980ء کی دہائی کے بعد دونوں ممالک کے ارتقا میں موجود بڑے فرق کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ جس کے پیچھے سرمایہ داری کی بحالی کی مختلف شکلیں اور شدتیں کارفرما ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام نے سٹالنسٹ ریاست کو اڑا کے رکھ دیا اور ’شاک تھراپی‘ کے ڈاکٹرائن کے تحت ریاستی اثاثوں کی ایسی لوٹ سیل لگائی گئی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے نتیجے میں سابقہ بیوروکریٹوں اور نودولتیوں پر مبنی ایک انتہائی کرپٹ، ظالم اور مافیائی طرز کی بورژوازی اور اسی قسم کی ریاست وجود میں آئی۔

 (182) اس سلسلے میں صرف پیوٹن کو ہی سامنے رکھ لیں۔ جس کی ذاتی دولت کا تخمینہ 200 ارب ڈالر سے زائد کا ہے۔ یوں روس میں ایک شدید اور گہری اقربا پروری پر مبنی سرمایہ داری (Crony Capitalism) کا ظہور ہوا جسے آمرانہ طرز حکومت کے بغیر چلانا محال ہے اور جس کے قدیم زار شاہی کی طرح اپنے سامراجی عزائم ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے پیوٹن کے روس کا ریاستی نشان بھی دو عدد سروں، شاہی تاج اور صلیب والا وہی عقاب ہے جو زار شاہی کے دور میں ہوا کرتا ہے۔ ایسی ریاستوں میں برسر اقتدار ٹولہ‘ قومی اثاثوں کو بھی اپنی نجی ملکیت کی طرح ہی استعمال کرتا ہے۔

 (183) گہرائی میں دیکھیں تو روس ابھی تک سوویت یونین کے انہدام اور شاک تھراپی کے صدمے سے نکل نہیں سکا ہے۔ پیوٹن حکومت کے ابتدائی سالوں میں کچھ معاشی بحالی یا بہتری ضرور ہوئی۔ لیکن گزشتہ طویل عرصے سے معیشت جمود کا شکار ہے اور اس کا انحصار زیادہ تر تیل اور گیس کی آمدن پر ہی ہے۔ قدرتی وسائل کے استحصال پر مبنی معیشتیں کتنی بھی امیر ہو جائیں‘ اندر سے کھوکھلی اور ٹھوس بنیادوں سے عاری ہوتی ہیں۔ ثقافتی اور سماجی حوالے سے بھی روس خاصا بحران زدہ معاشرہ ہے۔

 (184) چین میں سرمایہ داری کی بحالی کی کیفیت خاصی مختلف رہی ہے۔ جس میں سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ سٹالنسٹ ریاست نہ صرف قائم رہی بلکہ اس نے معیشت پر اپنا کنٹرول بھی بڑی حد تک برقرار رکھا۔ چین میں آخری بڑی نجکاری 1990ء کی دہائی کے دوسرے حصے میں ہوئی تھی۔ جس میں چھوٹی، غیر منافع بخش یا غیر اہم صنعتوں کو فروخت یا بند کر دیا گیا۔ لیکن بینکنگ اور مالیات سمیت کلیدی معاشی شعبے اور صنعتیں نہ صرف ریاست کی ملکیت اور کنٹرول میں رہیں بلکہ انہیں معیشت کے ستونوں کے طور پر مربوط اور ماڈرنائز کیا گیا۔ آج بھی چین وہ واحد بڑی معیشت ہے جہاں پانچ سالہ منصوبہ جات نافذ العمل ہیں۔ گزشتہ دہائیوں کی ترقی میں اس ریاستی ملکیت، کنٹرول اور منصوبہ بندی کا بنیادی کردار رہا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں ’’چینی ماڈل‘‘ کا یہ رُخ کم ہی دکھایا جاتا ہے۔

 (185) لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ جسے چینی افسر شاہی کے معذرت خواہان ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ پیش کرنے کے لئے ظاہر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ 1990ء کے بعد چین میں نجی شعبہ تیزی سے پھیلا ہے اور اس وقت معیشت کے 50 فیصد سے زائد حصے پر قابض ہے۔ اس کے ساتھ ایک نئی بورژوازی پیدا ہوئی ہے۔ جس میں 800 سے زائد ارب پتی اور ان گنت کروڑ پتی بھی شامل ہیں۔ کرپشن، طبقاتی استحصال، مقابلہ بازی، عصمت فروشی، جرائم، معاشی ناہمواری جیسے رجحانات تیزی سے بڑھے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی ایک نظریاتی تنظیم سے دیوہیکل کاروباری انٹرپرائز میں بدل گئی ہے جس کا کام ’’سٹیٹ کیپٹلزم‘‘ کے اِس دیو کو کنٹرول اور مینیج کرنا ہے۔

 (186) یہ درست ہے کہ معیشت کے اہم لیور آج بھی ریاست کے کنٹرول میں ہیں لیکن یہ متضاد طرزِ معیشت کوئی مستحکم بندوبست ہرگز نہیں ہے۔ چینی سٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ کے حالیہ بحرانات، شی جن پنگ کی ’’مشترکہ خوشحالی‘‘ کی باتیں، بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ اور کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن (جس میں پارٹی سٹیٹ کے احکامات کے خلاف جانے والے بڑے سرمایہ دار بھی بعض اوقات رگڑے جاتے ہیں) اور شدید ریاستی سنسرشپ و جبر سے پتا چلتا ہے کہ اس سیٹ اپ میں خاصے تضادات اور مسائل موجود ہیں۔ جو آنے والے دنوں کھل کے سامنے آ سکتے ہیں۔

 (187) لیکن اوسط فی کس آمدن کے حوالے سے دیکھیں تو یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے۔ تمام تر گروتھ اور ترقی کے باوجود چین اب بھی مغربی سامراجی ممالک کی معاشی سطح سے بہت نیچے کھڑا ہے۔ امریکہ کے 80 ہزار ڈالر کے مقابلے میں چین کا فی کس جی ڈی پی صرف 13 ہزار ڈالر ہے (حقیقی قوت خرید (PPP) کی بنیاد پر دیکھیں تو بھی یہ امریکہ کا ایک تہائی نہیں بنتا)۔ یہ ایک بہت بڑی خلیج ہے۔ جسے عبور کرنے کی کوشش میں چینی افسر شاہی دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ اور معاشی پھیلاؤ بڑھا رہی ہے۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر بیرونی وسائل کے حصول کے بغیر اس سے آگے بڑھا نہیں جا سکتا۔ اگرچہ کچھ محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین کو امریکہ کی اقتصادی سطح پر پہنچنے کے لئے جتنے وسائل درکار ہیں وہ کرہ ارض پر موجود ہی نہیں ہیں!

 (188) لیکن چین کے سامنے مودی کے ’’شائننگ انڈیا‘‘ کی نام نہاد ترقی ایک بھونڈا اور بیہودہ مذاق ہی لگتی ہے۔ جس کے اعداد و شمار مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں اور جس کے ثمرات وسیع تر محنت کش عوام کے لئے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ پاکستان میں مشرف دور سے بھی گئی گزری گروتھ ہے۔ جس نے انڈیا میں عدم مساوات کو برطانوی سامراجی قبضے کے وقتوں سے بھی بدتر کر دیا ہے۔ ایک طرف 70 لاکھ متمول یا اپر مڈل کلاس ہندوستانی ہیں جن کا شمار دنیا کے امیر ترین انسانوں میں کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف 70 کروڑ ایسے مفلوک الحال انسان ہیں جن کی حالت غریب افریقی ممالک کے باشندوں سے بھی بری ہے۔ انڈیا کی ’بلوم‘ نامی ونچر کیپٹل فرم کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق ایک ارب ہندوستانی ایسے ہیں جو فوری ضروریات کے علاوہ کسی چیز پر خرچ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

 (189) قومی آمدن میں 10 فیصد امیر ترین ہندوستانیوں کا حصہ، جو 1990ء میں 34 فیصد تھا، اِس وقت 57 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ جبکہ 50 فیصد غریب ترین لوگوں کا حصہ 22.50 فیصد سے کم ہو کے 15 فیصد ہو چکا ہے۔ بھلا مذہبی جنون، منافرت اور توہم پرستی کو مسلسل ہوا دئیے بغیر ایسے معاشرے پر تسلط قائم رکھا جا سکتا ہے؟

(190) ’برکس‘ کی بات کریں تو اس اتحاد میں پہلے پانچ ممالک (برازیل، روس، انڈیا، چین، ایران اور جنوبی افریقہ) شامل تھے۔ اب مصر، ایتھوپیا، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا وغیرہ بھی مل گئے ہیں۔ لیکن مندرجہ بالا حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں تو مغربی سامراجی اداروں یا اتحادوں کے برعکس ’برکس‘ کوئی یکساں اور ہم آہنگ قسم کی معیشتوں پر مبنی اتحاد نہیں ہے۔ چین کا عالمی معیشت میں حصہ 20 فیصد تک ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈیا کا حصہ 7 فیصد جبکہ روس، برازیل اور جنوبی افریقہ کا بالترتیب صرف 3 فیصد، 2.4فیصد اور 0.6 فیصد ہے۔

(191) اسی طرح رکن ممالک میں سے بیشتر کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔ انڈیا کی چین سے لڑائی ہے۔ روس اور برازیل کے درمیان تضادات موجود ہیں۔ ایران کی عربوں کے ساتھ تاریخی چپقلش اور تنازعات آج تک موجود ہیں۔

 (192) یہ حقیقت بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ مغربی سامراج نہ صرف مالیاتی بلکہ عسکری حوالے سے آج بھی دنیا پر حاوی ہے۔ دنیا کی مروجہ کرنسی آج بھی ڈالر ہے۔ عالمی سطح پر فارن ایکسچینج کی 90 فیصد لین دین میں امریکی ڈالر شامل ہوتا ہے۔ اسی طرح 50 فیصد عالمی تجارت ڈالروں میں ہوتی ہے۔ جبکہ 60 فیصد زرِ مبادلہ کے ذخائر امریکی ڈالروں میں رکھے جاتے ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں چینی یوان کا کردار بڑھا ہے۔ لیکن فارن ایکسچینج کے لین دین میں یوان کا حصہ صرف 7 فیصد ہے۔ جبکہ زرِ مبادلہ کے صرف 3 فیصد ذخائر یوان پر مبنی ہیں۔

 (193) ڈالر کے اس تسلط کے پیچھے جو عسکری قوت کارفرما ہے‘ اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا کے 80 ممالک میں امریکہ کے 750 فوجی ٹھکانے موجود ہیں۔ اِس کے مقابلے میں چین کی صرف چار فوجی تنصیبات ہیں جن میں سے جبوتی والی کے علاوہ باقی کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہیں (اگرچہ آنے والے دنوں میں چین مزید تنصیبات قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے)۔ امریکی اسلحہ آج بھی دنیا میں جدید ترین ہے۔ عسکری معاملات پر چین کے ہر ایک ڈالر کے مقابلے میں امریکہ 3 ڈالر خرچ کرتا ہے۔

 (194) یہ درست ہے کہ چین اپنی عسکری صلاحیتوں میں جدت لانے میں تیزی سے سرگرم عمل ہے۔ لیکن مقداری اور معیاری حوالے سے اس کے ہتھیار امریکہ سے کمتر ہی ہیں۔روس اس سے بھی کہیں پیچھے ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ دونوں ممالک زیادہ عسکری پھیلاؤ سے گریز کرتے ہیں اور اپنی عسکری قوت کو اپنی سرحدوں یا خطے کے اندر ہی مجتمع رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 (195) روس کی دنیا میں 21 اہم فوجی تنصیبات ہیں۔ شام کے علاوہ ان میں سے زیادہ تر وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کے ممالک میں موجود ہیں۔ اگرچہ حالیہ عرصے میں برکینا فاسو، مالی اور نائیجر جیسے افریقی ممالک میں روس کے فوجی ٹھکانوں کی خبریں بھی گردش میں ہیں۔

 (196) یاد رہے کہ مذکورہ افریقی ممالک ماضی قریب تک فرانسیسی سامراج کے گہرے جبر و تسلط کا شکار رہے ہیں۔ جس میں فرانسیسی فوج دستوں کی موجودگی بھی شامل ہے۔ تاہم سامراج کے خلاف عوام کے شدید غم و غصے اور دباؤ کے نتیجے میں ہونے والی بغاوتوں کے بعد فرانسیسی فوجی دستوں کو بے دخل کیا گیا ہے۔

 (197) لیکن یہ نئی فوجی حکومتیں بھی سامراجی سرمایہ داری کے خاتمے کے کسی انقلابی لائحہ عمل اور عوام دوست پروگرام کی حامل نہیں ہیں۔ وینزویلا میں نکولس مادورو کی حکومت کی طرح انہوں نے بھی مغربی سامراج کے مقابلے میں چین اور روس کی طرف جھکاؤ اختیار کیا ہے۔ روس ان ممالک میں اپنے بدنامِ زمانہ ویگنر گروپ کو بھی استعمال کر رہا ہے۔

 (198) یہ بنیادی طور پر دشمن کا دشمن دوست ہونے کی نفسیات ہے۔ لیکن کیمپسٹ بائیں بازو کے رجحانات اسے روس اور چین کے ’’سامراج مخالف‘‘ ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جو درحقیقت ایک احمقانہ خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

 (199) ماضی میں سامراج مخالف تحریکوں کو سوویت یونین اور چین کی سٹالنسٹ افسر شاہی اپنی خارجہ پالیسی کے اوزار اور سامراج کے ساتھ سودے بازی کی ’بارگیننگ چپس‘ کے طور پر بے رحمی سے استعمال کرتی رہی ہے۔ لیکن آج کی صورتحال شاید بدتر ہے۔ چین اور روس اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے ایسی حکومتوں کو نسبتاً سستے قرضے یا امداد تو دے سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے ان کے اپنے کوئی سامراجی عزائم نہیں ہیں۔ جیسا کہ مشہور انگریزی محاورہ ہے کہ دنیا میں مفت کچھ نہیں ملتا۔

 (200) اسی قسم کا معاملہ برکس کے ترقیاتی بینک کا ہے۔ جو ویسے بھی آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے سامنے کسی خاص حیثیت کا حامل نہیں ہے۔ لیکن ایک ایک پائی کا حساب رکھنے والی یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں جو ’’ترقیاتی فنڈ‘‘ یا قرضے جاری کریں گی‘ انہیں خیرات سمجھنا بھی خام خیالی ہی ہو گی۔

 (201) لہٰذا اپنے داخلی تضادات اور عالمی سرمایہ داری کے بحران کی اس کیفیت ’برکس‘ جیسے اتحاد اس قابل نہیں ہیں کہ بریٹن ووڈز سسٹم جیسے کسی نئے عالمی مالیاتی نظام کی راہ ہموار کر سکیں۔

 (202) عالمی معیشت قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبتی جا رہی ہے۔ دنیا کا کل قرضہ عالمی جی ڈی پی کے 300 فیصد کی خطرناک سطح کو چھو رہا ہے۔ کووڈ کے بعد کے چند سالوں میں اس میں 43 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ سلسلہ اس طرح جاری نہیں رہ سکتا۔

 (203) لیکن کووڈ کے بعد شرح سود میں اضافے سے تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں قرضوں کا بحران کہیں زیادہ سنگین ہو گیا ہے۔ خود پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے ہم اس صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ سری لنکا میں جو کچھ ہوا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق ترقی پذیر دنیا کے 52 ممالک قرضوں کے بحران سے دوچار ہیں۔ جن میں 40 فیصد دیوالیے کے خطرات کا شکار ہیں۔ یہ بنیادی طور پر وہ ممالک ہیں جنہیں صحت اور تعلیم سے کہیں زیادہ پیسہ سود کی ادائیگیوں پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔

 (204) عالمی طاقتوں کے درمیان تجارتی جنگ اگر شدت اختیار کرتی ہے تو مہنگائی کے ساتھ شرح سود بھی بڑھے گی۔ اس سے سری لنکا یا بنگلہ دیش جیسے حالات کئی اور ممالک میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

 (205) سرمایہ داری ہر لحاظ سے نسل انسان کو برباد کرنے کے درپے نظر آتی ہے۔ پرانے سامراج کے زوال اور نئے سامراج کے ابھار نے ہر چیز کو تتر بتر کر کے رکھ دیا ہے۔ غیریقینی کی ایسی کیفیت ہے کہ پالیسیاں بنانے والوں کو بھی آنے والے کل کی خبر نہیں۔ پرانی چیزیں حالات و واقعات کی بھٹی میں پگھل رہی ہیں۔ لیکن کوئی نئی شکل اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ انقلابیوں کے لئے کڑے امتحان کے وقت ہیں۔

جینا ہے تو لڑنا ہو گا!

 (206) دوسری بے شمار بیہودگیوں کے علاوہ سٹالنزم کا ایک نظریاتی جرم یہ بھی تھا کہ اس نے تاریخی مادیت کو ایک میتھڈ کی بجائے تاریخ کے بنے بنائے خاکے کے طور پر پیش کیا۔ یہ بنیادی طور پر منشویکوں سے مستعار لیا گیا طریقہ کار ہی تھا۔

 (207) تاریخ ہر طرح کی تبدیلیوں سے واقف ہے اور انتہائی غیر متوقع موڑ بھی لے سکتی ہے۔ جو نجات کی منزلوں کو قریب بھی کر سکتے ہیں اور کہیں زیادہ دور بھی لے جا سکتے ہیں۔

 (208-I) انسانی تاریخ کا کوئی بھی مرحلہ خود بخود طے نہیں ہوا ہے۔ سرمایہ داری سے عبور بھی کسی خودکار طریقے سے ممکن نہیں ہے۔ ٹراٹسکی نے بہت پہلے واضح کیا تھا ایک متروک نظام کو اکھاڑ کے تاریخ کا پہیہ آگے نہ گھمایا جائے تو پورے پورے سماج صفحہ ہستی سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ایسا انسانی تاریخ میں کئی بار ہوا ہے۔

 (208-II) تاریخی مادیت کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ آخر کار انسان ہی تاریخ مرتب کرتے ہیں اور یہ محنت کش طبقہ ہی ہے جو ساری مظلوم انسانیت کو سرمائے کے اِس جہنم سے نکال سکتا ہے۔

 (209) تشکیک پرست اور شکست خوردہ لوگ کچھ بھی کہتے رہیں‘ حقیقت یہ ہے آج مارکسی اساتذہ کے نظریات اور تناظر ان کے اپنے وقتوں سے بھی کہیں زیادہ معقول اور اہم ہو چکے ہیں۔ ذرائع پیداوار، ٹیکنالوجی اور مواصلات کی ترقی کے ساتھ محنت کش طبقہ جس ہجم، طاقت اور انقلابی صلاحیت کا حامل آج ہے‘ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں تھا۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد بھی دنیا میں کبھی موجود نہیں رہی۔ بہتات پر مبنی غیر استحصالی و غیر طبقاتی معاشرے کی تعمیر کے جو حالات آج موجود ہیں‘ وہ بھی ماضی میں کبھی نہ تھے۔

 (210) لیکن محنت کش طبقہ موجود ہی نہیں ہے‘ بلکہ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی سے سماج کو بدلنے کی اپنی لاشعوری تڑپ اور جستجو کا مظاہرہ مسلسل کرتا آ رہا ہے۔ 2008ء کے بعد ایک بالکل نئے منظر نامے کی تشکیل میں دنیا بھر میں ابھرنے والی بغاتوں، ہڑتالوں، احتجاجوں اور انقلابی تحریکوں کا کلیدی کردار ہے۔

 (211) ایک کے بعد دوسرے خطے میں بغاوت میں اترے نوجوانوں نے وہ کیا ہے‘ کچھ عرصہ پہلے تک جو سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ صرف سری لنکا، بنگلہ دیش اور کینیا کی حالیہ تحریکیں ہی دیکھیں تو ایک مظہر ہر جگہ مشترک نظر آتا ہے: لوگوں نے مطلق العنان ترین ریاستوں کے خوف اور دہشت کی علامت سمجھے جانے والے ایوان اور محلات جلا کے راکھ کر ڈالے ہیں۔ یہ کوئی معمولی واقعات نہیں ہیں۔

 (212) اگرچہ سری لنکا میں نیولبرل ایجنڈے کو ایک ’’عوام دوست‘‘ طریقے سے نافذ کرنے کے لئے نام نہاد بائیں بازو کی حکومت لائی گئی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی تحریک کو انتخابی پروسیس کی بھول بھلیو ں میں گم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن لوگوں کا کوئی ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ اس لئے یہ تحریکیں دوبارہ بھی بھڑک سکتی ہیں۔

 (213) بہرحال بنگلہ دیش میں تحریک میں سرگرم طلبہ کی جانب سے نئی پارٹی کا قیام ایک اہم پیش رفت ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ایک نسبتاً معقول اقدام ہے۔ اگرچہ اس کی آؤٹ لک ابھی پیٹی بورژا اور ’سنٹرسٹ‘ ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں اس میں سے مختلف نظریاتی رجحانات ابھر سکتے ہیں۔

 (214) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں سامراجی ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر اپنے مطالبات منوانے والی عوامی بغاوت کو بھی اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

 (215) یہ درست ہے کہ 2011ء میں امریکہ، عرب دنیا اور یورپ میں اٹھنے والی تحریکیں پسپائی سے دو چار ہوئیں۔ جس کے کئی صورتوں میں تباہ کن نتائج بھی برآمد ہوئے۔ لیکن دنیا کی ہر جدوجہد، ہر لڑائی، چاہے اس کا انجام کچھ بھی ہو، اپنے اسباق چھوڑ جاتی ہے۔ جو ایک غیر محسوس انداز سے مستقبل کے جہدکاروں کے لائحہ عمل اور طریقہ کار میں ڈھل جاتے ہیں۔ مصر کی تحریک کے اسباق نہ ہوتے تو ویسی فوجی آمریت شاید آج ہم بنگلہ دیش میں دیکھ رہے ہوتے۔

 (216) لیکن ایک انقلابی تنظیم ماضی کے واقعات سے نتائج اخذ کرنے اور انہیں مستقبل کی جدوجہدوں میں لے جانے کا کام کہیں زیادہ موثر اور منظم طریقے سے کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ محنت کش طبقے کی اجتماعی یادداشت کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔

 (217) نیولبرلزم کی یلغار اور سوویت یونین کے انہدام نے محنت کشوں کو نظریاتی حوالے سے جتنا بڑا دھچکا دیا‘ ان کے اعصاب کو جس طرح سے شل کیا‘ مایوسی اور بے حسی کی جو اذیت ناک کیفیت طاری کی اور شکست خوردگی و یاس کا جو احساس مسلط کیا‘ اس سے بحالی کے لئے یقینا وقت درکار تھا۔ لیکن آج خود سرمایہ داری کو اپنے وجود کے جواز ڈھونڈے نہیں مل رہے۔ یہ ایک نیا عہد، نیا وقت ہے۔

 (218) وقتی پسپائی اور جمود کے بعد مغربی دنیا کے محنت کش پھر سے متحرک ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں کئی دہائیوں کے تعطل کے بعد مزدور تحریک دوبارہ ابھر رہی ہے۔ کار مینوفیکچرنگ سے وابستہ ’یونائیٹڈ آٹو ورکرز‘ یونین کے لاکھوں مزدوروں کی کامیاب ہڑتال اس حقیقت کی غماز ہے۔ اسی عرصے میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے وابستہ ’بوئنگ‘ کے 33 ہزار مزدوروں نے سات ہفتے کی ہڑتال پر جا کے تنخواہوں میں اضافہ کروایا ہے۔ اسی طرح ایمازون جیسی کمپنیوں کے محنت کشوں کی ایجی ٹیشن اور ہڑتالیں مسلسل جاری ہیں۔ ٹرمپ کے ڈاؤن سائزنگ کے اقدامات کے خلاف وفاقی ملازمین کی یونینیں بھی متحرک ہو رہی ہیں۔

 (219) یونان میں طبقاتی لڑائی کے ایک نئے مرحلے کے آغاز کے آثار پیدا ہو رہے ہیں۔ حکومتی غفلت اور ڈاؤن سائزنگ کے نتیجے میں ہونے والے ٹرین حادثے (جس میں 57 افراد ہلاک ہو گئے تھے) کی دوسری برسی کے موقع پر لاکھوں افراد نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی ہے۔ آنے والے دنوں میں بھی ایسے مظاہروں کی کالیں دی جا رہی ہیں۔ جو آسٹریٹی، بیروزگاری اور نجکاری مخالف مطالبات کے ساتھ بڑی تحریک میں بدل سکتے ہیں اور پورے یورپ کو ہلا سکتے ہیں۔

 (220) یہ درست ہے کہ مزدور تحریک کے بحران کیساتھ پوری دنیا میں مزدور یونینیں گہری ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہوئی ہیں اور آج یونین میں منظم محنت کشوں کی تعداد بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی خاصی کم ہے۔ لیکن اس سے حکمران طبقات کی تحریکوں کو یونین بیوروکریسی کے ’بفر‘ کے ذریعے کنٹرول کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوئی ہے۔ بات یہ ہے کہ یونینیں موجود ہوں نہ ہوں‘ طبقہ تو موجود ہے۔ وہ محض اس لئے سب کچھ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی یونین موجود نہیں ہے۔ لہٰذا مستقبل کی جدوجہدیں محنت کشوں کے اتحاد اور تنظیم کی نئی شکلوں کو جنم دیں گی۔

 (221) لیکن مغرب میں اگر طبقہ آٹومائزیشن کا شکار ہوا ہے تو چین میں 77 کروڑ محنت کشوں کا ابھار بھی ہوا ہے۔ اگر کسی کو ’’مارکس کا کلاسیکی پرولتاریہ‘‘ دیکھنے کا زیادہ شوق ہے تو وہ چین جا کے خوب اچھی طرح دیکھ سکتا ہے۔ اور اِس جدید چین کا دیوہیکل پرولتاریہ جب بیدار ہو گا تو اس کے سامنے 1949ء کے چین کا تاریخ ساز انقلاب بھی شاید ماند پڑ جائے گا۔

 (222) ابراہم لنکن نے کہا تھا کچھ لوگوں کو ہمیشہ اور سب لوگوں کو کچھ وقت کے لئے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے اندھیرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ٹرمپ کی حرکتوں کو بھی اسی طرح سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس قسم کی یلغار وہ کر رہا ہے‘ اس میں وقتی طور پر لوگ بہہ سکتے ہیں یا خاموش ہو کے بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن امریکہ نہ تو انڈیا ہے‘ نہ روس ہے۔ اس کے اقدامات امریکی سماج میں دبے شدید اضطراب کو بہت غیر متوقع انداز سے پھاڑ سکتے ہیں۔ سارا منظر نامہ راتوں رات بدل سکتا ہے۔ اس کی ایک جھلک ہم نے امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کے ساتھ طلبہ کی یکجہتی کے حالیہ مظاہروں اور دھرنوں میں دیکھی ہے۔

 (223) لیکن باقی ماندہ دنیا میں بھی وہ بحران کو مہمیز ہی دے رہا ہے۔ پسماندہ خطوں میں لوگوں کے حالات زندگی پہلے سے بہت تلخ ہیں۔ زندگی ایک نہ ختم ہونے والی سزا بن چکی ہے۔ مہنگائی میں ایک درجے کا اضافہ یا کوئی اور بظاہر معمولی واقعہ بھی بڑے دھماکوں کا موجب بن سکتا ہے۔ 2011ء کے بعد سے ہم اس مظہر کا مشاہدہ بار بار کر رہے ہیں۔

 (224) ان حالات میں انقلابیوں کو نہ تو مصنوعی قسم کی رجائیت سے سرشار ہونا ہے‘ نہ ہی وہ مایوسی اور بے عملی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ہمارا کام آج بھی اس فریضے کی ادائیگی ہے جس کا بیٹرا مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو کی اشاعت کیساتھ پونے دو سو سال پہلے اٹھایا تھا۔ یہ ایک کٹھن، طویل اور بے رحم جدوجہد ہے۔ لیکن زندگی کا مزہ اور نسل انسان کی نجات اسی میں مضمر ہے۔

ایگزیکٹو کمیٹی
طبقاتی جدوجہد 
آئی ایس ایل پاکستان سیکشن

لاہور، پاکستان
16 مارچ 2025ء


ضمیمہ اول
”ڈیپ سیک“ کی طرف بڑھتی مصنوعی ذہانت

(معروف مارکسی معیشت دان مائیکل رابرٹس کے بلاگ پر 28 جنوری 2025ء کو شائع ہوا)

زیادہ تر قارئین کو اب تک یہ خبر معلوم ہو چکی ہو گی کہ ڈیپ سیک (DeepSeek)، جو کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ایک چینی کمپنی ہے، نے ایک اے آئی ماڈل ’آر ون‘ (R1) جاری کیا ہے جو صلاحیتوں کے لحاظ سے اوپن اے آئی، اینتھروپک اور میٹا جیسی کمپنیوں کے بہترین ماڈلوں کے ہم پلہ ہے۔ لیکن اسے بہت کم لاگت کیساتھ اور جدید ترین جی پی یو چِپس کے بغیر ٹرین کیا گیا ہے۔ ڈیپ سیک نے اس ماڈل کی تفصیلات بھی عوام کے لیے کھول دی ہیں تاکہ دوسرے لوگ اسے بغیر کسی قیمت کے اپنے کمپیوٹر پر چلا سکیں۔

ڈیپ سیک ایک ایسا اچانک اور دھماکہ خیز حملہ ہے جس نے امریکہ کی سات بڑی ہائی ٹیک کمپنیوں (Magnificent Seven) کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ڈیپ سیک نے نہ تو این ویڈیا (Nvidia) کی جدید ترین چپس اور سافٹ ویئر استعمال کیے۔ نہ ہی اپنے امریکی حریفوں کی طرح بھاری رقم خرچ کی۔ پھر بھی یہ اتنی ہی مفید اے آئی ایپس فراہم کر سکتا ہے۔

اس کمپنی نے این ویڈیا کی پرانی اور سستی چپس پر آر ون ماڈل تیار کیا۔ کیونکہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے چین کو جدید ترین چپس فروخت نہیں کی جا سکتیں۔ امریکی حکومت اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو یہ یقین تھا کہ اے آئی کی ترقی پر ان کی اجارہ داری ہے کیونکہ بہتر چپس اور ماڈل بنانے میں بے پناہ اخراجات آتے ہیں۔ لیکن ڈیپ سیک نے ثابت کر دیا ہے کہ کم بجٹ والی کمپنیاں بھی جلد ہی ان کے ہم پلہ اے آئی ماڈل بنا رہی ہوں گی۔

ڈیپ سیک آر ون بہت کم لاگت اور نہایت کم کمپیوٹنگ پاور کے ساتھ موثر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔ اس کی ’’انفرنس‘‘ (Inference) کی کارکردگی بھی دوسرے ماڈلوں جتنی اچھی ہے۔ یعنی جب صارف سوال کرتے ہیں تو یہ معقول جوابات فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ماڈل کمپنیوں کے اپنے سرورز (Servers) پر چل سکتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ انہیں مہنگے داموں اوپن اے آئی جیسے پلیٹ فارمز سے خدمات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک آر ون ’’اوپن سورس‘‘ ہے۔ یعنی اس کے کوڈنگ اور ٹریننگ کے طریقے سب کے سامنے کھلے ہیں۔ کوئی بھی انہیں نقل کر سکتا ہے اور مزید ترقی دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس اوپن اے آئی اور گوگل جیسے ادارے اپنے ماڈلوں کے ــــ’’پراپرائٹری‘‘ رازوں (یعنی ایسے طریقے یا معلومات وغیرہ جن پر ان کے مالکانہ حقوق ہیں) کو خفیہ رکھتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ بالکل جیسے برانڈڈ اور جنرک (Generic) دوا سازی میں فرق ہوتا ہے۔

امریکی اے آئی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شاید اس میدان میں کامیابی کے لیے بڑے ڈیٹا سینٹرز اور مہنگی چپس میں سرمایہ کاری ضروری نہ ہو۔ اب تک امریکی کمپنیاں بڑی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔ اسی دن جب ڈیپ سیک آر ون منظر عام پر آیا‘ میٹا نے مزید 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا اور کچھ دن پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ٹیک کمپنیوں کے لیے 500 ارب ڈالر کی حکومتی سبسڈی کا اعلان کیا تھا۔ جسے ’’اسٹارگیٹ پروجیکٹ‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ میٹا کے چیف ایگزیکٹیو مارک زکربرگ نے اس سرمایہ کاری کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے عالمی معیار امریکہ طے کرے۔ نہ کہ چین۔‘‘

لیکن اب سرمایہ کار پریشان ہیں کہ شاید یہ تمام سرمایہ کاری غیر ضروری ہو اور ڈیپ سیک اگر اس کا دسواں حصہ خرچ کر کے وہی اے آئی ایپس بنا سکتا ہے تو امریکی کمپنیوں کے منافع جات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اسی لیے این ویڈیا، الفابیٹ، ایمازون، مائیکروسافٹ اور میٹا پلیٹ فارمز جیسی پانچ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی سٹاک مارکیٹ مالیت ایک دن میں تقریباً 750 ارب ڈالر کم ہو گئی۔ ڈیپ سیک‘ ڈیٹا سینٹر کمپنیوں اور پانی اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے منافعوں کے لیے بھی ایک خطرہ ہے ۔ جو سات بڑی ٹیک کمپنیوں (Magnificent Seven) کی بڑے پیمانے پر توسیع سے فائدہ اٹھانے کی امید کر رہی تھیں۔ امریکی سٹاک مارکیٹ کا بوم بڑی حد تک انہی سات کمپنیوں کی وجہ سے تھا۔

تو کیا ڈیپ سیک نے امریکی سٹاک مارکیٹ کا بلبلہ پھاڑ دیا ہے؟ ارب پتی سرمایہ کار رے ڈیلیو کا یہی ماننا ہے۔ فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ــ’’ سرمایہ کاری کی قیمتیں حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اور بڑھتی ہوئی شرح سود کے ساتھ یہ ایک خطرناک امتزاج ہے۔ جواس بلبلے کو پھاڑ سکتا ہے… حالات ایسے ہی ہیں جیسے 1998ء اور1999ء کے درمیان تھے (جب ڈاٹ کام کا بلبلہ پھٹا تھا)۔‘‘ مزید یہ کہ ’’دوسرے لفظوں میں ایک اہم نئی ٹیکنالوجی ہے جو یقینا دنیا کو بدل دے گی اور کامیاب ہو گی۔ لیکن کچھ لوگ اسے سرمایہ کاری کی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔‘‘

تاہم معاملہ شاید ایسا نہیں ہے۔ کم از کم اب تک نہیں۔ این ویڈیا کا سٹاک گرنے کے باوجود اس کی ’پراپرائٹری‘ کوڈنگ لینگویج ’کُوڈا‘ (Cuda) اب بھی امریکی صنعت کا معیار ہے۔ اس کے شیئر کی قیمت 17 فیصدگرنے کے بعد بھی ستمبر کی (بہت بلند) سطح پر کھڑی ہے۔

صورتحال کئی عوامل پر منحصر ہو گی۔ جیسا کہ امریکی فیڈرل ریزرو (مرکزی بینک) کی جانب سے شرح سود کو بلند رکھنا۔ کیونکہ افراط زر میں کمی کا رجحان اب اپنے الٹ میں بدل رہا۔ اسی طرح یہ بھی اہم عنصر ہو گا کہ کیا ٹرمپ محصولات (ٹیرف) اور امیگریشن بارے اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتا ہے یا نہیں۔ ان اقدامات سے بھی افراط زر میں اضافہ ہو گا۔

ٹرمپ کی کاسہ لیسی کرنے والے جدید ٹیکنالوجی کی صنعت سے جڑے ارب پتیوں کے لیے یہ بہت تشویش ناک ہے کہ چینی کمپنیوں پر امریکی پابندیاں اور انہیں جدید چپس بیچنے کی ممانعت بھی چین کو ٹیکنالوجی اور چپس کی جنگ میں مزید ترقی کرنے سے نہ روک سکی۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے نافذ کی گئی برآمداتی پابندیوں، جن کا مقصد چین کو طاقتور ترین چپس اور انہیں بنانے کے لیے درکار جدید آلات سے محروم کرنا تھا، کے باوجود چین مصنوعی ذہانت میں تکنیکی جست لگانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔

چین کی بہت بڑی ٹیک کمپنی ہواوے (Huawei) اب چین میں مصنوعی ذہانت کی چپس کے معاملے میں این ویڈیا کی سب سے بڑی حریف بن چکی ہے اور وہ ڈیپ سیک جیسے اے آئی ماڈلوں کو این ویڈیا کی جی پی یو چپس سے اپنی اسینڈ (Ascend) چپس پر منتقل کر رہی ہے۔ بیجنگ میں ایک متعلقہ سرمایہ کار کا کہنا تھا کہ ’’ہواوے مزید بہتر ہو رہا ہے۔ انہیں ایک موقع ملا ہے کیونکہ حکومت بڑی ٹیک کمپنیوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ ہواوے کی چِپس خریدیں اور انہیں مصنوعی ذہانت کے لیے استعمال کریں۔‘‘

یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ چین میں ریاستی منصوبہ بندی کے تحت ٹیکنالوجی اور تکنیکی مہارتوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری‘ نجی ٹیکنالوجی اجارہ داریوں پر تکیہ کرنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہے۔ جیسا کہ رے ڈیلیو نے کہا: ’’ہمارے نظام میں بالعموم ہم صنعتی کمپلیکس کی طرز کی پالیسی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ جس میں حکومتی نگرانی اور اثر و رسوخ لازم ہو گا۔ کیونکہ یہ بہت اہم ہے… صرف سرمایہ داری اور محض منافع خوری یہ جنگ نہیں جیت سکتی۔‘‘

بہرحال مصنوعی ذہانت کی بڑی کمپنیاں ابھی تک ’’ٹائیٹینک‘‘ نہیں بنی ہیں۔ وہ ڈیٹا سینٹرز اور مزید جدید چپس میں اربوں ڈالر جھونک کر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں کمپیوٹنگ پاور کی کھپت غیر معمولی حد تک بڑھ رہی ہے۔

اور یقینا ان سب میں وہ عوامل شمار نہیں کیے جا رہے جنہیں بورژوا ماہرین معاشیات ’’بیرونی اثرات‘‘ (Externalities) کہہ کر نظرانداز کرتے ہیں۔ گولڈمین سیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق چیٹ جی پی ٹی کا ایک سوال (Query) گوگل سرچ کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے۔ محقق جیس ڈوج نے اے آئی چیٹ بوٹس کے توانائی کے استعمال کا تخمینہ یوں لگا یا ہے: ’’چیٹ جی پی ٹی پر ایک سوال کرنا اتنی بجلی استعمال کرتا ہے جتنی ایک بلب کو تقریباً 20 منٹ تک جلانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔‘‘ اب ذرا تصور کریں کہ لاکھوں افراد روزانہ ایسی ایپس استعمال کر رہے ہیں تو بجلی کی مجموعی کھپت کس قدر بڑھ سکتی ہے۔ زیادہ بجلی کے استعمال کا مطلب ہے زیادہ توانائی کی پیداوار۔ جس کا مطلب ہے فوسل فیول سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا زیادہ اخراج۔

گوگل کا ہدف ہے کہ 2030ء تک وہ مجموعی طور پر صفر اخراج (Net-zero Emissions) تک پہنچ جائے گا (یعنی ماحول دوست طریقوں کے استعمال سے اس کی سرگرمیوں کے نتیجے میں کسی ماحول دشمن مادے کا اخراج نہیں ہو گا)۔ 2007ء سے اس کمپنی کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ اپنے کاربن اخراج کے برابر کاربن آف سیٹس خریدنے کی وجہ سے ’کاربن نیوٹرل‘ ہے۔ لیکن 2023ء میں گوگل نے اپنی ماحولیاتی رپورٹ میں تسلیم کیا کہ وہ اب اپنی ’’آپریشنل کاربن نیوٹریلٹی‘‘ برقرار نہیں رکھ پا رہی ۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی 2030ء میں نیٹ زیرو کے ہدف کی جانب گامزن ہے۔ ڈوج کا کہنا ہے: ’’گوگل کی اصل خواہش یہ ہے کہ وہ سب سے بہترین اے آئی سسٹم تیار کرے۔ اور وہ اس کے لیے بے پناہ وسائل صرف کرنے کو تیار ہے۔ چاہے وہ بڑے سے بڑے ڈیٹا سینٹرز پر مشتمل ٹریننگ ہو یا سپر کمپیوٹرز کا استعمال۔ جس سے بجلی کی زبردست کھپت ہوتی ہے اور نتیجتاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘

اور پھر پانی کا مسئلہ بھی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کو خشک سالی اور جنگلات میں آتشزدگیوں کا سامنا ہے‘ اے آئی کمپنیاں اپنے دیو ہیکل ڈیٹا سینٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بے تحاشہ پانی چوس رہی ہیں۔ تاکہ چِپس اور مشینوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اس سے بڑھ کر سلیکون ویلی کی کمپنیاں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی کی سپلائی کے بنیادی ڈھانچے پر بھی قابض ہو تی جا ر ہی ہیں۔ مثلاً تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مائیکروسافٹ کے ڈیٹا سینٹرز میں چیٹ جی پی ٹی تھری کی مشینوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی مقدار سات لاکھ لیٹر تک ہو سکتی ہے۔

اے آئی ماڈلوں کو تربیت دینے میں ایک یورپی شہر کے مقابلے میں چھ ہزار گنا زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اگرچہ لیتھیم اور کوبالٹ جیسی معدنیات عام طور پر گاڑیوں کے شعبے میں بیٹریوں کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ لیکن وہ ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کے لیے بھی انتہائی ضروری ہیں۔ ان معدنیات کو نکالنے کے عمل میں بھی بڑی مقدار میں پانی استعمال ہوتا ہے اور اکثر یہ آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ جس سے پانی کی دستیابی مزید خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

اوپن اے آئی کے سابقہ سی ای او سام آلٹمین کہتے ہیں کہ یہ ’’قربانیاں‘‘ وقتی طور پر ضروری ہیں۔ مگر یہ ’’اے جی آئی‘‘ (مصنوعی عمومی ذہانت) حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اور جب اے جی آئی آ جائے گی تو یہ تمام مسائل خود حل کر دے گی۔ لہٰذا وقتی قربانی دینا فائدہ مند ثابت ہو گا۔

اے جی آئی کیا ہے؟ یہ دراصل مصنوعی ذہانت بنانے والوں کا حتمی مقصد اور نصب العین ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اے آئی ماڈل انسانی ذہانت سے کہیں آگے نکل جائیں گے۔ آلٹمن کے مطابق اس سے مصنوعی ذہانت محض ایک محنت کش کا ہی نہیں بلکہ سب کا کام کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اے آئی ایک ادارے یا تنظیم کا کا م کر سکے گی۔‘‘ یہ منافعوں کی انتہا ہو گی جب کمپنیوں میں محنت کش ہی نہیں ہوں گے (شاید خود مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں میں بھی نہیں؟)۔ کیونکہ مشینیں ہی ہر چیزکو بنانے، چلانے اور مارکیٹنگ کا کام کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ یہ سرمائے کا حتمی خواب ہے (لیکن محنت کشوں کے لیے ایک بھیانک خواب بھی ۔ نہ روزگار، نہ اجرت!)۔

یہی وجہ ہے ڈیپ سیک سے پہنچنے والے نقصان کے باوجود آلٹمین اور مصنوعی ذہانت کے دیگر سیٹھ اپنے ڈیٹا سینٹرز کو وسعت دینے اور مزید جدید چپس تیار کرنے سے نہیں رکیں گے۔ ریسرچ فرم روزن بلاٹ نے ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں کے ردعمل کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عمومی رجحان اخراجات میں کمی کی بجائے صلاحیتوں میں بہتری کی جانب ہی ہو گا۔ تاکہ مصنوعی عمومی ذہانت کی طرف تیزی سے بڑھا جا سکے۔‘‘

کچھ لوگ اے جی آئی کی جانب پیش رفت کو خود انسانیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر اسٹوارٹ رسل کہتے ہیں: ’’ وہ سی ای اوز بھی جو اس دوڑ میں شامل ہیں‘ یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ جو بھی جیتے اس کے نتیجے میں انسانیت کے خاتمے کا ایک بڑا امکان ہو گا۔ کیونکہ ہم اپنے سے زیادہ ذہین چیزوں کو کنٹرول کرنا نہیں جانتے۔‘‘ ان کے الفاظ میں ’’اے جی آئی کی دوڑ درحقیقت ایک ایسی دوڑ ہے جو ہمیں ایک کھائی کے کنارے تک لے جا رہی ہے۔‘‘

شاید ایسا ہی ہو۔ لیکن میں اب بھی یہ نہیں سمجھتا کہ انسانی ’ذہانت‘ کی جگہ مشینی ذہانت لے سکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ مشینیں ممکنہ اور معیاری تبدیلیوں کے بارے میں نہیں سوچ سکتیں۔ نیا علم ایسی تبدیلیوں سے ہی جنم لیتا ہے (جسے انسان ہی سمجھ سکتے ہیں)۔ نہ کہ موجودہ علم کی (مشینی ذہانت کے ذریعے) توسیع سے۔ صرف انسانی ذہانت ہی سماجی ہوتی ہے اور تبدیلی کے امکان یا صلاحیت کو دیکھ سکتی ہے۔ بالخصوص ایسی سماجی تبدیلی کو جو نسل انسان اور فطرت کے لیے بہتر زندگی کا باعث بن سکے۔

ڈیپ سیک کے ظہور نے یہ دکھایا ہے کہ اے آئی کو اس سطح تک ترقی دی جا سکتی ہے کہ یہ انسانیت اور اس کی سماجی ضروریات کے لیے مددگار ثابت ہو۔ یہ مفت ہے، سب کے لیے کھلی ہے اور چھوٹے ترین صارف اور سافٹ ویئر ڈویلپر کے لیے بھی دستیاب ہے۔ اسے منافع کے لیے یا منافع کمانے کے مقصد سے تیار نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ ایک تجزیہ نگار نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اے آئی میرے کپڑے دھوئے اور برتن صاف کرے تاکہ میں فن کی تخلیق کر سکوں۔ کچھ لکھ سکوں۔ نہ کہ اے آئی فن تخلیق کرے اور چیزیں لکھے اور میں کپڑے دھونے اور برتن صاف کرنے میں لگا رہوں۔‘‘ سرمایہ دار اے آئی کو اس لیے متعارف کروا رہے ہیں تاکہ ’’انتظامی مسائل کو آسان بنایا جا سکے۔ لیکن ایسے کاموں کی قیمت پر جن کے بارے میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اے آئی کو ان کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ جیسے تخلیقی کام… اگر اے آئی کو کام کرنا ہے تو اسے نچلی سطح سے اوپر آنا ہو گا۔ ورنہ یہ کام کی جگہ پر موجود زیادہ تر لوگوں کے لیے بے فائدہ ہو گی۔‘‘

منافع خوری، چھانٹیوں اور اجرتوں میں کمی کی بجائے اگر مصنوعی ذہانت کو اشتراکی ملکیت اور منصوبہ بندی کے تحت ترقی دی جائے تو یہ تمام انسانوں کے اوقات کار کو کم کر سکتی ہے اور انہیں مشقت سے آزاد کر کے تخلیقی کاموں پر توجہ دینے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ ایسے کام جو صرف انسانی ذہانت ہی انجام دے سکتی ہے۔


ضمیمہ دوم
شام: ایک اور آمریت کا خاتمہ، لیکن مستقبل بے یقینی سے دوچار

(قرارداد کی شکل میں آئی ایس ایل کی جانب سے 12 دسمبر 2024ء کو شائع ہوا)

ہلے سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور اسرائیل کی صیہونی ریاست کے لبنان پر حملے سے تباہ حال مشرق وسطیٰ میں چند روز قبل شام میں بشار الاسد کی ظالمانہ آمریت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کی جگہ ایک اسلامی بنیاد پرست گروہ نے اقتدار سنبھال لیا ہے جو مختلف قسم کے گروہوں پر مبنی باغی اتحاد کی قیادت کر رہا ہے۔ یوں شام سمیت پورے خطے میں غیر یقینی صورتحال کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔

ایک غیر معمولی لیکن غیر واضح پیش رفت

شامی عوام اور خطے کی دیگر عرب اقوام کے لوگوں کے لیے یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔ اس نے اسد  خاندان کی بعث پارٹی کے ذریعے قائم 54 سالہ آمریت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ جس میں بشار الاسد کے 24 سالہ اقتدار کے علاوہ اس کے والد حافظ الاسد کے اقتدار کے 30 سال بھی شامل ہیں۔ ابتدا میں عرب قوم پرستی کی پاپولسٹ تحریک کے طور پر ابھرنے والی یہ حکومت وقت کے ساتھ دائیں بازو کی طرف مائل ہوتی گئی، مختلف سامراجی طاقتوں کے ساتھ معاملات طے کرنے لگی اور بالخصوص حالیہ دہائیوں میں صیہونیت کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی کسی خاطر خواہ حمایت اور مدد کرنے سے قاصر رہی۔ عملی طور پر اس نے خود کو فلسطینی جدوجہد کی زبانی کلامی ہمدردی تک محدود کر لیا اور اس مسئلے کو داخلی جبر کے جواز کے لیے استعمال کرتی رہی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ حماس سمیت بیشتر فلسطینیوں نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے۔

یہ قابل غور بات ہے کہ شام میں بعث پارٹی کی حکمرانی 1960ء کی دہائی کے وسط میں ایک طرح کے انقلابی اور سامراج مخالف نصب العین کے طور پر شروع ہوئی۔ جس کی قیادت صالح جدید جیسے رہنما کر رہے تھے۔ لیکن مارکسی قیادت کے فقدان، نظریاتی ابہامات اور پارٹی کے اندرونی تنازعات کے سبب یہ ایک انتہائی کرپٹ اور اقربا پرور قسم کی سرمایہ داری میں تبدیل ہو گئی۔ جسے چلانے کے لیے شامی عوام کی اکثریت پر بے حد اور مسلسل ریاستی جبر درکار تھا۔ اس ریاست کی زوال پذیری کا عمل 1990ء میں منڈی کی نیولبرل معاشی پالیسیوں کو اپنانے کے ساتھ تیز تر ہو گیا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں بعث پارٹی کی حکومت اس عوامی حمایت سے بھی محروم ہوتی گئی جو ایک وقت میں اسے حاصل تھی۔ شامی عرب فوج میں بڑے پیمانے پر فوجیوں کا بھگوڑا ہوجانا اور محض دس دن میں باغیوں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نظامِ حکومت شدید زوال پذیری سے دوچار اور عوام کی حمایت سے محروم ہو چکا تھا۔ اسد خاندان اور اس کے کاسہ لیسوں کے مفادات کی نمائندہ اس کرپٹ آمریت کے ہوتے کوئی جمہوری پیش رفت ممکن نہ تھی۔ اسی لیے اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام اور دیگر کئی ممالک میں لوگ خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ اس وقت شام کی دو کروڑچالیس لاکھ آبادی میں سے 50 لاکھ پناہ گزین، جو 2011ء کے جبر اور خانہ جنگی کے دوران اپنی جان بچانے کے لیے ہجرت کر گئے تھے، ملک سے باہر زندگی گزار رہے ہیں اور اب واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔

روس اور ایران کی کمزوری

بشار الاسد حکومت کے خاتمے سے روس اور ایران جیسے ممالک، جو خود کئی دہائیوں سے آمرانہ حکومتوں کے زیر سایہ ہیں، کا خطے میں اثر و رسوخ خاصا کمزور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پیوٹن حکومت اور ایرانی ملاؤں کی آمریت دونوں برسوں تک بشار الاسد کو سیاسی اور عسکری حمایت فراہم کرتے رہے ہیں۔ روس، جو ایک ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت ہے اور یوکرائن پر چڑھائی اور جنگ میں مصروف ہے، کی خفیہ ایجنسیاں شام میں باغیوں کے حملے کو بھانپ نہیں سکیں۔ یہی بات انتہائی کمزوری سے دوچار حزب اللہ اور بالخصوص ایران کی مذہبی آمریت بارے بھی درست ہے۔ جو اپنے وعدوں کے مطابق صیہونیت کے خلاف ’مزاحمتی محور‘ کی قیادت کے بجائے عملاً فلسطینیوں کی جدوجہد کے ساتھ غداری کی مرتکب ہوئی ہے۔ بہرصورت ایران، اس کے پراکسی گروہ اور روس ایک ایسی کمزور اور کھوکھلی حکومت کو کوئی مدد فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے جو تاش کے پتوں سے بنے گھر کی طرح معمولی دھچکے سے زمین بوس ہو گئی۔ اس دوران طاقت کے خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں (جن پر اس نے 1967ء میں غیرقانونی قبضہ جمایا تھا) اور شام کے درمیان کے غیر فوجی علاقے میں اپنی فوجیں داخل کر دی ہیں۔

بھانت بھانت کے گروہوں پر مبنی باغی اتحاد

یہ اتحاد مختلف گروہوں پر مشتمل ہے۔ جو وقتاً فوقتاً ایک دوسرے سے بھی متصادم رہتے ہیں:

لیوانت لبریشن کمیٹی (ہیئت تحریر الشام یا ”HTS“): ایک سنی بنیاد پرست گروہ، جو حالیہ برسوں میں خود کو ایک ”اعتدال پسند“ اور مین سٹریم قوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کا سیاسی ونگ ”شامی حکومت برائے نجات“ ہے اور اہم رہنما الشرع (عرف الجولانی) ہے۔
شامی نیشنل آرمی (SNA): یہ ترکی کا حمایت یافتہ گروہ ہے جس کے ساتھ نیشنل لبریشن فرنٹ بھی مل گیا تھا۔ یہ لوگ کرد جدوجہد کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ترکی کی سرحد کیساتھ ایک بفر زون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF): یہ کرد مسلح گروہ ہیں جن کی قیادت پیپلز پروٹیکشن یونٹس (YPG) والے کر رہے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ یہ گروہ روجاوا کے علاقے کو کنٹرول کرتے ہیں اور مذکورہ بالا شامی نیشنل آرمی کے حملوں کا شکار رہتے ہیں۔
احرار الشام: 2011ء میں کئی شدت پسند گروہوں کے اتحاد سے ابھرنے والا گروہ، جو افغان طالبان سے متاثر ہے۔

داعش (اسلامک اسٹیٹ) اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے کیونکہ یہ ہیئت تحریر الشام کی حریف ہے۔ لیکن موجودہ بحران میں یہ دوبارہ ابھر سکتی ہے۔

بیرونی مداخلت نامنظور!

2011ء کے عرب بہار کے سلسلے میں شام میں بھی عوامی بغاوت ہوئی۔ جسے اسد حکومت نے سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس میں چھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک لاکھ سے زائد عام شہری تھے۔ ایک کروڑ لوگ بے گھر ہوئے جن میں سے آدھے ملک کے اندر اور باقی آدھے ملک سے باہر دربدر ہو گئے۔ باغی عسکری و سیاسی گروہوں (جو پہلے پہل کسی حد تک آزاد اور خودمختار تھے) پر اب امریکہ اور ترکی کا اثر و رسوخ خاصا بڑھ گیا ہے۔ یہ قوتیں اس اثر و نفوذ کو برقرار رکھنے یا مزید بڑھانے کی کوشش کریں گی۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، قطر، اردن اور متحدہ عرب امارات جیسی دوسری رجعتی ریاستوں کی مختلف دھڑوں کے لیے حمایت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ صورتحال اتنی پیچیدہ ہے کہ یہ سامراجی طاقتیں ملک کے ایک حصے میں اتحادی اور کسی دوسرے حصے میں مخالف اور حریف ہو سکتی ہیں۔ ان دنوں ہیئت تحریر الشام‘ اقوام متحدہ کے نمائندے گیئر پیڈرسن، سابق اسدی وزیر اعظم الجلالی اور دیگر ممالک کے نمائندوں سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 2254 بارے مذاکرات کر رہی ہے۔ یہ قرارداد 18 ماہ میں اقتدار کی سویلین انتظامیہ کو منتقلی کے عمل، نئے آئین اور تازہ انتخابات کی تجویز پیش کرتی ہے۔ تاہم اس سارے عمل کے دوران باغی گروہوں کے درمیان خونی تصادم کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

حل کیا ہے؟

بشار الاسد کی آمریت کے خاتمے پر شامی عوام کے بیشتر حصوں کے جشن کے باوجود خطرات موجود ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ صورتحال پر سامراجی طاقتوں، توسیع پسند ترکی اور بنیاد پرست گروہوں بشمول ہیئت تحریر الشام کی گہری چھاپ موجود ہے۔ موخرالذکر کا مقصد ایک مذہبی ریاست قائم کرنا ہے جس میں طویل التوا سے دوچار جمہوری، معاشی اور سماجی حقوق کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہو گی۔ ایک حقیقی جمہوری حل کے لیے ضروری ہے کہ آزاد اور خودمختار آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے، جس میں واپس آ رہے مہاجرین بھی شرکت کر سکیں۔ تاکہ ملک کی تنظیم نو قومی و سماجی آزادی، فلسطینی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی اور سیکولر ریاست کی بنیادوں پر کی جا سکے۔ جہاں تمام اقوام اور مذہبوں کے لوگ پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہ سکیں۔ اس تناظر میں انٹرنیشنل سوشلسٹ لیگ کا نصب العین ایک انقلابی اور سامراج و سرمایہ داری مخالف متبادل کی تعمیر ہے جو مشرق وسطیٰ کی سوشلسٹ فیڈریشن کی کڑی کے طور پر ایک سوشلسٹ شام کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھائے۔ ہم زور دیتے ہیں کہ یہ صرف شام کے محنت کش اور محکوم عوام کی انقلابی تنظیم سازی اور مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کے مظلوم اور استحصال زدہ طبقات کے ساتھ ان کے اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

شام میں ہر قسم کی سامراجی دخل اندازی نامنظور!
تھیوکریسی اور مذہبی انتہا پسندی مردہ باد!
شام میں سامراج کے سہولت کاروں اور پراکسی گروہوں بارے کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہوا جائے!
شامی عوام کی جمہوری امنگوں کا احترام کیا جائے!
ایک جمہوری، سیکولر اور سوشلسٹ شام کے لیے شامی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی!


ضمیمہ سوم
یوکرائن جنگ پر مارکسی موقف (کچھ بنیادی نکات)

(قرارداد کی شکل میں آئی ایس ایل کی جانب سے 14 مارچ 2023ء کو شائع ہوا)

دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد اس جنگ کے دو بڑے اتحادیوں (سوویت یونین اور امریکہ) نے دنیا کے مختلف حصوں کو اپنے اپنے ’’حلقہ اثر ‘‘ میں تقسیم کیا۔ امریکہ نے مغربی یورپ اور لاطینی امریکہ (اور دیگر ممالک) پر غلبہ حاصل کیا۔ جبکہ سوویت یونین نے مشرقی یورپ اور افریقہ و جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ حصوں پر اپنا تسلط قائم کیا۔ اِن دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کی شروعات ہوئی۔ جس میں کئی پراکسی جنگیں شامل تھیں۔

دونوں عالمی طاقتوں کی فوجی صلاحیت کم و بیش ایک جیسی تھی۔ تاہم سوویت یونین آہستہ آہستہ اسلحہ کی دوڑ میں مات کھاتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ امریکہ سے بہت پیچھے رہ گیا۔ یہی حال اس کی معیشت کا بھی ہوا۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد یوکرائن نے 1991ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے آزادی حاصل کی۔

یوکرائن کی زمین اور اس کے عوام کئی صدیوں تک زار روس کے زیر تسلط رہے۔ جس دوران روسی ریاست نے یوکرائن کو اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی طور پر جبر و استحصال کا نشانہ بنایا۔ جیسا کہ کوئی بھی سامراجی ریاست کرتی ہے۔ 1917ء کے اکتوبر انقلاب کے بعد لینن اور ٹراٹسکی نے محکوم اقوام کے حوالے سے بین الاقوامی مارکسی موقف اپنایا اور ان اقوام کو خود ارادیت کا مکمل حق دیا۔ جس میں علیحدگی کا حق بھی شامل تھا۔ مقصد یہ تھا کہ خطے ( اور بالآخر دنیا بھر) میں ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم کی جائے۔ تاہم چند سال بعد سٹالن نے لینن کی مارکسی پوزیشن کو منسوخ کر کے اسے قوم پرستانہ اور جابرانہ پالیسی سے بدل دیا۔

سوویت یونین کے انہدام کی وجہ صرف روس کے اندر عدم اطمینان (جو بیوروکریٹک منصوبہ بند معیشت کے بحران، سنسرشپ، ریاستی جبر وغیرہ سے پیدا ہوا) نہیں تھی۔ بلکہ مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کی اقوام کے قومی محرومی کے جذبات بھی تھے۔ جو روسی تسلط اور کنٹرول (جسے عام طور پر ’’روس کاری‘‘ یا ’’رسیفیکیشن‘‘ کہا جاتا ہے) سے نجات پانے کے خواہاں تھے۔ یہ وہ پالیسی تھی جو لینن کی وفات اور ٹراٹسکی کی جلاوطنی کے بعد رد ِانقلابی سوویت بیوروکریسی نے اپنائی تھی۔

اسی تناظر میں یوکرائن کے محنت کش عوام میں قومی محرومی اور جبر کے احساسات ہمیشہ موجود رہے ہیں اور وہاں روسی ریاست (’’روس‘‘) کو ہمیشہ ایک جابر اور سامراجی قوت کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد روس ایک سرمایہ دارانہ ملک بن گیا۔ جہاں ایک ’’گینگسٹر/مافیائی‘‘ طرز کی آمرانہ حکومت قائم ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پیوٹن روسی سرمایہ داروں کے رجعتی اور بدعنوان طبقے کا آمرانہ نمائندہ بن گیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے سٹالنزم کی بیوروکریسی کے حصے کے طور پر سوویت یونین کو لوٹا اور تباہ کیا اور بعد میں نجکاری کے دوران پبلک اثاثوں کی چوری اور لوٹ مار کے ذریعے ارب پتی بن گئے۔

یہ سچ ہے کہ اپنی تمام تر زوال پذیری کے باوجود امریکی سامراج اب بھی دنیا کی سب سے طاقتور سامراجی قوت ہے اور اسی لئے ہم اس کی تمام پالیسیوں اور اقدامات کی عالمی سطح پر مخالفت اور مذمت کرتے ہیں۔ تاہم مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے بیشتر حصوں میں اب بھی روس جابرانہ کردار ادا کرتا ہے اور اس کا مقصد اپنے تسلط کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینا ہے۔

لہٰذا چاہے ہم سابق سوویت یونین کو ’’انحطاط پذیر (مسخ شدہ) مزدور ریاست‘‘ سمجھیں یا ’’ریاستی سرمایہ داری‘‘، اس میں کوئی شک نہیں کہ 2022ء میں جب روس نے یوکرائن پر کھلا حملہ کیا تو یہ ایک سامراجی نوعیت کی سرمایہ دارانہ ریاست کی کارروائی تھی۔ جس کا مقصد خطے اور دنیا بھر میں اپنے اثر و رسوخ کو مضبوط بنانا تھا۔ روس کی فوجی اور معاشی طاقت یوکرائن کے مقابلے میں بے حد زیادہ ہے۔بلکہ دنوں میں موازنہ ممکن ہی نہیں ہے۔

سامراجی حکمران کبھی بھی دوسرے ممالک پر حملے کی اصل وجوہات تسلیم نہیں کرتے۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ’’فاشزم کو شکست دینے‘‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں یہ عالمی غلبے کے لئے سامراجی قوتوں کی جنگ تھی۔ اسی طرح عراق پر حملے کو ’’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘‘ کے جھوٹے دعووں سے جواز دیا گیا۔ ایسے بودے بہانے سامراجی جارحیتوں کی تاریخ میں عام ہیں۔

روس نے دعویٰ کیا کہ یوکرائن پر اس کا حملہ ملک کو ’’نازی اثرات سے پاک کرنے‘‘ (Denazification) اور ’’روسی آبادی کی نسل کشی کو روکنے‘‘ کے لئے ہے۔ لیکن یوکرائن میں پارلیمانی انتخابات کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ صرف دو فیصد عوام انتہائی دائیں بازو کے قوم پرستوں کی حمایت کرتے ہیں۔ جو فرانس، جرمنی، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک سے بھی کم شرح ہے۔

پیوٹن کا یہ دعویٰ کہ نیٹو کی توسیع نے روس کو خود کو مغربی سامراجیت سے بچانے کے لئے یوکرائن پر حملے پر مجبور کیا‘ بھی جھوٹ ہے۔ کیونکہ روس خود ایک سامراجی طاقت ہے۔ جو یورپ کی سب سے بڑی فوج اور دنیا کا سب سے بڑا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ رکھتی ہے۔ معاشی طور پر فی کس آمدن کے لحاظ سے روس‘ یوکرائن سے کم از کم چار گنا طاقتور ہے۔ یہ پاکستان اور افغانستان جیسا تناسب بنتا ہے۔ روس کی آبادی 14 کروڑ ہے۔ جبکہ یوکرائن کی صرف ساڑھے تین کروڑ۔

لینن کا قوموں کے درمیان جنگوں کا تجزیہ ہمیشہ اس سوال سے شروع اور اسی پر ختم ہوتا تھا کہ کون سی روش عالمی مزدور تحریک کو مضبوط یا کمزور کرے گی۔ لینن نے ہمیشہ ’’ظالم قوموں‘‘ اور ’’مظلوم قوموں‘‘ کے درمیان واضح فرق روا رکھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جب جابر ممالک کے محنت کش اپنے حکمران طبقے کے ساتھ مل کر محکوم اقوام پر ظلم کرتے ہیں تو وہ عالمی مزدور تحریک کو کمزور کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سے مختلف ممالک کے محنت کش تقسیم ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے طبقاتی مفادات ایک جیسے ہوتے ہیں۔ سامراجی حملے صرف جابر ملک کے حکمران طبقے کو فائدہ دیتے ہیں۔ اس لئے جابر ممالک کے محنت کشوں کا سامراجی حملے کی حمایت کرنا اپنے طبقاتی مفادات کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس طرح سے 1) وہ اپنے ملک میں اپنے طبقاتی دشمن کو مضبوط کرتے ہیں۔ 2) وہ حملے کا شکار ملک کے محنت کش بھائیوں میں اپنے خلاف بداعتمادی اور تقسیم پیدا کرتے ہیں۔

مظلوم اقوام کو خود ارادیت کا حق حاصل ہے۔ جس میں سامراجی حملے کے خلاف مزاحمت کا حق بھی شامل ہے۔ درحقیقت یوکرائنی عوام کی مضبوط مزاحمت نے ہی پیوٹن کے فوجی منصوبوں کو یوکرائن میں ناکام بنائے رکھا ہے۔ ایک بار پھر‘ بات محنت کش طبقے کی ہے۔ یوکرائن کے عام لوگوں کے روسی حملے کے خلاف مزاحمت کے حق کی حمایت کا مطلب روسی حکمران طبقے کے خلاف یوکرائنی حکمران طبقے کی سیاسی حمایت نہیں ہے۔

پیوٹن کے یوکرائن پر حملے نے نیٹو کی کمزور پوزیشن کو مضبوط کیا ہے اور اسے مزید توسیع کا جواز دیا ہے۔ یہ زیلنسکی حکومت کو تمام قسم کی مزدور دشمن اور غیر جمہوری پالیسیاں نافذ کرنے کا موقع بھی دے رہا ہے۔ جن کی طبقاتی یکجہتی و سوشلسٹ پروگرام کے تحت ٹھوس مزاحمت اور مخالفت ضروری ہے۔

انقلابی شکست پسندی (Revolutionary Defeatism) کی پالیسی یہاں موزوں نہیں ہے۔ کیونکہ یہ صرف سامراجی قوتوں کے درمیان براہِ راست جنگوں پر لاگو ہوتی ہے۔ بالخصوص جب یہ جنگیں بڑے یا عالمی پیمانے کی حامل ہو جائیں۔ اِس کیس میں یوکرائن سامراجی طاقت نہیں ہے۔

اگرچہ مغربی سامراج یوکرائن کو مالی اور فوجی امداد دے رہا ہے۔ لیکن نیٹو نے جنگ میں براہ راست حصہ ابھی تک نہیں لیا۔ ان کی جانب سے ابھی تک اس سمت میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ یہی صورتحال چین کی ہے۔ لہٰذا یہ ابھی تک ایک عالمی اور بین السامراجی جنگ نہیں ہے۔ اگر مستقبل میں ایسا ہوا (جو انتہائی تباہ کن ہوگا) تو انقلابیوں کو اپنی پوزیشن کو ازسرِ نو مرتب کرنا پڑے گا اور سامراجی جنگ کی مخالفت کو بنیادی مقصد بناتے ہوئے مظلوم اقوام کے دفاع اور خود ارادیت کی حمایت جاری رکھنا ہو گی۔ اگر یہ سامراجی کشمکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو آئی ایس ایل اس پر اپنے انقلابی سوشلسٹ پروگرام اور حکمت عملی کے مطابق ردعمل دے گی۔

یوکرائن کی موجودہ جنگی صورتحال کے حوالے سے مارکسی اساتذہ کی حکمت عملی کا ذکر ضروری ہے۔ جب جاپان نے نیم نوآبادیاتی چین پر سامراجی حملہ کیا تو ٹراٹسکی نے چینی محنت کشوں کے لئے حملہ آوروں کے خلاف لڑنے کی پالیسی تجویز کی لیکن اپنے سیاسی پروگرام اور تنظیمی آزادی کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔*

یاد رہے کہ مغربی سامراجی قوتیں اس جنگ میں بھی ملوث تھیں اور چینی قوم پرستوں کو مختلف مراحل میں مالی، فوجی اور سفارتی مدد دے رہی تھیں۔ ان میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا وغیرہ شامل تھے۔

اسی طرح انقلابِ روس کے دوران جب کورنیلوف پیٹروگراڈ پر چڑھائی کی تیاری کر رہا تھا تو بالشویکوں نے کیرنسکی حکومت کے خلاف سیاسی جدوجہد اور کورنیلوف کی افواج کے خلاف عسکری جدوجہد ایک ہی حکمت عملی کے تحت کی۔ ایسی ہی پالیسی ٹراٹسکی نے ہسپانوی خانہ جنگی کے دوران تجویز کی تھی۔ یعنی سٹالنسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹوں کے خلاف سیاسی جدوجہد اور فرانکو کے خلاف عسکری جدوجہد۔ ایسی کسی بھی صورتحال میں طاقت کا توازن جانچنا اور طبقاتی مفادات کو مدنظر رکھنا لازم ہوتا ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ خود ساختہ ’’سامراج مخالف‘‘ بائیں بازو کے عناصر جو پیوٹن کے حملے کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت کرتے ہیں‘ ایک سنگین غلطی کر رہے ہیں۔ ان حالات میں انقلابی شکست پسندی کی پالیسی اپنانا روسی جارحیت کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ ان میں سے کئی گروہ اتنے گمراہ ہیں کہ وہ روس کو نہ صرف سامراجی قوت ماننے سے انکاری ہیں بلکہ اسے سرمایہ دارانہ ریاست بھی نہیں مانتے۔ نظریاتی طور پر ایسے غیر مستحکم اور موقع پرستانہ رجحانات کا مقدر نامرادی ہی ہے۔

نیٹو یا زیلنسکی حکومت کی حمایت یا ان کے لئے نرم گوشہ رکھنا بھی اتنی ہی بڑی نظریاتی اور سیاسی غلطی ہے۔ ہم یوکرائنی عوام کی مزاحمت کی حمایت ایک آزادانہ پوزیشن سے کرتے ہیں۔ یعنی حکومت کی مخالفت کیساتھ اور محنت کش طبقے کے عالمی مفادات کی خاطر۔ یہی وہ کام ہے جو ہم جنگ کے دوران یوکرائنی حکومت کی مزدور دشمن، یونین دشمن اور جمہوریت مخالف پالیسیوں کی مذمت کے ذریعے کر رہے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو آئی ایم ایف یا یورپی یونین کی معاشی پالیسیوں کی مخالفت اور مزاحمت ہے۔

ان حالات میں یوکرائنی محنت کشوں سے کہنا کہ وہ روسی حملے کو نظرانداز کر کے اپنی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھالیں‘ روس کی سامراجی جارحیت کی حمایت کے مترادف ہے۔ لیکن مخصوص حالات میں یوکرائنی محنت کش روسی حملے کو شکست دینے اور زیلنسکی حکومت و سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کے قابل ہوں تو اس تاریخی فریضے کی تکمیل میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

زیلنسکی حکومت کا خاتمہ ایک انقلابی فریضہ ہے لیکن یہ حق صرف یوکرائنی محنت کشوں کو حاصل ہے۔ کوئی بیرونی طاقت اس کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔

موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ روسی جارحیت اور جنگ کے خاتمے کی مہم کو وسیع تر سرمایہ داری مخالف پروگرام کے ساتھ چلایا جائے اور یہ عمل یوکرائنی عوام کی روسی حملے کے خلاف مزاحمت کی طبقاتی حمایت سے شروع کیا جائے۔ روسی جارحیت کی مذمت اور فوجوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا جائے۔ یوکرائنی عوام کی فتح پیوٹن حکومت کو کمزور کرے گی اور مشرقی یورپ کے عوام اور روس کے محنت کش طبقے کے لئے نئی راہیں کھولے گی۔ یہ دنیا بھر میں مزدور دشمن حکومتوں کے خلاف جدوجہد کو تیزی اور تقویت دے گی۔

ہم ڈونیٹسک، لوہانسک اور کریمیا کے عوام کے خود ارادیت کے حق کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن روسی افواج کے بغیر۔ تاکہ فیصلہ واقعی جمہوری ہو۔

ساتھ ہی ہم نہ صرف نیٹو کے مشرقی یورپ سے انخلا بلکہ مکمل تحلیل اور اس کی تمام توسیع پسندانہ عسکری پالیسیوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم مغربی سامراج کی جنگی پالیسیوں اور دفاعی بجٹ میں اضافے کی مخالفت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں روسی عوام پر اثر انداز ہونے والی اقتصادی پابندیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ جنگ مخالف روسی شہریوں کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم روسی و یوکرائنی حکمران طبقے کے اثاثے ضبط کرنے کا انقلابی پروگرام پیش کرتے ہیں۔

ضروری ہے کہ لینن اور ٹراٹسکی کا قومی مسئلے پر تاریخی موقف دہرایا اور مضبوط کیا جائے اور مشرقی یورپ، قفقاز (Caucasus) اور وسط ایشیا کی اقوام کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کو بنیادی حل کے طور پر پیش کیا جائے۔ایسی فیڈریشن جو سامراجی اثر و رسوخ اور عدم مساوات سے پاک ہو۔ جنگ کے خلاف اپنی پالیسی کے تحت ہم یوکرائن میں انقلابی تنظیم کو مضبوط کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم یوکرائنی سوشلسٹ لیگ اور مشرقی یورپ میں آئی ایس ایل کے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کے اس جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ تاکہ انٹرنیشنلسٹ سوشلسٹ موقف کا بھرپور پرچار کیا جا سکے۔

اسی تجزئیے اور پالیسی کی بنیاد پر آئی ایس ایل کو دنیا بھر میں جہاں ممکن ہو یکجہتی کے اقدامات میں شامل رہنا چاہیے اور یوکرائنی ساتھیوں کی حمایت کی بین الاقوامی مہم کو جاری رکھنا چاہیے۔

***

*کامریڈ ٹراٹسکی نے چین پر جاپانی حملے کے معاملے پر زبردستی انقلابی ڈیفیٹزم کی پالیسی لاگو کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ 23 ستمبر 1937ء کو میکسیکو کے معروف مصور ڈیگو رائے ویرا کو خط میں انہوں نے لکھا:

’’بورژوا پریس کو اپنے اعلامیے میں‘ میں نے کہا کہ یہ چین کی تمام مزدور تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگلی صفوں میں جاپان کے خلاف جنگ میں حصہ لیں لیکن ایک لمحے کے لئے بھی اپنے پروگرام اور آزادانہ سرگرمی کو نہ چھوڑیں۔ اس پر ایفل کے پیروکاروں نے چیخ و پکار شروع کر دی کہ یہ تو ’’سوشل حب الوطنی‘‘ ہے! یہ تو چینگ کائی چیک کی گماشتگی ہے! یہ تو طبقاتی جدوجہد کے اصول سے روگردانی ہے! بالشویزم نے تو سامراجی جنگ میں انقلابی ڈیفیٹزم کی پالیسی کی تبلیغ کی تھی! ایفل والوں کے10 ستمبر 1937ء کے ایک ڈاکومنٹ سے لی گئیں یہ چار سطور بالکل واضح کرتی ہیں کہ ہمارا واسطہ یا تو حقیقی غداروں سے ہے یا یہ یکسر احمق اور فاترالعقل قسم کے لوگ ہیں۔ لیکن حماقت بھی اس درجے تک پہنچ جائے تو غداری ہی بن جاتی ہے۔

’’ہم تمام جنگوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں نہ آج تک دیکھا ہے۔ مارکس اور اینگلز نے برطانیہ کے خلاف آئرلینڈ کے لوگوں اور زار کے خلاف پولینڈ کے لوگوں کی انقلابی جدوجہد کی حمایت کی تھی۔ حالانکہ اِن دونوں قومی جنگوں کے رہنما زیادہ تر بورژوازی میں سے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں جاگیردارانہ اشرافیہ کے لوگ بھی شامل تھے… اور تمام کے تمام رجعتی کیتھولک تھے… ہم مارکسسٹوں اور بالشویکوں نے (فرانسیسی) سامراجی غلبے کے خلاف (مراکشی) بربروں کی جدوجہد کو ترقی پسندانہ جنگ قرار دیا تھا۔ لینن نے سامراجی اور نوآبادیاتی یا نیم نوآبادیاتی قوموں کے درمیان فرق کی بنیادی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سینکڑوں صفحات کالے کیے۔ استحصالی اور استحصال زدہ ممالک میں تمیز کیے بغیر ’’انقلابی ڈیفیٹزم‘‘ کی عمومی بات کرنا بالشویزم کا بدترین کیریکیچر (تضحیک آمیز خاکہ یا مضحکہ خیز کارٹون) بنانے اور پھر اس کیریکیچر کو سامراج کی خدمت پر معمور کر دینے کے مترادف ہے۔

’’چین ایک نیم نوآبادیاتی ملک ہے جسے جاپان ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نوآبادیاتی ملک میں تبدیل کر رہا ہے۔ جاپان کی جدوجہد سامراجی اور رجعتی ہے۔ چین کی جدوجہد نجات دہندانہ اور ترقی پسندانہ ہے۔ لیکن چینگ کائی شیک؟ ہمیں چینگ کائی شیک، اس کی پارٹی یا چین کے سارے حکمران طبقے کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔ بالکل جیسے مارکس اور اینگلز‘ آئرلینڈ اور پولینڈ کے حکمران طبقات کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں تھے۔ چینگ کائی شیک چینی کسانوں اور مزدوروں کا قاتل اور جلاد ہے۔ لیکن آج وہ جاپان کے خلاف چین کی بچی کھچی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے پر مجبور ہے۔ کل شاید وہ پھر دغا دے گا۔ یہ عین ممکن ہے۔ بلکہ یہ ناگزیر ہے۔ لیکن آج وہ لڑ رہا ہے۔ صرف بزدل، بدذات اور عقل سے پیدل لوگ ہی اس لڑائی میں شمولیت سے انکار کر سکتے ہیں۔‘‘