حالیہ مارچ اور دھرنے نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کوئی بھی مظلوم قوم ایک یکجا اکائی نہیں ہوتی بلکہ متحارب اور متضاد طبقات پر مشتمل ہوتی ہے۔ جس میں اس کے اپنے حکمران طبقے کا کردار سامراج کی گماشتگی پر ہی مبنی ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں...
الیکشن 2024ء: کیا کیا جائے؟
مروجہ سیاسی قیادتیں پہلے سے ہی بڑی حد تک عوامی استرداد کا شکار ہیں۔ لیکن اس استرداد کو ایک انقلابی لائحہ عمل اور راستہ دینے کے لئے محنت کشوں اور وسیع تر عوام میں جانا انقلابیوں کا فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لئے انتخابی ماحول میں ملنے والے محدود سیاسی و سماجی مواقع کو بھی استعمال کیا جانا چاہئے۔
قومی سوال اور لینن
’’بورژوا قوم پرستی اور پرولتاری بین الاقوامیت دو ناقابل مصالحت نعرے ہیں جو پوری سرمایہ دارانہ دنیا میں دو دیوہیکل طبقاتی کیمپوں سے وابستہ ہیں اور قومی سوال کی طرف دو پالیسیوں بلکہ دنیا کو دیکھنے کے دو طریقوں کی غمازی کرتے ہیں‘‘
سرمایہ داری کی ماحولیاتی تباہی: سانس لینا بھی مضرِ صحت ہے!
یہ آلودگی یا سموگ کوئی آسمانی آفت نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری کے تحت انسانی سرگرمیوں کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کی بنیادی وجوہات میں صنعتوں، اینٹوں کے بھٹوں اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹوں کا اخراج، سڑکوں اور تعمیراتی جگہوں سے اٹھنے والی دھول، فصلوں کی باقیات کو لگائی جانے والی آگ اور سب سے بڑھ کر ٹریفک کا دھواں شامل ہیں۔
جے کے این ایس ایف مسٹ یونیورسٹی کے آرگنائزر ارسلان احمد دانش کا تعزیتی ریفرنس
ہنس مکھ نظر آنے والا نوجوان غیر معمولی صلاحیتیں رکھتا تھا۔ اس نے اپنے شوق کو بھی انقلاب کے ساتھ جوڑ لیا تھا۔ مسٹ یونیورسٹی میں تنظیم کو تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں بھی تنظیمی کام کو منظم کرتا رہا۔
سامراجیت، امیگریشن اور افغان مہاجرین
ہمارا مقامی محنت کش طبقے اور ان مہاجرین کو یہی پیغام ہے کہ ہر قسم کے تعصب اور تفریق سے بالا تر ہو کر اپنے اس مشترکہ حقیقی دشمن جو یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے کے خلاف مل کر جدجہد کرنا ہو گی۔
جموں کشمیر: نو آبادیاتی جبر اور سرمایہ داری کیخلاف انقلاب کی چنگاریاں
انقلابی قیادت کی موجودگی اور درست حکمت عملی اگر ان سماجی طوفانوں کو میسر آ گئی تو اس خطے سے سرمایہ داری نظام کے خاتمے اور نئے دور کے آغاز کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکے گی۔
بالشویک انقلاب: حاصلات، زوال اور آج کی دنیا
بالشویک پارٹی کی قیادت میں محنت کش طبقے نے نجی ملکیت اور بورژوا ریاست کو پاش پاش کر دیا اور انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے منصوبہ بند معیشت کی تشکیل کی۔
سامراجی تضادات میں سلگتی دنیا
حالات و واقعات نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اس کرہ ارض پر فلسطینیوں کا کوئی حقیقی ساتھی اور ہمدرد موجود ہے تو وہ پھر دنیا بھر کے محکوم اور محنت کش عوام ہی ہیں جو مشرق سے مغرب تک دہشت گرد صیہونی ریاست اور اس کے پشت پناہ سامراجیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
فلسطین کیسے آزاد ہو گا؟
اپنی فطرت سے مجبور اسرائیلی ریاست کو اگر شکست نہیں دی جاتی تو یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو مکمل کر کے اور فلسطین کو نقشے سے مٹا کر ہی دم لے گی۔
نواز شریف کی واپسی
جن تضادات نے حالات کو اس نہج تک پہنچایا ہے ان میں سے ایک بھی حل نہیں ہوا۔ اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ کے ساتھ نواز شریف کا رشتہ جتنا ناپائیدار پہلے تھا اتنا ہی آج ہے۔
فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی… ایک متحد، سیکولر، جمہوری اور سوشلسٹ فلسطین کے لئے!
سالہا سال کے تجربے سے یہ ثابت ہوا ہے سامراج کی طرف سے مصنوعی طور پر تخلیق کردہ ایک جابر اور دہشت گرد ریاست کے ہاتھوں ایک پوری قوم پر ظلم و جبر کے ہوتے ہوئے کوئی امن قائم نہیں ہو سکتا۔
افغان مہاجرین: جائیں تو جائیں کہاں؟
اس نظام میں سرمائے کی نقل و حرکت تو آزاد ہے لیکن انسانوں کو سرحدوں میں قید کر کے ویزوں کا اسیر بنا دیا گیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں کسی انسان کا ”غیر قانونی“ سٹیٹس انسانیت کی تذلیل اور توہین کے مترادف ہے۔
پختون قومی سوال اور پی ٹی ایم
یہ درست ہے کہ عالمی سامراجی و ریاستی دہشت گردی کے پختونخوا وطن پر مسلط کیے جانے اور قومی محرومی کی دوسری شکلوں کی وجہ سے پختون قومی سوال تیز ہوا ہے لیکن قومی سوال آخری تجزئیے میں حکمران طبقات کے لئے ملکیت کا سوال ہے اور پرولتاریہ کے لئے روٹی کا۔
سٹی یونٹ علی سوجل اور دیہی یونٹ سیراڑی کے زیر اہتمام ایک روزہ مارکسی سکول
سوشلزم ہی بالخصوص اس خطے اور بالعموم پوری دنیا کے انسانوں کو اذیتوں اور ذلتوں سے بچا سکتا ہے اور ایک نئے نظام کی بنیاد ہی اس دنیا کو جنت بنا سکتی ہے۔ مارکسی سکول کا اختتام مزدوروں کے عالمی ترانہ انٹرنیشنل کے ساتھ کیا گیا۔