س احتجاجی تحریک نے واضح کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی نام نہاد ترقی کتنی کھوکھلی اور جعلی ہے اور وہاں کے نوجوانوں میں موجود بے چینی ایک بڑے سماجی مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
مزید پڑھیں...
5 جولائی کا شب خون، ایک تاریخی تناظر میں
پاکستان میں اگر سماج کی سوشلسٹ تعمیر نو کا عمل آگے بڑھتا تو یہ انقلابی چنگاریاں پورے خطے میں پھیل سکتی تھیں۔ کیونکہ بیشتر ممالک میں سوشلسٹ تحریکیں پہلے سے مصروف عمل تھیں۔
بھارتی انتخابات میں ہندوتوا گھائل
گزشتہ پوری دہائی مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود بھی مودی سرکار اپنا کیا کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کر سکی ہے۔ اس دوران نفرت اور دھونس کی سیاست اور فریب پر مبنی پراپیگنڈے سے بھارت کے اندر اور باہر لوگوں کو گمراہ رکھنے کی کوشش ہی کی گئی ہے۔
زوال کا جبر
پاکستان کو ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنانے کا خواب تو ان حکمرانوں نے عرصہ قبل دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن آج یہ ایک وجودی بحران سے دوچار ہو چکے ہیں۔
برطانوی انتخابات میں لیبر پارٹی کی جیت: اِک اور دریا کا سامنا تھا مجھ کو…
کیئر سٹارمر کے حوالے سے کسی کو خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ دائیں بازو کے اس نمائندے کا موازنہ باآسانی ٹونی بلیئر جیسے سامراجی گماشتے اور جنگی مجرم سے کیا جا سکتا ہے۔
نیا لیبر کوڈ: محنت کشوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی نئی واردات
اس نئے لیبر کوڈ کے تدارک یا مزاحمت کے لئے سب سے پہلے مزدور تحریک کی نئے سرے سے صف بندی کی ضرورت ہے۔ جو صرف تنظیمی نہیں بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی ہو۔
الوداع چاچا کرامت!
گراوٹ، جبر، گھٹن اور تعفن سے بھرے اس ماحول میں ان وفات یقینا ایک دردانگیز واقعہ ہے۔ ان سے تمام تر سیاسی و نظریاتی اختلافات کے باوجود ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی اور ان کی طویل سیاسی و تنظیمی زندگی سے سیکھتے ہوئے ایک مختلف طریقے اور انداز سے ہی سہی لیکن ان کے خوابوں کی تعبیر کی جدوجہد جاری رہے گی۔
موسیٰ خان کا قتل: خون جو کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے!
موسیٰ خان کو خراج تعلیمی اداروں کے حبس زدہ ماحول میں اس بوسیدہ اور گلے سڑے سرمایہ دارانہ تعلیمی و سماجی نظام کا انقلابی متبادل پیش کرنے والی سیاسی، نظریاتی اور ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔
جموں کشمیر: عوامی حقوق تحریک میں خواتین کا ہراول کردار
جہاں کہا جاتا ہے کہ سیاسی تنظیموں کی شمولیت کے بغیر یہ تحریک اس معراج پر نہیں پہنچ سکتی تھی وہاں خواتین کی متحرک اور بعض صورتوں میں مجہول لیکن انتہائی اہمیت کی حامل شمولیت اور حصہ داری کے بغیر بھی یہ اتنی مضبوط نہیں ہو سکتی تھی۔
کشمیر میں تحریک کی فتح: بڑی پیش رفت لیکن حتمی لڑائی ابھی باقی ہے!
یہ صرف جموں کشمیر کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کی کامیابی نہیں بلکہ اس پورے خطے اور دنیا میں آزادی، انقلاب اور طبقاتی و قومی نجات کی جدوجہد کیلئے حوصلے اور طاقت کا باعث ہے اور مستقل کی لڑائیوں کیلئے بہت سے اسباق بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
گندم کا بحران: دہقان کی روزی کون لے اڑا؟
ان بحرانوں سے جہاں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں مزید اجیرن ہو جاتی ہیں وہیں ان سے فیض یاب ہونے والے بھی بہت ہوتے ہیں۔
پی آئی اے کی نجکاری: مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گے!
آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی پالیسیوں کو یکسر ختم کرنے اور نجکاری کی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے قومی اداروں کو محنت کشوں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جانے اور فعال کرنے کے مطالبات کے گرد ہی جدوجہد کو منظم کیا جا سکتا ہے۔
یوم مئی 2024ء: چھین کے لینا ہو گا حق!
ماضی میں اوقات کار میں کمی اور دوسرے حقوق کی درخشاں تحریکوں کا وارث آج کا مزدور بھی ناامیدی، غلامی اور ذلت کی بجائے لڑائی کے میدان میں اتر کے اور فوری مطالبات کو سرمایہ داری کے یکسر خاتمے کی جدوجہد کے ساتھ مربوط کر کے ہی ایک باعزت، سہل اور بھرپور زندگی کا حق چھین سکے گا۔
بھارتی عام انتخابات: ہندو قوم پرستی کا عفریت چھٹ پائے گا؟
مودی حکومت نے انتخابات میں شکست کے کسی بھی ممکنہ خدشہ کو دور کرنے کیلئے انتخابات کے اعلان سے قبل ہی انتخابی مہم شروع کر دی تھی۔
مشال خان کی شہادت کے سات سال
مشال خان کے قتل کے بعد ان عناصر کا خیال تھا کہ مشال کے جانے سے طلبہ کی آواز دب جائے گی اور ان کا جھوٹا پراپیگنڈہ طلبہ سیاست کے اندر خوف پیدا کرے گا اور طلبہ کو جبر و استحصال کے خلاف جدوجہد سے دور کر دے گا۔